حکومتی امداد کے وعدے اور سیلاب زدہ علاقوں میں مشکل ترین حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور پینتالیس لاکھ افراد۔۔

ویب ڈیسک

انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی (آئی آر سی) نے پاکستان میں سر اٹھاتے شدید انسانی بحران کے بارے میں خبردار کیا ہے، جہاں سیلاب زدہ علاقوں میں پینتالیس لاکھ افراد مشکل ترین حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں

آئی آر سی نے کہا ہے کہ وہ جولائی 2022ع سے اب تک بارہ لاکھ افراد کے پاس ہنگامی انسانی معاونت لے کر پہنچی ہے

رپورٹ کے مطابق چونکہ 2022ع کے سیلاب کے بعد بحالی کا عمل ابھی بھی جاری ہے، ریسکیو کمیٹی کثیر شعبوں پر مشتمل بحالی کے پروگراموں میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت پر زور دے رہی ہے، جو سیلاب سے متاثرہ کمیونٹیز کی طویل مدتی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہیں

آئی آر سی نے پیش گوئی کی کہ غذائیت اور خوراک، صحت، رہائش، تعلیم اور صفائی میں بحالی میں اہم خلاء کو اگر روکا نہ گیا تو سیلاب متاثرہ علاقوں میں مقیم خاص طور پر اور مجموعی طور پر پاکستان کے لیے طویل مدتی سنگین نتائج کا امکان ہے

آئی آر سی کی نے کہا کہ کھانے کی ٹوکریوں، غیر خوراکی اشیا، پینے کے صاف پانی، وقار، حفظانِ صحت، اور موسم سرما کی کٹس کی فراہمی، طبی کیمپوں کے قیام، محفوظ مقامات اور زندگی کی مہارتوں اور نفسیاتی و سماجی مدد کے بارے میں آگاہی سیشن کے انعقاد کے ذریعے تقریباً بارہ لاکھ چوبیس ہزار 938 لوگوں تک رسائی ملی

آئی آر سی کی طرف سے جارہ کردہ بیان میں ملکی ڈائریکٹر شبنم بلوچ نے کہا کہ پاکستان میں سیلاب کی تباہی کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن 2022ع میں ہم نے جس قدر موسمیاتی تبدیلی کی تباہی دیکھی،اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی

شبنم بلوچ نے کہا کہ سیلاب کے سات ماہ بعد لاکھوں افراد بشمول خواتین، مرد اور بچے بھوک اور بے گھر ہونے کی تکلیف کا سامنا کر رہے ہیں

انہوں نے کہا کہ صحت، تعلیم، سماجی تحفظ کی خدمات کو زیادہ تر متاثرہ علاقوں میں رکاوٹوں کا سامنا رہا، جس نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں، معاش اور امکانات کو مزید خطرے میں ڈالا

شبنم بلوچ نے کہا کہ پاکستان میں فلڈ ریسپانس پلان کے ہر شعبے کے لیے اس وقت فنڈز کم ہیں

انہوں نے کہا کہ یہ بھی اپنے طور پر ایک چیلنج ہے اور ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ محض مالی وسائل پاکستان کو موسمیاتی بحران سے نہیں نکال سکتے

انہوں نے کہا کہ اس وقت ایسی اشد ضرورت ہے کہ ایسی ایجادوں میں سرمایہ کاری کی جائے، جو موسمیاتی حوالے سے لچکدار ہوں اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے موسمیاتی تبدیلی سے لاحق خطرات کی شدت کا خیال رکھیں

رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے پاکستان کے تین چوتھائی حصے کو تباہ کیا، جہاں ایک اندازے کے مطابق پینتالیس لاکھ افراد بدستور شدید حالات کا شکار ہیں

فروری 2023ع تک حکومت ملک کے جنوب میں کئی اضلاع سے سیلاب کا پانی کم کرنے میں ناکام نظر آتی ہے، جبکہ پاکستان کے کچھ علاقوں میں لوگ اپنے آبائی علاقوں کو لوٹ آئے ہیں، تاہم، وہ جن حالات واپس آ رہے ہیں، وہ ان کے لیے خوش آئند نہیں۔

واضح رہے کہ فروری 2023 تک پاکستان کو مجموعی طور پر سیلاب کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی امداد سے 871 ملین ڈالر کا صرف 36 فیصد مل چکا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close