روسی واگنر گروپ کے سربراہ نے ملکی وزارت دفاع کے خلاف مسلح بغاوت شروع کر دی ہے، جس کے بعد روس ميں داخلی سطح پر شديد بحران پيدا ہونے کے بعد تازہ ترین پیش رفت میں روسی محکمہ دفاع کریملن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ملک میں جاری بحران کے خاتمے کے لیے یوکرین میں جنگ لڑنے والی نجی فوج ویگنر گروپ کے سربراہ ایوگنی پریگوزن روس چھوڑ کر بیلا روس منتقل ہو جائیں گے۔ دمتری پیسکوف نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا ”پریگوزن کے خلاف مقدمات دائر نہیں کیے جائیں گے اور وہ خود بیلاروس چلے جائیں گے۔ ویگنر گروپ کے وہ افراد جو ہفتے کو سامنے آنے والی مسلح بغاوت کا حصہ بنے تھے، ان کے خلاف بھی قانونی کارروائی نہیں کی جائے گی
روس اور ویگنر گروپ میں اختلافات کی خبریں سامنے آنے پر اس کے جنگی مدمقابل یوکرین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ٹھی، لیکن اس تمام صورت حال میں ایک ڈرامائی موڑ اس وقت آیا جب ویگنر گروپ کے سربرا ایوگنی پریگوزن نے اپنی فوج کو واپس بلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ روسی دارالحکومت میں خون بہانے سے بچنے کے لیے اپنی فوج کو واپس کیمپس کی جانب لے کر جا رہے ہیں
یوکرین میں روس کے لیے کئی محاذ فتح کرنے والے گروپ کے سربراہ نے کہا کہ وہ اس وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہیں اور روسی خون بہانا نہیں چاہتے
ٹوئٹر پر گردش کرنے والے ایک ویڈیو کلپ میں دکھایا گیا ہے کہ ویگنر گروہ کے جنگجوؤں نے روس کا جنوبی شہر روسٹوو کا قبضہ چھوڑ دیا ہے اور وہ وہاں سے نکلتے ہوئے ہوائی فائرنگ کر رہے ہیں
جنوبی خطے روستوف کے گورنر نے بھی تصدیق کی ہے کہ ویگنر گروپ کے جنگجوؤں نے فوجی ہیڈکوارٹر خالی کر دیا ہے
ویگنر اور محکمہ دفاع حکام کے درمیان اختلافات کے باعث پیدا ہونے والے اس بحران کو ٹالنے میں بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے اہم کردار ادا کیا ہےن ایوگنی پریگوزن سے ان کے کامیاب مذاکرات کے بعد روسی حکومت نے ان کا شکریہ ادا کیا ہے
ویگنر گروپ کے جنگجوؤں کے جنوبی فوجی مرکز پر قبضہ کرنے کے بعد روسی صدر کے اہم اتحادی اور چیچنیا کے رہنما رمضان قادروف نے اس بغاوت کو کچلنے کے لیے اپنے دستے روانہ کرنے کا اعلان کیا تھا
دوسری جانب یوکرینی صدر کے مشیر میخائیلو پودولیاک نے ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں کہا ’ایوگنی پریگوزن نے روسی صدر پوتن کو بے عزت کر دیا اور یہ ثابت کر دیا کہ روس کی ریاست میں تشدد پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے۔‘
قبل ازیں روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے بغاوت کرنے والے ویگنر نامی کرائے کے عسکری گروپ کو ’غدار‘ قرار دیتے ہوئے اسے سزا دینے کے عزم کا اظہار کیا تھا، جب کہ گروپ کے سربراہ نے ماسکو کی فوجی قیادت کو گرانے کا عہد کیا
روسی صدر ولاديمير پوٹن نے بغاوت کو کچلنے کے احکامات جاری کیے تھے۔ دارالحکومت ماسکو اور اس کے آس پاس کے علاقوں ميں انسداد دہشت گردی سے نمٹنے کے ليے ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی تھی۔ يوکرين کی سرحد سے قريب روس کے جنوب مغربی علاقوں ميں بھی ايمرجنسی نافذ ہے۔ پوٹن نے واگنر گروپ کے ان ارکان کو سخت نتائج کی دھمکی تھی، جو گروپ کے سربراہ یوگينی پريگوزن کے ايما پر ‘مسلح بغاوت‘ ميں شامل ہيں
روس ميں تیزی سے بڑھتے ہوئے واقعات روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی طویل حکمرانی کے لیے ابھی تک کے سب سے سنگین چیلنج کی نشاندہی کرتے ہیں
ویگنر کے باسٹھ سالہ سربراہ یوگینی پریگوزن نے روس کے جنوبی شہر روستوف آن ڈان میں روسی فوجی تنصیبات کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ یہ شہر یوکرین کی سرحد کے قریب ہے۔ ویگنر گروپ میں شامل فوجی جنگجو جدید اسلحہ سے لیس ہیں، جو روستوف شہر کے بعد دیگر شہروں کی جانب پیش قدمی کر رہے تھے
ویگنر گروپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ روس کے کرائے کے فوجیوں پر مشتمل ایک نجی فوج ہے، جو روس کی مشرقی یوکرین میں جنگ کی قیادت کر رہا ہے، لیکن یوکرین جنگ سے متعلق اس گروپ کا روسی فوج کے ساتھ تناؤ بڑھتا جا رہا ہے
ویگنر گروپ یوکرین کے شہر باخموت پر قبضے کے لیے مہینوں تک جاری رہنے والے حملوں میں پیش پیش رہا ہے اور اس گروپ نے بھاری نقصان اٹھانے کے بعد روس کے لیے اس شہر پر قبضہ بھی کیا تھا
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ویگنر گروپ مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں تنازعات میں ملوث رہا ہے، لیکن اس نے ہمیشہ ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ اس گروپ کے سربراہ پریگوزن نے گزشتہ سال اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے اس گروپ کی بنیاد رکھی تھی اور عام معافی کے بدلے روسی جیلوں سے فوجیوں کو بھرتی کیا تھا
معاملہ ہے کيا اور کيسے شروع ہوا؟
گزشتہ شب روسی واگنر گروپ کے سربراہ یو گینی پریگوزن نے روسی عسکری قيادت کے خلاف لڑائی کا اعلان کر ديا تھا۔ پريگوزن کا دعویٰ ہے کہ روسی وزارت دفاع، واگنر گروپ کے فائٹرز کو نشانہ بنا رہی ہے۔ انہوں نے ہفتے کی صبح دعویٰ کيا ہے کہ واگنر گروپ کے ارکان نے جنوبی روسی شہر روسٹوو ون ڈون ميں کئی اہم عسکری تنصيبات پر کنٹرول حاصل کر ليا ہے۔ پوٹن نے بھی اپنی تقرير ميں يوکرين کی سرحد کے قريب واقع اس شہر پر واگنر گروپ کے فائٹرز کے قبضے کی تصديق کر دی ہے۔ واگنر گروپ کے سربراہ نے روس کے جنوب ميں فوجی ہيڈکوارٹر پر قبضے کا دعویٰ بھی کيا ہے
ویگنر گروپ نے روس میں بغاوت کیوں کی؟ اس کی اب تک دستیاب تفصیلات کچھ یوں ہیں۔ ویگنر گروپ کے سربراہ پریگوزن گزشتہ کئی مہینوں سے فوج کے اعلیٰ افسروں کے ساتھ اقتدار کی کشمکش میں الجھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اعلیٰ روسی قیادت کو مشرقی یوکرین میں اپنے فوجیوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے
پریگوزن نے بار بار روس کی فوجی قیادت پر الزام لگایا ہے کہ وہ ویگنر گروپ کی فتوحات کو اپنی فتوحات کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اپنی نجی فوج کو مناسب طریقے سے لیس کرنے اور بیوروکریسی کے ساتھ پیشرفت کو برقرار رکھنے میں ناکام رہے ہیں
پریگوزن نے جمعے کو روس کی فوجی قیادت پر الزام لگایا تھا کہ اس نے ویگنر کے کیمپوں پر حملوں کا حکم دیا اور بڑی تعداد میں اہلکاروں کو ہلاک کیا
پریگوزن کا کہنا ہے کہ روسی فوج کو روکنا ہوگا اور اس کے لیے انہوں نے آخری حد تک جانے کا عزم کیا ہے۔ انہوں نے روسی فوجی ہیلی کاپٹر کو مار گرانے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔
ماسکو کا ردعمل
ویگنر گروپ کی کارروائی کے فوری بعد کریملن نے اعلان کیا تھا کہ بغاوت کے خلاف اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ روس نے ماسکو، روستوف اور لپیٹسک جیسے کئی علاقوں میں سکیورٹی سخت کر دی ہے
صدر پوٹن نے ویگنر کی بغاوت کو روس کے لیے ایک "مہلک خطرہ” قرار دیا ہے اور ملک سے متحد ہونے کی اپیل کی ہے
یوگینی پریگوزن کون ہیں؟
یوکرین پر روس کے حملے میں یوگینی پریگوزِن ایک اہم کردار کے طور پر ابھرے۔ وہ اس جنگ میں اہم علاقوں پر روسی حملے کی قیادت کرنے والے کرائے کے جنگجوؤں کی ایک نجی فوج کے انچارج ہیں۔ ان کی روسی صدر پوٹن کے ’باورچی‘ سے ان کا مخالف بننے تک کی کہانی پر نظر دوڑاتے ہیں
روسی صدر کے سابق باورچی یوگینی پریگوزن اب ان کے خلاف باقاعدہ ہتھیار اٹھا کر میدان میں نکل آئے ہیں۔ انھوں نے روس کے اندر ’مسلح بغاوت‘ کا آغاز کر دیا ہے۔ انھوں نے اپنی نجی فوج کو روس کی اہم عسکری تنصیبات پر قبضہ کرنے کا حکم دیا ہے
روس کی جانب سے ویگنر پر ’مسلح بغاوت‘ کے الزامات اور جمعے کی رات سے روسی فوجیوں اور ویگنر جنگجوؤں میں کشیدگی کے بعد صدر ولادیمیر پوٹن کا کہنا ہے کہ روس کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے، انھوں نے باغیوں کی کارروائیوں کو پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیا ہے
ویگنر گروپ کے سربراہ یوگینی پریگوزن کا ذکر کیے بغیر صدر پوٹن کا کہنا ہے کہ کچھ لوگوں کے ’عزائم‘ ’غداری‘ کا باعث بنے ہیں
یوگینی پریگوزن روسی جیلوں کے لیے کوئی اجنبی نہیں، کیونکہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی پرائیویٹ فوجی کمپنی ویگنر گروپ کے لیے ہزاروں سزا یافتہ مجرموں کو جیل سے بھرتی کیا۔ اگر یہ قیدی یوکرین میں لڑنے کے لیے تیار ہیں تو ان کے جرائم چاہے کتنے ہی سنگین کیوں نہ ہوں، اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا
دوسری عالمی جنگ کے بعد روس کی جانب سے یورپ کا بدترین مسلح تصادم شروع کے جانے سے قبل پریگوزن پر امریکی انتخابات میں مداخلت اور افریقہ میں روسی اثر و رسوخ کو بڑھانے کا الزام بھی تھا
آخر اس طرح کی شروعات کرنے والے ایک شخص نے اتنا اثر و رسوخ کیسے حاصل کیا اور وہ کیسے باورچی سے اب روسی صدر پوٹن کے صف اول کے مخالف بن گئے ہیں؟
یوگینی پریگوزن کا تعلق ولادیمیر پوٹن کے آبائی شہر سینٹ پیٹرزبرگ سے ہے۔ سنہ 1979 میں انہیں پہلی بار کسی جرم کے لیے سزا سنائی گئی۔ اس وقت ان کی عمر صرف اٹھارہ سال تھی اور انہیں چوری کے الزام میں ڈھائی سال کی سزا سنائی گئی
دو سال بعد ڈکیتی اور چوری کے الزام میں انہیں تیرہ سال قید کی سزا سنائی گئی، جن میں سے نو سال یوگینی پریگوزِن نے سلاخوں کے پیچھے گزارے
جیل سے رہائی کے بعد پریگوزِن نے سینٹ پیٹرزبرگ میں ہاٹ ڈاگ فروخت کرنے والے اسٹالوں کا ایک کاروبار شروع کیا۔ کاروبار اچھا چلا اور چند سال کے اندر 1990ع کی دہائی میں، پریگوزِن شہر میں مہنگے ریستوران کھولنے میں کامیاب ہو گئے
یہیں سے انہوں نے سینٹ پیٹرزبرگ اور پھر روس کی اعلیٰ اور طاقتور شخصیات کے ساتھ میل جول بڑھانا شروع کیا۔ پریگوزِن کا ایک ریستوراں، جسے ’نیو آئی لینڈ‘ کہا جاتا ہے، ایک کشتی تھی، جو دریائے نیوا میں ایک کنارے سے دوسرے کنارے پر چلتی تھی
ولادیمیر پوٹن کو یہ ریستوران اتنا پسند آیا کہ صدر بننے کے بعد وہ اپنے غیر ملکی مہمانوں کو وہاں لے جانے لگے اور غالباً یہی وہ مقام ہے، جہاں دونوں کی پہلی ملاقات ہوئی
پریگوزِن نے ایک انٹرویو میں کہا تھا ”ولادیمیر پوٹن نے دیکھا کہ مجھے معززین کو خود پلیٹس پیش کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی، ہماری ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ جاپانی وزیر اعظم یوشیرو موری کے ساتھ آئے تھے“
یوشیرو موری نے اپریل 2000 میں ولادیمیر پوٹن کی حکومت کے بالکل شروع میں سینٹ پیٹرزبرگ کا دورہ کیا تھا۔ پوٹن نے پریگوزِن پر اتنا بھروسہ کرنا شروع کر دیا تھا کہ سنہ 2003 میں نیو آئی لینڈ پر انہوں نے اپنی سالگرہ بھی منائی
کئی سال بعد، پریگوزِن کی کیٹرنگ کمپنی ’کونکورڈ‘ کو کریملن کو کھانا فراہم کرنے کا ٹھیکہ دیا گیا، جس سے انہیں ’پوٹن کے شیف‘ کا لقب ملا۔ پریگوزِن سے وابستہ فرموں نے ملٹری اور سرکاری اسکولوں سے کیٹرنگ کے منافع بخش ٹھیکے بھی حاصل کیے
ویگنر گروپ
سنہ 2014 میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد یہ بات سامنے آنے لگی کہ پریگوزِن کوئی عام تاجر نہیں تھے بلکہ ایک پرائیویٹ ملٹری کمپنی سے ان کے منسلک ہونے کی بات سامنے آئی۔ سب سے پہلے مشرقی ڈونباس کے علاقے میں اس نجی فوج کے یوکرین کی افواج سے لڑنے کی اطلاع ملی تھی
اسے عام طور پر ’ویگنر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یوکرین کے علاوہ ویگنر پورے افریقہ اور دیگر علاقوں میں سرگرم تھا۔ یہ گروپ ہمیشہ ایسے کام انجام دے رہا تھا جس سے کریملن کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جا سکے
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کرائے کے اس گروہ نے خوفناک شہرت حاصل کی۔ ویگنر کے ارکان پر الزام ہے کہ انہوں نے نہ 2017 میں ایک شامی قیدی کو ہتھوڑے سے تشدد کا نشانہ بنایا، اس کا سر قلم کیا اور پھر اس کے جسم کو آگ لگا دی
اگلے سال وسطی افریقی جمہوریہ میں ویگنر کی موجودگی کی تحقیقات کے دوران تین روسی صحافی مارے گئے۔
2022 میں ویگنر پر ایک بار پھر ایک شخص کو اس شبہ میں ہتھوڑے سے قتل کرنے کا الزام لگایا گیا کہ اس نے یوکرین میں گروپ کو دھوکہ دیا
یورپی پارلیمنٹ کے ارکان کی جانب سے ویگنر کو دہشتگرد گروپ کے طور پر نامزد کرنے کا مطالبہ کرنے کے بعد، پریگوزِن نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے سیاستدانوں کو خون آلود ہتھوڑا بھیجا تھا
برسوں تک پریگوزِن نے ویگنر سے کسی قسم کے روابط رکھنے سے انکار کیا اور یہاں تک کہ ان لوگوں پر مقدمہ بھی چلایا، جنہوں نے مشورہ دیا کہ انہوں نے ایسا کیا لیکن پھر ستمبر 2022 میں پریگوزِن نے کہا کہ انہوں نے 2014 میں گروپ قائم کیا تھا
امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ نے ویگنر پر کئی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں لیکن اسے روس میں کام کرنے کی اجازت ہے حالانکہ وہاں کا قانون کرائے کی فوج کی سرگرمیوں پر پابندی لگاتا ہے
بوٹس اور ٹرول
کہا جاتا ہے کہ ایک اور طریقہ جس سے یوگینی پریگوزِن عالمی سیاست میں شامل ہوئے، وہ بندوق والے فوجیوں کی بجائے ’کی بورڈ واریئرز‘ پر انحصار کرنا تھا
برسوں سے پریگوزِن پر نام نہاد ’ٹرول فارمز‘ میں ملوث ہونے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے، جو کریملن کے حق میں خیالات پھیلانے یا پراپیگنڈے کے لیے سوشل میڈیا اور ویب سائٹس پر اکاؤنٹس کا استعمال کرتے تھے۔ ایسی کوششوں کی قیادت سینٹ پیٹرزبرگ میں قائم انٹرنیٹ ریسرچ ایجنسی ’آئی ار اے‘ نے کی، جو سنہ 2016 کے امریکی صدارتی انتخابات میں مداخلت کے لیے مشہور ہے
ایف بی آئی کے سابق ڈائریکٹر رابرٹ مولر، جنہیں ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم اور روس کے درمیان ملی بھگت کے دعووں کی تحقیقات کے لیے مقرر کیا گیا تھا، انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ’آئی آر اے‘ نے ایک سوشل میڈیا مہم چلائی جس کا مقصد امریکہ میں سیاسی اور سماجی اختلافات کو ہوا اور بڑھاوا دینا تھا
مولر کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اس کے بعد یہ ٹرمپ کی حمایت اور ان کی انتخابی حریف ہلیری کلنٹن کو بدنام کرنے کی ایک کارروائی میں تبدیل ہوا
امریکہ نے سنہ 2016 کے صدارتی انتخابات میں مداخلت پر ذاتی طور پر ’آئی ار اے‘ اور پریگوزِن پر پابندیاں لگائیں
یوکرین ’آئی آر اے‘ کی ڈس انفارمیشن مہمات کا ایک اور بڑا ہدف ہے اور برطانیہ کے مطابق پریگوزِن سے مشتبہ روابط رکھنے والے ’سائبر فوجیوں‘ نے برطانیہ، جنوبی افریقہ اور انڈیا سمیت مختلف ممالک پر حملے کیے ہیں
ویگنر کے ساتھ کسی بھی تعلق سے انکار کرنے اور ان لوگوں پر مقدمہ دائر کرنے کے بعد جنہوں نے یہ تجویز کیا کہ وہ ٹرول فیکٹریوں کے پیچھے تھے، پریگوزِن نے فروری 2023 میں دعویٰ کیا کہ آئی آر اے کے تصور اور اسے چلانے والے وہ ہی ہیں
یوکرین جنگ
اس سارے عرصے میں پریگوزِن نے اپنی کیٹرنگ کمپنی کونکورڈ کی جانب سے جاری کردہ بیانات کے ذریعے میڈیا کے ساتھ بات کرتے تھے اور منظر عام پر آنے سے گریز کرنے لگے
فروری 2022 میں روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کے آغاز کے بعد اس میں تبدیلی آئی۔ مہینوں بعد پریگوزِن کی خدمات کی دوبارہ مانگ بڑھ گئی تھی۔ کئی سال تک انکار کرنے کے بعد کہ ویگنر کا وجود بھی تھا، 27 جولائی 2022 کو کریملن کے زیر کنٹرول میڈیا نے اچانک اعتراف کیا کہ یہ گروپ مشرقی یوکرین میں لڑ رہا ہے
پریگوزِن نے سوشل میڈیا پر وڈیوز بھی پوسٹ کرنا شروع کیں، جو بظاہر یوکرین کے مقبوضہ حصوں میں فلمائی گئی ہیں، جس میں وہاں ویگنر کے کارناموں پر فخر ظاہر کیا گیا
اس وقت تک دنیا کی کسی اور پرائیویٹ ملٹری کمپنی کے پاس جنگی طیارے، ہیلی کاپٹر اور ٹینک سمیت اتنے جنگی سامان تک رسائی نہیں تھی لیکن جلد ہی یہ واضح ہو گیا کہ روسی فوج کے ساتھ پریگوزِن کے تعلقات بہت کشیدہ تھے
انہوں نے بار بار روس کے اعلیٰ حکام پر تنقید کی، دعویٰ کیا کہ وزارت دفاع نے ویگنر کو گولہ بارود سے محروم کر دیا اور ایک موقع پر وزیر دفاع اور چیف آف جنرل اسٹاف پر غداری کا الزام بھی لگایا
یوکرین میں متعدد روسی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد، پریگوزِن کو جیلوں سے بھرتی کرنے کی اجازت دی گئی۔ انہوں نے ذاتی طور پر متعدد جیلوں کا دورہ کیا تاکہ سزا یافتہ مجرموں سے وعدہ کیا جا سکے کہ وہ آزاد گھر جا سکیں گے اور یوکرین میں ویگنر کے لیے چھ ماہ کی لڑائی کے بعد، اگر وہ بچ گئے تو ان کی سزاؤں کو ختم کر دیا جائے گا
ایک وڈیو میں انہیں مجرموں سے یہ کہتے ہوئے سنا گیا ”کیا آپ کے پاس کوئی اور ہے جو آپ کو اس جیل سے نکال سکے، میں آپ کو یہاں سے زندہ نکال سکتا ہوں“
بچوں کے لیے لکھی گئی کہانی۔۔ انجام!
سنہ 2011 میں ایک انٹرویو میں پریگوزِن نے کہا تھا کہ ایک بار انہوں نے بچوں کے لیے ایک کتاب لکھی تھی، جس میں مرکزی کردار نے ’بادشاہ کی بادشاہت بچانے میں مدد کی‘ اور پھر اس نے ’حقیقتاً بہادری‘ والے کام کیے
پریگوزِن اب روس کے بارے میں اپنے ویژن کو بچانے کے لیے صدر پوٹن کی مدد کر رہے ہوں گے، لیکن ان کی زندگی کی کہانی شاید ہی بچوں کی پریوں یا بادشاہوں کی کہانی ہو
صدر پوتن نے اپنے ٹی وی خطاب میں باغی ویگنر جنگجوؤں کا ذکر کیے بغیر کہا کہ کچھ روسیوں کو ’مجرمانہ مہم جوئی میں پھنسایا گیا۔‘
تاہم انھوں نے ویگنر گروہ کے جنگجوؤں کا ذکر کرتے ہوئے روس کے دفاع کے لیے لڑنے میں ان کی تعریف بھی کی ہے
جیسے ہی یوکرین پر روس کی مداخلت میں ناکامیاں سامنے آنا شروع ہوئیں تو یوگینی پریگوزن روس کی فوجی قیادت کے شدید ناقد بن گئے
ان کے فوج کے ساتھ تعلقات اس حد تک بگڑ گئے کہ انھیں رواں برس کے آغاز سے مزید قیدی اپنی نجی فوج میں بھرتی کرنے سے روک دیا گیا
انھوں نے متعدد بار یہ دعویٰ کیا ہے کہ وزارت دفاع نے ان کے ویگنر گروپ اسلحے سے محروم کر دیا ہے۔ انھوں نے وزیردفاع سرگئی شوئی گو اور چیف آف دی جنرل اسٹاف ولیری گریشیماؤ پر بغاوت جیسے الزامات عائد کیے
انھوں نے عسکری قیادت پر یوکرین میں ویگنر گروپ کے ایک ٹھکانے کو بھی تباہ کرنے کا الزام عائد کیا، جس کی روس کی فوج نے تردید کی ہے
یوں ویگنر یوکرین سے اپنی جنگ روس کے اندر لے آیا اور روس کے جنوبی سرحدی شہر روستوف میں اہم عسکری تنصیبات پر قبضہ کر لیا
روس نے ان پر مسلح بغاوت کا الزام عائد کیا جبکہ روس کے صدر پوٹن نے ان کے اس ردعمل کو غداری قرار دیا ہے
واضح رہے روس کی فوج اور اس کی کرائے کی ویگنر فورس کے جنگجوؤں کے درمیان لڑائی میں ڈرامائی طور پر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جس کے بعد جمعے کی رات سے روس میں سکیورٹی سخت کر دی گئی، انٹرنیٹ پر پابندی لگا دی گئی اور ماسکو کی سڑکوں پر فوجی ٹرک دیکھے گئے ہیں
جبکہ روس کی پرائیوٹ آرمی یا کرائے کے لڑاکا گروپ ویگنر کے سربراہ نے روس کی فوجی قیادت کو ’ہر طرح سے گرانے‘ کا عزم کیا ہے۔ انھوں نے یہ اعلان کریملن کی جانب سے اس پر ‘مسلح بغاوت’ کا الزام لگانے کے چند گھنٹے بعد کیا تھا۔
صدر پوٹن نے اپنے خطاب میں کہا کہ اب دارالحکومت ماسکو اور کئی دوسرے خطوں میں انسداد دہشت گردی کی حکومت قائم ہے۔