اگر پہاڑ برف سے خالی ہو گئے تو کیا ہوگا؟

ویب ڈیسک

”تصور کیجیے کہ آپ کا گھر، آپ کا مال اسباب، آپ کا سب کچھ اچانک بہہ جائے اور آپ اپنی ہر چیز اپنی آنکھوں کے سامنے ختم ہوتے دیکھیں تو آپ کی ذہنی حالت کیا ہوگی؟“

یہ الفاظ کوہ ہمالیہ کے دریاؤں سے متعلق ایک پلیٹ فارم تھرڈ پول کی سابقہ ایڈیٹر اور ماحولیات سے متعلق ایک صحافی ضوفین ٹی ابراہیم کے ہیں

ضوفین ٹی ابراہیم کہتی ہیں ”گلگت بلتستان میں چند سال قبل جب ہنزہ جھیل پھٹی تو وہاں سے نقل مکانی کرنے والی خواتین اپنے کھوئے ہوئے مکانات کو واپس پانے کی امید لیے زیرِ آب علاقے کو دیکھنے وہاں آتی تھیں اور نمناک آنکھوں کے ساتھ اپنے گھروں، اپنی زمینیوں، اپنے مال مویشیوں اور اپنے خوشحالی کے دنوں کو یاد کرتی تھیں“

تباہی کی ایسی ہی افسردہ کر دینے والی کہانیاں خیبر پختونخواہ، گلگت بلتستان اور چترال جیسے علاقوں میں بھی بکھری ہوئی ہیں، جہاں پاکستان کے بیشتر گلیشئیرز واقع ہیں اور اب درجہ حرارت میں اضافے کے نتیجے میں تیزی سے پگھل رہے ہیں

یہ وہ نکتہ ہے، جو درحقیقت پریشان کن ہے۔ درجہ حرارت میں اضافے کے نتیجے میں تیزی سے گلیشئرز کے پگھلنے کا مطلب ہے، پہاڑ برف سے خالی ہو رہے ہیں، اگر ایسا ہو گیا تو کیا ہوگا؟

یہ وہ سوال ہے، جس پر ماہرین ماحولیات ایک عرصے سے تشویش کا اظہار کر رہے ہیں اور اس ضمن میں فوری اور ٹھوس اقدامات پر زور دے رہے ہیں ۔ انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماونٹین ڈویلپمنٹ (ICIMOD) کی تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایشیا کے کوہ ہندو کش ہمالیہ کے گلیشئرز، جن میں پاکستانی گلیشئیرز بھی شامل ہیں، اس صدی کے آخر تک اپنے 75 فی صد حصے سے محروم ہو جائیں گے، جس کے نتیجے میں ان علاقوں کے دو سو چالیس ملین لوگوں کو تباہ کن سیلابوں اور پانی کی قلت کا سامنا ہوگا

گلیشیئرز کیوں تیزی سے پگھل رہے ہیں؟ اس سوال پر برلن کے ایک تھنک ٹینک کلائیمیٹ اینیلٹکس سے وابستہ اسلام آباد میں آب و ہوا سے متعلق ایک ماہر ماحولیات ڈاکٹر فہد سعید کہتے ہیں ”گلیشیئر ز کے تیزی سے پگھلنے کی سب سے بڑی وجہ کاربن گیسوں کے اخراج میں اضافہ ہے، جس کے سبب عالمی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ گرمیوں میں گلیشئیرز پگھلنے سے ہونے والی کمی عموماً برف باری کے موسم میں پوری ہوجاتی ہے لیکن اگر برف باری ناکافی اور درجہ حرارت بھی بلند رہے تو گلیشیئر پر برف کی کمی برقرار رہتی ہے“

ڈاکٹر فہد سعید کا مزید کہنا تھا ”ہوا کی آلودگی اور کاربن کے جمع ہونے سے گلیشئیر کے پگھلاؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر گلیشیر پر موجود ہوا کے خاکی ذرات کی مقدار بڑھ جائے تو اس کے نتیجے میں بھی برف پگھلنے کی رفتار بڑھ جاتی ہے“

واضح رہے کہ پاکستان میں چھوٹے بڑے گلیشیئرز کی تعداد سات ہزار سے زائد ہے، جن میں سے زیادہ تر سطح سمندر سے پانچ ہزار میٹر ز کی بلندی پر ہیں

اسلام آباد میں واٹر ریسورسز اور گلیشیولوجی، گلوبل چینج امپیکٹ اسٹڈیز سنٹر کے سربراہ اور پاکستان میں پانی اور آب و ہوا سے متعلق ایک محقق ڈاکٹر ضیا ہاشمی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے مختلف مقامات پر واقع گلیشئیرز ایک ہی رفتار سے نہیں پگھل رہے۔ درجہ حرارت میں اضافے سے ان کے پگھلنے کا عمل قدرے پیچیدہ ہو گیا ہے

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بیشتر گلیشئیرز کوہ قراقرم کے سلسلے کے مرکزی حصے یا شمال مشرق میں ہیں، وہ یا تو مستحکم ہیں یا بڑھ رہے ہیں۔ جبکہ شمالی پہاڑی علاقے، یعنی مغربی قراقرم اور ہندو کش میں گلیشئیرز کے پگھلنے کی رفتار تیز ہے۔ اس کی ایک مثال چترال کا شتابو گلیشیئر ہے، جہاں چند سال قبل برطانیہ کے ڈیوک اور ڈچز کو ان کے دورہ پاکستان کےدوران لے جایا گیا تھا

جب گلیشئیرز پگھلتے ہیں تو ان سے پہاڑی علاقوں میں جھیلیں بن جاتی ہیں، جنہیں گلیشیائی جھیلیں کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں آئی یو سی این کے کلائیمیٹ چینج پروگرام کے سربراہ اور ICIMOD کے ریجنل پروگرام مینیجر ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا ہے کہ 2022 میں جہاں ایک طرف پاکستان میں تباہ کن سیلاب آئے، وہیں دوسری جانب اس ملک کے گلیشئیرز کے لئے بھی یہ سال خطرناک ثابت ہوا- شمالی علاقوں میں عموماً سال بھر میں گلیشئیائی جھیلیں ٹوٹنے کے ایک دو واقعات ہوتے ہیں، جبکہ اس سال میں ایسے سینتیس واقعات دیکھنے میں آئے، جس سے بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان ہوا

گلیشیائی جھیلیں کیسے بنتی اور ٹوٹتی ہیں؟ اس سوال پر ضوفین ٹی ابراہیم نے بتایا ”اس وقت خیبر پختونخواہ اور گلگت بلتستان میں گلیشئیر ز کے پگھلنے سے بننے والی تین ہزار سے زیادہ چھوٹی بڑی جھیلیں ہیں، جن کا پانی مقامی لوگوں کی زراعت اور پانی کی ضروریات پوری کرتا ہے، لیکن جب گلیشئرز کے پگھلنے کی رفتار بہت تیز ہو جاتی ہے تو اس کے دباؤ سے وہ جھیلیں پھٹ جاتی ہیں اور آس پاس کے علاقے میں تباہی پھیلا دیتی ہیں، جس سے بعض مرتبہ اتنا زیادہ نقصان ہو جاتا ہے کہ اس کی تلافی مدتوں نہیں ہو پاتی“

گلیشئیرز کے تیزی سے پگھلنے کے معیشت پر اثرات کے حوالے سے ڈاکٹر فہد سعید کہتے ہیں کہ گلیشئرز کے تیزی سے پگھلنے اور گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے کا نقصان مقامی کمیونٹیز تک ہی محدود نہیں رہتا۔ گلیشئرز کے پگھلنے سے پانی کی سیکیورٹی پر اثر پڑتا ہے اور ہائیڈروپاور ، پینے کے پانی اور زراعت کے لیے پانی کی فراہمی متاثر ہوتی ہے۔ زراعت میں پانی کی قلت سے زرعی فصلیں اور خوراک کی پیداوار متاثر ہوتی ہے اور ہائیڈرو پاور کی پیداوار پر اثر توانائی کے سیکٹر کو متاثر کرتا ہے، جبکہ پانی کے بہاؤ میں تبدیلی سے حیاتیاتی تنوع اور دریاؤں کا ایکو سسٹم متاثر ہوتا ہے“

ڈاکٹر ضیا ہاشمی بتاتے ہیں ”گلیشئرز کے پگھلاؤ میں تیزی سے بڑے دریاؤں، خاص طور پر دریائے سند ھ میں پانی کے بہاؤ میں نمایاں تبدیلی آ گئی ہے، جس سے سطح زمین اور زیر زمین پانی کی مقدار متاثر ہو رہی ہے اور نتیجتاً پاکستان کے توانائی کے سیکٹر اور صوبوں کے درمیان پانی کی بر وقت تقسیم پر دور رس معاشی اور سیاسی اثرات مرتب ہو رہے ہیں“

انہوں نے کہا ”سب سے خطرناک منظرنامہ یہ ہے کہ پاکستان مستقبل میں کسی وقت جب اپنے بیشتر گلیشئیرز سے محروم ہو جائے گا، تو اس سے ملک میں پانی کی قلت اور مون سون بارشیں انتہائی غیر یقینی ہو جائیں گی۔ اس کے پاکستان کی زرعی معیشت پر بہت برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، جو پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے“

گلوبل وارمنگ، کوہ پیماؤں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ان کے چھوڑے ہوئے کچرے کے باعث دنیا کے سب سے اونچے پہاڑ ہمالیہ کی برف تیزی سے پگھل رہی ہے

پاکستان میں آئی یو سی این کے کلائیمیٹ چینج پروگرام کے سربراہ اور پاکستان کے محکمہ موسمیات کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر غلام رسول کہتے ہیں کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، لیکن وہ آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات اور مسائل سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں شامل ہے، جن میں سے ایک گلیشئیرز کا تیزی سے پگھلنا ہے

پاکستان کے کئی سرکاری ادارے اور ریسرچ سنٹرز یہ تحقیق کر رہے ہیں کہ گلیشئیرز کے تیزی سے پگھلنے سے سماجی اور اقتصادی شعبوں میں پانی کی دستیابی اور مستقبل میں پانی کی حفاظت پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ان میں گلوبل چینج امپیکٹ اسٹڈیز سینٹر، پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز، گلیشیئر مانیٹرنگ ریسرچ سینٹر واپڈا، پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ اور اسپیس اینڈ اپر ایٹموسفیئر ریسرچ کمیشن (سپارکو) شامل ہیں

اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے یو این ڈی پی کے گرین کلائمیٹ فنڈ سے چلنے والے گلیشیل لیک آؤٹ برسٹ فلڈز یا گلوف۔2 پراجیکٹ کے تحت مقامی کمیونٹیز کو گلشیائی جھیلوں کے پھٹنے کے خطرے سے آگاہ کیا جاتا ہے ۔ ڈاکٹر ضیا کے بقول، یہ پروگرام خاصے کامیاب رہے ہیں جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ سال پاکستان میں گلیشئرز کے پگھلنے اور جھیلوں کے پھٹنے سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، تاہم ان کا کہناہے کہ آنے والےعشروں میں گلگت بلتستان اور خیبر پختونخواہ میں گلیشئیرز اور گلیشیائی جھیلوں کے قریب رہنے والی کمیونٹیز کے لیے خطرات مزید بڑھ جائیں گے

ڈاکٹر غلام رسول نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے تجاویز دیتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو باور کرانا ہوگا کہ ماحول دوست مقامی درختوں کو اگائیں، پانی کی قدرتی گذرگاہ میں مکانات نہ بنائیں، پیشگی اطلاع دینے والے نظام سے مربوط رہیں اور بروقت سب کے ساتھ اطلاعات شئر کریں، جب کہ سول سوسائٹی کی تنظیموں کی بھی ذمہ داری ہے کہ آفات کے قدرتی حل کے بارے میں مقامی لوگوں کو آگہی دیں اور ماحولیات کے تحفظ کی تربیت دیں

ضوفین ابراہیم کہتی ہیں ”ہمارے خطے میں درجہ حرارت میں اضافے کی ایک بڑی وجہ معدنی ایندھن کا استعمال ہے۔ جب تک حکومتی اور انفرادی سطح پر معدنی ایندھن کا استعمال کم نہیں کیا جائے گا، درجہ حرارت پر کنٹرول کرنا مشکل ہوگا اور گلیشئیرز کے تیزی سے پگھلاؤ روکنے کی کوششیں زیادہ کامیاب نہیں ہو سکیں گی۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close