تیئیس سالہ نوجوان، بارہ برس کا بچہ کیوں دکھائی دیتا ہے؟

ویب ڈیسک

برازیل سے تعلق رکھنے والے لوز آگسٹو مارسیو مارکیوس عرف گُٹَو کی عمر تیئیس سال ہے لیکن وہ بارہ سال کا بچہ نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ ایک ایسی نایاب بیماری ہے، جو دس لاکھ میں سے صرف ایک شخص کو ہوتی ہے

گٹو سات سال کی عمر تک ایک عام بچے کی طرح ہی تھا، لیکن اس کے بعد اس کے سر میں شدید درد رہنے لگا اور بعد ازاں تشخیص سے پتہ چلا کہ اس کے دماغ میں ایک رسولی ہے۔ آٹھ سال کی عمر میں گٹو کو اس رسولی کو نکلوانے کے لیے سرجری کرانی پڑی لیکن یہ اقدام خطرناک تھا، کیونکہ اس آپریشن کے بعد اس کے بولنے، دیکھنے، چلنے کی صلاحیت سے محروم ہو جانے اور نشوونما متاثر ہونے کا بھی خطرہ تھا۔ بدقسمتی سے یہ خطرہ حقیقت میں تبدیل ہو گیا اور تقریباً بارہ سال کی عمر میں غیر معمولی طور پر گٹو کی نشوونما رک گئی

پہلے پہل گٹو کے سر میں بار بار درد رہنے لگا اور یہ درد مزید شدید ہوتا گیا لیکن کوئی بھی ڈاکٹر یہ تشخیص نہیں کر سکا کہ مسئلہ کہاں ہے؟ گٹو بتاتا ہے ”جب میں اسکول میں تھا تو مجھے سر میں درد ہونے لگا، میں پڑھائی نہیں کر سکتا تھا اور کچھ ڈاکٹروں نے کہا کہ مجھے نفسیاتی مسئلہ ہے، میں کاہل ہوں جبکہ کچھ دوسرے ڈاکٹروں نے کہا کہ یہ صرف ایک وائرس ہے“

جب گٹو کو ایک روز سر درد کا دورہ پڑا تو اسے شہر کے ہسپتال لے جایا گیا، جہاں ڈاکٹر یہ جاننے میں کامیاب ہو گئے کہ گٹو کو آخر مسئلہ کیا ہے۔ اسے کرینیوفرینگیوما نامی مرض لاحق تھا

گٹو کا کہنا ہے ”اس وقت ڈاکٹروں نے میری خالہ کو بتایا کہ یہ مرض خطرناک ہے اور میرا آپریشن کروانے کا مشورہ دیا ورنہ کچھ دنوں میں میری موت ہو سکتی ہے“

دراصل انسانی دماغ کے اندر ایک سیال ہوتا ہے، جسے دماغ ہر آٹھ گھنٹے بعد جذب کرتا ہے لیکن گٹو کا دماغ یہ سیال جذب نہیں کر رہا تھا اور سیال کے جمع ہونے سے دماغ پر دباؤ پڑتا تھا، جس سے بہت زیادہ درد ہوتا تھا

گٹو کے لیے سب سے مشکل سرجری کے بعد تنہائی میں اس صورتحال کا سامنا کرنا تھا۔ وہ یاد کرتے ہوئے بتاتا ہے ”انہوں نے مجھے شیشے کے کمرے میں بند کر دیا تاکہ وہ میرا معائنہ کر سکیں کہ کیا مجھے مرگی تو نہیں، کیا میں بولنے، دیکھنے اور اپنی ٹانگیں ہلانے کے قابل ہو جاؤں گا“

ایک پیچیدہ طبی معائنے کے بعد پتا چلا کہ سب کچھ ٹھیک ہے، تاہم ٹیومر (رسولی) کو آپریشن کے ذریعے ہٹانے نے دماغ کے ایک اہم پٹیوٹری غدود کو متاثر کیا۔ یہ غدود دوسرے جسمانی کاموں کے ساتھ ساتھ انسان میں ’گروتھ ہارمون‘ پیدا کرنے کا کام کرتا ہے

گٹو بتاتا ہے ”میرے بہت سے ٹیسٹ کیے گئے اور پتا چلا کہ اس کے باعث میری نشوونما رک جائے گی لیکن وہ (ڈاکٹر) یہ نہیں جانتے تھے کہ میں کب اور کس عمر یعنی آٹھ، نو یا دس سال کی عمر میں بڑھنا بند کر سکتا ہوں۔ آخر کار بارہ سال کی عمر میں میری نشوونما ہونا رک گئی“

گٹو کے دماغ کی سرجری کرنے والے نیورو سرجن، نیریو ازامبوجا جونیئر اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں ”ڈاکٹروں نے دماغ کے دیگر حصوں کو متاثر ہونے سے بچانے کے لیے ٹیومر کا بیس فی صد ہٹایا تھا، لیکن بعد میں انہیں دو بار اس کا آپریشن کرنا پڑا۔ پہلی سرجری میں دماغ سے معدے تک سیال نکالنے کے لیے ایک ٹیوب رکھی گئی تھی (جسے وینٹریکولوپیریٹونیل شنٹ کہا جاتا ہے) اور دوسری سرجری میں، ایک ٹیوب ٹیومر کے اندر اور جلد کے نیچے رکھی گئی تھی، ریڈئیشن کے علاج کے لیے جسے کیموتھراپی کہا جاتا ہے“

گوٹو کے مطابق کیموتھراپی کے علاج میں کافی وقت لگا اور اس کا اثر بہت اچھا رہا ”شروع میں ہفتے میں تین بار میری کیموتھراپی ہوتی تھی، پھر یہ کم ہو کر دو اور مہینے میں ایک بار اور پھر یہاں تک کہ یہ ختم ہو گئی لیکن مجھے بہت تکلیف ہوئی کیونکہ مجھے جو ٹیوب لگائی گئی تھی وہ بہت تکلیف دہ تھی۔ ذرا سوچے اس ٹیوب میں ٹیپ اور اس کے اندر ایک بڑی سوئی تھی“

اس وقت گروتھ ہارمونز یعنی نشوونما بڑھانے والے ہارمونز کو بڑھایا جا سکتا تھا لیکن اس سے یہ خطرہ تھا کہ ان کے دماغ میں موجود رسولی بھی بڑھے گی۔ لہٰذا یہ خطرہ مول نہ لینے کا فیصلہ کیا گیا

اپنی نوجوانی میں جب گٹو کو یہ احساس ہوا کہ اس کی ظاہری حالت میں تبدیلی نہیں آ رہی اور ان کی نشوونما یا ظاہری خدوخال عمر بڑھنے کے ساتھ رک گئے ہیں تو اس وقت گٹو کے لیے ایک اور مشکل تھی اور وہ تھی اپنی ظاہری حالت کو تسلیم کرنا

وہ اپنی اس حالت میں ذہنی کیفیت کو یاد کرتے ہوئے کہتا ہے ”جب میں پندرہ برس کا ہوا تو میں بہت ضدی ہو گیا، میں کسی سے بات نہیں کرتا تھا، میں اسکول میں بریک کے وقت کلاس روم سے باہر نہیں جاتا تھا۔ میں اپنی ٹیچر کو بھی جواب نہیں دیتا تھا“

تاہم جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، گٹو نے اپنی ظاہری حالت کو قبول کیا اور اپنے خاندان کی طرف سے اسے ملنے والی محبت کی بدولت، آج وہ اپنی خالہ اور کزن کے ساتھ پرسکون زندگی گزار رہا ہے۔

وہ کہتا ہے ”میرے خاندان کے بغیر، میں اس صورتحال کا سامنا کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔۔ آج مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ میری شکل کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ بیس، تیس، چالیس سال کی عمر کے لوگ بھی میرے دوست ہیں اور مجھے میری ظاہری حالت سے نہیں پرکھتے، وہ میرے بارے میں کچھ نہیں کہتے۔ یہاں سب مجھے جانتے ہیں۔ وہ مجھے فون، ٹیلی ویژن خریدنے کے لیے فون کرتے ہیں اور آج میں اچھا اور صحتیاب ہوں، میں بہت زیادہ بولتا ہوں اور مجھے کسی چیز پر شرم نہیں آتی“

گٹو کا خواب ہے کہ وہ ایک فوٹوگرافر بنے، وہ جلد ہی ایک پیشہ وارانہ کیمرہ خریدنے کی امید رکھتا ہے

مجموعی طور پر گٹو کا علاج پندرہ سال تک چلا، جس میں سات بار کیموتھراپی اور سر کی بارہ سرجریاں شامل تھیں تاہم اس کے دماغ میں موجود ٹیومر سو فی صد ختم نہیں ہوا تھا

گٹو نے 2015ع میں کیموتھراپی کروانا بند کر دی تھی اور آج بھی اس کے سر میں ایک مٹر کے سائز جتنا ٹیومر موجود ہے، لیکن اب اسے سر درد نہیں ہوتا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close