حملہ آوروں کے سماجی اثرات

ڈاکٹر مبارک علی

قومیں ایک دوسرے پر حملے کر کے جنگ و جدل کرتی رہی ہیں، لیکن جہاں حملہ آور شکست خوردہ قوموں کے لیے تباہی کا باعث بنے، وہیں ان حملوں کے نتیجوں میں قومیں اپنے فرسودہ روایات سے نجات پا کر زندگی کا نیا راستہ اختیار کرتی ہیں۔

حملہ آوروں کے سماجی اثرات کی مثال ہم ہندوستان کے معاشرے سے دیتے ہیں۔ کیونکہ یہ برصغیر تھا اس لیے ایک تو ہندوستان نے دوسرے ملکوں پر حملے نہیں کیے اور اس پر جو بیرونی حملہ آور ہوئے، ان کا دائرہ اثر ایک خاص خطے تک محدود رہا۔

لیکن جب تیرہویں صدی میں ترک حملہ آور ہوئے تو انہوں نے پنجاب اور شمالی ہندوستان میں اپنا اقتدار قائم کر لیا۔ اس کے نتیجے میں ہندوستان کا معاشرہ زبردست سماجی کشمکش میں مبتلا ہوا۔ اس کی ذات پات کی روایات میں تبدیلی آئی۔ برہمن ذات تو اعلیٰ و افضل رہی مگر کشتری ذات غائب ہو گئی اور ان کی جگہ راج پُوتوں نے لے لی، لیکن ترکوں اور مغلوں کی وجہ سے نہ صرف مذہبی اور سماجی تبدیلیاں آئیں بلکہ ہندو اور مسلمان ایک دوسرے سے متاثر ہوئے۔ مثلاً تارا چند کی کتاب "Influence Islam on Hindusim” میں انہوں نے اسلام کے اثرات بیان کیے ہیں، جن سے ہندو سماج متاثر ہوا تھا۔ محمد عمر نے اپنی کتاب میں، ہندومت کے اسلامی سوسائٹی پر جو اثرات ہوئے ہیں، ان کا جائزہ لیا ہے۔ ہندو اور مسلمانوں کی اس آمیزش سے ہندوستان میں ایک نیا کلچر پیدا ہوا، جسے گنگا جمنی بھی کہا جاتا ہے۔

عرفان حبیب نے اپنی کتاب عہد وسطیٰ میں ٹیکنالوجی میں ان ایجادات کا ذکر کیا، جن کی وجہ سے کاریگروں کے نئے طبقے پیدا ہوئے۔ نئی صنعت و حرفت کی ابتداء ہوئی اور زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا۔ ان تبدیلیوں کی وجہ سے ہندوستان کی سوسائٹی نئے سرے سے تشکیل ہوئی

جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں اپنا اقتدار قائم کیا تو اس کی وجہ سے ہندوؤں اور مسلمانوں میں اس بات پر غور کیا گیا کہ ان کی کون سی کمزوریاں ہیں کہ جن کی وجہ سے وہ اپنا دفاع نہیں کر سکے اور غیر ملکیوں کے ہاتھوں شکست خوردہ ہوئے۔ اگرچہ ہندوستانی سوسائٹی کی کمزوریوں کا احساس کرنے والوں کی تعداد بہت کم تھی۔ اکثریت ان کی تھی جو قدامت پرستی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے

ان کے نزدیک ماضی کی روایات، اداے اور دستور مقدس تھے اور وہ ان میں کسی قسم کی تبدیلی کے خواہاں نہیں تھے۔ جب کہ روشن خیال افراد اپنے معاشرے کی کمزوریوں کو سمجھنا چاہتے تھے اور تاریخ کے حوالے سے ان روایات کی جڑوں میں جا کر تجزیہ کر رہے تھے کہ یہ روایات و ادارے ایک خاص ماحول میں پیدا ہوئے تھے ان کی کوئی آفاقی حیثیت نہیں ہے

اگر یہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوں تو انہیں بدل دینا چاہیے۔ چنانچہ جہاں ایک طرف اسلامی تحریکیں اُبھریں، وہیں دوسری طرف قدامت پرستوں نے قدیم ماضی کو واپس لانا چاہا۔ یہ تصادم ہندو اور مسلمان دونوں معاشروں میں ہوا، لیکن اس تصادم کے نتیجے میں ذہنی تبدیلی بھی آئی اور ہندوستانی معاشرے نے عالمی تبدیلیوں سے بھی سیکھا

چنانچہ راجہ رام موہن رائے نے برہمو سماج کے ذریعے ستی کی رسم کو ختم کرنے کی تحریک چلائی، بیوہ کی شادی پر زور دیا اور بچپن کی شادیوں کو روکنے کی کوشش کی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ شوہر کی وفات پر جب بیوی ستی ہو جاتی تھی تو اس کے بچوں کا کوئی وارث نہیں ہوتا تھا، اس لیے بچپن کی شادیوں کا رواج ہو گیا

کلونیل ازم کے زمانے میں ہندوستان کی سوسائٹی مزید کئی فرقوں میں تقسیم ہوئی۔ ہندوؤں میں مذہبی شناخت کو اُبھارنے کے لیے آریہ سماج سناتر دھرم اور ہندو محاسبہ تحریک کا قیام عمل میں آیا۔ انہی تحریکوں کے نتیجے میں RSS اور BJP نئی توانائی کے ساتھ سیاست میں آئیں۔ مسلمانوں میں دیو بندی، وہابی، بریلوی اور تبلیغی جماعت نے مسلمانوں کی شناخت کو تحفظ دیا

کلونیل دور میں جدید نظریات کو ماننے والے اور قدامت پرست تھے۔ ان دونوں کا آپس میں تصادم ہوا اور ملک کی تقسیم کے بعد یہ تصادم آج بھی جاری ہے۔ دوسرا ملک چین تھا، جس نے خود کو اپنی سرحدوں میں محفوظ کر لیا تھا۔ چینی غیر ملکیوں کو بار بیریئن کہتے تھے، اس لیے وہ ان سے کوئی رابطہ رکھنا نہیں چاہتے تھے۔ غیر ملکیوں کا چین میں داخلہ ممنوع تھا۔ انہیں چینی زبان سیکھنے کی اجازت نہ تھی۔ وہ صرف Canton کی بندرگاہ تک آسکتے تھے۔ اگر کوئی خفیہ طور پر چینی زبان پڑھائے تو اس کی سزا موت تھی۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ دنیا میں اور خاص طور سے مغرب میں جو تبدیلیاں ہو رہی تھیں، چینی ان سے ناواقف تھے۔

لہٰذا جب انیسویں صدی میں مغربی طاقتوں نے چین پر حملے کیے تو وہ ان کا مقابلہ نہ کر سکے، لیکن یکے بعد دیگرے کی شکستوں اور ذلت آمیز معاہدوں نے ان میں یہ احساس پیدا کیا کہ وہ اپنی کمزوریوں کو دور کریں اور موجودہ حالات کا مقابلہ کریں۔ اس سوچ کے نتیجے میں چینی شہریوں نے بادشاہت کا خاتمہ کیا جمہوریت کو لے کر آئے اور آخر میں سوشل ازم کے ذریعے انقلاب نے چین کو بدل ڈالا۔

اس کی ایک اور مثال جرمن کی ریاست پروشیا کی ہے، جو فوجی لحاظ سے یورپ کا طاقتور ملک تھا، لیکن جب 1806ء میں نیپولین نے شکست دی، تو اس کے حکمرانوں نے اپنی شکست پر غور کر کے ریاست کی اصلاح کی۔ فیوڈل ازم کا خاتمہ کیا۔ پیشہ ور کاریگر جماعتیں جو کسی کو اپنے پیشے میں نہیں آنے دیتی تھیں، اب اس پر پابندی اُٹھا لی گئی اور برلن یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا تاکہ تعلیم کے ذریعے معاشرے کے ذہن کو بدلا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پروشیا جرمنی کی سب سے زیادہ طاقتور ریاست بنی اور اسی نے 1871ء میں جرمنی کو متحد کیا

جہاں حملہ آور مفتوح قوموں کے سماج کو بدلتے ہیں، وہیں بعض حالات میں حملہ آور مفتوح قوموں کی تہذیب کو اختیار کر لیتے ہیں۔ اس کی ایک مثال تو عربوں کی ہے۔ جب انہوں نے ملک شام کو فتح کیا تو یہاں بازنطینی سلطنت کی حکومت تھی۔ عربوں نے ان کی زبان اور کلچر کو اختیار کیا۔ ان کے شہروں کو معمولی تبدیلی کے ساتھ رہنے دیا اور جب انہوں نے ایران فتح کیا تو عربوں پر ایرانی تہذیب و تمدن چھا گیا۔ عباسی خلیفہ کو ایرانیوں نے ساسانی بادشاہ بنا کر دربار میں قدیم ایرانی رسومات اور ادب و آداب کو رواج دیا۔ عربوں نے ایرانیوں سے نہ صرف اصول حکمرانی سیکھے، بلکہ ان کے تہواروں کو شان و شوکت سے منا کر اپنے کلچر کا حصہ بنا لیا۔

یہی صورتحال منگولوں کی تھی، جب وہ خانہ بدوشی سے نکل کر فاتح بنے تو جن قوموں کو انہوں نے مفتوح کیا تھا، ان کی تہذیب اور کلچر کو اختیار کر لیا تھا۔ چنگیز خان نے اپنی آخری عمر میں اپنے بیٹوں کو بلا کر نصیحت کی تھی کہ وہ بالغ اور سمجھ دار ہیں، اس لیے جو مذہب بھی ان کے مفادات کو پورا کرے، اسے اختیار کر لینا چاہیے، لہٰذا ان میں سے کچھ نے بدھ مذہب اختیار کیا اور کچھ نے اسلام قبول کیا

تاریخ میں فاتح اور مفتوح کے یہ رشتے ہر صورت میں تبدیلی کا باعث رہے ہیں۔ ان تصادم کی وجہ سے وہ معاشرے جو ایک جگہ ٹھہر گئے تھے، ان میں جنبش پیدا ہوئی اور وہ اس پر مجبور ہوئے کہ حالات کے تحت اندرونی تبدیلیاں لائیں اور فرسودہ روایات اور اداروں سے نجات پائیں۔ لیکن حملہ آوری کا ایک اور نتیجہ بھی ہے۔ بعض حالات میں حملہ آور مفتوح ملکوں کو اس قدر برباد کر دیتے ہیں کہ ان میں دوبارہ سے ابھرنے کی توانائی نہیں رہتی ہے۔ جیسا کہ افریقہ کے براعظم کے ساتھ ہوا۔ اس کے مردوں کو غلام بنا کر لے جایا گیا، جس نے آبادی کے تناسب کو بگاڑ دیا

اس کے فطری ذرائع کو لوٹا گیا، جنگوں کے ذریعے اس کے باشندوں کا قتل عام کیا گیا۔ ان میں نسلی کمتری کے احساس کو اُبھارا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افریقہ کے ملک آج بھی اپنی کھوئی ہوئی تاریخ، ماضی اور کلچر کو زندہ کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں، جبکہ یورپی ممالک نے ان کے مذہب کو بدل ڈالا۔ فرانسیسی، انگریزی، ڈچ اور پرتگیزی زبانوں کا تسلط کر کے ان کی اپنی زبانوں کی ترقی کو روک دیا۔ تاریخ قوموں کو سیکھنے کا موقع دیتی ہے اس کے بغیر قومیں اپنی راہ کا تعین نہیں کر سکتی ہیں۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close