طالبان سنائپر کی جانب سے داغی گئی گولی میری کھوپڑی سے محض کچھ انچ کے فاصلے سے گزر گئی اور چند سیکنڈوں کے لیے میری دنیا تاریکی میں ڈوب گئی اور سب کچھ خاموش ہو گیا۔
موت کا اتنے قریب سے مشاہدہ کرنے کے 15 سال بعد میں ان ہزاروں امریکی میرینز میں سے ایک ہوں جنہوں نے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر بھی افغانستان کے حوالے سے پینٹاگون اور وائٹ ہاؤس کی جانب سے اسی خاموشی کا سامنا کیا۔
ہر روز میں اپنے ان دوستوں کو یاد کرتا ہوں جن کو میں نے اپنی آنکھوں سے لڑائی میں مرتے دیکھا تھا ان میں وہ دو لوگ بھی شامل تھے جو مجھ سے چند فٹ کے فاصلے پر ایک جھونپڑی میں نصب آئی ای ڈیز کے دھماکے میں مارے گئے۔
اکثر مجھے کالز آتی ہیں کہ ایک میرین نے اپنی جان لے لی ہے کیوں کہ ان کے گہری نفسیاتی زخم کبھی بھرے ہی نہیں۔
اس سب کے باوجود بھی حکمران احتساب کیے بغیر ایک دوسرے پر الزام لگانے میں مصروف ہیں۔
بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ ٹرمپ کی غلطی تھی کہ طالبان کے خلاف 20 سالہ جنگ تباہی کے ساتھ ختم ہوئی۔
جس کے جواب میں ریپبلکنز نے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کو افغانستان سے انخلا کے حوالے سے خفیہ دستاویزات حوالے نہ کرنے کی صورت میں توہین عدالت کے الزامات کی دھمکیاں دی ہیں۔
امریکی ٹیکس دہندگان کے دو کھرب ڈالر سے لڑی گئی اس جنگ میں کوئی بھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کر رہا۔
دوسری جانب سرکاری تنخواہیں لینے والے سہل پسند ملازمین کے لیے یہ تباہی کوئی معنی نہیں رکھتی لیکن میں ابھی تک طبی طور پر صحت یاب نہیں ہوا ہوں۔
میں مکمل مالی فوائد حاصل نہیں کر سکتا حالانکہ میرینز نے مجھے افغان گاؤں مارجہ کی جھونپڑی میں ہونے والے دھماکے میں تین تکلیف دہ دماغی چوٹوں کی وجہ سے سو فیصد معذور قرار دیا تھا۔
میرے گھر میں لٹکا ہوا ’پرپل ہارٹ‘ (فوجی تمغہ) ایک چھوٹی سی پہچان ہے جس سے فوج نے زخمی ہونے پر مجھے نوازا تھا۔
یہ منہ پر ایک تھپڑ مارنے جیسا ہے جس کی تکلیف اس زخم سے بھی زیادہ ہے جب 2008 کے وقت صوبہ ہلمند میں ایک زبردست فائر فائٹ کے دوران فرش پر گرنے کی وجہ سے مجھے لگی تھی۔
جب جنگجو کی ڈراگنوو رائفل کے زور دار وار نے مجھے پیچھے دھکیل دیا تھا تو اس وقت بھی میں صرف اپنی رائفل پکڑنا چاہتا تھا، واپس اٹھنا اور لڑنا چاہتا تھا۔
میرے ارد گرد موجود میرینز حیران تھے کہ میں بغیر کسی خراش کے کیسے بچ گیا، وہ مجھے سٹریچر پر ڈال کر لے جا رہے تھے۔
جب میں نے خود کے حواس پر قابو پایا تو میں اپنے ساتھ بیٹھے ہنستے ہوئے روئٹرز کے فوٹوگرافر کی طرف متوجہ ہوا۔ اس نے مجھے وہ تصاویر دکھائیں جس سے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں میرا نام امر ہو گیا۔
اس وقت میں صرف نائن الیون کے ذمہ داروں کو مارنا چاہتا تھا۔ لیکن بعد میں اکثر میں خود سے پوچھتا ہوں کہ میں اور میرے بھائی آخر میں کس کے لیے لڑ رہے تھے۔
ہم نے جس کرپٹ افغان حکومت کو سہارا دینے کی کوشش کی تھی وہ تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی۔
ہم نے جن مقامی افغان فوجیوں کو تربیت دی تھی انہوں نے طالبان کی جانب سے کابل کے محاصرے کے دوران لڑے بغیر ہی ہتھیار ڈال دیے۔
20 سالوں میں دو ہزار378 امریکیوں کی اموات کے باوجود ہتھیاروں کا ایک ایسا ذخیرہ ان لوگوں کے لیے چھوڑ دیا گیا جو دو دہائیوں سے ہمیں مارنے کی کوشش میں مصروف تھے۔
اس وقت، میری موت کے منہ والی تصاویر مشہور ہو گئی تھیں۔
انہیں ٹی وی سکرینوں پر دکھایا گیا اور ملک بھر کے اخبارات میں شائع کیا گیا تاکہ نائن الیون کے مجرموں کو ختم کرنے کے لیے بھیجے گئے مرد اور خواتین فوجیوں کی بہادری کو دکھایا جا سکے۔
اب جب ہم افغانستان کے بارے میں سوچتے ہیں تو سب سے پہلے جو تصاویر ذہن میں آتی ہیں وہ ان مایوس مردوں، عورتوں اور بچوں کی ہیں جو اس ملک سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں جس کو 20 سال پہلے کی جابرانہ حکومت کے حوالے کر دیا گیا۔
وہ اگست 2021 میں خودکش دھماکے کے بعد کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے ارد گرد سڑکوں پر قطاروں میں پڑی لاشوں کی تصاویر ہیں اور کابل میں ہلاک ہونے والے 13 فوجیوں کے امریکی پرچم میں لپٹے تابوت کی تصاویر ہیں۔ یہ تصاویر اب ڈوور ایئر فورس بیس کے ہینگر میں آویزاں ہیں۔
جب میں دیکھتا ہوں کہ جس ملک میں میں نے چار بار خدمات انجام دیں، وہاں صورت حال آخری فوجیوں کے انخلا کے بعد کتنی تیزی سے بگڑ گئی، تو مجھے شدید غصہ آتا ہے۔
جب مجھے کال آتی ہے کہ جس میرینز کے ساتھ میں لڑا تھا ان میں سے ایک نے خود کشی کر لی کیوں کہ وہ پی ٹی ایس ڈی سے معذور تھے اور انہیں وہ دیکھ بھال نہیں ملی جس کی انہیں ضرورت تھی، تو اس سے میرا پارہ سوا نیزے پر پہنچ جاتا ہے۔
پندرہ سال بعد میں اپنے آتش دان کو روشن کر کے، سگار نکال کر اور جام میں سکاچ بھرتے ہوئے اس لمحے کے بارے میں سوچتا ہوں جب کہ میری بیوی بوبی مجھے گھر کے آنگن میں تھوڑی دیر اکیلا چھوڑ گئی۔
میں اس تصویر کے بارے میں سوچتا ہوں جس میں میں نے ایک 19 سالہ میرین کا ہاتھ تھاما ہوا ہے اور جس کے کھینچنے کے چند گھنٹے بعد اس میرین نے سر میں گولی لگنے کے بعد اپنی آخری سانسیں لی تھیں۔
مجھے ان دو افراد کے بارے میں خیال آتا ہے جو دو سال بعد افغان گاؤں مارجہ میں آئی ای ڈی دھماکے میں مارے گئے تھے اور پی ٹی ایس ڈی جس نے میرے اس جنگی کیریئر کو ختم کر دیا تھا جو نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹوئن ٹاورز گرنے کے مہینوں بعد شروع ہوا تھا۔
ہر سال میں پینسلیوانیا کے ایک پرسکون قبرستان میں ان کی قبروں کو دیکھنے جاتا ہوں۔
اقتدار میں موجود زیادہ تر لوگ افغانستان کو بھلا دینا اور کسی بھی احتساب سے بچنا چاہتے ہیں۔
سابق فوجیوں کی مناسب دیکھ بھال کیپیٹل ہل میں موجود ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز کے لیے محض گفت و شنید کا سیشن کا موضوع بن گیا ہے۔
میں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہوں کہ اس جنگ کی وراثتیں زندہ رہیں۔ اور میں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہوں کہ وہ سابق فوجی، جو ابھی تک جدوجہد کر رہے ہیں، جانتے ہیں کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔
میرا پی ٹی ایس ڈی پہلے سے بہتر ہے اور ڈراؤنے فلیش بیکس اور پرتشدد غصہ، جس نے میری بیوی بوبی کو خوفزدہ کر دیا تھا، پر کافی حد تک قابو پا لیا ہے۔
لیکن تہذیب یافتہ زندگی کو اپنانے کا راستہ تلاش کرنا میرے وجود کے بدترین مقام سے گزرے بغیر نہیں آیا۔
وہ لمحات جب میں نے سوچا کہ آگے بڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
مجھے یاد ہے جب بوبی نے مجھ سے کہا: ’اگر آپ ہر وقت دکھی رہنا چاہتے ہو تو آپ خود بھی ہی اس کا دکھ اٹھاؤ۔‘ وہ چلی گئی اور میں نے سوچا کہ وہ کبھی واپس نہیں آئے گی۔
اس وقت جب میں نے اسے ایک خط لکھنے کا فیصلہ کیا جس میں میں نے اس سے معذرت کی، اپنے دوستوں کو یہ کہنے کے لیے ٹیکسٹ بھیجے کہ میری شادی ختم ہو گئی ہے اور ملاگرو کی دو بوتلیں تلاش کرنے کے لیے شراب کی کیبینٹ کھنگالنے لگا۔
میں نے میرینز کو شراب کے زہر سے مرتے دیکھا تھا اس لیے میں نے سوچا کہ یہ مرنے کا ایک آسان طریقہ ہو گا۔
میں نے ہر بوتل کو اتنی تیزی سے پیا جب تک کہ میں مدہوش نہیں ہو گیا۔
جب میں بیدار ہوتا تو اپنے سر کو ڈکٹ ٹیپ کے ساتھ فریج کے ساتھ بندھا ہوا پاتا اور ایک پڑوسی میرے بازو میں آئی وی ڈرپ کو ایڈجسٹ کر رہا ہوتا۔
اس پڑوسی نے اور بوبی نے مجھے میری جان بچانے کے لیے عین وقت پر مجھے ڈھونڈ لیا تھا۔
ویٹرنز ایڈمنسٹریشن میری طرح کی دماغی چوٹوں کی سکریننگ میں ناکام تھی جس کی وجہ سے مجھے کہیں اور سے مدد لینی پڑی۔
یہ ان وجوہات میں سے ایک ہے جو میرینز کی خودکشی کے واقعات سے فوج کو پریشان کرتی ہے۔
میں نے اپنے بھائیوں کو لڑائی میں مرتے دیکھا، اب مجھے ان کالوں سے ڈر لگتا ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ ایک اور میرین نے اپنی جان لے لی ہے کیوں کہ وہ مزید ایسے نہیں جی سکتے تھے۔
تقریباً پانچ لاکھ سابق فوجیوں کو دماغی مسائل کا سامنا ہیں لیکن حال ہی میں ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ محکمہ دفاع کو اس بات کا کوئی اندازہ نہیں ہے کہ کتنوں کا علاج کیا جا رہا ہے یا ان کی حالت کیسی ہے۔
وہ جنگ کی پوشیدہ چوٹیں ہیں جن کے نشانات اتنے گہرے ہیں کہ شاید کبھی بھر ہی نہ سکیں۔
جون 2020 میں مارجہ چھوڑنے کے ایک دہائی بعد ایک میرین، جو اس مشکل دن میرے شانہ بشانہ لڑا اور کئی سال تک غم سے نبرد آزما رہا، نے بالآخر اپنی جان لے لی۔
ان کی عمر 37 سال تھی ان کی ایک بیوی اور ایک سات سالہ بیٹا تھا۔ وہ پہلا میرین نہیں تھا جس نے اپنی زندگی ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور وہ آخری بھی نہیں ہوگا۔
میں 2008 میں اس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ کی میراث کا حصہ بن گیا۔ یہ ایک ایسی میراث ہے جو لاکھوں زندگیوں کو برباد کرتی رہی ہے اور آئندہ بھی کرتی رہے گی۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے قطعاً مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)