جب آپ ماحولیاتی بحران کے بارے میں سوچتے ہیں تو ذہن میں کیا آتا ہے؟
مستقبل کی دہائیوں میں بنجر اور بے آب و گیاہ زمینیں؟ ہزاروں میل دور پگھلی ہوئی برف، جس پر کوئی قطبی ریچھ دکھائی نہیں دیتا؟
شاید بہت سے لوگوں کی طرح آپ کے تصور میں سیاہ رنگ کا پردہ آتا ہے۔ دنیا کا یقینی خاتمہ، جہاں کچھ بھی باقی نہیں بچا۔
کئی دہائیوں تک خطرے کی گھنٹی والی شہ سرخیوں اور ماحول کے بارے میں ناقص انداز میں پہنچائے گئے پیغامات نے رائے میں غلط تقسیم پیدا کی، جس سے ایسا لگتا ہے کہ ہم مستقبل کو صرف مکمل طور پر درست یا اس حد تک تباہ شدہ سمجھنے کے قابل ہیں کہ جسے پہچانا نہ جا سکے
ماحول کے بارے میں رپورٹنگ کا انحصار عالمی درجہ حرارت کے ناقابل رسائی اعداد و شمار پر ہے، یعنی جو لوگ سائنسدان نہیں ہیں، وہ واقعی نہیں سمجھتے۔ وہ یہ بتانے میں غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ ان اعداد و شمار کا حقیقت میں انسانوں پر کیا اثر ہوگا؟ ذرائع ابلاغ جو کچھ پیش کرتے ہیں، اس پر ناقابل فہم اعداد و شمار کا غلبہ ہے۔ کوئی کوشش نہیں کی جاتی کہ عملی طور پر اس کا اصل مطلب کیا ہے؟
اس حقیقت کے باوجود کہ ہمارے ارد گرد ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ حقیقت میں ماحول کس طرح دکھائی دیتا ہے۔ حال ہی میں کینیڈا کے جنگلات میں لگنے والی آگ، جس سے نیویارک تک جانے والے دھوئیں کے بادل اٹھتے دکھائی دیے، تازہ ترین اور چونکا دینے والا واقعہ ہے۔
لہٰذا اگر آپ یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ موسمیاتی بحران کیسا لگتا ہے تو آپ اکیلے نہیں ہیں۔ ہمارے آس پاس موجود زیادہ تر معلومات کی بدولت یہ ماننا آسان ہوگا کہ موسمیاتی بحران دنیا کو بس روک دے گا
اس ’تمام یا کچھ بھی نہیں‘ کی سوچ سے دو نمایاں مکاتبِ فکر ابھر کر سامنے آئے ہیں، جو ماحول سے متعلق شکوک و شبہات پر حاوی ہیں۔
بات کرنے کا پہلا نقطہ ماحول کی تباہی سے انکار کرنے والوں سے منسوب ہے، جن کا استدلال ہے کہ ’لوگ کئی دہائیوں سے موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور پھر بھی ہم اب تک ٹھیک ہیں۔‘ اس لیے وہ ماحولیاتی بحران کے امکان کو یکسر مسترد کرتے ہیں
تاہم دوسرا نقطہ نظر ان لوگوں کا ہے کہ ماحول کی تباہی طے شدہ ہے۔ وہ موسمیاتی بحران پر مکمل یقین رکھتے ہیں لیکن یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے قطع نظر کہ کچھ بھی ہو، دنیا تباہی کا شکار ہو جائے گی، اس لیے وہ ماحول کو بچانے میں کردار ادا نہیں کر رہے اور نہ ہی اس معاملے میں معاونت کر رہے ہیں
اگرچہ ہو سکتا ہے کہ یہ گروپ اپنے درمیان مکمل اختلاف دیکھتے ہوں لیکن ان دونوں کی حالت بالآخر بحران کے وقت غیر فعال ہونے کے مترادف ہے اور ایسا کیوں ہے، وہ ماحول کے بارے میں اطلاعات فراہم کرنے کے حوالے سے ہماری حالت کو دیکھنے سے آسانی سے پتہ چل جاتا ہے۔
کئی دہائیوں سے ذرائع ابلاغ ہمیں مسلسل بتا رہے ہیں کہ دنیا ختم ہونے والی ہے۔ اس صورت حال نے ہمیں ایک ایسے معاشرے میں لا کھڑا کیا ہے، جسے کوئی اندازہ نہیں کہ اسے کس صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اگر ہم واقعی موسمیاتی بحران کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ لوگ حقیقت میں جان لیں کہ یہ کیا ہے۔ ہمیں اس ضمن میں پیغامات کو صرف اعداد و شمار اور سائنس سے آزاد کرنے کی ضرورت ہے اور ان کی بنیاد ان اسٹوریوں پر رکھنی ہوگی، جو لوگوں کو حقیقت کے بارے میں بتا سکیں۔
یہ کام ایسے ذرائع کے توسط سے ہونا چاہیے جنہیں لوگوں کے درمیان مرکزی حیثیت حاصل ہے، چاہے وہ فکشن ہو، تھیٹر ہو یا دوسرے فنون لطیفہ اور پہلے سے ہی اگلے محاذ پر موجود لوگوں کے ساتھ بات کرنا۔
شہ سرخیوں کے باوجود، دنیا آسانی سے نہیں بدلے گی۔
یہ سچ ہے کہ موسمیاتی بحران کی وجہ سے ہمارا واسطہ خوفناک حالات سے پڑے گا، اگرچہ ہمارا واسطہ پہلے بھی پڑ چکا ہے، لیکن ہم پھر بھی ابھی تک زندہ ہیں۔
ہم چاہے خود کو اس لیے بری الذمہ سمجھیں کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جس سے نمٹنے کے لیے ہم موجود ہی نہیں ہوں گے، اس کے باوجود ماحولیاتی بحران ایک ایسی حقیقت ہے، جس کا ہم سب کو سامنا کرنا پڑے گا۔
پاکستان میں سیلاب سے لے کر چلی کے جنگلات کی آگ اور پوری دنیا میں ہیٹ ویو تک، لوگ موسمیاتی آفات میں زندگی گزار رہے ہیں اور کمیونٹی اور ایک دوسرے کی مدد سے گزارتے رہیں گے۔
یہ حقیقت ہے کہ اگر ہم نے موسمیاتی بحران کی ضرورت کے مطابق فوری طور ردعمل نہ دیا تو تباہی کے ذمہ دار ہم خود ہوں گے، لیکن یہ سب کچھ اچانک ختم نہیں ہوگا۔
موسمیاتی تباہی میں ایسا لگے گا کہ صحت عامہ کے بحرانوں کا ایک سلسلہ ہے۔ خوراک کی قلت، بڑے پیمانے پر نقل مکانی، بڑے پیمانے پر خلل اور بہت کچھ، لیکن ان میں اربوں لوگ کمیونٹی کیئر کے باعث بچ بھی جائیں گے، جس طرح کہ انسان تاریخ کے ہر بحران میں سے بچ نکلا ہے۔
ہمارے پاس اب بھی وقت ہے کہ موسمیاتی بحران کے بدترین اثرات کم کریں اور ہر کوئی اس میں کردار ادا کر سکتا ہے۔
چاہے جو بھی ہو، ہم سب کو اس کا سامنا کرنا پڑے گا، ہم میں سے کچھ پہلے ہی اس کا سامنا کر رہے ہیں۔
موسمیاتی ہنگامی صورت حال میں زندہ رہنا ہی کلائیمٹ ایکشن ہے اور اگر کچھ بھی اور نہ ہو تو ہم ایک دوسرے کا خیال رکھ کر بھی زندہ بچ جائیں گے۔
مشکلات چاہے کتنی بھی ہوں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، آخر ختم ہو ہی جاتی ہیں۔
بشکریہ: دا انڈپینڈنٹ
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)