سندھو سلطنت: دریائے سندھ کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط: 1)

شہزاد احمد حمید

شہزاد حمید پیشہ ور لکھاری نہ ہونے کے باوجود لاتعداد پیشہ ور لکھنے والوں سے کہیں بڑھ کر ہے کیونکہ اس کی تحریروں میں اس کی شخصیت کا عکس بہت نمایاں ہے جو شرافت، نجابت، متانت، محنت اور صداقت کا نایاب کومبینیشن ہے

اس کی یہ زیر نظر کتاب کسی شہکار سے کم نہیں کہ اس میں دریاﺅں کے دریا۔۔۔ دریائے سندھ کی سی روانی بھی ہے اور گہرائی بھی، وسعت بھی ہے اور جولانی بھی۔ پاکستان میں اتنی محنت اور محبت کے ساتھ ایسا تحقیقی کام کرنے والوں کا قحط ہے۔ تاریخ کے سنجیدہ طالب علموں کے لئے اک ایسا گلدستہ ہے جس کے پھول کبھی بھی نہیں مرجھائیں گے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان پھولوں کی خوشبو بڑھتی چلی جائے گی۔

”دریائے سندھ کی کہانی، اسی کی زبانی“ پڑھتے ہوئے میں مسلسل سوچتا رہا کہ یہ شہزاد کی لکھی سطریں ہیں یا دریائے سندھ کی لہریں؟شاید اس کو کوزے میں دریا بند کرنا کہتے ہیں، جسے آپ کتاب میں دریا بند کرنا بھی کہہ سکتے ہیں۔
حسن نثار


ابتدائیہ

میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا آپ کو دریائے سندھ کی تلاطم خیزیوں کی کہانی سناﺅں گا۔ مجھے علم نہ تھا کہ موجودہ حالات میں یہ کام انتہائی کٹھن اور مشکل ہے لیکن اس سفر سے میری لگن نے اس محاورے کے مصداق ”مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں“ واقعی میرے سفر کو آسان کر دیا۔ سفر کی ان مشکلات کا ذکر تو اس کہانی میں آپ کو ملے گا ہی، مگر دریائے سندھ کی طغیانیوں، تیز طراریوں اور سبک رفتاریوں کی یہ روداد محض ایک دو روز کی تانک جھانک کا نتیجہ نہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جس طرح اس دریا کی تاریخ ہے، عین اسی طرح میری چھان پھٹک بھی قصہ پارینہ سے جا ٹکراتی ہے۔ قطع نظر اس کے سرکاری مصروفیات موجودہ حالات میں انتہائی مشکل کے مساوی امر ٹھہریں چنانچہ صدیوں پرانے دریا کی کہانی بھی مہینوں پرانی ہو چکی۔ گزرے دور سے عصر حاضر تک کے سفر میں دریا کی موجوں نے نہ جانے کہاں کہاں سے اپنا رخ موڑا، اپنی راہ میں آنے والی کتنی زمینوں کو نگلا۔کئی ہنستی بستی بستیوں کو اجاڑا، بہت کو اپنے ساتھ ہی بہا کر اپنے اندر سمو گیا، تاہم اس کی روانی بارے روئےداد کا ذکر آج بھی زبان زد عام ہے۔ دوردراز کئی لوگ اس کے خوف کے حصار میں آباد ہیں تو کچھ دریا ہی کی سوکھی پگڈنڈیوں پر سسکتی زندگی کو براجمان کئے دکھائی پڑتے ہیں۔ میں نے کھرمنگ سے اولڈنگ، سکردو سے جگلوٹ سے رائے کوٹ، تربیلا سے میانوالی سے کالاباغ، چشمہ سے تونسہ سے کوٹ مٹھن سے گدو، سکھر بیراج سے روہڑی سے لاڑکانہ سے سیہون حیدرآباد سے عمر کوٹ سے ٹھٹہ تک کا طویل سفر پانچ مختلف اوقات اور مراحل میں طے کیا ہے اور اس دوران نہ صرف دریا کی بے رحمی پر نگاہ پڑی بلکہ اس کے گردونواح میں آباد، برباد بستیوں یا ان میں بسنے والوں کی رواجی زندگی، قصے کہانیوں یا پھر تیزی سے بدلتی تہذیب کی افسانوی یا حقیقی داستانیں جو بھی مجھ پر آشکار ہوئیں، انہیں من و عن تحریر میں لانے کی کوشش ہے۔

سویڈن کے مہم جو ”سےون ہےڈن“ نے 1907ءمیں اس کا منبع کے لاش کے پربتوں میں دریافت کرکے انگریز مہم جو ”ویم مورکرافٹ“ کے نظرئیے ”سندھو جھیل مانسرور سے نکلتا ہے غلط ثابت کیا تھا۔“ تبتی اسے اپنے دیس میں ”سنےگے“ کہتے ہیں اور چشموں کا وہ مجموعہ، جس سے یہ بہنا شروع ہوتا ہے، ”سنگے خاباب“ کہلاتا ہے۔اپنے3180 کلو میٹر کے سفر میں سے نکڑوں ندی نالے، چشموں کے پانیوں کو خود میں سمیٹتا بحیرہ عرب میں گرنے تک بہت سے دریا بھی اس میں ملتے ہیں۔ اپنے منبع سے تربیلا تک کا سفر تقریباً 1100 میل طویل ہے۔ اٹک سے جناح بیراج تک کا فاصلہ 150 میل جبکہ کالاباغ سے اپنے ڈیلٹا تک کا سفر800 میل طویل ہے۔

سندھو جہاں سے اپنا بہاﺅ لیتا ہے، وہاں کے نظارے تو میری آنکھوں سے اوجھل رہے کہ میں وہاں تک جا نہیں سکا۔ جس کا مجھے خود بھی افسوس ہے البتہ تبت اور مقبوضہ کشمیر کے نظاروں کے بارے معلومات میں نے محترم رضا علی عابدی کی خوبصورت تصنیف ”شیر دریا“ سے ان کی اجازت سے لی ہیں، جن کا میں اپنے بچپن سے ہی مداح ہوں اور خوش قسمت ہوں کہ ان سے واحد ملاقات بہاول پور میں مسعود صابر کے ”وسیب“ کی سالگرہ کے موقع پر 9 نومبر 2013ء میں ہوئی۔ ان کی باوقار شخصیت، خوش گفتاری اور ملنساری کو ہمیشہ زندگی کے یادگار لمحوں کی طرح ہی ذہن میں بسائے رکھوں گا۔ عابدی صاحب سے یہ ملاقات بھی زندگی کے حاصل کا خاصہ اور سفر نامے کا حسین اتفاق بن کر ہمیشہ میرے ہمراہ محو سفر ہوگا۔ اس کے لئے میں نے دریائے سندھ کے کئی چکر لگائے، ان مقامات پر بھی پہنچا جہاں کم کم لوگ ہی جاتے ہیں۔جیسے ہی مجھے سرکاری مصروفیات سے وقت ملتا میں دریا کی کہانی سننے نکل جاتا۔ دریا صدیوں پرانا ہے جبکہ کہانی چند ماہ پرانی۔ پرانے دورسے جدید دور تک کے اس سفر میں دریا نے بہت جگہوں سے رخ موڑا، کئی زمنیں نگل گیا اور کئی اگل گیا۔ بہت سی بستیوں کو اجاڑ گیا، بہت سی بہا لے گیا اور بعض کو ڈرا کر خود سے دور بسنے پر مجبور کر گیا۔ مگر کچھ سر پھرے اس کے اندر کی خشک زمین (بیلے) پر بھی ڈیرے جمائے ہیں۔ کچے کے رہائشی۔ کئی چکروں کی کہانی کو ایک جگہ جوڑا ہے۔پہلے چکر میں تربیلا سے میانوالی تک کا سفر شامل ہے تو دوسرے میں میانوالی سے کوٹ مٹھن تک کا، تیسرے میں کوٹ مٹھن سے سکھر بیراج تک کا تو چوتھے میں سکھر سے سجاول اور ٹھٹہ تک کا، پانچویں میں اولڈنگ، کھرمنگ سے تربیلا تک کا۔ میں نے کوشش کی ہے کہ آپ کو دریا کی ہی سیر نہ کراﺅں بلکہ اس کے گرد بسنے والوں کی داستان کے علاوہ آباد بستیوں کے رسم و رواج، برباد بستیوں کے قصے بھی آپ تک پہنچاﺅں۔ اس میں کس حد تک کامیاب ہوا ہوں فیصلہ آپ کا ہے۔ کبھی ان دیکھے خواب بھی حقیقت بن جاتے ہیں۔ یہ میری زندگی کے یادگار لمحوں میں سے ایک تھا اور میرے لئے بڑے اعزاز کی بات بھی۔ وہ کمال شخصیت ہیں، ملنسار، خوش گفتار، خوش لباس، باوقار، مہذب، ہنس مکھ، پیارے اور محبت بانٹنے والے۔ میں ان کی محبت اور خلوص ہمیشہ یاد رکھوں گا۔

سندھو کے کنارے ہزاروں بستیاں اور مختلف مذاہب کے ماننے والے لاکھوں لوگ آباد تھے اور آج بھی ہیں۔ بہت سے خطوں کی ہریالی اور خوشحالی بھی اسی دریا کی مرہون منت ہے۔ لوگوں کی خوشیاں اور دکھ بھی اس سے وابستہ ہیں۔ گرمی اور برسات کے موسم میں سندھو کا پانی سیلابی صورت میں پشتوں سے باہر نکل آتا ہے۔ بستیوں کی بستیاں اجاڑ کر پیچھے غربت اور پریشانی کو مزید گہرا کر جاتا ہے۔ آفرین اس کے کنارے آباد لوگوں پر کہ وہ اس کے لگائے زخموں سے بھی محبت کرتے ہیں اور اپنے دکھ اور تکالیف بھلا کر پھر سے اس کے کنارے آن بستے ہیں، کھیتیاں اگاتے ہیں۔محبت اور غصے کا یہ کھیل ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ اپنے غصے کے باوجود یہ لاکھوں لوگوں کی زندگی بھی ہے۔ سیلابی ریلے اپنے پیچھے سونا اگلتی زمین چھوڑ جاتے ہیں۔ یہ پہلے سے بہتر فصل کی امید ہے۔ ڈولفن کی خاص نسل ”اندھی ڈولفن“ کا بھی یہی مسکن ہے۔ ”پلا اور گولڈن مہا شیر“ کا گھر بھی یہیں ہے۔ سکھر، کوٹری اور ٹھٹہ مچھلی کی بڑی منڈیاں ہیں۔ وادی سندھ (انڈس ویلی) کی تہذیب نے بھی یہیں جنم لیا۔ بڑے بڑے سپہ سالاروں اور فاتحین کی آمدورفت کا بھی یہ گواہ ہے۔ پہاڑوں میں یہ بہت جوش اور شور کے ساتھ بہتا ہے جبکہ میدانی علاقے میں پرسکون اور بڑی شان سے رواں رہتا ہے۔ اپنا سارا سفر نرالی آن بان سے طے کرتا ہے۔

میں سندھو کے ساتھ ساتھ سفر کرتا ٹھٹہ اور بدین کے علاقے میں آ پہنچا ہوں، جہاں سندھو اکتیس سو اسی (3180) کلو میٹر کا سفر طے کر کے بہت سی شاخوں میں بٹ کر بحیرہ عرب میں اترتا ہے۔ سہ پہر ڈھلنے والی ہے۔ عصر کا وقت ہے۔ میں سطح سمندر سے صرف 200 فٹ کی بلندی پر کھڑا ہوں۔ جہاں سے دریا نے سفر شروع کیا تھا، وہ سولہ(16) ہزار فٹ سے زیادہ بلند ہے۔ جہاں دریا کا جنم ہوا تھا، وہاں میں صبح سویرے پہنچا تھا۔ وہ ننھا منا اور کمزور تھا۔ ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے علاقے میں یہ چٹانوں سے ٹکراتا، شور مچاتا گزرتا ہے۔ پنجاب کے میدانوں میں بہت منہ زور ہے۔ یہاں پہنچ کر اس کا شور، جوش، جولانی سہ پہر کی طرح ڈھل چکی ہے۔ میرے سامنے یہ عظیم دریا ہزاروں میل کا سفر طے کر کے دھیرے دھیرے بحیرہ عرب میں گر کر اپنا وجود سمندر میں تحلیل کر رہا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے بڑے بڑے انسان مٹی میں مل کر اپنا وجود کھو دیتے ہیں اور صرف نام باقی رہ جاتا ہے۔ یہ دوسرا دریا ہے، جسے میں نے سمندر میں اترتے دیکھا ہے۔ پہلی بار میں نے امریکہ کے ہڈسن ریور کو ”ویری زونا برج“ کے نیچے سے بہتے عظیم بحر اوقیانوس میں اترتے دیکھا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ چھوٹا دریا بڑے بحر میں گرتا ہے جبکہ یہ عظیم دریا چھوٹے بحیرہ میں۔ میرے سامنے گھروں کو جاتے پرندوں میں بھی صبح والا دم خم نہیں رہا ہے۔ وہ صرف گھروں کو پہنچنا چاہ رہے ہیں، تھکے ماندے۔۔ میں بھی لمبی مسافت سے تھک گیا ہوں۔

پاکستان کو اللہ نے اپنی فیاضیوں سے خوب نوازا ہے۔برف پوش پہاڑ دیئے تو آسمان سے باتیں کرتی اونچی برفیلی چوٹیاں بھی یہاں اتار دیں۔ سنگلاخ چٹانوں و چٹیّل پہاڑوں کو معدنیات سے بھر دیا ہے۔ مچلتے دریا دئیے جو اپنی روانی طغیانی اور جولانی میں ثانی نہیں رکھتے ہیں۔ گنگناتے جھرنے اور سرسبز و شاداب جنت نظیر وادیاں عطا کیں، جن کے بدن سے شفاف ندیاں اور تازہ پانی کی دلکش جھیلیں پھوٹتی ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے گلیشیئر اسی دھرتی پر سجا دئیے ہیں۔حدِ نظر پھیلے ہرے بھرے میدان بکھیر دئیے ہیں۔انواع و اقسام کی سبزیوں اور قسم قسم کے میوﺅں اور فصلوں سے نواز دیا۔ شیریں پھلوں سے درختوں کی شاخیں جھکا دیں۔ سال کو چار موسموں میں رنگ دیا ہے۔۔ بے شک ”تم اللہ کی کس کس نعمت کو جھٹلاﺅ گے۔“

بوڑھے ہوتے سندھو کا ڈیلٹا پنتیس سو (3500) کلو میٹر سے سکڑ کر اب صرف دو سو چالیس (240) کلو میٹر رہ گیا ہے۔ کبھی اس کا بڑھاپا (ڈیلٹا) بھی بڑا منہ زور تھا اب تو یہ بھی سو سالہ بوڑھے کی طرح ہانپنے لگا ہے۔پارکنسنز کی بیماری کی طرح ہانپتے کانپتے اپنی ہی لائی ہوئی ریت اور مٹی میں دم توڑتا سمندر میں اترتا ہے۔ یہاں اس کی بے بسی قابل رحم ہے۔ مجھے ایک سن رسیدہ سندھی کی بات یاد آ گئی۔ اس نے کہا تھا؛ ”سائیں!جب میں بچہ تھا تو اس دریا کنارے گھنے جنگلات کے قریب سے گزرتا تو کبھی کبھار پانی پیتا چیتا بھی نظر آ جاتا تھا۔ یہ دریا تو اب مر چکا ہے۔ اس کے کنارے جنگل بیلے ختم ہو گئے ہیں۔ دکھ کی بات ہے کہ یہ سب کچھ میں نے اپنی زندگی میں ہی دیکھا ہے۔“

سکندر اعظم کے ہندوستان پر حملے کے وقت اس دریا کے قریب گھنا جنگل تھا۔ بابر تزک بابری میں اس دریا میں دریائی گھوڑوں کی موجودگی کا تذکرہ کرتا ہے۔ انسانی مداخلت اور جنگلات کی کٹائی نے اس دریائی خطے کی ہیئت تبدیل کر دی ہے۔ انڈس ویلی کا میدان خشک ہو چکا ہے۔ زراعت کا زیادہ دارومدار آب پاشی کے نظام کی مرہون منت ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ دریا کی اپنی حیاتیاتی اور نباتاتی زندگی جو کبھی بہت بھرپور تھی، وقت اور زمانے کی بھینٹ چڑھ گئی ہے۔

میں آپ کو اس دریا کے کنارے آباد ہاریوں پر ہونے والے مزاریوں، لغاریوں، کھوسوں اور قصیرانی سرداروں کے مظالم کی داستانیں بھی سناﺅں گا

میں نواب شاہ کے میدان میں پہنچا ہوں جہاں کلہوڑا خاندان کے مقبرے عجیب ویرانی اور تنہائی کی تصویر بنے ہیں۔ نہ کلہوڑا خاندان کی سلطنت باقی رہی اور نہ ہی دریا ماضی جیسا منہ زور رہا ہے۔ کل تک جن کا طوطی بولتا تھا۔ جاہ و جلال تھا، رعب و دبدبہ تھا، آج ان کے مقبرے ویران اور گردشِ وقت کا شکار ہوئے دھول اور مٹی بنتے جارہے ہیں۔ البتہ ایسے ثقافتی ورثہ کی نظیر کم کم ہی ملتی ہے۔ اگر دنیا کے کسی دوسرے ترقی یافتہ ملک میں ایسا ثقافتی ورثہ ہوتا تو صرف یہی مقبرے پوری سیاحتی انڈسٹری کی بنیاد بن جاتے لیکن ہماری تو روایت رہی ہے کہ ہم ایسی عمارتوں کو چن چن کر برباد کرتے ہیں، جن پر تاریخ کی داستانیں رقم ہوتی ہیں۔ (وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اورنج لائن ٹرین بناتے وقت تعمیراتی ورثے کے حوالے سے پرجوش انداز میں کہتے ہیں کہ”وہ ماضی کی عمارات ہیں اور ہم نئے دور کی تاریخ لکھنے جا رہے ہیں۔“ یہ تو بھلا ہو سپریم کورٹ کا کہ ان کو لگام ڈالی نہیں تو وہ اپنی بات شاید سچ ہی کر جاتے۔) صحرا میں کھڑے یہ مقبرے ریت کی آندھیوں اور اپنوں کی بے رخی کا مقابلہ کرتے کرتے اب ہارنے لگے ہیں۔ شاید کچھ عرصہ بعد مٹ ہی جائیں گے۔ تاریخ کا طالب علم یا کوئی صاحبِ شعور سیاح ہی ان کی قدر جانتا ہے۔ کچھ ایسی ہی کہانی ان تاریخی پتھروں اور چٹانوں کی بھی ہے، جو دریا کی گزرگاہ کے ساتھ ساتھ مختلف مقامات اور جگہوں پر ایستادہ ہمیں دریا کی تاریخ اور اس کے کنارے آباد مختلف قوموں اور نسلوں کے بارے جان کاری دیتے ہیں۔ اُن پر کی گئی خطاطی اور تحریریں اس عمدگی سے لکھی ہیں کہ اگر زمانہ مٹانا بھی چاہے تو مٹا نہ پائے اور جدید دنیا کے ماہرین اسے پڑھنا چاہیں تو پڑھ نہ پائیں۔ وہ اپنے ارادوں میں کامیاب رہے۔ ان پر کیا لکھا ہے صرف میرا دوست دریا ہی جانتا ہے کہ کون کیا کس زبان میں لکھ گیا تھا مگر یہ بتاتا کسی کو نہیں۔ اس کے جنم کے راز کی طرح یہ تحریریں بھی راز ہی رہیں گی۔ چٹانوں پر لکھی یہ تحریریں اور کہانیوں میں ڈھلی تصویریں دکھ، سکھ، خوشی اور غمی کی داستانیں ہیں، جو یہاں سے گزرنے والوں کے جذبات اور احساسات کی خاموش عکاس ہیں۔۔

خواجہ فریدؒ، حضرت لال شہباز قلندرؒ اور حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کے عرس کے موقع پر ہندو، سنی، شیعہ بھائی چارے اور محبت کی ایسی فضاء نظر آتی ہے کہ معلوم ہی نہیں ہوتا یہاں آئے لاکھوں انسانوں کا تعلق مختلف عقیدوں، مذاہب یا فرقوں سے ہے۔ سب ان بزرگوں کی تعلیمات کے رنگ میں رنگے نظر آتے ہیں۔ محبت، بھائی چارے اور امن کا رنگ۔ کاش ایسا بھائی چارہ ہر وقت دیکھنے کو ملے۔

(جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close