جب دھوپ اور سورج کی شعاعوں سے محفوظ رکھنے والی کریم یا سن اسکرین کی بات آتی ہے تو ساتھ ہی کئی سوالات بھی ہمیں گھیر لیتے ہیں کہ کیا دھوپ سے بچانے والی کریمیں کینسر کا باعث بنتی ہیں؟ کیا ان سے جسم میں وٹامن ڈی کی کمی ہوتی ہے؟ گندمی رنگت والے لوگوں کو سن اسکرین کی ضرورت نہیں ہوتی؟
ذیل کی سطور میں ہم ایسے ہی بہت سے دعووں کی حقیقت اور سوالوں کے جواب جاننے کی کوشش کریں گے
سورج کی شعاعوں سے بچنے کے کئی موثر طریقے موجود ہیں اور سب سے کارآمد طریقہ ہے ان شعاعوں سے تحفظ فراہم کرنے والی کریموں کا استعمال لیکن اس کے باوجود کئی لوگوں کی جلد دھوپ کی تپش برداشت نہیں کر پاتی اور خراب ہو جاتی ہے۔ دوسری جانب لوگ جلد پر اسپرے یا کریم کی صورت میں استعمال ہونے والے ان کیمیکلز کو لگانے پر شکوک و شبہات کا شکار ہیں
حال ہی میں ایک معروف ٹک ٹاکر نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ سن اسکرین یا سورج کی شعاعوں سے تحفظ فراہم کرنے والی کریمیں کینسر کا باعث بنتی ہیں
یہ دعویٰ اس لیے بھی عجیب لگتا ہے، کیونکہ سن اسکرین کے اشتہارات میں اس کا بنیادی کام ہی جِلد کے کینسر سے محفوظ رکھنا بتایا جاتا ہے
اس ٹک ٹاکر نے یہ بھی کہا کہ تمام کیمیکل والے سن اسکرین کینسث کی وجہ بن سکتے ہیں اور لوگوں کو صرف اور صرف ’منرل سن اسکرین‘ استعمال کرنے چاہئیں اور ساتھ ہی اس نے اپنی تجویز کردہ سن اسکرین کے لیے ایک ڈسکاؤنٹ کوڈ بھی پوسٹ کر دیا۔ یعنی یہ ہماری جِلد کی فکرمندی سے زیادہ ایک تشہیری مہم ہی لگتی ہے
اس بارے میں جرمن شہر کولون میں پریکٹس کرنے والی ماہر امراضِ جلد ڈاکٹر یوٹا شلوسبرگر جا کہنا ہے، ”سن اسکرین کریموں میں کینسر پیدا کرنے والے مادے نہیں ہوتے‘‘
امریکہ میں مقیم ڈرمیٹالوجسٹ ہوپ مچل بھی اس بات سے متفق ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس بات کے کوئی ثبوت موجود نہیں کہ ان کریموں سے کینسر ہونے کا خدشہ ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ سوشل میڈیا صارفین ایسے دعوے کیوں کرتے ہیں؟
اس سوال کو لے کر جب مزید تحقیق کی جائے تو کریموں کے درمیان فرق کا معاملہ سامنے آتا ہے
منرل اور کیمیائی کریموں کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ منرل سن اسکرین میں ٹائٹینیم ڈائی آکسائیڈ یا زنک آکسائیڈ ہوتی ہے۔ یہ جلد پر ایک پرت بناتی ہے جو الٹرا وایلیٹ، یا یو وی ریز کو روکتی ہے اور انہیں جلد میں جذب نہیں ہونے دیتی۔ سن اسکرین لگانے کی وجہ سے، جو آپ کی جلد پر ایک سفید تہہ جمتی ہے، وہ بھی اسی وجہ سے ہوتی ہے۔ لیکن یہ منرل سن اسکرین کینسر کا سبب بن سکتی ہے، ماہرین کے مطابق تاحال اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں
لیکن پھر بھی بہت سے لوگ کیمیکل سن اسکرین استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہ جلد میں جذب ہو جاتی ہے۔ فوری جذب ہونے کی وجہ سے ایسی کریموں کو بار بار لگانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ماہرین کے دعوے کے مطابق ان میں ایسے کیمیائی مادے موجود ہوتے ہیں، جو آپ کی جلد میں جذب ہو کر اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی اس بات کا کوئی سائنسی ثبوت تاحال موجود نہیں ہے کہ کیمیکل سن اسکرینز میں ایسے مادے ہوتے ہیں، جو انسانوں کے لیے خطرناک ہوں
ڈاکٹر یہ مشورہ دیتے ہیں کہ ہر سال نئی سن اسکرین خریدی جائے۔ تاہم کچھ سن اسکرینز میں مصنوعی یو وی فلٹر ایکٹیوکرائلین ہوتا ہے۔ 2021 میں ہونے والی ایک تحقیق میں پتا چلا ہے کہ ایکٹیوکرائلین وقت کے ساتھ تبدیل ہو کر بنزوفینون بن جاتا ہے
ڈرمیٹالوجسٹ شلوسبرگر کے مطابق، ”جانوروں کے لیے بینزوفینون نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے انسانوں کی صحت پر مضر اثرات ہو سکتے ہیں لیکن سائنسی طور پر ایسا اب تک ثابت نہیں ہو سکا ہے‘‘
یہی وجہ ہے کہ ماہر امراض جلد یہ مشورہ دیتے ہیں کہ پرانی کیمیکل سن اسکرین استعمال نہ کریں
لیکن جب اس بات کا کوئی حتمی سائنسی ثبوت ہی موجود نہیں ہے کہ کیمیکل سن اسکرین کینسر کا باعث بنتی ہے تو پھر احتیاط کیوں؟ سائنسدان ان کریمز میں موجود کچھ اجزا کے حوالے سے ڈیٹا کی کمی سے متعلق خدشات کا اظہار کرتے ہیں
تاہم ماہرین کے مطابق سورج کی روشنی سے کینسر کا خطرہ، کیمیکل سن اسکرینز کے استعمال سے ہونے والے خطرے سے کہیں زیادہ ہے
کئی سوشل میڈیا صارفین کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ سن اسکرین وٹامن ڈی کی کمی کا باعث بنتی ہے۔ تاہم سائنسی طور پر اس بات کا بھی کوئی ثبوت موجود نہیں
اس کے برعکس ماہرین اس بات پر متفق ہیں کے سن اسکرین کے استعمال سے انسانی جسم میں وٹامن ڈی کی کمی نہیں ہوتی۔ سائنسی حقائق کے مطابق سورج کی شعاعوں سے محفوظ رکھنے والے اجزا جیسے کے ایس پی ایف والی سن اسکرینز سورج کی زیادہ تر یو وی بی شعاعوں کو فلٹر کرتی ہیں، اور یہی وہ شعاعیں ہیں جو جلد میں وٹامن ڈی کی پروڈکشن کو متحرک کرتی ہیں
تاہم طبی مطالعات میں کہیں بھی اس بات کا حوالہ نہیں ملتا کہ سن اسکرین لگانے سے وٹامن ڈی کی کمی پیدا ہوتی ہے۔ اس کے برعکس کئی محققین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ روزانہ سن اسکرین استعمال کرنے والے لوگوں میں وٹامن ڈی کی کمی نہیں ہوتی
اس حوالے سے ایک دعویٰ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ ’کلرڈ اسکن‘ والے لوگوں کو سن اسکرین کی ضرورت نہیں ہے۔ کئی ہزار فالورز والی ایک اسٹار نے یہ دعویٰ ٹک ٹاک پر کیا ہے۔ اس وڈیو کو چھ لاکھ لوگوں نے دیکھا
اس بارے میں ماہر امراضِ جلد اوٹا شولس کہتی ہیں کہ ہر رنگت کی جلد والے لوگوں کو دھوپ نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ہاں انتہائی گورے لوگ دھوپ کی تپش سے جلدی متاثر ہوتے ہیں، تاہم کوئی بھی دھوپ سے مکمل محفوظ نہیں ہے
ڈرمیٹالوجسٹ ہوپ مچل کہتی ہیں، ”ہم جانتے ہیں کہ گہرے رنگت والی جلد میں سورج سے تحفظ کا قدرتی عنصر موجود ہوتا ہے لیکن ایس پی ایف 30 کی ضرورت تقریباً ہر رنگت کی جلد والے انسان کو ہوتی ہے۔‘‘