یہ ریاست ایک لمیٹڈ کمپنی ہے۔ اس کا بورڈ آف ڈائریکٹرز ہے۔ وہی کسی کو بھی چیف ایگزیکٹو مقرر کرنے یا ہٹانے کا مجاز ہے۔ اس چیف ایگزیکٹو کی باقاعدہ تنخواہ، مراعات و اختیارات طے ہیں۔
انسان چاہے تو ناشکرے پن کی کوئی انتہا نہیں۔ شکر گزار ہونا چاہے تو آس پاس پھیلی ناامیدی سے بھی شکر اور صبر کشید کر سکتا ہے
اب دیکھیے نہ کہ تین دہائیوں پہلے تک پاکستان میں یہ بحث ہوا کرتی تھی کہ کیا فوج کا کوئی سیاسی کردار ہونا چاہیے؟ آج یہ بحث ہوتی ہے کہ فوج کا سیاست میں کتنا اور کس حد تک کردار ہونا چاہیے۔ رفتہ رفتہ سب قابلِ ذکر جماعتوں نے یہ حقیقت تسلیم کر لی کہ فوج کو سیاست سے نہیں نکالا جا سکتا۔ بس یہ دیکھنا ہے کہ فوج کا سیاسی جھکاؤ سامنے والی پارٹی کے بجائے میری پارٹی کی جانب کیوں نہیں ہے اور میں ایسا کیا کروں کہ نیرہ نور بن جاؤں
روٹھے ہو تم، تم کو کیسے مناؤں پیا، بولو نا بولو نا!
پیپلز پارٹی تو ضیا آمریت سے لڑتے لڑتے ہی سمجھ گئی تھی کہ وہ تنِ تنہا سارا بوجھ نہیں اٹھا سکتی، لہٰذا آئیڈیل ازم کے خول سے باہر نکلو اور حقیقت پسندی کی سڑک پے موقع پرستی کی بس پر چڑھتے اترتے رہو۔ ورنہ بس کے آگے پھینکے جاتے رہو گے
مسلم لیگیوں کی موجودہ نسل کا تو خیر جنم ہی غیر جماعتی ضیائی مجلسِ شوریٰ میں ہوا تھا۔ وہ بھی تب تب ہی مزاحمت دکھاتے رہے، جب جب اقتداری دودھ کی بوتل ان سے چھڑوائی جاتی رہی اور ہر بار انہیں پہلے سے زیادہ کڑی شرائط کے ساتھ بوتل واپس کی جاتی رہی
باقی جماعتیں سیاست کی میز پر سلاد اور ڈریسنگ کے لیے پروسی اور ہٹائی جاتی رہی ہیں۔ نیز ایک پورا دستہ الگ سے دستیاب ہے، جس کا پلڑا جھکانا مقصود ہوتا ہے، یہ دستہ اسی پلڑے میں ڈال دیا جاتا ہے اور جب جی چاہے واپس بلا لیا جاتا ہے
اور جب اس دو جماعتی سیاسی نظامِ شمسی کا خالق ایک دن اپنے ہی پیدا کردہ نظام سے اکتا گیا تو پھر اس نے تحریکِ انصاف کو اسمبل کیا۔ تاکہ دو کا دماغ درست رکھنے اور آؤ بھاؤ دکھانے سے باز رکھنے کے لیے تیسری اور لاڈلی چھوٹی بیگم استعمال ہوتی رہے، مگر لاڈلی نے توقعات کے برخلاف جب کچھ ہی عرصے بعد گھونگھٹ کا دوپٹہ کمر سے باندھ کے رقصِ تگنی شروع کیا تو میاں جی سر سہلانے لگے کہ کریں تو کیا کریں۔۔ اس پر دونوں گرم و سرد چشیدہ ’بڑیوں‘ نے دیدے گھماتے ہوئے پہلے خود کو اور پھر استہزائیہ نگاہوں سے میاں جی کو دیکھا
جب میاں جی عقدِ سوم کا سوچ رہے تھے اور چھوٹی پر جی جان سے فریفتہ ہو کر چپر غٹو ہو چکے تھے، تب بھی دونوں ’بڑیاں‘ یہی کہتی رھ گئیں کہ سرتاج آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔۔ ہم سے آپ کی خدمت میں کون سی کسر رھ گئی؟ جانے انجانے میں کیا خطا سرزد ہو گئی کہ ہم کنیزوں سے آپ کا دل بالکل ہی اچاٹ ہو گیا۔۔ ارے ہر گھر میں روزانہ دس طرح کی باتیں ہوتی ہیں۔لڑائی جھگڑے بھی ہوتے ہیں۔اس کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ آپ کسی بھی بات پر طیش میں آ کر نہ آؤ دیکھیں نہ تاؤ اور پھٹ سے ہمارے سروں پر ایک نئی سوکن لا کے بٹھا دیں
اس کم بخت ماری پر کٹی کو نہ سینا پرونا آتا ہے، نہ ہانڈی روٹی کا سلیقہ۔۔ بس ہر وقت آئینے کے آگے کھڑی رہتی ہے۔آخر اس نوج میں آپ نے ایسا کیا دیکھا جو ہم کل موہیوں میں نظر نہیں آیا۔ اب آیا مزہ جب وہ آپ کی ایک نہیں سنتی اور آپ ہیں کہ نخرے پر نخرے اٹھائے چلے جا رہے ہیں
واللہ، اب تو آنکھیں کھولیے۔۔اس سے پہلے کہ وہ گھر کے بھانڈے زیور بیچ کے اپنے عشووں غمزوں کا خرچہ پورا کرنے کے لیے آپ کی چھاتی پر چڑھ بیٹھے
ہمارا کیا ہے سرتاج۔ ہم تو پہلے بھی آپ کے عطا کردہ دو جوڑوں میں گذارہ کر رہے تھے، آئندہ بھی کر لیں گے۔۔ مگر اس منحوس کا کچھ کیجئے۔۔ نہیں تو یہ آپ کو قلاش کر کے ایک دن بیچ بازار میں کھڑے کھڑے بیچ آئے گی اور پوری حویلی پر قبضہ کر لے گی
اس پر ایک دن میاں جی کو ترارہ آ ہی گیا ۔ انہوں نے آؤ دیکھو نہ تاؤ، لاڈلی بیگم سے بیڈ روم چھین کے کوٹھڑی میں بھیج دیا اور حویلی کے ملازموں کو تلقین کر دی کہ اب جو بڑی بیگمات کہیں، وہی کرنا ہے۔ اس پر دونوں بڑیوں نے ایک دوسرے کو فاتحانہ نظروں سے دیکھا اور سرتاج کے پاؤں دبانے لگیں
تو یہ تھا جھگڑا اور یہ رہے گا جھگڑا۔۔
اس سے پہلے کہ ان میں سے کوئی ایک یا سب بیگمات ایکا کر کے میاں جی کو کونے میں ڈال دیں، یہ نوبت آنے سے پہلے ہی ایک کو دوسری سے اور پھر دونوں کو پہلی سے جوتے پڑواتے رہو اور باہم مصروف رکھو
ایک تُرک کہاوت ہے کہ غلام کا غصہ غلام پر ہی نکلتا ہے۔ یہ بد انتظامی کا مسئلہ نہیں بلکہ نظام ہی اسی طرح بنایا گیا ہے تاکہ اسی طرح چل سکے
وہ جو میں نے ابتدا میں عرض کیا تھا کہ دل ڈھونڈنے پر آئے تو اندھیرا بھی روشنی جیسا لگنے لگتا ہے۔ ہم عوام کے کانوں میں وقتاً فوقتاً ڈالا جانے والا یہ جملہ ہی کافی ہے کہ شکر کرو ہماری وجہ سے یہ ملک اب تک شام، لیبیا، صومالیہ، یمن نہیں بنا
تمہیں کیا معلوم کہ فسطائیت اور جبراً غائب ہونے کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ پوچھنا ہے تو چلی اور ارجنٹینا والوں سے پوچھو۔۔
تمہیں کیا معلوم کہ سرسری سماعت کے ذریعے سزائے موت اور پھر اس پر فائرنگ اسکواڈ کے ذریعے عمل درآمد اور کرین سے لٹکا دینے یا سر قلم کر دینے کا کیا مطلب ہوتا ہے۔۔پوچھنا ہے تو ایرانیوں، سعودیوں، شامیوں، عراقیوں، مصریوں، چینیوں اور سوویت دور کے پرانے بوڑھوں سے پوچھو
تمہیں کیا معلوم کہ ہجوم کے ہاتھوں انصاف کسے کہتے ہیں۔ یہ تمہیں بتائیں گے امریکہ میں رہنے والے ستر برس سے اوپر کے سیاہ فام یا پھر جنوبی افریقہ کے ادھیڑ عمر باشندے یا پھر طالبانی افغانستان کے افغانی
اور تم کیا جانو سنسر شپ کیا ہوتی ہے۔۔ اصلی والی دیکھنا ہے تو وسطی ایشیا، ترکی، ایران، پورے مشرقِ وسطیٰ، شمالی افریقہ، میانمار و بنگلہ دیش و چین سمیت مشرقِ بعید اور جنوب مشرقی ایشیا میں جا کر کسی سے پوچھ لو۔ لگ پتہ جائے گا
ایسا نہیں کہ ہم یہ سب نہیں کر سکتے یا کرنے کے اہل نہیں یا ہمارا دل نہیں چاہتا کہ ایک ملک، ایک قوم، ایک کتاب کے ماننے والے ایک آواز میں ایک ہی اسکرپٹ نہ پڑھیں۔ اس سے پہلے کہ تم بھی مذکورہ ممالک کی صف میں شامل کر دیے جاؤ، سدھر جاؤ۔ جو لڑنا مرنا ہے آپس میں کرو اور سنو ایک بات دھیان سے
یہ ریاست ایک لمیٹڈ کمپنی ہے۔ اس کا بورڈ آف ڈائریکٹرز ہے۔ وہی کسی کو بھی چیف ایگزیکٹو مقرر کرنے یا ہٹانے کا مجاز ہے۔ اس چیف ایگزیکٹو کی باقاعدہ تنخواہ، مراعات و اختیارات طے ہیں۔ اسے بارے میں زیادہ دماغ لڑانے کی بھی ضرورت نہیں۔ ہر پالیسی پہلے سے طے ہے۔ اسٹینڈرڈ اوپریٹنگ پروسیجر بھی وہی پرانا ہے۔ نوکری کرو اور اچھے سے کرو۔ تم نہ ہو گے تو کوئی اور آ جائے گا۔ قطار میں ایک سے ایک کھڑا ہے اور وہ بھی سر کے بل۔۔ کیا سمجھے؟
بشکریہ: ڈوئچے ویلے اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے قطعاً مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)