محمد فیروز عبداللہ کے چہرے پر سیاہ نقاب ڈال دیا گیا اور پھانسی گھاٹ کا دروازہ ان کے لیے کھول دیا گیا۔ اور جس طرح سے اس موقع پر اکثر ہوتا ہے، جیل کے اہلکاروں نے فیروز کو سہارا دے کر تختہ دار پر چڑھنے میں مدد دی، جلاد نے پھندہ اُن کے گلے میں ڈال کر کس دیا اور دونوں پیر رسی سے باندھ دیے
فیروز کے پاؤں کے نیچے موجود سہارا پھانسی گھاٹ کا لیور کھینچتے ہی ایک جھٹکے سے ہٹ گیا اور اُن کا جسم فضا میں معلق ہو گیا
یہ منظر کراچی سینٹرل جیل میں نصف صدی قبل یعنی 14 جولائی 1971 کو دی گئی ایک پھانسی کا ہے
فیروز پر پولینڈ کے صدر ماریان اسپیخیلسکی اور ان کے ہمراہ پاکستان آئے وفد پر قاتلانہ حملے کا الزام تھا۔ اس حملے میں پولینڈ کے نائب وزیر خارجہ زگفرید والیناک سمیت چار افراد ہلاک اور دس سے زائد زخمی ہو گئے تھے
مگر یہ کہانی شروع کیسے ہوئے اور غیرملکی ہائی پروفائل مہمانوں پر کیے گئے اس حملے کے محرکات کیا تھے، یہ ایک دلچسپ داستاں ہے۔
پولینڈ کے صدر کی پاکستان آمد
پولینڈ کے صدر ماریان اسپیخیلسکی 28 اکتوبر 1970 کو پانچ روزہ دورے پر پاکستان پہنچے تھے۔ اُن کے وفد میں اُن کی اہلیہ باربرا استخارسکی، نائب وزیر خارجہ اور اُن کی اہلیہ اور دیگر حکام شامل تھے
اپنے اس قیام کے دوران انھوں نے جہاز رانی کی صنعت سمیت معاشی تعاون کی یادداشتوں پر دستخط کیے تھے۔ صدر یحیٰ خان سے ملاقات کے علاوہ انھوں نے لاہور میں بادشاہی مسجد اور دیگر جگہوں کے دورے بھی کیے
پولینڈ اُن دنوں سوویت یونین کے زیر اثر تھا جہاں کمیونسٹ حکومت تھی۔ ماریان اسپیخیلسکی پولینڈ کے پہلے صدر تھے جنھوں نے پاکستان کا دورہ کیا تھا
اسلامی نظام اور سوشلسٹ نظریاتی
پولینڈ کے صدر کی پاکستان آمد کے دو ماہ بعد یعنی دسمبر 1970 میں پاکستان میں پہلے عام انتخابات ہونے جا رہے تھے۔
ملک کا سیاسی ماحول کچھ اس طرح کا تھا کہ جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی اور جمعیت علما اسلام کے سربراہ مفتی محمود اسلامی نظام حکومت رائج کرنے کے حق میں ملک کے طول و عرض میں تقاریر کر رہے تھے، جبکہ پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو سوشل ازم کے حمایتی تھے اور عوامی لیگ کے سربراہ شیح مجیب الرحمان بھی ترقی پسند رجحان رکھتے تھے۔
ستر کی دہائی میں سوشل ازم دنیا کے کئی ممالک میں مقبول تھا، صنعتی انقلاب کے باعث ایک مڈل کلاس جنم لے چکی تھی۔
پاکستان میں اسی سیاسی ماحول کے بیچ 24 فروری 1970 کو پاکستان بھر کے سو سے زیادہ مذہبی علما نے، جن میں ہر مکتبہ فکر کے عالم شامل تھے، سوشل ازم اور کمیونزم کو ’کافرانہ نظام‘ قرار دیا اور اپنے مشترکہ فتویٰ میں کہا کہ ایسی جماعتوں کو ووٹ دینا، اُن کے ساتھ سیاسی عمل میں شریک ہونا یا ان کی مالی معاونت کرنا کفر کی امداد کرنے کے مترادف ہے جو سوشل ازم پر مبنی فلسفے کی ترویج کرتی ہیں اور پاکستان میں بھی ایسا نظام رائج کرنے کی تک و دو میں مصروف ہیں۔
پولینڈ کے قومی ادارے آئی پی این کے لیے ایک تحقیقی پیپر میں محقق پاؤل میجنسکی لکھتے ہیں کہ صدر ماریان اسپیخیلسکی کو پولش حکام نے آگاہ کیا تھا کہ پاکستان دورے کے موقع پر کمیونسٹ مخالف احتجاج ہو سکتے ہیں۔
مگر 28 اکتوبر کو شروع ہونے والے اس پانچ روزہ دورے کے پہلے چار روز پُرامن طریقے سے گزر چکے تھے اس لیے پولش صدر اور سکیورٹی حکام مطمئن اور پُراعتماد تھے۔ یکم نومبر کو پولینڈ کے صدر اور ان کے وفد کو اسلام آباد ایئرپورٹ سے کراچی جانے کے لیے الوداع کر دیا گیا۔
’اچانک وین کی رفتار بڑھ گئی‘
یکم نومبر 1970 کی صبح گیارہ بجے کراچی میں درجہ حرارت 30 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ روسی ساختہ طیارے آئی ایل 18 نے کراچی کے ہوائی اڈے پر لینڈ کیا، سیڑھی لگی اور پولینڈ کے صدر ماریان اسپیخیلسکی اپنی بیگم اور وفد کے ہمراہ طیارے سے نیچے اُترے۔
اُن کا کراچی ایئرپورٹ پر موجود مہمانوں سے تعارف کرایا گیا، جن میں سرکاری حکام کے علاوہ عمائدین شہر بھی شامل تھے جبکہ صحافی ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اُن کے تاثرات قلمبند کر رہے تھے۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اِسی اثنا میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کی ایک کیٹرنگ وین، جو پہلے صدر کے طیارے کے عقب میں موجود تھی، نے اچانک رُخ موڑا اور استقبالیے میں موجود افراد کی جانب تیز رفتاری سے بڑھی۔ اور چند سیکنڈز کے اندر اندر یہ گاڑی مہمانوں اور میزبانوں پر چڑھ دوڑی اور یہاں موجود بیشتر افراد اس کی زد میں آ گئے۔ صدر ماریان اسپیخیلسکی چونکہ چند فٹ کی دوری پر تھے اس لیے وہ محفوظ رہے۔
مگر اس حملے میں پولینڈ کے نائب وزیر خارجہ زگفرید والیناک، پاکستان کے شعبہ اطلاعات کے فوٹوگرافر اشرف بیگ، پاکستان کی سرکاری نیوز ایجنسی اے پی پی کے فوٹو ایڈیٹر یاسین، انٹیلیجینس بیورو کے افسر چوہدری نظر احمد شدید زخمی ہونے کے بعد ہلاک ہو گئے جبکہ پولینڈ کے قونصل جنرل، ایئرپورٹ پر مہمانوں کا استقبال کرنے آنے والے چند بچے اور کراچی کے میئر سمیت درجن کے قریب لوگ زخمی ہوئے۔
اگلے روز روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق جو افراد ہلاک ہوئے تھے ان میں زیادہ تر گاڑی کے نیچے پھنس گئے تھے اور یہ گاڑی انھیں دور تک گھسیٹتی ہوئی ساتھ لے گئی تھی۔
خبر کے مطابق پولیس اور دیگر سکیورٹی اہلکاروں نے وین کو ہاتھوں کی مدد سے اٹھا کر شدید مضروب افراد کو باہر نکالنے کی کوشش کی، لیکن انھیں کامیابی حاصل نہ ہوئی جس کے بعد پی آئی اے کی کرین منگوائی گئی جو دس منٹ کے انتظار کے بعد پہنچی اور اس طرح گاڑی کو اٹھا کر لاشیں نکالی گئیں۔
دوسرے حملے کا خدشہ اور پولش صدر کی ہنگامی واپسی
ایئرپورٹ پر موجود سکیورٹی پولیس نے وین ڈرائیور کو فوری گرفتار کر لیا جن کی شناخت محمد عبداللہ فیروز کے نام سے کی گئی جبکہ پولینڈ کے صدر کو حفاظتی گھیرے میں لے کر ایئرپورٹ لاؤنج میں پہنچا دیا گیا۔
اس دوران ایئرپورٹ پر ہنگامی حالت کا نفاذ کر دیا گیا اور وہاں موجود شہریوں کے ایئرپورٹ سے نکلنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ بعدازاں تقریباً ایک بجے انھیں گھر جانے دیا گیا۔
ہلاک ہونے والے نائب وزیر خارجہ کی اہلیہ ہسپتال سے اپنے خاوند کی لاش واپس ایئر پورٹ لے آئیں، پولش صدر نے اپنا دورہ مختصر کیا اور حملے کے چار گھنٹے بعد ہی یہ وفد وراسا کے لیے روانہ ہوگیا۔ ہلاک ہونے والے نائب وزیر خارجہ کی میت بھی ساتھ لے جائی جا رہی تھی۔
پولینڈ کے قومی ادارے آئی پی این کے لیے ایک تحقیقی پیپر میں محقق پاؤل میجنسکی لکھتے ہیں کہ نائب وزیر کی لاش ہسپتال سے ایک تابوت میں لائی گئی اور طیارے میں رکھ دی گئی، جلدی اتنی تھی کہ اس تابوت کو بند تک نہیں کیا گیا تھا۔
بقول اُن کے اس حملے کے فوراً بعد پولش پروٹیکشن بیورو نے فیصلہ کیا کہ صدر کو جتنا جلد ممکن ہو پولینڈ کے لیے روانہ ہو جانا چاہیے کیونکہ انھیں شبہ تھا کہ دوسرا حملہ ہو سکتا ہے۔ اس حملے کے بارے میں پولینڈ کے وزارت خارجہ کو اس وقت آگاہ کیا گیا جب طیارہ تاشقند میں کچھ دیر کے لیے رُکا تھا۔
حملہ آور محمد عبداللہ فیروز کون تھے؟
32 سالہ محمد عبداللہ فیروز کے والدین انڈیا سے کراچی آ کر آباد ہوئے تھے اور وقت کے ساتھ ساتھ عبداللہ کا مذہبی شدت پسندی کی جانب رجحان بڑھتا گیا تھا۔
محقق پاؤل میجنسکی لکھتے ہیں کہ ’اُن (عبداللہ) کا خاندان اس کو ذہنی مریض سمجھتا تھا۔ عبداللہ فوج میں بطور ڈرائیور نوکری کرتے تھے مگر بعدازاں انھیں نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔ عبداللہ نے سنہ 1969 میں پاکستان ایئر لائن میں ملازمت اختیار کی جہاں وہ گاڑیوں کی مرمت میں تکنیکی معاونت فراہم کرتے تھے۔‘
محقق پاؤل مزید لکھتے ہیں کہ عبداللہ نے ایک بار ایک پبلک گاڑی میں خاتون کے برابر والی نشست پر بیٹھنے سے انکار کر دیا تھا جبکہ ماضی میں ایک حادثے کے دوران وہ سڑک عبور کرنے والی خاتون کو بھی گاڑی سے ٹکر مار چکے تھے۔ اس واقعے میں سڑک عبور کرنے والی خاتون زخمی ہوئی تھیں لیکن بعد میں متاثرہ خاندان سے سمجھوتہ کر لیا گیا۔
’عبداللہ کے ساتھی اُن کو ’جنونی‘ کہتے تھے، عبداللہ نے صدر پاکستان کو خط بھی لکھا تھا جس میں مطالبہ کیا تھا کہ ملک میں شرعی نظام نافذ کیا جائے۔‘
لاہور سے شائع ہونے والے روزنامہ ’آزاد‘ نے اپنی خبر میں دعویٰ کیا تھا کہ حملہ آور کے سینے پر جماعت اسلامی کا بیج لگا ہوا تھا اور یہ کہ وہ پی آئی اے میں مزدوروں کی تنظیم ’پیاسی‘ کے رُکن تھے۔ تاہم بعدازاں جماعت اسلامی نے اس شخص اور واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور اس وقت کے امیر جماعت اسلامی میاں طفیل نے اس واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
’میں نے اپنا مشن مکمل کر لیا‘
محقق پاؤل میجنسکی لکھتے ہیں کہ گرفتاری کے بعد ملزم نے پولیس دورانِ تفتیش بتایا تھا کہ اس نے چند روز قبل اخبار میں ایک تصویر دیکھی تھی جس میں اسلام آباد ایئر پورٹ پر صدر یحیٰ خان پولینڈ کے صدر کو خوش آمدید کہہ رہے تھے اور یہ کہ اس کو پولینڈ کے صدر کے دورے کا ان بینرز سے پتہ چلا جو کراچی شہر میں لگائے گئے تھے۔ انھوں نے پولیس کو یہ بھی بتایا کہ بعدازاں انھیں معلوم ہوا کہ ’مہمان ایک عیسائی ملک سے آ رہے ہیں۔‘
پولش محقق نے اپنے ریسرچ پیپر میں واقعے کے لیے قائم کمیشن کی رپورٹ سے بھی مدد لی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ حملے کے روز عبداللہ نے صبح ساڑھے سات بجے تک کام کیا، اپنی شفٹ مکمل کی اور گھر چلا گیا۔
’وہ نائی کی دکان میں گیا۔ گھر آ کر نہایا، اور صفائی کے بعد اپنی یونیفارم صاف کی۔ بیوی کو خدا حافظ کہا اور ایئرپورٹ چلا گیا۔ سفر کے دوران انھوں نے اپنے ساتھیوں سے مقدس جنگ (جہاد) کے بارے میں باتیں کیں اور شکایت کی ملازمت کی جگہ پر باامر مجبوری نیم برہنہ خواتین دیکھنا پڑتی ہیں۔‘
پولش صدر کی گاڑی کے شوفر( صدارتی گاڑی چلانے والے ڈرائیور) ادریس خان نے عدالت میں گواہی دیتے ہوئے بتایا کہ ’ملزم پی آئی اے یونیفارم میں ملبوس تھا اور وہ انھیں اس صبح پی آئی اے کے ہینگر نمبر دو پر ملا تھا جہاں ادریس نے اپنی کار پارک کی تھی۔‘
فیروز نے ادریس سے پولینڈ کے صدر کی آمد کی بابت بات بھی کی تھی۔
ادریس نے عدالت کو بتایا کہ بعد میں ایئرپورٹ پر اُس نے ملزم کو وین چلاتے اور حملہ کرتے دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ پولیس اس کو وین سے باہر نکال رہی تھی۔ موقع پر موجود بیشتر گواہوں نے تفتیشی اداروں کو بتایا کہ گرفتاری کے وقت ملزم کہہ رہا تھا کہ ’میں نے اپنا مشن مکمل کر لیا۔‘
نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک خبر میں ایک تفتیشی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ حملہ آور مذہبی شدت پسند تھا، جو مہمان کمیونسٹوں کو مارنا چاہتا تھا۔ ’پولیس کے مطابق اس نے بیان دیا ہے کہ وہ اسلام کے تمام دشمنوں کو ختم کرنا چاہتا تھا، یہ وفد سوشلسٹ ہیں اور سوشل ازم اسلام کے خلاف ہے، سوشلسٹ اسلام اور مسلمانوں کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔‘
اس حادثے کے اگلے روز چند اخبارت نے لکھا تھا کہ حملہ آور نے گرفتاری کے موقع پر ’کمیونزم مردہ باد‘ کے نعرے لگائے تھے۔
سزائے موت
اس حملے کی جامع تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں ایک کمیشن بنایا گیا جبکہ یہ مقدمہ خصوصی فوجی عدالت میں چلایا گیا۔
یہ عدالت جو لیفٹیننٹ کرنل احمد سعد باجوہ، میجر مرزا مرتضیٰ علی اور ایڈیشنل سٹی مجسٹریٹ مسٹر عرشت پر مشتمل تھی، نے فیروز عبداللہ کو سزائے موت سُنائی۔
کراچی ڈسٹرکٹ کونسل ہال میں اس مقدمے کا فیصلہ سُنایا گیا جہاں فیروز عبداللہ کی اہلیہ اور دیگر عزیز و اقارب بھی موجود تھے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ’ملزم فیروز عبداللہ نے اپنے جرم کا اقرار نہیں کیا مگر اس بات کے ثبوت ہیں کہ وہ طے شدہ پروگرام کے تحت جان بوجھ کر پولینڈ کے صدر پر گاڑی چڑھا کر انھیں ہلاک کرنا چاہتا تھا۔‘
عدالت کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کی کیٹرنگ وین جس کا رجسٹریشن نمبر 149 تھا انٹر نیشنل لاؤنج کے سامنے کھڑی تھی تاکہ صدر کے طیارے کی کیٹرنگ کے انتظامات کی دیکھ بھال کر سکے۔ یہ وین ڈرائیور دین محمد کے زیر نگرانی تھی جس کو سپیشل برانچ پولیس نے سکیورٹی پاس جاری کیا تھا۔ پروٹوکول کے مطابق اس وین کو اکیلا نہیں چھوڑنا تھا اور فیلڈ سروس سپروائزر کے اشارے کا منتظر رہنا تھا تاکہ وین کو طیارے کے قریب لایا جا سکے۔
پاول لکھتے ہیں کہ فیروز نے لاؤنج کے سامنے یہ گاڑی کھڑی دیکھی جس میں چابی بھی لگی ہوئی تھی۔ وہ اس میں سوار ہوا اور اسے چلا دیا، پولیس اہلکار نے اس کو ہاتھ کا اشارہ کر کے روکنے کی کوشش کی، بعد میں سیٹی بھی بجائی لیکن اس نے گاڑی کی رفتار تیز کر دی اور حملہ آور ہو گیا۔
’انفرادی فعل تھا‘
محمد عبداللہ فیروز کے اس حملہ کے بعد مقامی اور بین الاقوامی میڈیا میں یہ بحث ہوتی رہی کہ یہ کوئی سازش یا منصوبہ تھا کیا اس میں اور لوگ بھی ملوث ہو سکتے ہیں، جبکہ پاکستان کے مقامی ذرائع ابلاغ نے یہ تک دعویٰ کر دیا کہ اس واقعے میں پولش سفارخانے کے بھی کچھ لوگ ملوث ہو سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے اس کو ‘عالمی سازش’ قرار دیا تھا۔
مگر سزا دینے والی فوجی عدالت نے اس حملے کو ’انفرادی فعل‘ قرار دیا اور واقعے کی تفصیلات پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اس قتل و اقدام قتل کا اصل مجرم فیروز عبداللہ ہے اور یہ اُس کا انفرادی فعل ہے، تفتیش اور کیس کی سماعت کے دوران دوسرے افراد کے ملوث ہونے یا کسی سازش کا پتہ نہیں چلا۔
سماعت کے دوران استغاثہ نے 31 گواہ پیش کیے جبکہ عدالت نے مزید چار اشخاص کو عدالتی گواہ کے طور پر طلب کیا۔ استغاثے کے گواہوں میں شہری، معززین اور پولیس و نیوی کے ملازمین بھی شامل تھے۔
’ملزم ذہنی مریض نہیں‘
سماعت کے دوران عبداللہ فیروز کے وکیل نے اپنے مؤکل کو ’ذہنی مریض‘ قرار دیا اور بتایا کہ اس کا یہ فعل اسے پڑنے والے ذہنی دورے کا نتیجہ تھا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں ان دلائل کو مسترد کرتے ہوئے اس کو ’ملزم کے بچاؤ کی ترکیب‘ قرار دیا اور قرار دیا کہ ’عام بات ہے کہ جب کوئی شخص کسی سنگین جرم میں ملوث ہو جاتا ہے تو وہ اپنے بچاؤ کے لیے ذہنی عارضے کا سہارا لیتا ہے۔‘
عدالت نے ذہنی امراض کے ماہر سکارڈن لیڈر ڈاکٹر عزیز الحق کی رپورٹ کا حوالہ دیا اور کہا کہ مجرم فیروز عبداللہ ارتکاب جرم کے وقت قطعی طور پر اپنے ہوش و حواس میں تھا وہ اپنے خاندان، پس منظر اور اپنی استعداد سے بہت زیادہ ذہین ہے۔ اس میڈیکل رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مشاہدے کے دوران فیروز عبداللہ کسی ذہنی عارضے کا شکار نہیں پایا گیا، اس نے کسی موقع پر بھی چیخنے چلانے یا مارنے پیٹنے جیسی حرکات نہیں کیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا ذہنی توازن برقرار ہے۔
عدالت کے مطابق مجرم کئی سال سے ڈرائیور کی حیثیت سے کام کر رہا تھا یہ پیشہ توجہ اور ذہانت کا متقاضی ہے یہ دونوں صلاحیتیں فیروز عبداللہ میں موجود ہیں، مزید یہ کہ ملزم اس سے قبل فوج میں بھی ڈرائیور کی حیثیت سے ملازم رہ چکا ہے فوج کی ملازمت کے لیے ذہانت کا امتحان پاس کرنا ضروری ہوتا ہے، لہذا عدالت اسے صحیح الدماغ اور ہوشمند سمجھتی ہے۔
چرس کا سگریٹ پیا اور گاڑی چڑھا دی
فیروز عبداللہ نے عدالت میں اپنے بیان میں کہا کہ وہ مذہبی خیالات کا انسان اور اسلامی تعلیمات سے بہت زیادہ متاثر ہے۔ اسلامی طرز زندگی سے متصادم کوئی بھی واقعہ اس میں ذہنی خلفشار کا باعث بنتا ہے۔
انھوں نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ وہ اسلامی تعلیمات کی تبلیغ بھی کرتا تھا اور جدید طرز زندگی کی سخت مخالفت کیا کرتا تھا، وہ اپنے چہرے پر سیاہ رنگ بھی ملتا تھا تاکہ ظاہر ہو سکے کہ قیامت کے دن گناہ گاروں کے چہرے اسی طرح سیاہ ہوں گے۔
یکم نومبر صبح سات بجے وہ ڈیوٹی سے فارغ ہو گیا تھا اور اُس کو سپیشل برانچ نے سکیورٹی پاس بھی جاری نہیں کیا تھا تاہم وہ صبح دس بجے دوبارہ ایئرپورٹ پر واپس آ گیا تھا اور چونکہ وہ پی آئی اے کی یونیفارم میں تھا اس لیے ہوائی اڈے میں جانے سے اسے کسی نے نہیں روکا، جہاں وہ پولینڈ کے صدر کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔
عدالت نے ملزم کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے فیصلے میں تحریر کیا کہ اس دوران ملزم نے چرس سے بھرا ہوا سگریٹ پیا اور غیر اسلامی طرز زندگی کے بارے میں خیالات میں غرق ہو گیا، ملزم کے مطابق اس کے بعد اسے معلوم نہیں کہ کیا ہوا اور بعدازاں اُس نے خود کو پولیس تحویل میں پایا۔
’ٹیڈی نہ بننا‘
روزنامہ جنگ کے مطابق پھانسی سے قبل اہلخانہ سے آخری ملاقات کے دوران عبدللہ فیروز نے اپنے سالے اور بھائیوں کو عطر لگایا اور چھوٹے بھائی کو تسبیح تحفہ میں دی۔ اپنے بچے کو نصیحت کرتے ہوئے یہ تنبیہ کی زندگی کے کس موڑ پر وہ ٹیڈی نہ بنیں اور اگر ان کی اس وصیت پر عمل نہ کیا گیا تو اُن کی روح بیقرار رہے گی۔
یاد رہے کہ دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر لندن کے نوجوانوں میں ٹیڈی فیشن مقبول ہوا تھا، جس کے اثرات انڈین موویز اور پاکستانی فلمی صنعت میں بھی تھے۔
قیام پاکستان سے لے کر 1971 تک کراچی سینٹرل جیل میں فیروز عبداللہ سمیت 81 قیدیوں کو پھانسی دی گئی تھی، جلاد خمیسہ نے فیروز عبداللہ سمیت 42 قیدیوں کو تخت دار پر لٹکایا تھا۔
فیروز عبداللہ کیس کی شہرت بین الاقوامی سطح پر آ چکی تھی اس لیے ان کے آخری سفر کے گواہ بننے کے لیے 14 جون 1971 کی صبح صحافیوں اور فوٹو گرافروں کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔
روزنامہ جنگ کے نمائندے وہاں موجود تھے اور اگلے روز شائع ہونے والی ان کی رپورٹ کے مطابق جیل کے ڈاکٹر مسٹر علوی نے فیروز کا طبی معائنہ کیا، اس کے گلے کا ناپ لیا گیا تاکہ اس کے حساب سے پھانسی کا پھندہ بنایا جا سکے، اس طرح پھندے کے ناپ ساڑھے تیرہ انچ رکھا گیا، چودہ فٹ چار انچ لمبی موٹی رسی منگوائی گئی تھی جسے شہتیر سے لپیٹ دیا گیا تھا، پھندے کی لمبائی صرف پانچ فٹ رکھی گئی تھی۔
سوا چار بجے اسٹنٹ کمشنر مسٹر محمد شفیق خان سپاہیوں کے ہمراہ کوٹھڑی میں پہنچے اور فیروز کو باہر لایا گیا، سب سے پہلے اس کے کپڑے تبدیل کر کے سیاہ شرٹ، سیاہ پاجامہ اور سیاہ ٹوپی پہنائی گئی بعد ازاں ہاتھ پیچھے کر کے اُن میں ہتھکڑیاں ڈال دی گئیں اور بازوں کو رسی سے باندھ دیا گیا۔
ملزم کو الزامات پڑھ کر سنائے گئے جس کے بعد اُس کے چہرے پر سیاہ نقاب ڈال دیا گیا، انھیں سہارا دے کر پھانسی گھاٹ پر چڑھایا گیا، جہاں جلاد خمسیہ ان کے منتظر تھے۔ خمسیہ نے رسی کا پھندہ فوری اس کے گلے میں ڈالا اور اسے کس دیا اور دونوں پیر رسی سے باندھ دیے، لیور کھینچا گیا اور عبداللہ کا جسم پانچ منٹ تک تڑپتا رہا۔
لیور کھینچنے کے بعد گھڑیاں دیکھی گئیں، اس وقت ٹھیک ساڑھے چار بجے تھے، پونے پانچ بجے ڈاکٹر علوی نے آلہ لگا کر فیروز کی دھڑکنوں کا معائنہ کیا اور اچھی طرح چھان بین کی بعد انھوں نے جیل کے حکام کو فیروز کی موت کا سرٹیفیکیٹ جاری کر دیا۔
جلوس نہیں نکالا جائے گا
لاش ورثا کو سپرد کرنے سے قبل کراچی جیل کے قیدیوں نے جنازے پر فاتح پڑھی اور چار قیدی جنازہ پھانسی گھاٹ سے باہر لائے جسے ایک ایمبولینس میں رکھ دیا گیا۔
اس موقعے پر حکام نے فیروز کے بھائی سے یہ یقین دہانی لی کہ میت کے ساتھ جلوس نہیں نکالا جائے گا۔
ان کی میت ملیر شیڈ پہنچائی گئی، جنازے میں فیروز کے تینوں بھائی، ماموں اور دوسرے رشتے دار بھی شریک ہوئے۔ نماز ظہر کے بعد اُن کو ملیر کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔
پولینڈ کے صدر کا بھی سیاسی سفر ختم ہوا
پاؤل کے مطابق پولینڈ کی وزارت خارجہ نے سینٹرل کمیٹی آف پولینڈ یونائٹیڈ پارٹی کو ایک تار بھیجا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ یہ دانستہ حملہ کیا گیا ہے تاکہ پولینڈ اور پاکستان کے تعلقات کو خراب کیا جائے۔
پولینڈ کے صدر ماریان اسپیخیلسکی کا پاکستان کا یہ سفر یاددگار ثابت ہوا کیونکہ بطور سربراہ مملکت ان کا یہ آخری دورہ تھا اس کے بعد انھیں سبکدوش ہونا پڑا تھا۔
قاتلانہ حملے میں ہلاک ہونے والے پولینڈ کے نائب وزیر خارجہ زگفرید والنیاک لندن ٹائمز کے مطابق 1934 میں پیدا ہوئے اور ماضی میں کئی خفیہ تنظیموں میں شامل رہے اور بعدازاں انھوں نے سفارت کاری کا رُخ کیا اور مختلف عہدوں پر فائز رہے۔
بشکریہ: بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)