آخری حربہ (امریکی ادب سے منتخب افسانہ)

جوزف پینے برینن (ترجمہ: جاوید بسام)

”یور آنر! میں اپیل کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔“ کیلتھ نے کہا۔

ایک لمحے کے لیے کمرہِ عدالت میں خاموشی چھا گئی۔ بس ایک ہلکی سی گونج سنائی دے رہی تھی۔ پھر روبوٹ جج نے جواب دیا۔ ”درخواست منظور کی جاتی ہے۔“

کیلتھ نے سوچا ایک آزاد سرکٹ متحرک ہو گیا ہے۔ اپیلیں بغیر کسی استثنا کے ہمیشہ منظور ہو جاتی ہیں۔ ایک احمقانہ کوشش، جس کا کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلتا۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور ادب سے جھکتے ہوئے بولا، ” آپ کا اقبال بلند ہو یور آنر!“

آج کل یہ مہذبانہ الفاظ اور احترام سے جھکنا محض ایک رسم کی حیثیت رکھتے تھے، جس پر دوسرے وکلاء شاذ و نادر ہی عمل کرتے تھے، لیکن کیلتھ بہت سے معاملات میں ماضی پرست تھا۔ وہ روایتوں کا امین تھا اور ان کو پسند کرتا تھا۔

یہ اس دن کی آخری پیشی تھی۔ جیسے ہی کیلتھ دروازے کی طرف بڑھا، عدالت کا کلرک، جو چھوٹے قد کا ایک چاق و چوبند آدمی تھا، میز پر جھکا اور جج روبوٹ کا سوئچ بند کر دیا۔

کیلتھ اپنے دفتر میں پہنچا تو گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس نے دھیرے دھیرے اپنا وکالت کا گون اتارنا شروع کیا۔ وہ لمبا، دبلا اور گول شانوں والا بوڑھا آدمی تھا اور عجیب انداز میں بات کا آغاز کرتا تھا۔ جیسے کوئی فیصلہ نہ کر پا رہا ہو، تاہم جیسے ہی وہ بولنا شروع کرتا، پہلا تاثر فوراً ختم ہو جاتا۔ اس کی تقریر برجستہ اور موثر الفاظ کے انتخاب پر مشتمل ہوتی تھی اور ذہن کی غیر معمولی نفاست کو ظاہر کرتی تھی۔ وہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے عروج پر تقریباً ناقابلِ شکست تصور کیا جاتا تھا اور آج بھی اپنے پیشے میں سب سے طاقتور وکیلوں میں سے ایک تھا۔ اس نے احتیاط سے اپنا گون تہہ کیا پھر نرم سفید بالوں والی وگ اتاری اور دونوں کو اپنی الماری کے اوپری شیلف میں رکھ دیا۔ وہ اب بھی اپنے خیالوں میں غلطاں تھا۔

مسئلہ یہ تھا کہ وہ اپنے مؤکل ہنری ووڈس کو پسند نہیں کرتا تھا۔ جو موٹا بھاری بھرکم آدمی تھا۔ پوری سماعت کے دوران اس کا پسینہ مسلسل بہتا رہا تھا اور وہ بلند آواز میں انصاف کا مطالبہ کر رہا تھا۔ وہ اپنی سزا کی معافی کا طلب گار تھا اور اصرار کر رہا تھا کہ کیلتھ کو ہر صورت میں فیصلے کے خلاف اپیل کرنی چاہیے۔ وہ یہ نہیں سمجھتا تھا کہ جج کو مخاطب کرنے کی مہذبانہ عادت کی طرح اپیل بھی محض ایک رسم ہے۔

ووڈس نے اپنی بیوی کو مار ڈالا تھا۔۔ لہٰذا کیلتھ کا خیال تھا کہ وہ پاگل ہے۔۔۔ کیونکہ صحیح الدماغ لوگ قتل نہیں کرتے۔

کیلتھ یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ اپیل پر دوسری عدالت کے جج بھی اسی طرح ثبوتوں اور دلائل کو جانچے گے۔ پھر اگر ووڈس نے حتمی کوشش پر اصرار کیا تو سپریم کورٹ کے جج بھی اسی طرح کریں گے۔ تمام روبوٹ ایک طرح سے سوچتے ہیں۔ ہر مقدمے کے لیے اپیل کی گنجائش ضرور ہوتی ہے اور اپیل کورٹ فراہم بھی کیا جاتا ہے، مگر اس کا مقصد تیکنیکی خرابیوں یا غلط پروگرامنگ سے تحفظ فراہم کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

کیلتھ نے آہ بھری۔ اسے اب بھی وہ دن ہلکے ہلکے یاد تھے۔ جب یہ کام اسے اطمینان بخش لگتا تھا، یہ اس سے قبل کی بات ہے۔ جب ریاست نے انسانی فیصلوں میں آنے والی خامیوں اور غلطیوں کو دیکھتے ہوئے انسانی ججوں کو ہٹا کر روبوٹ جج تعینات کر دیے تھے۔ تاکہ لوگوں کو بے داغ انصاف مہیا ہو سکے اور عدلیہ کا وقار برقرار رہے۔ جدید روبوٹ جج جذبات کے تابع نہیں تھے۔ وہ قانونی بھول بھلیوں کے پر پیچ جنگل میں آسانی سے آگے بڑھتے تھے۔ کیلتھ نے ان نئے ججوں سے ہمیشہ نفرت محسوس کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ دیر بعد کیلتھ دفتر سے نکلا اور دھیمی مگر پروقار چال چلتا ہوا راہداری سے گزر کر ہال کے نیچے قدیم پتھر کی سیڑھیوں کی طرف بڑھا جو زنداں خانے کی طرف جاتی تھیں۔ اس کے ماتھے پر تردد کی لکیریں تھیں۔ وہ ووڈس کے ساتھ ہونے والی گفتگو پر غور کر رہا تھا اور معاملہ کو اچھی طرح سمجھ گیا تھا۔ بلکہ وہ آغاز سے ہی بالکل ناامید تھا۔ یہ مقدمہ لیتے ہوئے بھی وہ ڈانواڈول تھا۔ اس نے کئی بار سوچا تھا کہ مقدمہ نہ لے۔

جب وہ پتھر کی لمبی سیڑھیوں سے نیچے اترا تو ایسا لگا کہ پوری عمارت میں کوئی متنفس موجود نہیں ہے۔ پھر دُور زنداں خانے کے دروازے پر نیلی وردی میں ملبوس وارڈن اکیلا بیٹھا نظر آیا۔ وہ چونک کر سیدھا ہوا، لیکن جب اس نے ملاقاتی کو پہچان لیا تو پرسکون ہو گیا۔ کیلتھ نے سر ہلایا اور جب تک وارڈن نے زنداں خانے کا بھاری دروازہ کھولا۔ وہ لاتعلقی سے کھڑا انتظار کرتا رہا۔ پھر وہ ایک ساتھ دہلیز پار کر گئے اور دروازہ ان کے پیچھے بند ہو گیا۔ راہداری میں کھڑکیاں نہیں تھیں۔ وہ پوشیدہ فَلوری لیمپوں سے روشن تھی۔ ووڈس کی کوٹھری راہداری کے آخر میں تھی۔ وارڈن نے ایک اور چابی منتخب کرکے تالے میں لگائی اور جب دروازہ کھل گیا تو وہ کیلتھ کو راستہ دینے کے لیے ایک طرف ہٹ گیا۔

کوٹھری بہت چھوٹی تھی۔ کئی سالوں سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ اُس میں فرنیچر کے نام پر صرف میز اور لکڑی کی بنچ تھی۔ زنداں خانوں کے خاتمے سے پہلے کوئی بھی ایسی کوٹھری برداشت نہیں کرتا، تاہم اب یہ ایک عارضی حراست کی جگہ تھی، جہاں مدعا علیہ نے مقدمے کی سماعت سے پہلے اور بعد میں کچھ وقت گزارنا ہوتا تھا۔ وہاں سے وہ طبعی مرکز بھیج دیے جاتے یا انہیں آزادی مل جاتی تھی۔ ووڈس کو بھی توقع نہیں تھی کہ وہ کسی آرام دہ حراستی مرکز لے جایا جائے گا۔ جہاں وہ اس وقت تک رہے گا، جب تک اس کی اپیل پر غور نہیں کیا جاتا۔

جوں ہی کیلتھ کوٹھری میں داخل ہوا۔ ووڈس، بینچ سے کود کر کھڑا ہوگیا۔ وہ موٹا اور گنجا آدمی تھا اور ہر وقت گھبراہٹ کا شکار نظر آتا تھا۔ عام طور پر اس جیسے لوگ کسی زمانے میں بینک کلرک یا سرکاری افسران کے طور پر کام کرتے تھے۔ پھر جب ان کی جگہ روبوٹ آگئے تو انہوں نے اپنے آپ کو بے روزگاروں کے زمرے میں پایا۔ وہاں وہ مرد اور عورتیں تھیں، جو کوئی کام نہیں کرتے تھے اور نہ انہیں کبھی کام کرنا تھا، لیکن ایک خودکار ریاست بڑی فراخدلی سے ہمیشہ ان کی کفالت کی زمہ دار تھی۔ انہیں ایسی عیش و آرام کی زندگی میسر تھی، جو بالآخر بوریت کو جنم دیتی تھی اور بعض اوقات وہ لوگ پاگل ہوجاتے تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہنری ووڈس کے ساتھ یہی ہوا تھا۔ جوں جوں وقت گزرتا رہا اسے وہ سب کچھ ملتا رہا، جو وہ چاہتا تھا۔ روبوٹک نوکروں والی سات منزلہ حویلی، اس کے ذاتی استعمال کے لیے تین کاریں، موسم سے موافقت والے دو سوئمنگ پول، نیند کے پہاڑوں کی ایک فلم اور اسی طرح کے ہزاروں کھلونے۔۔ ان سب تعیشات کے باوجود ہنری ووڈس کے بال وقت سے پہلے سفید ہو گئے تھے، اس کے جسم پر مسلسل پسینہ بہتا رہتا اور وہ اپنے مخاطب سے آنکھیں نہیں ملا پاتا تھا۔ ایک دن صبح سویرے جب موسم بہت خوش گوار تھا۔ وہ اپنی بیوی سے پہلے بیدار ہوا اور اٹھ کر اس کا گلا گھونٹ دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ووڈس، کیلتھ کے قریب چلا آیا اور اس سے باتیں کرنے لگا، ”مسٹر کیلتھ! میں سمجھ رہا تھا کہ آپ یہاں نہیں آئیں گے، اپیل کی اجازت ملتے ہی انہوں نے مجھے بند کر دیا ہے اور یہاں سوائے میرے ذہن میں پیدا ہونے والے وسوسوں کے اور کچھ نہیں ہے۔۔ یہ سب مجھے پاگل کردے گا۔“

کیلتھ خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ ووڈس کی آنکھوں کی بڑی بڑی پتلیوں کو دیکھ کر اسے خیال آیا کہ وہ میزکل نامی ڈرگز استعمال کر رہا ہے، جو الکحل پر عالمی پابندی کے بعد اس کی جگہ لے رہی تھی۔

اس نے دونوں ہاتھ بڑھا کر کیلتھ کے شانوں کو پکڑ لیا، ”مجھے بتائیں، مسٹر کیلتھ! میری سزا معاف ہوجانے کے کتنے امکانات ہیں؟ لیکن یاد رکھیں، میں سچ جاننا چاہتا ہوں؟“

کیلتھ نے بیزاری سے اسے دیکھا۔ اس مشکل وقت میں بھی ووڈس کا رویہ ناگوار تھا۔ کچھ توقف کے بعد اس نے سرد لہجے میں جواب دیا، ”مسٹر ووڈس! آپ کے بَری ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اپیل صرف ایک رسمی کارروائی ہے، جس سے کچھ وقت کی مہلت مل جاتی ہے۔۔ مگر نتیجہ نہیں بدلتا۔ اپیلٹ جج بھی آج کے فیصلے کی توثیق کریں گے۔“

ووڈس نے آنکھیں پھاڑ کر حیرت سے اسے دیکھا۔ اس کے ماتھے سے پسینہ بہہ کر ہونٹوں تک چلا آیا تھا جہاں پہلے ہی پسینے کی بوندیں چمک رہی تھیں۔ ”یہ نہیں ہوسکتا مسٹر کیلتھ! براہ کرم کچھ کریں! ان مشینوں کو شکست دینے کا کوئی تو طریقہ ہوگا۔ آپ ذہین آدمی ہیں اور آپ نے علم روبوٹکس کا مطالعہ بھی کیا ہے۔۔ خدا کے لیے کچھ کریں۔“

کیلتھ جانتا تھا کہ وہ اس کی مدد نہیں کر سکتا۔ وہ ووڈس کی گرفت سے آزاد ہونے کے لیے ایک قدم پیچھے ہٹا اور بولا، ”آپ نے اپنی بیوی کو مار دیا ہے۔ آپ کو لگتا کہ اس کے بعد بھی وہ آپ کا مقام برقرار رکھے گے؟“ اس نے ایک لمحے کے لیے رک کر اپنے مؤکل کو دیکھا۔ پھر بولا، ”میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ آپ اتنا ہنگامہ کیوں کر رہے ہیں؟ جب میں نے وکالت شروع کی تھی تو ایسے جرم کی سزا موت تھی۔“

ووڈس آہستگی سے پیچھے ہٹا اور لکڑی کے بنچ پر بیٹھ گیا۔ پھر مایوسی سے بولا، ”مرنا بہتر ہے۔ میں نے دیکھا کہ لیوکوٹومی (پاگل پن کے علاج کی سرجری) کے بعد لوگ بالکل بدل جاتے ہیں۔ وہ اپنی شناخت کھو دیتے ہیں، لیکن آپ کو کیا فکر، سرجری تو وہ میری کریں گے۔“

کیلتھ نے دل ہی دل میں آہ بھری۔ ایسے لمحات میں وہ خود بھی ڈرگز کی طلب محسوس کرتا تھا۔ ”مسٹر ووڈس،” اس نے تحمل سے سرگوشی کی، ”آپ کو فوری طور پر اس بات کو قبول کر لینا چاہیے کہ آپ کی سرجری ہوگی۔ کیونکہ آپ نے اپنی بیوی کو مار ڈالا ہے اور آپ قانونی طور پر پاگل ہیں۔ یہ فیصلہ آج سنایا گیا اور۔۔۔۔“

ووڈس کھڑا ہوا اور کیلتھ کو بازو سے پکڑ لیا۔ ”لیکن ہم اپیل کر رہے ہیں مسٹر کیلتھ! میں پر امید ہوں۔“

”کورٹ آف اپیل اس ہفتے کے آخر میں بیٹھے گا۔ بس سرجری ہفتے کے آخر تک ملتوی کردی جائے گی۔“ کیلتھ نے دوٹوک الفاظ میں کہا۔

”لیکن، مسٹر کیلتھ۔۔۔!“ ووڈس نے چیختی نسوانی آواز میں کہا، ”آپ اپیلٹ جج کو قائل کر سکتے ہیں کہ میری سرجری کا حکم نہ دے۔ یہ پہلی عدالت کے جج کی رائے ہے، اپیل کورٹ کے جج کی رائے الگ بھی ہو سکتی ہے۔ کیا ایسا ہوتا ہے؟“اس نے غیر یقینی لہجے میں کہا۔

”نہیں۔“ کیلتھ نے دھیمے لہجے میں جواب دیا، ”مسٹر ووڈس! بات کو سمجھیں۔ سوال روبوٹ پروگرامنگ کا ہے۔ یہ تمام مشینیں بالکل ایک طرح سے پروگرام کی گئی ہیں۔۔۔۔ ان میں فرق نہیں ہوسکتا۔۔۔۔ روبوٹ جج غیرجانبدار لاگنگ کے ذریعے حل نکالتے ہیں۔ اگر مفروضے یا دوسرے لفظوں میں ثبوت ایک جیسے ہیں تو نتیجہ وہی نکلے گا۔ بہرحال ہمارے پاس نئے حقائق نہیں ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ نتیجہ پہلے سے طے شدہ ہے۔“

”اگر دوسری کورٹ بھی اپیل کو مسترد کرتی ہے تو کیا ہم سپریم کورٹ جا سکتے ہیں؟“ ووڈس نے استفسار کیا۔

”یہ آپ کا آئینی حق ہے مسٹر ووڈس۔“ کیلتھ نے کہا اور اچانک خود کو ناقابلِ یقین حد تک تھکا ہوا محسوس کیا۔ وہ جانتا تھا کہ ووڈس صورت حال کو سمجھ نہیں رہا۔ وہ کورٹ آف اپیل میں شکایت درج کرائے گا، پھر سپریم کورٹ میں اور پھر وہ شکایت کرے گا کہ کوئی اور اعلیٰ عدالت نہیں ہے جہاں مقدمے کو مزید غور کے لیے بھیجا جا سکے، لیکن اس کی تمام تر کوششوں کے باوجود نتیجہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ بلاآخر جب سب کاروائی ہوجائے گی تو ووڈس کو لیوکوٹومی سے گزرنا پڑے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پرانی طرز کی نچلی عدالت کے برعکس اپیل کورٹ ضرورت کے اصول کے تابع تھی۔ کیلتھ اور اس کے مؤکل کے علاوہ ہال میں صرف دو لوگ تھے۔ ایک کورٹ کلرک اور ایک نیند میں اونگھتا ہوا سنتری، جس کے پاس گیس کا پستول تھا۔ وہ دروازے پر پہرہ دے رہا تھا۔

ہال میں وکیل اور اس کے مؤکل کے لیے آرام دہ کرسیاں تھیں اور ایک بڑا بلیک باکس یعنی ”جج“ دیوار میں بنایا گیا تھا۔ کلرک نے اپنی سیدھی پشت والی کرسی کو نظر انداز کر دیا تھا۔ وہ میز کے گرد گھوما اور صفائی سے جج کے سامنے پہلے مقدمے کی کاغذی ٹیپ کھول کر رکھا۔ پھر اس نے پوچھا،
”کیا کاروائی شروع کریں؟“

کیلتھ کے سر ہلانے پر کلرک نے جج کے کنٹرول پینل کے نیچے سوراخ میں کاغذی ٹیپ بھرنا شروع کیا۔ روبوٹ جج نے نوے سیکنڈ میں کیس کی فائل پڑھی اور اپنے پچھلے ساتھی جج کے فیصلے پر غور کیا۔ کنٹرول پینل کے پیچھے کسی چیز نے آہستہ سے کلک کیا اور جج نے پوچھا، ”مسٹر کیلتھ! کیا آپ کے پاس کوئی نئے حقائق یا ثبوت ہیں؟“

کیلتھ اٹھ کھڑا ہوا اور ادب سے بولا، ” نہیں، یور آنر! کوئی نئے حقائق یا ثبوت نہیں ہیں۔“

جج کو جواب نفی میں دیا گیا تھا اس نے اعلان کیا، ”پہلی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا جاتا ہے۔“

مقدمہ ختم ہوا۔ شکایت پر کارروائی میں تین منٹ سے کچھ زیادہ وقت لگا تھا۔
کیلتھ تھکے ہوئے لہجے میں بولا، ”یور آنر میں آگے اپیل کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔“

ایک لمحے کے توقف کے بعد جج نے جواب دیا، ”درخواست منظور کی جاتی ہے۔“

باہر نکل کر ووڈس ناراضی سے بولا، ”آپ نے مجھے بے گناہ ثابت کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ ایک لفظ بھی نہیں بولا۔ اگر آپ کچھ بولے گے نہیں تو ہم مقدمہ کیسے جیتیں گے؟“

”مسٹر ووڈس! میرا مقصد اسے جیتنا نہیں تھا۔“ کیلتھ نے کہا۔

اسے دل کی گہرائیوں سے افسوس ہو رہا تھا کہ وہ ووڈس کا دفاع کرنے پر راضی کیوں ہوا۔ وہ ہمیشہ روبوٹ ججوں کو سب سے زیادہ ناپسندیدگی سے دیکھتا تھا، مگر اس مؤکل کے طرزِ عمل نے اس کو گرہن لگادیا تھا۔ یہ شخص نہ صرف قاتل تھا، بلکہ ایک بیوقوف بھی تھا۔

کیلتھ نے آہ بھری اور بولا، ”مسٹر ووڈس! آپ خود کو مجرم مان کیوں نہیں لیتے؟ اپیل ایک خالص رسمی کارروائی ہے۔ جج مقدمے کی فائل کا جائزہ لیں گے اور کچھ نہیں۔۔۔ میں ایک گھنٹہ طویل تقریر کر سکتا تھا اور عدالت سے نرمی کی درخواست کر سکتا تھا، لیکن یہ وقت کا ضیاع ہے۔ ہم یہاں ان لوگوں کے ساتھ محوِ کلام نہیں ہیں، جنہیں جذبات کے ذریعے قائل کیا جاسکتا ہو۔ ہم روبوٹ کے ساتھ کام کررہے ہیں۔“

”سپریم کورٹ ابھی موجود ہے۔“ ووڈس نے گہری سانس لے کر کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فنِ تعمیر کے لحاظ سے سپریم کورٹ، کورٹ آف اپیل سے بہت ملتی جلتی تھی، لیکن طریقہ کار کے لحاظ سے بنیادی طور پر مختلف تھی۔ اپیل کورٹ کے جج نے خاموشی اور انتہائی سرعت کے ساتھ فائلوں کا جائزہ لیا تھا۔ جب کہ سپریم کورٹ کے جج نے انہیں با آواز بلند پڑھنا شروع کیا۔ اس دوران کیلتھ کو کسی بھی نئے نکتے کے اضافے کا اختیار تھا، جس سے مؤکل کو فائدہ پہنچ سکتا ہو، مگر کیلتھ کے لیے یہ سارا عمل آغاز سے اختتام تک ناامیدی کا مظہر تھا۔ وہ خاموشی سے بیٹھا رہا۔

ووڈس، کرسی پر بیٹھا بے چینی سے پہلو بدلتے ہوئے روبوٹ جج کے کنسول یونٹ سے اپنے جرم کے ثبوتوں کو سن رہا تھا، جو کسی سیلابی ریلے کی طرح بہے چلے آ رہے تھے۔ عدالت کا سیکرٹری ایک خوش مزاج نوجوان تھا۔ جس نے جدید فیشن کی رنگین عینک ناک پر ٹکا رکھی تھی۔ وہ کرسی پر بیٹھا اقرار ماتحتی میں بار بار سر ہلا رہا تھا۔ جس سے لگتا تھا کسی بھی لمحے عینک، جج کے قدموں میں جا گرے گی۔

کیلتھ نے آنکھیں بند کر کے اپنی کرسی کی پشت سے ٹیک لگالی تھی، اچانک اسے ووڈس کی پڑوسن مسز این لیسلی کی آواز سنائی دی، جن کا بیان بطور گواہ کے لیا گیا تھا۔ وہ کہہ رہی تھیں۔ ”یور آنر! میں سچ بولوں گی۔ سچ کے سوا کچھ نہیں بولوں گی۔“

کیلتھ ایک دم سیدھا ہو گیا۔ اس کے لاشعور نے جج روبوٹ کو جل دینے کا ایک راستہ ڈھونڈ نکالا تھا۔ جس پر عدالت یا قانون کوئی اعتراض نہیں کر سکتا تھا۔

گواہ کی آواز کی یکساں گونج میں وہ اُس پر غور کرتا رہا اور دھیرے دھیرے پوری بات اس پر روزِ روشن کی طرح واضح ہو گئی۔۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ خیال کام کر سکتا ہے، اس نے ووڈس کی طرف دیکھا، لیکن اس سے آنکھیں نہیں ملائیں۔

اگلے گھنٹوں میں کیلتھ نے ثبوت کی تشریح کرنے کے اپنے حق سے انکار کر دیا۔ ووڈس پہلے الجھن میں مبتلا ہوا۔ پھر غصے میں آ گیا اور آخر کار پوری طرح مایوس ہو گیا۔ کیلتھ نے اسے ایذا پہنچائی تھی۔

اب تفتیش کے مواد کا مطالعہ ختم ہو چکا تھا۔ روبوٹ چیف جسٹس نے پہلی عدالت اور اپیل کورٹ کے سوال کو دہرایا، ”مسٹر کیلتھ! کیا آپ کے پاس کچھ نئے حقائق ہیں؟“

کیلتھ نے دھیرے سے کھڑے ہو کر جواب دیا، ’’یور آنر! کوئی نئے حقائق اور ثبوت نہیں ہیں۔‘‘

یہ کہہ کر وہ فوراً بیٹھ گیا۔ ووڈس پاگل ہونے والا تھا۔ جج، جیسا کہ کیلتھ کو توقع تھی، ایک لمحے کے لیے ہچکچایا پھر اعلان کیا۔ ”یہ عدالت۔۔۔۔۔ پہلی عدالت کے فیصلے اور اپیل کورٹ کے حکم کو برقرار رکھتی ہے۔“

کیلتھ نے اپنے گلے میں ایک گرہ اٹکتی ہوئی محسوس کی، وہ دوبارہ کھڑا ہو گیا اور بولا، ”یورآنر! میں اپیل کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔“

سیکرٹری نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا اور بولنے کے لیے منہ کھولا۔ یہاں تک کہ سنتری نے بھی کچھ دلچسپی ظاہر کی۔ اس نے کبھی کسی وکیل کو ایسی بے وقوفی کی بات کرتے نہیں دیکھا تھا۔۔
تاہم، جج نے درخواست پر اتنی ہی احتیاط سے کارروائی شروع کی، جس طرح اس نے پہلے درخواست پر کی تھی۔ آخر وہ بولا، ”درخواست مسترد کی جاتی ہے۔“

کیلتھ ابھی تک کھڑا تھا، اس نے پوچھا، ”یور آنر! کس بنا پر؟“

وہ لفظ بہ لفظ سوال دہرا سکتا تھا۔ یہ قائم شدہ کلیہ سے مطابقت رکھتا تھا۔

”ایک بار جب سپریم کورٹ کا فیصلہ جاری ہو جاتا ہے، تو اپیل کرنے کی کوئی جگہ نہیں ہے، کیونکہ سپریم کورٹ سے زیادہ بااختیار کوئی عدالت نہیں ہے۔ درخواست بے معنی ہے، اپیل کے طریقہ کار کو جاری رکھنا ممکن نہیں ہے۔ اس کے بعد اپیل کو خارج کر دیا جاتا ہے۔“ جج روبوٹ نے تفصیل سے جواب دیا۔

یہ یقیناً تمام روبوٹس میں بنائے گئے پروگرام کا حصہ تھا، لیکن کیلتھ نے خطرہ مول لینے کا فیصلہ کیا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ روبوٹ جو سپریم کورٹ کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، دوسرے درجے کے اوسط ججوں سے زیادہ وسیع پیمانے پر پروگرام کیا گیا ہوگا۔ کیلتھ نے دعا کی کہ یہ پروگرام قانون کی تاریخ کا احاطہ بھی کرتا ہو۔

اس نے احتجاج کرتے ہوئے کہا، ”می لارڈ! سپریم کورٹ سے برتر عدالت بھی ہے۔ میں خدا سے اپیل کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔“

”مسٹر کیلتھ!“ عدالت کے کلرک کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ جبکہ سنتری ہنس پڑا۔

”مسٹر کیلتھ! میرے پاس اتنا ڈیٹا نہیں ہے کہ آپ کی دلیل کو سمجھ سکوں۔“جج نے کہا۔

”یور آرنر! کیا آپ خدا کے تصور سے واقف نہیں ہیں؟” کیلتھ نے پوچھا۔ اسے پسینہ آنے لگا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا یہ ممکن نہیں کہ اس مشین کو خدا کے بارے میں کوئی علم نہ ہو۔

”ہاں، یہ سب سے عام اصطلاح ہے۔“ جج روبوٹ نے کہا۔

”کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کی عزت مآب عدالتیں خدا کو سب سے اعلیٰ مانتی ہیں؟“ یہ اتنی ٹھوس بات نہیں تھی۔ کیلتھ خود کو اعتراض کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرنے لگا۔

اسے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔

”مسٹر کیلتھ! تمام قانونی معاملات میں سپریم کورٹ ہی اعلیٰ ہوتی ہے۔“

”جب کوئی عدالت، حتیٰ کہ سپریم کورٹ بھی کسی گواہ کو طلب کرتی ہے تو گواہ کے لیے لازمی ہوتا ہے کہ وہ خدائے بزرگ وبرتر کا نام لے کر حلف اٹھائے۔ اس کے بعد ریاست خدا کو فیصلے سے بالاتر رکھتی ہے، یور آنر۔ بصورتِ دیگر سپریم کورٹ یا جج کا نام لے کر حلف لیا جاتا۔“

کیلتھ اپنی دلیل کے حقیقت پسندانہ پہلو سے بخوبی واقف تھا۔ اس پر ایک انسانی جج بہت پہلے اسے توہین عدالت کے لیے جوابدہ ٹھہرا چکا ہوتا، لیکن روبوٹک جج مختلف طریقے سے بنائے گئے تھے۔ وہ صحیح دلائل اور مضحکہ خیز دلائل میں اس وقت تک تفریق نہیں کر سکتے تھے، جب تک کہ دلائل منطقی رہتے اور ان کے بیان کردہ پروگرام کے خلاف نہ ہوتے۔

کیلتھ نے ایک گہرا سانس لیا اور بولا، ”میں تجویز پیش کرتا ہوں کہ کیس کو خدا کے پاس سپریم جج کے طور پر بھیجا جائے۔ جسے ریاست نے تسلیم کیا ہوا ہے۔“

یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگیا اور انتظار کرنے لگا۔

جج نے بجلی سے چلنے والی مشین کی بامشکل محسوس ہونے والی آہٹوں کے درمیان استفسار کیا، ”مسٹر کیلتھ۔۔۔! اگر میں آپ کی درخواست پر عمل کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔ تو آپ اپیل کرنے کی تجویز کیسے کریں گے؟“

یہی وہ سوال تھا، جس سے کیلتھ سب سے زیادہ ڈرتا تھا۔اس نے تامل کیا، پھر بولا، ”چونکہ ہر انسان کو موت کے بعد اپنے رب کے سامنے پیش ہونا ہے۔“ اس نے ہنسنے کی بے قابو خواہش کو روکنے کی کوشش کی اور بات جاری رکھی، ”لہٰذا میں سزا کو ملتوی کرنے کا کہوں گا۔ جب تک میرا مؤکل اپنی مختص زندگی جی رہا ہے، سماعت روک دی جائے۔ موت کے بعد اس اپیل کی سماعت دوبارہ کی جائے اور اگر فیصلہ نافذ رہتا ہے تو اسے سزا دی جائے۔“

اس بار اس نے سانس روک لی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ ایک روبوٹ بھی یہ سب کچھ برداشت نہیں کر سکتا۔

”کیا آپ ایسے فیصلے کی کوئی نظیر پیش کر سکتے ہیں؟“جج نے پوچھا۔

وہ خود بھی اپنے وسیع ذخیرے کو کھنگال کر کسی ایسے مقدمے کی تلاش میں تھا۔ اب یہ اس پر منحصر تھا کہ اسے کس طرح پروگرام کیا گیا ہے۔

[1]”قرونِ وسطٰی میں، خدا تعالیٰ سے فیصلہ کروانا عام تھا۔“ کیلتھ نے جواب دیا۔

کمرے میں ایک منٹ تک بھاری خاموشی چھائی رہی پھر جج نے کہا، ”یہ سچ ہے، مسٹر کیلتھ، لیکن ان مقدمات میں مدعا علیہ کے جرم کا تعین جسمانی آزمائش یا دیگر ذرائع جیسے قرعہ اندازی یا پانسہ پھینک کر کیا جاتا تھا اور یہ توقع کی جاتی تھی کہ خدا حق کا ساتھ دے گا۔ مدعا علیہ کی قدرتی موت کا انتظار کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔“

کیلتھ نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے انتہائی نپے تلے لفظوں کو استعمال کرتے ہوئے کہا، ”اس صورت میں، یور آنر! میں تجویز کو تبدیل کروں گا اور پانسہ پھینک کر نظرِثانی کا مطالبہ کروں گا۔“

اس نے ووڈس کی طرف دیکھا، جو لگتا تھا کہ یہ سن کر مفلوج ہوگیا ہے۔

تقریباً ایک منٹ کے اذیت ناک وقفے کے بعد روبوٹ جج نے کہا، ”میں آپ کی درخواست پر عمل کرنے پر مجبور ہوں مسٹر کیلتھ! آپ نے جو وجوہات بیان کی ہیں، ان کی روشنی میں ایک نئی عدالت کا تقرر کیا جاتا ہے۔“

بلاشبہ، یہ ایک سٹیریو وژن کا اثر تھا کہ اُس زمانے میں بھی صحافی عجیب و غریب واقعات کا پیچھا کرتے تھے اور بڑی تعداد میں وہاں جمع ہو گئے تھے۔

اگرچہ کیلتھ نے خود اس مقدمے میں حصہ نہیں لیا تھا، لیکن اسے اپنے سٹیریو وائزر پر دلچسپی سے دیکھا۔ بدقسمتی سے سب کچھ بہت جلد ختم ہو گیا تھا۔ بہرکیف جو کچھ پیش کیا گیا۔ وہ بہت متاثر کن تھا۔ روایت کے مطابق ہڈی سے بنا پانسہ استعمال کیا گیا تھا اور ستم ظریفی یہ تھی کہ ایک روبوٹ ووڈس کے خلاف کھڑا تھا۔ اسی دوران کیلتھ کو یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اگرچہ ابھی یہ عمل جاری ہے، مگر اربابِ اختیار قانون میں نئی ترامیم لانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا، ووڈس کو ایک اضافی موقع ملا تھا اور کیلتھ نے جج سے اپیل منظور کروا کر یہ ثابت کر دیا تھا کہ ایک لچکدار انسانی ذہن کے مقابلے میں روبوٹ اب بھی کمزور ہیں۔

اگرچہ ووڈس روبوٹ سے ہار گیا تھا اور اسے فوری طور پر لیوکوٹومی کے لیے طبعی مرکز بھیجا گیا تھا، مگر اس نے کیلتھ کی جیت کے خوشگوار احساس کو کم نہیں کیا تھا۔ درحقیقت اگر یہ اس کے برعکس ہوتا تو وہ اخدا کی عزت ورحمت سے بالکل محروم ہوجاتا۔

حواشی:

[1](قرون وسطیٰ کے یورپ میں جسمانی آزمائش (Trial of ordeal) کے ذریعے مقدمے کا فیصلہ کرنا ایک عام عدالتی عمل تھا۔ جس میں ملزم کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے کسی آزمائش سے گزرنا پڑتا تھا۔ اگر ملزم بچ جاتا تو اسے بے گناہ تصور کیا جاتا، بصورتِ دیگر اسے مجرم مانا جاتا اور اس عمل کو خدا کا انصاف سمجھا جاتا تھا۔ ان آزمائشوں کی کئی قسمیں تھیں، جیسے انگاروں پر چلنا، گرم تیل کے ڈرم میں بیٹھنا، ہاتھ پیر باندھ کر ٹھنڈے پانی میں ڈال دینا۔ وغیرہ۔ اس کی ایک اور صورت قرعہ اندازی کرنا یا پانسہ پھینک کر فیصلہ کرنا بھی تھا۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close