”میرے دوست؛ قدیم دور میں میرے اس بالائی خطے میں پل (برج) نہ تھے۔ مسافر، مقامی لوگ اور جانور تیر کر یا پیدل ہی مجھے عبور کرتے تھے۔ پھسلتے پتھروں اور تند و تیز لہروں میں مجھے پار کرنا جان جوکھوں کا کام تھا۔ خچر، یاک اور ٹٹو طاقت ور تیراک ہیں۔ آدمی ان کی دم پکڑ کر آر پار جایا کرتے تھے، شاید آج بھی اکا دکا لوگ ایسے ہی دریا پار کرتے ہوں۔ مسافر کی نظر دو باتوں پر ہوتی تھی، ڈاکوؤں کی آمد یا آنے والے گاؤں پر۔۔ اس بلند ترین سطح مرتفع پر شاید ہی کوئی گاؤں ایسا ہو جو سارا سال آباد رہتا ہے۔ (شدید سرد موسم میں لوگ نقل مکانی کر جاتے ہیں۔) عموماً ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کا اوسط درمیانی فاصلہ پچیس (25) میل ہے۔ کچی جھونپڑیوں پر مشتمل دیہات میرے کنارے زمین کے قابلِ کاشت ٹکڑوں کے گرد آباد ہیں۔ تاجر آرام کے لئے یہاں رکتے ہیں، گاؤں والوں کو کچھ خدمت یعنی رقم وغیرہ بھی دے جاتے ہیں تاکہ ان راستوں کو کھلا رکھنے میں مشکل نہ ہو۔ چین اور شمالی تبت سے تاجر ریشم، نمدے، چائے، نمک، پشم، قالین، فیروزے اور زمرد جیسے قیمتی پتھر لاتے جبکہ ہندوستان سے مصالحے، کپڑے اور بیڑی (سگریٹ) لاتے تھے۔ مغربی تبت دنیا کی بہترین، نرم اور ہلکی اون کے لئے مشہور ہے۔ اس اون سے کشمیری نورباف صدیوں سے شاندار شالیں اور سکارف بنتے آئے ہیں۔ مانسرور کے نزدیک دنیا کی بہترین چراگاہیں سرد موسم میں برف جم جانے سے اجاڑ اور ویران ہو جاتی ہیں تب یہ بلند و بالا وادی موسمِ بہار کا انتظار کرتی ہے، جب زندگی اپنے پورے جوبن پر واپس لوٹتی ہے۔ سردی کے موسم میں چرواہے اس دریائی وادی کو اپنا مسکن بناتے ہیں، اپنے ریوڑ منظم کرتے موسم بہار کا انتظار کرتے ہیں۔ جیسے ہی وادی میں پالے اور ہوا کی خنکی کم ہوتی ہے یہ خانہ بدوش اپنے خاندان اکٹھا کر کے رختِ سفر باندھ کر پھر سے ان پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں۔ سب سے آگے لڑکے ہوتے ہیں جو پتھریلے راستوں پر ڈگمگاتے ریوڑ ہانکتے ہیں۔ ان کے پیچھے آدمی ہوتے ہیں جو خیموں سے لدے یاک اور خچر ہانکتے ہیں اور آخر میں خواتین کھانے پینے کی اشیاء اٹھائے چاندی، گھونگھوں یا زمرد سے بنے ہار اور گلوبند پہنے شوخ رنگ کی شالوں میں چھوٹے بچوں کو کمر سے لٹکائے چلتی ہیں۔ یہ مشکل اور خطرناک سفر ہے۔ وادی سے شروع ہو کر یہ ٹیڑھے میڑھے راستے اوپر نیچے جاتے، عمودی کھائیوں، مٹی اور برفانی تودوں کے بیچ سے گزرتے ہیں۔ یہ خانہ بدوش منزل پر پہنچ کر ہی چین پاتے ہیں جہاں ان کے پاس آرام کرنے اور آگ کے قریب بیٹھ کر گپ شپ لگانے کو بہت وقت میسر ہوتا ہے
”دوست؛ ان خانہ بدوشوں کی زندگی یاک کے بالوں سے تیار کردہ خیمے لگانے، اکھاڑنے، ریوڑوں کی دیکھ بھال کرنے یا پھر یہ سب کچھ سمیٹ کر نقل مکانی کرنے میں گزر جاتی ہے۔ ان کو ڈاکوؤں کا خوف بھی ہوتا ہے مگر ان کے اعلیٰ ”گدی“ نسل کے خونخوار کتے انہیں اجنبیوں اور ڈاکوؤں سے محفوظ رکھتے ہیں۔ یہ ڈاکوؤں اور اجنبیوں کو ان کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتے ہیں۔ گرم موسم میں بھی ان بلندیوں پر ٹھنڈ ہی ہوتی ہے لہٰذا مرد اور عورتیں پشم اور بھیڑ کی کھال کے بنے لمبے کوٹ پہنتے ہیں۔ کھانا پکاتی عورتیں کمر تک ننگی بے پرواہی سے اپنا کام کرتی ہیں۔ یہ لوگ اپنے کپڑے شاید ہی تبدیل کرتے ہیں۔ کہیں کہیں پائے جانے والے گرم پانی کے چشموں پر نہاتے ہوئے بھی اپنے کپڑے کم ہی دھوتے ہیں۔ خواتین اپنے چہروں کو دھوپ اور ٹھنڈی ہوا سے بچانے کے لئے کالے بیجوں سے تیار کردہ ”بیلا ڈونا بیریز“ کا پِیلا رس مَلتی ہیں۔ اس سے چہرے کی جلد خراب نہیں ہوتی۔ (عورت خواہ کسی بھی ملک کی ہو اپنے زیب و آرائش کا خیال ضرور رکھتی ہے) ان کی اہم خوراک ’تسامپا‘ یا بھنے چنے ہیں۔ دودھ، مکھن اور پنیر انہیں اپنے ریوڑوں سے مل جاتا ہے۔ گزرتے تاجروں سے یہ چائے حاصل کر لیتے ہیں اور سوڈے اور بساند شدہ مکھن کو ملا کے یہ اپنے لئے مسرت بخش مشروب تیار کرتے ہیں۔ گوشت تو ان کے لئے سوغات ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ ایندھن کا ہے جو یاک کے گوبر کو خشک (پنجابی زبان میں پاتھیاں جو گائے بھینس کے گوبر کو خشک کرکے جلانے کے کام آتی ہیں اور آج بھی پنجاب کے دیہاتوں میں کھانا پکاتے وقت بطور ایندھن استعمال کی جاتی ہیں) کر کے جلاتے ہیں
”میرے بالائی علاقے کی معاشیات کا زیاد تر انحصار یاک پر ہے۔ اس کے بالوں سے خانہ بدوش اپنے لئے خیمے اور بچھونے تیار کرتے ہیں۔ اس کا گوبر ایندھن مہیا کرتا ہے۔ گاڑھا دودھ مکھن، گھی چائے بنانے کے کام آتا ہے جبکہ چربی سے چراغ روشن کئے جاتے ہیں۔ اس کی کھال زین (گھوڑے کی پشت پر ڈالنے کے لئے چمڑے کی بنی گدی) بیگ اور چمڑے کی چھوٹی کشتیاں بنانے کے کام آتی ہے۔ اس کی لمبی دم آرائش اور مقبروں پر چڑھاوے کے لئے پسند کی جاتی ہے۔ شہنشاہ چنگیز خاں کا ذاتی نشان یاک کی نو (9) دُموں سے بنا تھا۔یہ انمول جانور ہے۔ قد عموماً 6 فٹ، سینگ نیم گول، جلد موٹی اور گُندھی ہوتی ہے جبکہ بال دو فٹ تک لمبے۔ بے پناہ طاقت، قوتِ برداشت، بار برداری، پہاڑی راستوں کا جِبلی علم اور چلنے کی قوت، انہی خصوصیات کی وجہ سے برفیلے پہاڑوں کا یہ بادشاہ نہایت غصیلا اور خچر کی طرح ضدی بھی ہے۔ تبتی اسے سدھاتے ہیں اور اس کے غصے اور ضدی پن کی وجہ سے اس کا خیال بھی کرتے ہیں۔“
میں ہمہ تن گوش اپنے دوست اپنے داستان گو سندھوکی باتین سن اور نوٹ کر رہا ہوں۔
”میرے دوست؛ تم اپنے پڑھنے والوں کو بتاؤ! یہاں کے نظارے ناقابلِ فراموش ہیں۔ آس پاس بکھرے قدرت کے رنگ آنکھوں کو سحر زدہ کرتے ہیں۔ میراشفاف پانی، ہرے بھرے کھیت، بہار کی نئی کونپلیں، سفید چمکتی برف پوش چوٹیاں، ٹھنڈی نرم و لطیف ہوا، گنگناتی آبشاریں، گاتے جھرنے، سرسبز وادیاں اپنے اندر ازلی حسن سموئے ہیں۔ پہاڑوں کا حسن ناقابلِ بیان ہے البتہ میرے کنارے خالی پڑی پتھر کی بے ترتیب جھونپڑیاں خانہ بدوشوں کی راہ تک رہی ہیں۔“
وہ چپ ہوا اور کچھ لمحوں کے بعد بولنے لگا؛ ”لو میں اب ’تاشی گانگ‘ پہنچا ہوں۔“ یہ سن کر میں بول پڑا؛ ”تم اکیلے نہیں ہو میں بھی تمھارے ساتھ ہوں لہٰذا کہو کہ ہم تاشی گانگ پہنچے ہیں۔“ میری بات سن کر سندھو مسکرایا اور کہنے لگا؛ ”اوہ شہزاد جی! معاف کرنا۔ تم نے ٹھیک کہا، ہم تاشی گانگ پہنچے ہیں۔“ اور اپنی بات کو آگے بڑھاتے بولا؛ ”یار! تاشی گانگ میرے اور کارتک ندی کے عین نیچے واقع ہے۔ یہاں دونوں دریا بہاؤ کے حساب سے تقریباً ایک جیسے ہی ہیں۔ میرے شمال میں قراقرم اور جنوب میں ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے ہیں۔ ’وادیِ نیبرا‘ کے قریب سیاچن گلشیئر کے پانیوں سے نکلنے والی ’نیبرا ندی‘ مجھ میں گرتی ہے۔ یہاں تک میں تقریباً چار سو پچاس (450) کلو میٹر کی لمبائی اختیار کر لیتا ہوں۔ تم اگر مجھے سکردو، گلگت، ہمالیہ، قراقرم، ہندوکش کے پہاڑوں، پنجاب اور سندھ کے میدانوں میں بہتا دیکھو تو یقین نہیں کرو گے کہ میں وہی سندھو ہوں جسے تم نے تاشی گانگ کے پاس کارتک ندی کے سنگم پر بہتے دیکھا تھا۔ اس سنگم سے آگے میرا ہی نام باقی رہے گا جبکہ کارتک ندی کی کہانی یہاں ختم۔ کارتک میں باہم ملنے کے بعد میں لداخ کا رخ کرتا مقبوضہ کشمیر اور پھر وہاں سے ”بٹالک سیکٹر“ سے گزرتا مرول ٹاپ سے پاکستان میں داخل ہوتا ہوں۔ کارتک دنیا کا بلند ترین قصبہ، اون کی مشہور منڈی اور علاقے کا انتظامی مرکز بھی ہے۔ تبت کی وادیوں میں بہتا، پہاڑی چٹانوں کی گہرائی سے ٹکراتا لداخی سرحد کے قریب پہنچ کر اونچے پہاڑوں کے قریب سے بہتا ہوں، میرا پاتال نیچے کو ڈھلنے لگتا ہے اور میں شمال کا رخ کرتا ہوں۔ یہیں سے میرے اور پہاڑوں کے بیچ معرکے کا جو آغاز ہوتا ہے وہ کالا باغ تک جاری رہتا ہے۔ عمودی چٹانوں کے دامن میں اپنا راستہ تراشتا ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑوں کے درمیان ایک گہری کھائی میں بہتا ہوں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں یہ دونوں عظیم الشان پہاڑی سلسلے سطح مرتفع پامیر کے قریب آتے ہیں۔ اگلے تین سو پچاس(350) میل کے سفر میں میں تقریباً دو ہزار فٹ گہرائی میں بہتا ہوں۔ دونوں جانب سے بے شمار معاون ندی، نالے اور چشمے آ کر مجھ میں ملتے ہیں۔“ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے.
-
سندھو سلطنت: دریائے سندھ کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط: 1)
-
سندھو سلطنت: دریائے سندھ کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط 7)