ایک بھارتی عدالت نے قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کو ملک میں ’مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم‘ پر مبنی دستاویزی فلم نشر یا جاری کرنے سے روک دیا ہے، جو انتہا پسند ہندو جماعتوں کے متشدد کردار کا پردہ چاک کرتی ہے
دستاویزی فلم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) جیسے ہندو قوم پرست گروپوں کی سرگرمیوں کی چھان بین کرتی ہے، جو بھارت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے قریبی تعلق رکھتی ہے۔ یہ فلم نفرت انگیز تقاریر اور ہندوتوا رہنماؤں کے حملوں کی روشنی میں ہندوستان کی مسلم اقلیت کو درپیش چیلنجوں کی تصویر کشی کرتی ہے
بھارتی نیوز ویب سائٹ دی وائر پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق الہٰ آباد ہائی کورٹ نے دوحہ میں قائم نیوز نیٹ ورک کو ’بھارت… کس نے فیوز روشن کیا؟‘ کے عنوان سے نیوز دستاویزی فلم جاری کرنے سے روکا
رپورٹ میں کہا گیا ”ہائی کورٹ نے زیر بحث فلم کے ٹیلی کاسٹ یا نشر ہونے سے نکلنے والے ممکنہ برے نتائج پر غور کرتے ہوئے زیر التوا ٹیلی کاسٹ کی درخواست کو مؤخر کر دیا“
رپورٹ کے مطابق درخواست سدھیر کمار کی جانب سے دائر کی گئی تھی اور الزام لگایا گیا تھا کہ دستاویزی فلم ’ممکنہ طور پر مختلف مذہبی فرقوں کے درمیان نفرت پیدا کر سکتی ہے اور یوں بھارتی ریاست کے سیکولر تانے بانے کو تباہ کر سکتی ہے‘
دی وائر نے رپورٹ کیا کہ عدالت نے مرکزی حکومت اور اس کے تحت تشکیل دی گئی اتھارٹیز کو ہدایت کی ہے کہ ’قانون کے مطابق مناسب اقدامات کریں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ فلم کو ٹیلی کاسٹ/براڈکاسٹ کرنے کی اجازت نہ دی جائے جب تک کہ حکام اس کے مواد کی جانچ اور اس مقصد کے لیے مجاز اتھارٹی سے ضروری سرٹیفیکیشن/ اجازت حاصل نہ کرلی جائے
عدالت نے نشاندہی کی کہ عدالت میں الجزیرہ کی نمائندگی نہیں کی گئی اور یہ فلم دیکھنے کے لیے دستیاب نہیں تھی، اس نے درخواست گزار کو ہدایت کی کہ وہ رجسٹرڈ/اسپیڈ پوسٹ کے ذریعے الجزیرہ کی خدمت کے لیے اڑتالیس گھنٹوں کے اندر اقدامات کرے اور رٹ پٹیشن کی سماعت کے لیے 6 جولائی کی تاریخ مقرر کی ہے
دریں اثنا الجزیرہ نے دستاویزی فلم کو ’ملک میں آر ایس ایس ہندو انتہا پسند گروپوں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم پر ایک تحقیقاتی فلم‘ قرار دیا ہے
واضح رہے کہ آر ایس ایس، ایک خفیہ ملیشیا گروپ جس کے پورے ہندوستان میں لاکھوں ارکان ہیں، جرمنی میں نازیوں سے متاثر تھے۔ 1925 میں تشکیل دی گئی، اس کا مقصد آئینی طور پر سیکولر ہندوستان سے ایک نسلی ہندو ریاست بنانا ہے
اس گروپ پر 1948 میں مختصر طور پر پابندی عائد کر دی گئی تھی جب اس کے ایک مشتبہ ممبر نے انگریزوں سے ہندوستان کی تحریک آزادی کے رہنما مہاتما گاندھی کو قتل کر دیا تھا
الجزیرہ کی دستاویزی فلم میں آر ایس ایس سے منحرف ہونے والے کا انٹرویو دکھایا گیا ہے، جو آر ایس ایس کے کیمپوں میں اپنے تربیتی سیشنوں کی سرد خانے میں پڑی خفیہ تفصیلات ظاہر کرتا ہے، جس کی مبینہ طور پر ہندوستانی فوج کے ارکان نے نگرانی کی تھی
اس فلم میں بی جے پی کی حکومت والی شمال مشرقی ریاست آسام میں تقریباً سات لاکھ مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور انہیں نشانہ بنانے کو بھی دکھایا گیا ہے۔ 2019 میں شہریت کے قانون کی منظوری کے بعد سے، آسام میں بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو اپنی قومیت کھونے اور پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں جلاوطن کیے جانے کا خدشہ ہے
الجزیرہ کی تحقیقات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ متعدد ہندوستانی ریاستوں میں مسلمانوں کی جائیدادوں کو مسمار کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر مہم چلائی جا رہی ہے۔ ان مہمات میں گھروں اور کاروبار کو توڑنا شامل ہے، جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ہندوستان کی مسلم اقلیت کو معاشی اور سماجی طور پر محروم کرنے کی کوشش ہے
بی جے پی کے ایک ترجمان نے دستاویزی فلم میں لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت ہندو اکثریتی ملک میں ’قانون کی حکمرانی کے لیے پرعزم ہے‘ اور جن افراد پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا الزام ہے، انہیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا
انہوں نے آر ایس ایس کا دفاع کرتے ہوئے اسے غیر امتیازی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ تمام پس منظر سے تعلق رکھنے والے ہندوستانیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہی ہے، بشمول مسلمان، عیسائی، قبائلی لوگ اور تاریخی طور پر پسماندہ گروہ جیسے دلت
الجزیرہ کی دستاویزی فلم کے خلاف یہ اقدام بی بی سی کی ایک فلم پر لگائی گئی اسی طرح کی پابندی کے بعد کیا گیا ہے، جس میں مودی کے کردار پر سوال اٹھایا گیا تھا، جب وہ ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے، جہاں 2002 میں فسادات کے دوران ایک ہزار سے زیادہ مسلمان مارے گئے تھے۔ کارکنوں کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی اصل تعداد دو گنا ہے
جنوری میں بی بی سی کی فلم پر پابندی کے بعد سے، نئی دہلی اور ممبئی میں اس کے دفاتر پر چھاپے مارے گئے، اور بھارتی حکام نے برطانیہ میں مقیم نیٹ ورک پر ٹیکس کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا۔ بی بی سی نے ان الزامات کی تردید کی اور کہا کہ وہ اپنی دو حصوں پر مشتمل فلم میں بیان کردہ حقائق پر قائم ہے۔