یاماہا نے اپنی موٹر سائکلوں کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے، جب کہ ہونڈا نے 5 جنوری سے موٹر سائکلوں کی قیمتیں بڑھانے کا اعلان کیا ہے
تفصیلات کے مطابق یاماہا نے اپنی تمام موٹرسائیکلوں کی قیمتوں میں 6000 روپے کا اضافہ کیا ہے جس کے باعث وائی بی آر 125 جی کی قیمت ایک لاکھ 90 ہزار روپے ہو گئی ہے
نئی قیمتوں کے اطلاق کے بعد یاماہا YB125Z کی قیمت ایک لاکھ 63 ہزار روپے، YB125Z DX کی قیمت ایک لاکھ 75 ہزار 500 جبکہ وائی بی آر 125 کی قیمت 181000 روپے ہوگی
واضح رہے کہ نئی قیمتوں کا اطلاق 7 جنوری سے نافذ ہوگا۔ یاماہا نے اس سے قبل اکتوبر 2020ع میں اپنی قیمتوں میں اضافہ کیا تھا
دوسری جانب اٹلس ہونڈا بھی 5 جنوری سے اپنی موٹر سائکلوں کی قیمتوں میں اضافہ کر رہی ہے۔ کمپنی حکام اور ڈیلرز نے اس کی تصدیق بھی کر دی ہے
ہونڈا موٹر سائیکل کے ڈیلر کا کہنا ہے کہ کمپنی نے ڈیلرز کو کچھ عرصہ کے لئے آرڈرز لینے سے منع کر دیا ہے، ایسا ہمیشہ اُس وقت ہوتا ہے جب موٹر سائیکلوں کی قیمت میں اضافے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے
کمپنی حکام کے مطابق ہونڈٓا سی ڈی 70 ڈریم کی قیمت میں تین ہزار روپے تک اضافہ کیا جا سکتا ہے، اس طرح اضافے کے بعد اس کی قیمت 85 ہزار روپے ہوجائے گی
حکام کا کہنا ہے کہ ہونڈا سی جی 125 بھی دو ہزار روپے اضافے سے ایک لاکھ 31 ہزار 900 روپے میں فروخت ہوگی
اس حوالے سے موٹرسائکل ڈیلر اور آل پاکستان موٹرسائکل اسمبلرز کے چیئرمین صابر شیخ کا کہنا ہے کہ سوزوکی سمیت دیگر برانڈز بھی اپنی موٹرسائیکل کی قیمتوں میں اضافہ کریں گے
موٹر سائکل انڈسٹری پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جب سے لاک ڈاؤن کے بعد معیشت کھلی ہے پاکستان میں موٹرسائکلوں کی مانگ میں بیت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ انڈسٹری ذرائع کے مطابق آٹوموبائل سیکٹر کے موٹرسائیکل شعبے کو 20 سالوں میں پہلی مرتبہ سپلائی میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ سپلائی چین زیادہ ڈیمانڈ کے ساتھ برقرار نہیں رہ سکی
ذرائع کے مطابق بیشتر ڈیلر وقت پر موٹر سائیکل ڈیلیور کرنے قاصر تھے اور موٹرسائیکلیں کراچی میں مشہور اکبر روڈ جیسی کھلی منڈی میں ’اون منی‘ پر فروخت ہو رہی ہیں۔
واضح رہے کہ اون منی آٹو سیکٹر کی اصطلاح ہے، لیکن بنیادی طور پر یہ گاڑی جلد حاصل کرنے کے لئے اصل قیمت سے زیادہ رقم ادا کرنے کو کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ عام طور پر کار خریدنا چاہتے ہیں تو آپ کچھ قیمت کا کچھ حصہ دے کر بکنگ کرتے ہیں، پھر کار کی ڈیلیوری تک تین ماہ تک کا وقت لگتا ہے۔ اس دوران آپ باقی رقم بھی ادا کرتے ہیں اور گاڑی ملتے ہی آپ پوری قیمت ادا کر چکے ہوتے ہیں مگر ’اون منی‘ میں آپ اصل قیمت سے زیادہ پیسے دے کر فوری طور پر گاڑی حاصل کر لیتے ہیں
صابر شیخ نے کہا کہ صنعت کو سپلائی کا مسئلہ درپیش ہے۔ کرونا وائرس کے آغاز سے ہی اسپیئر پارٹس اور خام مال کی سپلائی متاثر ہوچکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے نومبر 2019 میں چین میں موٹر سائیکل کی پیداوار بند ہوگئی اور پھر مارچ، اپریل اور مئی کے دوران پاکستان میں صعنت بند ہوگئی۔ جون کے بعد سے موٹرسائیکل کی فروخت میں غیر معمولی اور غیر متوقع اضافہ ہوا۔
چین پاکستان میں خام مال اور موٹرسائیکلوں کے بنیادی پارٹس سپلائی کرتا ہے۔ صابر شیخ کے مطابق یہاں تک کہ وہ لوگ جن کے پاس تین ماہ کا اضافی اسٹاک ہوتا تھا، اب وہ بھی خالی ہاتھ بیٹھے ہیں۔ اب چینی موٹرسائیکلیں جیسے کہ یونیک اور سپر بھی ’اون منی‘ پر فروخت ہو رہی ہیں۔