سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط 20)

شہزاد احمد حمید

مرول ٹاپ بادلوں میں چھپ کر پیچھے رہ گیا ہے۔ سڑک قراقرم کے پہاڑوں پر سندھو کے سنگ بل کھاتی ہمالیہ کے پہاڑوں میں گھری پاک فوج کی چھوٹی چھاؤنی ’ہمزی گونڈ‘ (قمریگون) کو رواں ہے۔ یہ ممنوع علاقہ (restricted area) ہے۔ اس چھاؤنی کو مرکزی سڑک سے ملاتا واحد زمینی راستہ قراقرم پر تراشی سرمئی سڑک سے ہی جاتا ہے۔ یہاں سے سامان رسد اور انسانوں کو بٹالک سیکڑ کی چوکیوں تک اس راستے سے پہنچایا جاتا ہے جو ہمالیہ کے پہاڑوں پر تراشا گیا ہے۔ اس بستی کا سکوت ڈراتا ہے۔ آواز یا تو سندھو کے بہنے کی ہے یا اس سیٹی کی جو تیز ہوا بجاتی ہے یا کبھی ان ہتھیاروں کی جو دو دشمن ملکوں کی فوجوں کے درمیان وقتاً فوقتاً استعمال ہوتے رہتے ہیں

ہمزی گونڈ میں ہماری ملاقات شمالی وزیررستان کے رہنے والے خوبرو، سمارٹ اور چاق و چوبند کیپٹن زر خاں سے ہوئی۔ مجھے اُس کا اور دوسرے جوانوں کا عزم ان پہاڑوں سے بھی بلند لگا۔ اسے بھی مجھ سے ملنے کا اشتیاق تھا کہ میں ’سندھو کی کہانی‘ لکھنے تبت، بھارت سے ہوتا یہاں پہنچا ہوں۔ وہ پچھلے 2 ماہ سے یہاں ڈیوٹی پر ہے۔ ہماری تواضع چائے اور دوسرے لوازمات سے کی گئی ہے۔

ہم اگلی مسافت کو رواں ہیں۔”کھرمنگ“ یعنی زیادہ قلعوں کی جگہ۔

داستان گو کہنے لگا؛ ”وہ سامنے اپنے دائیں جانب دیکھو۔ یہ ’غمدس‘ کی آبشار ہے۔ یہ دیوسائی کے ندی نالوں کا پانی اکٹھا کر کے بلندی سے آتی مجھ میں گرتی ہے۔ اس کا برفیلا پانی اور یہاں کی تازہ ہوا، آبشار کے پانی کے اڑتے چھینٹے سیاحوں اور مسافروں کو ترو تازہ کر دیتے ہیں۔ یہ بڑا پکنک اسپاٹ بن چکا ہے۔ تم یہاں رک کر میرے پانی کی ٹراؤٹ فش سے لطف اندوز ہو۔ یہ کم لوگوں کو ہی کھانے کو ملتی ہے۔“ سندھو یہ بتا کر اپنی روانی میں کھو گیا ہے۔ ہم سڑک کنارے ایک کھوکھے سے ٹراؤٹ فش کھانے رکے ہیں، جو بھائی جان قیس نے اپنی نگرانی میں فرائی کرائی ہے۔ ایسی خستہ اور لذیذ ٹراؤٹ پہلے کبھی نہ کھائی تھی۔

ہمارے دائیں ہاتھ ہمالیہ کے پہاڑوں میں آباد ’غمدس‘ کی سرسبز بستی ہے۔ غلام محمد کی آبائی بستی اور پرانی کھرمنگ ریاست کا صدر مقام۔ راجہ کا محل ہمالیہ کے پہاڑ کی چٹان پر تنہا کھڑا علاقے کی سب سے منفرد عمارت ہے۔ کبھی یہاں رونقیں تھیں، انسانی چہل پہل تھی، آج یہ اکیلا کھڑا ماضی کے شور شرابے سے آزاد سندھو کی روانی ہی سنتا ہے۔ ماضی میں آنے والے ایک زلزلہ سے اسے کافی نقصان پہنچا ہے۔ تقریباً 200 سال پرانا یہ محل ”انتھوق کھر“ کہلاتا ہے۔ ہماری عادت نہیں کہ ہم اپنے تاریخی عمارات کو محفوظ بنا سکیں۔ہم تاریخ اور ثقافتی ورثہ کی اہمیت سے ناواقف قوم ہیں۔ یہ محل بھی ہماری بے حسی کا ثبوت ہے۔ کھرمنگ کے آخری راجہ امان اللہ خاں فوت ہوئے تو ان کے فرزند راجہ مشرف علی خاں یہاں کے رسمی راجہ ہیں اور وہ گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات میں باقائدہ حصہ لیتے ہیں۔ 2 بار جیتے اور پچھلی بار ہار گئے تھے۔ دین دار اور شریف النفس انسان ہیں۔ قدیم دور میں کھرمنگ ریاست کھرمنگ سے لداخ تک پھیلی تھی۔ راجے عوام کے خیر خواہ ہوتے تھے اور بدلے میں عوام بھی اُن سے دلی محبت کرتی تھی۔ اس محل سے ذرا اوپر جامع مسجد کو پیدل راستہ جاتا ہے۔ اس مسجد میں رکھا ’موئے مبارک‘ اس مسجد کا تقدس بہت بڑھا دیتا ہے جو موجودہ راجہ کے بزرگ لداخ سے لائے تھے۔ کم لوگ ہی اس مسجد میں موئے مبارک کی موجودگی سے آگاہ ہیں۔ کبھی ’گنوج نالے‘ کے قریب واقع راجہ کا محل آگ لگنے سے جل گیا تھا۔ اب اس محل کی جگہ مسجد تعمیر کی گئی ہے۔ گنوج نالے کے ساتھ ساتھ پیدل راستہ لداخ کو جاتا تھا۔ آج بھی ہے لیکن استعمال نہیں ہوتا۔ یاد رہے پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں ریاستوں کو 1974ء میں ایک قانون کے تحت ختم کر کے پاکستان میں ضم کر دیا گیا تھا۔

قاچو غلام محمد نے بتایا؛ ”سر! غمدس سے ایک دن کی پیدل مسافت خپلو پہنچا دیتی ہے، جبکہ دوسرا راستہ 3 دن کی مسافت سے سری نگر۔۔ بھیڑیا، برفانی چیتا (مقامی زبان میں چن) اور مارخور یہاں کے پہاڑوں کے قدیم مکین ہیں۔“

مجھے داستان گو کی آواز سنائی دی، بتانے لگا؛ ”ہمالین مارخور اور یورپین مارخور کے سائز، سینگوں اور وزن میں نمایاں فرق ہے۔ گلگت میں پائے جانے والے مارخور کے سینگ پچپن (55) انچ تک بھی دیکھے گئے ہیں۔ ہمالین مارخور اونچے پہاڑوں کی انتہائی اونچائی پر رہتے ہیں۔12 سے 16 ہزار فٹ بلند ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے سلسلے اس کا مسکن ہیں، جہاں یہ بڑی تعداد میں پایا جاتا ہے۔ ہنزہ سے خنجراب تک بھی اس کی آبادی اچھی خاصی ہے۔ گلگت میں اشکومن وادی اسے بہترین ماحول فراہم کرتی ہے۔ چلاس اور ملکہ پربت (نانگا پربت) بھی اس کی من پسند جگہ ہے۔ میرے دوست! پاکستان میں اس کی نسل کو کوئی خطرہ نہیں۔ اس کی 2 بڑی وجہ ہیں۔ پہلی اس کے شکار پر پابندی ہے۔ شکار کے لئے پرمٹ لینا پڑتا ہے جو آسانی سے نہیں ملتا ہے۔ دوسری یہ شکاریوں کی پہنچ سے دور اونچے پہاڑوں میں رہتا ہے۔ ایسے پہاڑوں پر چڑھنا شکاریوں کے لئے آسان نہیں۔ہاں شکار یہ تب ہوتا ہے، جب کبھی سات آٹھ ہزار فٹ کی بلندی تک آتا ہے تو تاک میں بیٹھے شکاریوں کا نشانہ بن جاتا ہے۔ خوبصورت اور مضبوط سینگ، طاقتور ٹانگیں، حسین چہرہ، بھورا رنگ۔ یہ دل کو بھلا لگنے والا جانور ہے۔ اس کا گوشت بھی لذیذ ہوتا ہے مگر پکانے والا ماہر ہونا چاہیے۔۔ میرے کنارے طولتی، مہدی آباد، کھر منگ اور سر میک کی سرسبز وادیاں اپنے پرسکون اور پر فضا ماحول میں آنے والوں کو خوش آمدید کہتی ہیں۔ غمدس سے کھرمنگ تک کا علاقہ ’کھرما خاص‘ کہلاتا ہے۔ مہدی آباد ضلعی صدر مقام ہے۔“

میرے دوست ہدایت اللہ یہاں ڈپٹی ڈائیریکٹر بلدیات ہیں۔ نفیس، سادہ، مخلص اور مہمان نواز۔ انہوں نے ہم سب کو پٹو کی بنی ٹوپی دی، جو یہاں کی سوغات ہے۔ ان کی مہمان نوازی ہم سب پر قرض ہے۔ پٹو سے روایتی لباس بھی تیار کئے جاتے ہیں لیکن اکا دکا لوگ ہی اس روایتی لباس کو تیار کرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ یہ بہت مہنگا ہو گیا ہے۔مجھے میرے دوست بشیر اللہ ڈپٹی ڈائریکٹر بلدیات خپلو نے بتایا؛ ”جناب! خپلو میں عزیز اللہ واحد شخص رہ گیا ہے جو مقامی کپڑے ’پٹو‘ سے مقامی روایتی لباس تیار کر رہا ہے۔ یہاں کی اس روایت اور ثقافت کو پورے بلتستان میں صرف یہی شخص اور اس کا خاندان زندہ رکھے ہے۔ عزیز اس ثقافت کو زندہ رکھنے کا بیڑہ بھی اٹھائے ہے اور اس فن کو دوسروں میں بھی منتقل کر رہا ہے۔ وہ اپنے گھر میں ہی ٹرنینگ اسکول چلا رہا ہے، یوں مقامی دستکاری کی اس روایت کو اگلی نسل تک منتقل کر رہا ہے۔“

میرے پوچھنے پر بشیر اللہ نے بتایا؛ ”عزیز اور اس کا خاندان 200 سال سے زیادہ عرصہ سے اس دستکاری سے منسلک نسل در نسل اس ثقافت کو زندہ رکھے ہیں۔“ اپنی روایات اور ثقافت سے جڑے لوگ منفرد اور نامور ہوتے ہیں

سطح سمندر سے نو ہزار چھ سو چھہتر (9676) فٹ بلند اولڈنگ بستی سے اسکردو تک ایک سو ستائیس (127) کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے میں 3 گھنٹے لگتے ہیں۔ راستہ خطرناک موڑوں اور گہری کھائیوں سے گزرتا مسافروں کے حوصلہ اور ہمت کا کڑا امتحان لیتا ہے۔ سندھو اس سفر کے دوران دنیا کے دو عظیم پہاڑی سلسلوں ہمالیہ اور قراقرم کے بیچ بہتا، سنگلاخ چٹانوں کے ساتھ ٹکراتا، جھاگ اڑاتا، شور مچاتا ہے لیکن بیشتر سفر میں پرسکون بہتا ہے۔ اس کے دائیں کنارے ہمالیہ کے برف پوش پہاڑ ہیں تو بائیں کنارے قراقرم کے۔ سندھو کا پانی اپنے ساتھ بہہ کر آنے والی ’سلٹ‘ (بھل) کی وجہ سے کافی گاڑھا اور خاکستری رنگ کا ہے

غلام محمد نے بتایا، ”سر! اس بار سندھو میں پانی کی مقدار کافی کم ہے کہ اوپر زیادہ برف باری نہیں ہوئی ہے۔“ بھائی جان قیس کہنے لگے، ”یہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔ وہ سامنے پہاڑوں پر پانی کی سطح کے بنے نشان سے اندازہ کرنا کوئی مشکل نہیں کہ اس میں پانی کی مقدار کم ہے۔ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے.


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close