ٹماٹر ہمارے خطے کے کھانوں کا ایک اہم حصہ ہے اور اسے مختلف قسم کی سبزیوں، چٹنیوں، سلاد سے لے کر کئی پکوانوں میں استعمال کیا جاتا ہے
یہ ٹماٹر کبھی تو بہت سستا دستیاب ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی اس کی قیمتیں عالمِ مدہوشی میں اتنی اونچی اڑان بھرتی ہیں کہ یہ لگژری آئٹم بن جاتا ہے۔۔ خرید بھی لیں تو اسے کاٹ کر پتیلی کے حوالے کرنے کا دل نہیں کرتا
ٹماٹر کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے، آج کھانوں میں سواد لانے کے لیے جس ٹماٹر کو ایک ضروری جز سمجھا جاتا ہے، اس نے ایک دور ایسا بھی دیکھا ہے، جب لوگ ٹماٹر کو زہریلا سمجھتے تھے اور اسے صرف آرائشی شے کے طور پر استعمال کرتے تھے
ٹماٹر کا سائنسی نام سولنم لائکوپرسکم ہے۔ یہ سولاناسی خاندان (پودوں کی قسم) کا چشم و چراغ يعنی پھل ہیں۔ ٹماٹر میں 95 فیصد پانی ہوتا ہے۔ بقیہ پانچ فیصد میں ملیک (جس کی وجہ سے پھل کا ذائقہ کھٹا ہوتا ہے)، سٹرک ایسڈ، گلوٹامیٹ، وٹامن سی اور لائیکوپین جیسے غذائی اجزا پائے جاتے ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ شکریہ لائیکوپین کا، جو اسے سرخ رنگت عطا کرنے کا باعث ہے
انگریزی لفظ ’ٹماٹو‘ ہسپانوی لفظ ’ٹومیٹ‘ سے ماخوذ ہے۔ اس ہسپانوی لفظ کی جڑیں ایزٹیک زبان میں پائی جاتی ہیں۔ ازٹی میں انہیں زوٹومیٹل کہا جاتا ہے
آئی وی او ایس آر جرنل میں شائع ہونے والے ماہر نباتات روی مہتا کے تحقیقی مقالے ’ٹماٹر کی تاریخ: غریب آدمی کا سیب‘ میں کہا گیا ہے کہ زوٹومیٹل کی اصطلاح کا ذکر پہلی بار 1595 کے دوران کتابوں میں ہوا۔ ’اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ ٹماٹر یہاں پیدا ہوئے تھے تاہم وہ سولنسی پودوں میں لاکھوں سال کی ترقی کے دوران موجودہ شکل میں آ سکتے ہیں۔‘
سب سے پہلے ٹماٹر کی کاشت کی بات کی جائے تو اس بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اسے سب سے پہلے جنوبی امریکہ کے اینڈیز پہاڑی سلسلے میں اُگایا گیا تھا۔ اس خطے میں اب پیرو، بولیویا، چلی اور ایکواڈور شامل ہیں
روی مہرا اپنے سیر حاصل تحقیقی مقالے میں کہتے ہیں ”ایزٹیک اور انکا جیسی ثقافتوں کے پاس اس بات کا ثبوت ہے کہ ٹماٹر سات سو عیسوی کے اوائل میں کاشت کیے گئے تھے“
تاہم اصل میں اینڈیز میں اگائے جانے والے ٹماٹر بہت کڑوے تھے۔ روی مہتا کے مطابق ”جب انسان تقریباً بیس ہزار سال پہلے یہاں آباد ہوئے تو یہ ٹماٹر بہت چھوٹے اور کڑوے تھے“
وہ کہتے ہیں ”تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ سیاح ان پودوں کو جنوبی امریکہ سے وسطی امریکہ لے گئے تھے۔ یہیں سے مایا تہذیب نے ٹماٹر کی کاشت شروع کی تھی“
”یہ بتانے کے لیے کوئی ثبوت دستیاب نہیں ہے کہ ٹماٹر کی کاشت اصل میں کب اور کیسے شروع ہوئی۔ تاہم ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ یہ پانچ سو عیسوی سے پہلے کاشت کیے گئے ہوں گے“
خوراک کے مورخین کا کہنا ہے کہ جب 1490 کی دہائی میں سیاح کرسٹوفر کولمبس جنوبی امریکہ آئے تو یورپیوں کو ٹماٹر کے بارے میں معلوم ہوا
روی مہتا نے اپنے تحقیقی مقالے میں ذکر کیا ہے کہ یورپی ادب میں ٹماٹر کا سب سے قدیم ذکر 1544 میں اطالوی معالج اور ماہر نباتات اینڈریا میٹیولی کی تحریر ’ہربل‘ میں ملتا ہے
یہ ٹماٹر بحیرہِ روم میں بغیر کسی پریشانی کے آرام سے اُگ سکتے ہیں، جہاں درجہ حرارت جنوبی امریکہ کی آب و ہوا کے مطابق ہے
روی مہتا بتاتے ہیں کہ ابتدائی طور پر یورپ میں اگائے جانے والے ٹماٹر پیلے رنگ کے ہوتے تھے اور انھیں پیلا سیب کہا جاتا تھا
ٹماٹر کے بارے میں ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے قبل برطانیہ میں ٹماٹر کو زہریلا پھل سمجھا جاتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کے پودوں کے پتے کچھ مہلک پودوں سے ملتے جلتے تھے
ٹماٹر کی داستان کے راوی، روی مہتا بتاتے ہیں کہ اس دور میں زیادہ تر ٹماٹر میز کی سجاوٹ کے طور پر استعمال ہوتے تھے، یہاں تک کہ 1800 کے دہائی میں امریکہ میں ٹماٹر کے بارے میں بہت سے خدشات موجود ہیں
اس کے علاوہ ٹماٹر کو ’زہریلے سیب‘ بھی کہا جاتا تھا۔ بعض کتابوں میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کچھ امیر لوگ ٹماٹر کھانے کے بعد مر گئے۔ تاہم یہ خبریں حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتیں
روی مہتا کے مطابق ”ان اموات کی وجہ بعد میں ان کے استعمال کردہ ’پیوٹر‘ برتنوں کو قرار دیا گیا تھا، جن میں اس وقت سیسہ ملا ہوا تھا جو انسانوں کے لیے خطرناک تھا۔ ٹماٹروں میں تیزاب (ایسڈ) کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ یہ تیزاب شیشے کے ساتھ ری ایکٹ کرتا ہے، جو فوڈ پوائزننگ کا سبب بنتا ہے“
ٹماٹر کو ہم نے جنوبی امریکہ، وسطی امریکہ اور یورپ کے خطے میں بہت گھما لیا، چلیں اب ہماری اس داستان کے مرکزی کردار کو ذرا ہندوستان کے خطے کی بھی سیر کروا لیتے ہیں، اور دیکھتے ہیں ٹماٹر میاں ہندستان کب پدھارے
تو جناب، خوراک کی تاریخ دان کیٹی اچایا نے اپنی کتاب ’انڈین فوڈ: اے ہسٹوریکل کمپینئن‘ میں ذکر کیا ہے کہ ٹماٹر سب سے پہلے ہندوستان میں پرتگالی لائے تھے
کیٹی نے اپنی کتاب میں کہا ہے ”ٹماٹر، مکئی، ایوکاڈو، کاجو اور شملہ مرچ جیسی بہت سی فصلیں پرتگالی ہندوستان لائے تھے“
جبکہ روی مہتا کہتے ہیں ”یہاں کا درجہ حرارت ٹماٹر کی کاشت کے لیے موزوں ہے۔ ہندوستان کی مٹی بھی اس کے لیے موزوں ہے تاہم یہ کہنا مشکل ہے کہ ہندوستان میں یہ سب سے پہلے کہاں کاشت کیا گیا تھا“
روی کے مطابق انگریزوں کے دور میں اس فصل کے زیر کاشت رقبہ میں کافی اضافہ ہوا۔ اس فصل کا زیادہ تر حصہ انگریزوں کے پاس گیا
خوراک کے تاریخ دان ڈاکٹر پورناچندو کا کہنا ہے ”ہمارے خطے میں ٹماٹروں کی تاریخ دو سو سال سے زیادہ نہیں ہے۔ ہائبرڈ ٹماٹروں کے آنے کے بعد ان کی کھپت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اب ٹماٹر کے بغیر پکانے کا سوچنا بھی مشکل ہے“
کہا جاتا ہے کہ سبزیوں میں املی کی جگہ ٹماٹر نے لے لی ہے، جس کی وجہ سے اس کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے۔ پورناچندو کے مطابق اس کی قیمت املی سے بھی کم ہے اور اسے مختلف اقسام کے کھانوں کے ذائقے میں آسانی سے شامل کیا جاتا ہے۔
اگرچہ ہمارے خطے میں آ کر ٹماٹر میں دیسی والے جذبات آ گئے ہیں، اور یہ سستا بن کر ہمارے گلے اترتا ہے، لیکن کبھی کبھی جب اسے یاد آتا ہے کہ ’لے، میں تو باہر سے آیا ہوں۔۔‘ تب شاید یہ کبھی کبھی بہت بھاؤ کھاتا ہے اور مہنگا ہو جاتا ہے۔