آلودگی پھیلانے والی کمپینوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کا وقت آ گیا ہے!

سٹیون کرافٹ

تیل اور گیس کی دیوقامت کمپنی شیل نے اس ہفتے 7.6 ارب پاؤنڈ کے منافع کا اعلان کیا ہے۔ کمپنی کے اب تک کی پہلی سہ ماہی کے یہ بہترین نتائج ہیں

اسی دوران مشرقی افریقہ میں لاکھوں لوگ اس خشک سالی کا دہانے پر ہیں، جس کے بارے میں سائنس دانوں نے گذشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ وہ معدنی ایندھن کے جلنے سے پیدا ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کے بغیر رونما نہیں ہوتی

لاکھوں جانور اور مویشی مر چکے ہیں اور فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔ اس کے نتیجے میں دو کروڑ سے زیادہ لوگ شدید بھوک میں مبتلا ہیں۔ کچھ اور اندازوں کے مطابق متاثرہ لوگوں کی حقیقی تعداد دس کروڑ کے قریب ہے

موسمیاتی تبدیلیوں کے شدید موسمی واقعات پر اثرات کا جائزہ لینے والی ایک تنظیم ’ورلڈ ویدر ایٹربیوشن‘ میں شامل سائنس دانوں نے کہا ہے کہ انسانوں کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیوں نے خشک سالی کے امکان میں سو گنا اضافہ کر دیا ہے

فاسل ایندھن بیچنے والی کمپنیوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانے کا اخلاقی مقدمہ اب واضح ہو گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ برطانوی عوام بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ سوانتا نے ’کرسچن ایڈ‘ کے لیے جو سروے کیا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ 78 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ معدنی تیل کی کمپنیاں کا اپنی سرگرمیوں کے باعث پیدا ہونے والے نقصان کی ذمہ داری قبول کیے بغیر منافع کمانا غلط ہے

وہ لوگ جو موسمیاتی تبدیلیوں کے بدترین اثرات سے دوچار ہیں، ان کا اس بحران کے پیدا کرنے میں ہاتھ نہ ہونے کے برابر ہے۔ فی کس آبادی کے لحاظ سے برطانیہ صومالیہ کے مقابلے میں 57 گنا زیادہ کاربن خارج کرتا ہے اور اس کے باوجود صومالی شہریوں کو خشک سالی کا سامنا ہے جو ان کی زندگی اور روزگار کو تباہ کر رہی ہے

اچھی خبر یہ ہے کہ دنیا اس ناانصافی پر بیدار ہو رہی ہے۔ پچھلے سال ماحولیات کے سربراہی اجلاس COP27 میں شریک ملکوں نے پہلی بار ’لاس اینڈ ڈیمج فنڈ‘ بنانے پر اتفاق کیا، جو ان لوگوں کو معاوضہ دینے میں مدد کرے گا جنہیں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے تباہ کن نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ کمزور ممالک کے لیے ایک بڑی فتح تھی اور اس سے یہ امید روشن ہوتی ہے کہ ایک نہ ایک دن انصاف مل کر رہے گا

لیکن فی الحال یہ فنڈ ایک خالی بالٹی ہے اور جب تک ممالک اسے فنڈ دینا شروع نہیں کرتے، امیر دنیا کے اقدامات کے ایسے خوفناک نتائج کا سامنا کرنے والوں کے لیے کوئی مدد یا انصاف مہیا نہیں ہو گا۔ ان فنڈز کی فراہمی کے لیے تیل اور گیس سے حاصل شدہ منافعے سے بہتر ذریعہ ہو سکتا ہے جو ان لوگوں کی حالتِ زار کا باعث بنا ہے؟

جو آلودگی پھیلاتا ہے، وہی رقم بھی ادا کرے، یعنی ’جو کرے وہ بھرے‘ کا اصول واضح حل ہے۔ برطانیہ کی حکومت کو ان فوسل فیول کمپنیوں کے ریکارڈ منافع پر ٹیکس لگانا چاہیے اور اس آمدنی کو لاس اینڈ ڈیمج فنڈ میں برطانیہ کے حصے کے طور پر استعمال کرنا چاہیے۔ نہ صرف یہ کہ ایسا کرنا درست ہے، بلکہ عوام بھی اس کی حمایت کرتے ہیں۔ کرسچن ایڈ کے اسی سروے میں برطانیہ کے 63 فیصد بالغ افراد نے اتفاق کیا کہ حکومت کو فنڈ میں ادائیگی کے لیے فوسل فیول کے منافع پر ٹیکس لگانا چاہیے

اس نظریے کی تصدیق گوگل باکس کے ذریعے بھی ہوتی ہے۔ چینل 4 کے ایک شو میں، جہاں ناظرین اپنے ساتھی برطانوی شہریوں کا ایک حصہ اس وقت دیکھتے ہیں جب وہ ٹی وی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ جب انہیں پچھلے سال COP27 کے بارے میں ایک نیوز رپورٹ دکھائی گئی تو موسمیاتی تبدیلی کی ناانصافی اور لاس اینڈ ڈیمج فنڈ کی حمایت میں بڑے پیمانے پر برہمی دیکھی گئی

بلیک پول سے تعلق رکھنے والے پیٹ سینڈی فورڈ نے کہا: ’اگر کوئی اپنی کار میرے گھر میں دے مارے تو مجھ سے اس کا نقصان بھرنے کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔‘ انہوں نے کہا، ’آپ اس سے کہیں گے، ایک منٹ رکو، تم نے نقصان کیا ہے، تمہی اسے ٹھیک کرو گے۔‘

کسی بھی اچھی طرح سے کام کرنے والی مارکیٹ کو فیڈ بیک لوپس کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ بعض سرگرمیوں کے منفی اثرات مارکیٹ میں ہی ظاہر ہوں۔ یہ وہ طریقہ ہے جس کی مدد سے ان سرگرمیوں پر اٹھنے والے اصل خرچ کو پکڑا اور سمجھا جا سکے

موسمیاتی تبدیلی مارکیٹ کی ناکامی کی مثال ہے جہاں آلودگی پھیلانے، بیچنے اور استعمال کرنے والے اس کے اثرات کو محسوس نہیں کرتے، بلکہ اس کا اثر ان لوگوں پر زیادہ ہوتا ہے جن کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان منافعوں پر ٹیکس لگانا اور رقم کو لاس اینڈ ڈیمج فنڈ میں منتقل کرنا اس ہولناک عدم توازن کو دور کرنے کی طرف ایک قدم ہوگا

ضرورت بڑی ہے، سائنس واضح ہے، اخلاقی مقدمہ واضح ہے اور عوام حامی ہیں۔ جس چیز کی کمی ہے وہ سیاسی عزم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کرسچن ایڈ لوگوں سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ اپنے ایم پیز سے رابطہ کریں تاکہ اس سادہ ٹیکس کا مقدمہ بنایا جا سکے، جس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں کو مدد اور انصاف ملے گا

ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم ایک ایسی جمہوریت میں رہتے ہیں جہاں ہمارے اراکین پارلیمنٹ ہمیں، یعنی ووٹ دینے والے عوام کے سامنے جوابدہ ہیں۔ اپنے ایم پی کو لکھنا یا ان سے ملنے جانا ممکنہ طور پر ایک فرد کے ڈالے گئے تمام ووٹوں سے کہیں زیادہ اثر انگیز عمل ہے۔ انتخابات شاذ و نادر ہی ایک ووٹ سے جیتے ہیں، لیکن آپ کے اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ ایک خط یا بات چیت ان کا ذہن بدل سکتی ہے۔ ارکان پارلیمنٹ ان مسائل کو نوٹ کرتے ہیں جن کے بارے میں ان کے حلقے انہیں لکھتے ہیں

موسمیاتی تبدیلی ایسا مسئلہ نہیں ہے جو صرف ہماری اگلی نسل کو متاثر کرے گی۔ یہ اب لوگوں کو متاثر کر رہی ہے جنہوں نے اس کا سزاوار ہونے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ شیل جیسی کمپنیوں کے ریکارڈ منافع پر ٹیکس لگانا ایک غلط کام کو درست کرنے کے لیے پہلا قدم ہے اور ان لوگوں کو زندگی بچانے والی مدد پہنچانا ہے، جنہیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

بشکریہ: انڈپینڈنٹ
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close