دم چک سے میں نے جیپ کرائے پر لی ہے۔ پنتیس (35) سالہ صحت مند، باریش، گوری رنگت، دم چک کا رہائشی نواز میرا ڈرائیور اور ہم سفر ہے۔ (کیا خوش قسمتی ہے کہ بہاول پور میں میرے ایک سرکاری ڈرائیور کا نام بھی نواز تھا۔ وہ کمال درویش منش اور عمدہ ڈرائیور تھا۔) میرا ہمسفر نواز اس علاقے اور راستوں سے اچھی طرح واقف ہے۔ دم چک سے پاکستانی سرحد تک کا میرا ہم سفر۔
کشمیر بے نظیر
”لداخی پہاڑوں کے رنگ قدرت کی خوبصورتی کے مظہر ہیں۔یہ جنت نظیر نہیں جنت ہے۔“ گمنام
سندھو اپنی کہانی جاری رکھتا ہے ”تبت کے پہاڑوں سے ہوتا ہوا میں کشمیر کی جنت میں داخل ہوتا، لداخ کی پرکیف وادی سے بہتا ہوں“
میں نے پوچھا ”دوست لداخ کا مطلب کیا ہے؟“
اس نے جواب دیا، ”اونچے دروں کی زمین۔ لداخ دراصل ضلع ہے، جس کا صدر مقام لیہہ اور کارگل ہیں۔ لیہہ گرمیوں کا اور کارگل سردیوں کا۔ لیہہ اور لداخ کا درمیانی فاصلہ چھ (6) کلو میٹر ہے۔لداخ لداخی زبان کے دو الفاظ ”لا“ اور ”داخ“ سے مل کر بنا ہے۔ لا کا مطلب ہے ’درہ‘ داخ کا مطلب ہے ’بہت سارے‘ یعنی بہت سارے دروں کی سرزمین۔۔ ان اونچے پہاڑوں کی سر زمین میں بہت سے درے ہیں جو ایک خطے سے دوسرے خطے میں اترتے ہیں۔ یہیں کشمیری دریا ’زنکسار‘ مجھ پر دل ہار کر اپنا وجود ہی مجھ میں ضم کر کے میرے لڑکپن کو یادگار بنا دیتا ہے۔ یہ حسین ملاپ مجھے اچھا لگتا ہے اور دل میں خواہش جنم لیتی ہے کہ ایسے اور ملاپ بھی ہوں۔ یہاں کے 3 تاریخی مقامات زنکسارا میرا سنگم، ’گردوارہ پتھر صاحب‘ اور ’لداخ کی مقناطیسی پہاڑیاں‘ magnetic hills قریب قریب اور لب سڑک ہیں۔ یہاں رکے بغیر آگے جانا بے وقوفی ہے۔ میں بالکل بھی ایسا نہیں ہوں۔ یہاں کھینچی گئی کچھ تصاویر ہمیشہ آپ کو مقناطیسی پہاڑیوں کے سحر میں جکڑے رکھیں گی۔ لداخ تک پہنچتے پہنچتے بہت سی برفیلی ندیوں کا پانی مجھ میں شامل ہو کر میرے وجود کو تازگی اور توانائی دیتا ہے۔ اپنے لڑکپن سے ہی مجھے مختلف نسل کی ندیوں کے وجود کو چکھنے اور خود میں سمونے کا ایسا چسکا لگاہے کہ میں ایسے چسکوں سے خوش ہوتا خود کو بڑا محسوس کرنے لگتا ہوں۔ کشمیر کی جنت نظیر وادی سے اپنی ہی لے (دھن) میں مست، حسین وادیوں میں جھومتا، پتھروں سے ٹکراتا، جل ترنگ کے تار چھیڑتا، برفیلی فضا، چمکیلی دھوپ، تازہ ہوا، پرکیف نظاروں میں رنگ بکھیرتا بہتا ہوں۔ میرے وجود کو سکیڑتی سردی مجھے اچھی لگتی ہے۔ کشمیر کی ٹھنڈی مخمور کر نے والی ہوا جب میرے چمکتے پانی کو چھوتی ہے تو مجھ پر نشہ طاری ہو جاتا ہے اور میں کسی کشمیری ندی کو ہڑپ کرنے کے لئے بیقرار ہونے لگتا ہوں۔“
سندھو کشمیری ندی ہڑپ کرنے کو تیار ہے اور یہاں جوانی کے دنوں کا گیت میرے کانوں میں گونجنے لگا ہے۔ واہ میڈم نور جہاں آپ جیسا کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ آپ نے جو بھی گیت گایا امر کر دیا؛
”مہکی فضائیں گاتی ہوائیں ساری کی ساری تمھارے لئے ہیں۔۔“
سندھو اپنی کہانی آگے بڑھاتے بولے چلا جا رہا ہے۔ زندگی کے رنگ بکھیرے چلا جا رہا ہے؛ ”کشمیری دوشیزائیں میرے کنارے بیٹھی خوش گپییاں لگاتی، کپڑے دھوتی مجھے اچھی لگتی ہیں۔ میں ان کا رازداں ہوں اور رازداں کب کسی کے بھید دوسروں پر کھولتے ہیں؟ کہاں بلا اجازت بولتے ہیں؟ سو میں بھی سب کچھ سینے میں سنبھالے رکھتا ہوں، اسی لئے تو کوئی بھی حسین و جمیل دوشیزہ مجھے اپنا ہمراز بنانے سے گھبراتی نہیں۔ مجھ سے شرماتی بھی نہیں۔ میرے ٹنڈ منڈ وجود کو کشمیر کی آب و ہوا بہت راس آتی ہے۔ میں شکر خورہ بن جاتا ہوں۔ بہت سی ندیوں کو خود میں شامل کر کے کشمیر کی وادی سے نکلتا ہوں تو سمجھ لو جوانی کی حدود میں پہلا قدم رکھ چکا ہوں۔ کشمیری جنت پر آخری بھرپور نظر ڈال کر پاک لوگوں کی سر زمین پاکستان داخل ہو جاتا ہوں۔ مجھے کوئی سرحد کوئی باڑ روک نہیں سکتی۔ میں انسانی زندگی کاپیغام ہوں۔“
لو میں دم چک پہنچ گیا ہوں۔میں دم چک سے دریا کے ساتھ سفر کرتا لداخ کی جانب رواں دواں ہوں۔ لداخ زیادہ دور نہیں۔ سندھو یہاں سنگلاخ چٹانوں سے سر ٹکراتا پہاڑوں کے بیچ تنگ راستے سے بہتاہے، بے بس اور کمزور۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہی بے بسی، لاچارگی اس کے چیخنے کی وجہ ہے۔ موسم میں کافی خنکی ہے۔ سڑک خراب، آبادیاں کم دور دور اور پہاڑوں کی ڈھلوانوں سے لٹکی ہیں۔
دم چک میں شام اتر آئی ہے۔ سورج مہاراج کی آخری کرنیں چند ہی لمحوں میں مدہم ہوتے ہوتے پہاڑوں کی بلندیوں میں گم ہو جائیں گی تو اندھیرے کی چادر ہر سو پھیل کر یہاں کا سب کچھ چھپا لے گی۔ میرا من چائے پینے کا ہو رہا ہے۔ چائے کے چھوٹے سے کھوکھا پر رکا ہوں (ڈھابا چائے ہوٹل۔ ہندوستان اور پاکستان میں ایک سے ہی ہیں)
چائے کی چسکیاں لیتے ایک منگول نما لداخی سے میں نے پوچھا؛ ”کیسی زندگی ہے یہاں کی۔“ اس نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں جواب دیا؛ ”بہت اچھا، ہمارا اپنا دیس ہے، اپنا لوگ، اپنا کھیت، اپنا رواج۔ تعلیم کم ہے ہمارا۔ محنت مزدوری، گلہ بانی، زراعت کرتے اور بکریاں پالتا ہے۔ آپس میں پیار شانتی ہے۔ گلہ صرف اس دریا سے ہے کہ ہمیں کوئی فائدہ نہیں دیتا۔ بس گھاٹی میں بہتا ہے۔ اب ہمارا نوجوان گائیڈ بن کر سیاحوں کو یہاں کی سیر کرواتا ہے۔ زندگی سختی، جفاکشی اور محنت ہے اگر یہ سب ہے تو تم مطمئن ہو صاحب۔“یہ ان پڑھ لداخی چند فقروں میں بڑے کام کی باتیں بتا گیا ہے۔
میری چائے کی پیالی ختم ہو چکی ہے۔ میں اٹھا اور سوچتا رہا؛ ’یہ شخص کتنا خوش، کتنا مطمئن ہے۔۔ جو ہے اس پر راضی، جو نہیں اس کی تمنا بھی نہیں۔۔‘ نیند میری اکھیوں میں اترنے لگی ہے۔ میں دو کمروں کے گھر نما ہوٹل میں داخل ہوا، چارپائی پر گرا، نندیا رانی مجھے وہاں لے گئی، جہاں سکون ہے، خواب ہیں۔ (میرا میزبان پہلے ہی مجھے بتا چکا تھا کہ اس کے کچھ مہمان بہت سویرے پہنچنے والے ہیں۔ لہٰذا مجھے کمرہ علی الصبح خالی کرنا پڑے گا۔ (مجھے یہاں رکنا نہیں تھا لیکن راستے میں جیپ خراب ہونے کی وجہ سے دیر ہو گئی اور اگلی منزل کو روانہ نہ ہو سکا تھا)
میری آنکھ میرے میزبان کے جگانے سے کھلی۔ کہنے لگا؛ ”اس کے مہمانوں کے آنے کا وقت قریب ہے اور اسے کمرے کی صفائی کرنی ہے۔“
باہر ابھی اندھیرا اور خاصی ٹھنڈ ہے۔ نواز جیپ سمیت موجود ہے۔ ہم گھنٹہ بھر کی تھکا دینے والی مسافت طے کر کے لداخ پہنچے ہیں۔ صبح کا اجالا کشمیر کا حسن بے نقاب کر رہا ہے۔ رنگ و نور میں لپٹی وادی، برف کا غلاف اوڑھے پہاڑ، کشمیری طرزِ تعمیر کے گھروں میں بیدار ہوتی زندگی، چمنیوں سے اٹھتا دھواں، سر سبز اور تنگ پگڈنڈیوں پر چلتے لکڑ ہارے اور چرواہے، مجھے یوں لگا میں دلیپ کمار صاحب کی فلم ’مدھومتی‘ دیکھ رہا ہوں۔ سورج کو ان اونچے پہاڑوں کی اوٹ سے نکلنے میں کچھ دیر لگے گی۔ خنک بادِ نسیم میں جھومتے پودے، درخت، چہکتے لہکتے پرندے، ہر کوئی اپنی اپنی سریلی آواز میں جیسے شانِ کبریائی بیان کر رہا ہو۔ ایسا دل فریب منظر کم کم جگہوں پر ہی طلوع ہوتا سورج تراشتا ہے، سبحان اللہ۔۔ گلیوں میں اکا دکا انسان دکھائی دینے لگے ہیں۔ لداخی نسل کے لوگ، گلابی چہرے، کسرتی بدن، اندر کو دھنسی چھوٹی چھوٹی آنکھیں، ستواں ناک، اونی لباس اوڑھے، یہ بھی میرے اللہ کی شانِ کبریائی کا شکر ادا کرنے مسجدوں کا رخ کئے ہیں۔میرے سامنے کچھ ادھیڑ عمر عورتیں، کچھ نازک لڑکیاں، کولہے مٹکاتی سروں پر گھڑے اٹھائے پہاڑی چشموں سے پانی بھرنے نکلی ہیں۔ یہ ان کے دن کی ابتداء ہے۔ اونی کپڑوں میں لپٹی، گیت گاتی۔ یقیناً یہ بھی رب کی ثناء ہی ہوگی ان کی اپنی زبان میں۔
میرے سامنے آبشار پہاڑ سے اترتی سامنے دریا میں گر رہی ہے۔ مجھے لگا یہ بھی اپنے انداز میں سر بسجود ہے۔ واہ!یہ بھی اس کی شان ہے جو بے نیاز ہے، تمام جہانوں کا مالک عظمت اور جلال والا ہے۔ مجھے اس پرسکون جگہ پانی بہنے کی آواز سنائی دے رہی ہے، مگر پانی نظر نہیں آ رہا ہے۔ ہاں یہ آواز میرے دوست سندھو کے علاوہ کس کی ہو سکتی ہے، جو بہت گہرائی میں پہاڑوں کے دامن میں بہہ رہا ہے۔ میرے سامنے بڑا ریوڑ گزر رہا ہے، دھول اڑاتا۔۔ تین گردیلے گڈریے بھی ساتھ ہیں۔ مضبوط بدن، درمیانہ قد، چھوٹی چھوٹی آنکھیں۔ اپنی بھیڑیں ہانکتے پہاڑوں کا رخ کئے ہیں۔ میں نے اُن سے پوچھنا چاہا؛ ”کہاں سے آئے ہو اور کہاں جا رہے ہو۔“ شاید وہ میری زبان سمجھ نہیں پائے، مسکرائے، ہاتھ ہلائے اور چلتے چلے گئے ہیں۔
لداخ میں بھی میرا دوست ’سنگ کھاباب‘ (شیر کے منہ سے نکلا ہوا) کے نام سے ہی مشہور ہے۔ تبتیوں کی طرح لداخیوں کا بھی خیال ہے کہ تبت میں یہ دریا شیر کے منہ سے نکلتا ہے۔ میری ملاقات بوڑھے باریش لداخی غلام حسین سے ہوئی۔ چمکتا چہرہ، اندازاً ستر کے پیٹے میں ہوں گے۔ چہرے سے پڑھے لکھے معلوم ہو رہے ہیں۔ سلام دعا کے بعد میں نے اپنے بارے بتایا۔ جواب میں انہوں نے کہا؛ ”وہ مقامی کالج میں تاریخ کے استاد رہے ہیں۔“
میں نے ان سے پوچھا، ”جناب! لداخ میں اسلام کب پھیلا۔“
بہت دھیمے لہجے اور اعلیٰ اردو میں بتانے لگے، ”میاں!لداخ میں اسلام پھیلانے کا سہرا بلبل شاہ، سید علی ہمدانی المعروف ہمدان شاہ اور اُن مسلمان تاجروں کو جاتا ہے جو پشمینہ لینے لداخ آتے تھے۔ یہ لگ بھگ ہزار سال پرانی بات تو ضرور ہے۔ تب یہ وادی بودھا اور رام کے ماننے والوں کی دھرتی تھی۔ بدھ مت یہاں کا سب سے بڑا مذہب تھا جس کے ماننے والے اب بھی ہیں۔ البتہ ہندو اب یہاں اقلیت میں ہیں۔ مسلمان اکثریت یہاں اب متعصب ہندو حکمرانوں کے ظلم و بربریت کے خلاف ڈٹی لیکن مختلف فرقوں میں بٹی ہے۔ گو اسلام بنیادوں تک اتر گیا ہے لیکن قدیم رسومات زندہ ہی نہیں بلکہ آج بھی منائی جاتی ہیں۔“
انہوں نے چائے کی پیشکش کی۔میں نے شکریہ کے ساتھ ان سے معذرت کر لی۔ میں یہاں سے اٹھا اور سندھو کے پانی کی آواز کی جانب چل دیا ہوں۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے.
-
سندھو سلطنت: دریائے سندھ کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط: 1)
-
سندھو سلطنت: دریائے سندھ کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط 9)