سورج سے تیس ارب گنا زیادہ بڑا بلیک ہول دریافت۔۔ خود سائنسدانوں کو یقین نہیں آ رہا!

ویب ڈیسک

برطانوی ماہرین فلکیات نے سورج کے وجود سے تیس ارب گنا زیادہ حجم رکھنے والا دیو ہیکل بلیک ہول دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے

دی کومٹ ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ کی ڈرہم یونیورسٹی کے سائنسدانوں کے مطابق ”دیوہیکل بلیک ہول اب تک کی سب سے بڑی دریافت ہے“

اس بلیک ہول کے ناقابلِ یقین حجم کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سورج زمین سے 109 گنا بڑا ہے، تاہم اب دریافت ہونے والے بلیک ہول کے بارے میں گمان کیا جا رہا ہے کہ یہ سورج سے بھی 30 ارب گنا بڑا ہے

یہ ریسرچ رائل ایسٹرانومیکل سوسائٹی کے جریدے جرنل منتھلی نوٹسز میں شائع ہوئی ہے، جس میں سائنسدانوں نے اس دریافت کو ’انتہائی دلچسپ‘ قرار دیا

ڈرہم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کے مصنف ڈاکٹر جیمز نائٹنگیل نے کہا ”یہ بلیک ہول ہمارے سورج سے تیس ارب گنا زیادہ حجم رکھتا ہے اور یہ اب تک کی سب سے بڑی دریافت ہے، اس لیے یہ ایک انتہائی دلچسپ ہے“

برطانیہ کی ڈرہم یونیورسٹی کے ڈاکٹر جیمز نائٹنگیل اس تحقیق کے سربراہ تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کو اس بات پر یقین کرنے میں مشکل ہو رہی ہے کہ یہ چیز کتنی بڑی ہے

ماہرین خود بھی یقین نہیں کر پا رہے

ڈرہم یونیورسٹی کے ان سائنسدانوں نے ایک نئی تکنیک کے ذریعے اس بلیک ہول کو دریافت کیا۔ اس تکنیک کو ’گریویٹیشنل لیزنگ‘ کہا جاتا ہے۔ اس تکنیک میں سائنسدان روشنی کی اس مقدار کو ناپتے ہیں جو بلیک ہول اپنے اندر کھینچتا ہے۔ ان کی تحقیق کو جریدے ’منتھلی نوٹسز آف دی رائل ایسٹرونومیکل سوسائٹی‘ میں شائع کیا گیا

ڈاکٹر جیمز کہتے ہیں ”ایک ماہر فلکیات ہوتے ہوئے بھی مجھے یہ سمجھنے میں مشکل پیش آ رہی ہے کہ یہ چیز کتنی بڑی ہے۔۔ اگر آپ رات کے آسمان کو دیکھیں اور تمام ستاروں اور سیاروں کو گن کر ایک نکتے پر رکھیں تب بھی یہ سب مل کر اس بلیک ہول کے ہجم کے ایک نہایت ہی چھوٹا سا حصہ ہوں گے۔۔یہ بلیک ہول کائنات کی اکثریتی کہکشاوں سے بھی بڑا ہے“

انہوں نے کہا ”اس دریافت نے فلکیات کی سمجھ بوجھ کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ ’اتنا بڑا بلیک ہول کائنات کی 13 ارب سال کی زندگی میں کیسے بن سکتا ہے؟“

اس سے پہلے یر ایونٹ ہورائزن ٹیلی اسکوپ نامی بین الاقوامی تعاون تنظیم نے سنہ 2022 میں ’سیجیٹیریئس اے‘ نامی بلیک ہول کی تصویر جاری کی تھی، یہ بلیک ہول ہمارے سورج سے زیادہ چالیس لاکھ گنا زیادہ حجم رکھتا تھا

اسی ٹیم نے سنہ 2019 میں ایک اور کہکشاں ’ایم 87‘ کے مرکز میں واقع بلیک ہول کی تصویر جاری کی تھی، وہ بلیک ہول اس بلیک ہول سے بھی ایک ہزار گنا زیادہ بڑا اور ہمارے سورج سے ساڑھے چھ ارب گنا زیادہ حجم کا حامل تھا

تاہم ڈاکٹر جیمز نائٹنگیل کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کے بعد ہم اپنی کہکشاں ملکی وے سے دیگر کہکشاؤں میں موجود بلیک ہول کا بھی پتا لگا سکتے ہیں اور یہ بھی ظاہر کرسکتے ہیں کہ یہ بلیک ہولز کیسے بنے

سائنسدانوں نے ہبل اسپیس ٹیلی اسکوپ کے ذریعے اس بلیک ہول کی تصویر لی، جس میں بلیک ہول کے حجم کی تصدیق کی گئی

ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلا بلیک ہول ہے، جو کشش ثقل (gravitational) لینسنگ کی مدد سے دریافت کیا گیا ہے

ڈاکٹر جیمز نائٹنگیل کا کہنا ہے کہ زیادہ تر دیوہیکل بلیک ہول، جنہیں ہم جانتے ہیں، وہ اپنی فعال حالت میں موجود ہیں، جہاں یہ روشنی، ایکس ریز اور دیگر تابکاری کی شکل میں توانائی خارج کرتے ہیں

تاہم کشش ثقل لینسنگ کی مدد سے غیر فعال بلیک ہولز کا مطالعہ کرنا ممکن ہے، جو ابھی دور دراز کہکشاؤں کے بلیک ہولز میں فی الحال ممکن نہیں ہے

محققین کا کہنا ہے کہ اس دریافت کے بعد ممکن ہو سکے گا کہ ماہرین فلکیات مستقبل میں اس سے بھی کئی گنا بڑے بلیک ہولز دریافت کر سکتے ہیں

اس تحقیق کو برطانیہ کی اسپیس ایجنسی، رائل سوسائٹی، سائنس اور ٹیکنالوجی فیسلٹی کونسل، یو کے ریسرچ اینڈ انوویشن اور یورپی ریسرچ کونسل نے تعاون کی ہے

بلیک ہول کیا ہے؟

بہت زیادہ بڑے بلیک ہولز کائنات میں پائے جانے والے سب سے بڑے آبجیکٹ ہیں جن کا حجم سورج سے دس ارب سے چالیس ارب گنا بڑا ہو سکتا ہے

کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ جب کوئی ستارہ اپنی زندگی کے آخری حصے میں ہوتا ہے تو وہ پھٹ جاتا ہے یا پھر بلیک ہول میں تبدیل ہوجاتا ہے، یعنی بلیک ہولز کچھ انتہائی بڑے ستاروں کی زندگی کے دھماکہ خیز اختتام سے وجود میں آتے ہیں۔ کچھ بلیک ہولز ہمارے سورج سے اربوں گنا بڑے ہو سکتے ہیں

بلیک ہول خلا میں ایک ایسا علاقہ ہوتا ہے، جہاں مادہ لامحدود حد تک کثیف ہو جاتا ہے۔ یہاں کششِ ثقل اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کوئی بھی چیز یہاں تک کہ روشنی بھی یہاں سے فرار نہیں ہو سکتی

ماہرین فلکیات کا خیال ہے کہ یہ بلیک ہول ہماری اپنی کہکشاں ملکی وے کے مرکز میں پائے جاتے ہیں، تاہم سائنسدان وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ کہکشاؤں کے مرکز میں پائے جانے والے یہ بلیک ہولز کیسے بنے ہیں

تاہم یہ واضح ہے کہ یہ کہکشاں کو توانائی فراہم کرتے ہیں اور متحرک رکھتے ہیں اور ان کی ارتقا پر اثرانداز ہوتے ہیں

کوئی بھی ستارہ بلیک ہول اس وقت بنتا ہے، جب اس کے تمام مادے کو چھوٹی جگہ میں قید کر دیا جائے۔ اگر ہم اپنے سورج کو ایک ٹینس بال جتنی جگہ میں مقید کر دیں تو یہ بلیک ہول میں تبدیل ہوجائے گا

یہاں کششِ ثقل اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کوئی بھی چیز یہاں تک کہ روشنی بھی یہاں سے فرار نہیں ہو سکتی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close