ٹی وی پر فحاشی و عریانی پھیلانے کا الزام ایک عرصے سے لگتا آیا ہے، مگر اہم بات یہ ہے کہ ٹی وی پر فحاشی و عریانی جوں جوں بڑھتی گئی، جوئے کم آب کی طرح یہ الزام گھٹتا چلا گیا۔ اب ایسا کوئی الزام ٹی وی پر عائد ہوتا ہے نہ کیا جاتا ہے نہ کوئی ایسا سوچ سکتا ہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ٹی وی کی چالیس سال پیچھے کی پروڈکشن اب پاکیزہ پاکیزہ لگتی ہیں
رات بھی ایسا ہی ہوا۔ ٹی وی دیکھتے دیکھتے وہ زمانہ یاد آ گیا، جب منے کے ابا لسی پر تیرا کرتے تھے۔ یہ لسی گلاس میں ہوتی تو منے کے ابا گلاس میں تیرتے، پیتل کے چھنے میں ہوتی تو ان کے تیرنے کا میدان قدرے وسیع ہو جاتا اور خوب تیرتے
محض منے کے ابا کے لسی پر تیرنے کا دور ہی شرم حیا کا زمانہ نہیں تھا۔ اس کے اثرات پچھلے صدی کے اواخر تک خوب رہے۔ 1990 کی دہائی کے آخری برسوں کی بات ہے، ہمارے ایک عزیز کی بیٹی کو اسکول کے ابتدائی برسوں میں ان کی معلمہ نے پوچھ لیا کہ آپ کی نانی کا کیا نام ہے؟ تو اس بچی نے بےدھڑک کہا ’میں کیا‘ ۔ اس ’میں کیا‘ کو اگر آپ ’میں نے کہا‘ کے انداز میں پڑھ لیں تو مطلب اور واضح اور نانی اماں کا نام صاف طور پر سمجھ میں آ جائے گا۔ معلمہ یہ سن کر کہ نانی کا نام ’میں کیا‘ ہے، قدرے حیران ہوئی۔ اس نے دوبارہ پوچھا تو بچی نے جواب یہی دیا۔ معلمہ نے اپنی ساتھی معلمہ سے حتیٰ کہ ہیڈمسٹریس سے دریافت کیا ہوگا کہ یہ کیا نام ہوتا ہے۔ لیکن شرم و حیا کی بھٹی میں کندن ہوئی اس بچی نے یہی جواب دیا۔
کئی روز بعد یہ عقدہ کھلا کہ نانا ابا، نانی صاحبہ کو پکارتے ہوئے ان کا نام لینا شرم و حیا کے منافی خیال کرتے تھے۔ اس لیے انہوں نے اپنے دور کے بے شمار شریفوں کی طرح اپنی اہلیہ محترمہ کو مخاطب کرنے کے لیے ’میں نے کہا‘ بہ آواز ’میں کیا‘ کہنا شروع کر دیا اور سکول میں بچی نے نانی کا نام ’میں کیا‘ ہی مشہور کر دیا
تحقیق پر پتہ چلا کہ منے کے ابا کے لسی پر تیرنے کے پیچھے بھی قومی سطح پر پائے جانے والے شرم و حیا کی اسی روائت کا دخل تھا۔ جب ایک باحیا خاتونِ خانہ نے صبح سویرے لسی تیار کی تو ان کے شوہر نامدار کی ہم نام سی ایک شے، جسے عرف عام میں مکھن اور انگلش میں butter کہا جاتا ہے، لسی پر تیرتی ہوئی نظر آئی۔ حیا کی پیکر اس خاتون نے مجال ہے شرم و حیا کے قانون کو توڑ کر پیمرا کے احکامات کی خلاف ورزی کی ہو، جھٹ سے نئی اصطلاح گھڑی اور کسی شرارتی کے پوچھنے پر کہ ’لسی پر کیا تیر رہا ہے؟‘ کے جواب میں کہا ’منے کے ابا تیر رہے ہیں‘
شرم و حیا کے ایسے ہی دنوں کی ایک اور یاد آئی، جب کئی خواتین نماز کے آخر میں سلام پھیرتے ہوئے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہتے کہتے ایک باحیا مسکراہٹ کے ساتھ السلام علیکم کہہ کر رک جاتی تھیں کہ اگلا لفظ ان کے میاں کے نام جیسا ‘رحمت اللہ’ ہوتا تھا
ٹی وی کے ٹاک شوز میں بھی آج کل اسی انداز سے شرم وحیا کا غلغلہ ہے، بلکہ کچھ زیادہ شرم و حیا کا رواج در آیا ہے۔ اب تو مرد حضرات بھی عورتوں کے شانہ بشانہ بعض نام لیتے ہوئے اسی طرح شرما جاتے ہیں، جیسے ماضی میں صرف خواتین اپنے شوہر کا نام لیتے ہوئے شرم کے مارے خاموش ہو جاتی تھیں، ہنس دیتی تھیں یا کوئی نئی اصطلاح گھڑ کر گزارا کرتی تھیں
الحمدلِلہ! شرفاء کے اس دورِ حکومت نے عوام کو کچھ اور دیا ہو یا نہ دیا ہو، شرم و حیا کی عوام پر برسات کر دی ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ ماضی کی خواتین منے کے ابا کہہ کر اپنے شوہر نامدار کو مخاطب کرتی تھیں یا انہیں یاد کرتی تھیں۔ اب ٹی وی کے ذریعے ’قاسم کے ابا‘ کی نئی اصطلاح ایجاد کر دی گئی ہے
قاسم کے ابا کی نئی اصطلاح مردانہ شناخت کے دعویدار اینکرز اور پینلسٹوں کی مردانگی کا بھرم رکھنے کے لیے ہے کہ انہیں بھی منے کے ابا حتیٰ کہ ابا نہ کہنا پڑے اور بیچ بازار کے مذاق کا نشانہ نہ بننا پڑے۔ اس لیے ’قاسم کے ابا‘ کی اصطلاح گھڑی گئی ہے تاکہ مرد و زن یکساں اور بلا امتیاز فائدہ اٹھا سکیں
یادش بخیر! جنرل ضیاء الحق مرحوم بھی اپنے مارشل لاء دور میں شرم و حیا کا یہ کلچر غالب نہ کر سکے تھے۔ انہوں نے بڑی کوشش کی کہ نیوز کاسٹرز کے سروں پر دوپٹہ اڑھا دیں مگر ناکام رہے۔ بلدیاتی راستے سے بھی انہوں نے اپنی سی کوشش کی، بعض نام جن کے سیاست میں رہنے سے شرم آئے گی، ان کی جگہ نئے نام شامل کر دیے جائیں۔ ایوب خان اور جنرل پرویز مشرف نے اپنے اپنے انداز میں کوشش کی مگر نام ختم کرنے کی جو کوشش اب کی گئی ہے، کسی کے ذہن میں نہ آ سکی تھی
اچھی بات یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری بھی بطور وزیرِ خارجہ یورپ و امریکہ میں فخریہ انداز میں یہ کہہ سکیں گے کہ ہم اپنے ملک میں صنفی امتیاز سے ماورا کلچر متعارف کر رہے ہیں۔ ہم نے منے کے ابا کی امتیازی اصطلاح ختم کر دی ہے۔ اس کی جگہ اصولِ مساوات کے مطابق ’قاسم کے ابا‘ کی اصطلاح ہمارے دور کی یادگار ثابت ہوگی، کہ اس سے صنفی امتیاز کی بُو نہیں آتی۔ یہ ٹی وی پر بات کرنے والے ہر ایک کے لیے یکساں قابلِ عمل ہے۔
بشکریہ: العربیہ نیوز اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)