سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط 19)

شہزاد احمد حمید

ایک بار کرنل (آر) شہباز نے بتایا تھا ”میں 1978ء سے1980ء تک 2 این ایل آئی (2NLI) کا کمانڈر رہا۔ یہ وہ وقت تھا جب اسکردو سے اولڈنگ تک کا راستہ تنگ، دشوار تھا اور اس مسافت طے کرنے میں سات (7) گھنٹے لگتے تھے۔ مرول ٹاپ سے آگے کا راستہ تو بہت ہی کٹھن تھا۔ 1971ء کی جنگ میں ہم نے بہت سے علاقے کھوئے جیسے ترتک، لاتو، بنڈونگ، خاکسار، ہندرمن وغیرہ۔ یہ بھارت کے قبضے میں چلے گئے اور نئی لائن آف کنٹرول کھینچ دی گئی۔ یہ سبھی گاؤں فوجی اہمیت کے حامل ہیں۔ 1965ء کی جنگ میں بھی بھارت نے ان مقامات پر قبضہ کیا تھا لیکن پھر جنگ بندی اور معاہدہ تاشقند کے تحت یہ علاقے پاکستان کو واپس مل گئے تھے۔ 1971ء کی جنگ کے بعد ایسا نہ ہوا کہ بھارت جانتا تھا کہ ان علاقوں پر قبضے کا مطلب اس سیکٹرز میں فوجی نقطہ نگاہ سے برتری ہے۔ اب اس محاذ پر فوجی نقطہ نگاہ کے لحاظ سے بھارتی فوج زیادہ اہمیت والی جگہ پر ہے اور ہماری پوسٹوں پر انہیں اسٹریٹجک برتری حاصل ہے۔ ہاں اگر ہم 17 ہزار 500 فٹ بلند ’امونی ریج‘ amoni ridge کے آگے اپنے مورچے قائم کرتے تو کارگل کو جاتی مرکزی شاہراہ ہماری زد میں رہتی اور بھارت کے لئے اس سیکٹر میں نقل و حمل آسان نہ ہوتی، یوں واضح فوجی برتری ہمیں حاصل ہوتی۔ میں نے اس حوالے سے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو خط بھی لکھا تھا اور جواب میں میری تجویز سے اتفاق بھی کیا گیا تھا۔ شہباز پوسٹ امونی ریج کے نیچے سولہ ہزار پانچ (16500) کی بلندی پر میں نے ہی قائم کی اور میرے نام سے ہی منسوب ہے۔ اب تو ہمزی گونڈ میں بریگیڈ ہیڈ کوارٹر ہے اس دور میں بٹالین ہیڈ کواٹر تھا۔ ’کنگنی پوسٹ‘ پر پاک بھارت فلیگ میٹنگ ہوتی ہے۔“

میں نے سوال کیا؛ ”سر کچھ انڈس ویلی اور جمنا ویلی کی تہذیب کے بارے بتائیں گے۔“ کہنے لگے؛ ”شہزاد! یہ ایک دوسرے سے بہت مختلف تھیں۔ انڈس ویلی تہذیب زیادہ ایڈوانس تھی جبکہ گنگا ویلی کی تہذیب اس کے بعد کی ہے۔“ اس کے بعد انہوں نے رافٹنگ کے کھیل کے بارے میں بات کی۔۔

مجھے میرے داستان گو سندھو کی آواز سنائی دی؛ ”کیاتم رافٹنگ کے کھیل کے بارے میں جانتے ہو؟“ حسب عادت میرا جواب سنے بغیر ہی وہ بول پڑا ہے۔ داستان گو جو ٹھہرا، ”رافٹنگ کا کھیل سمندر یا دریا کے پانی کی لہروں پر ربڑ کی بنی کشتی میں کھیلا جاتا ہے۔ جوانمردی، ذہانت، صلاحیتوں اور طاقت کا کھیل۔ پاکستان میں یہ کھیل نیا ہے۔ اس کھیل کی سہولیات میرے کنارے کھرمنگ، اولڈنگ، جگلوٹ تا تھاکوٹ ہیں اس کے علاوہ دریائے کنہار پر ناران تا کاغان، دریائے سوات پر بحرین تا سیدو شریف، دریائے ”پنکورہ“ (چترال) پر دیر تا بٹ خیلہ اور دریائے ہنزہ پر علی آباد تا ہنزہ دستیاب ہیں۔ لوگوں کی اس کھیل میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ خاص طور پر نوجوانوں میں۔۔ مجھے یاد ہے اپنی جوانی میں دریائے سوات پر میں اس کھیل سے میں لطف اندوز ہوا تھا۔ ڈرتے ڈرتے۔ شمالی علاقہ جات کے فلک بوس پہاڑوں کی برف سے پانی کی ندیاں قراقرم، ہندو کش اور ہمالیہ کی چوٹیوں سے بہتی مجھ سمیت دوسرے دریاؤں میں اترتی ہیں۔ اگر آپ کو رافٹنگ کا شوق ہے، آپ جوان ہمت ہیں، پانی کی لہروں کا مقابلہ کر سکتے ہیں تو ان مقامات پر رافٹنگ کریں خود کو ان دریاؤں کے ٹھنڈے تازہ پانی سے بھگو لیں۔ یہ کھیل موقع دیتا ہے شمالی علاقوں کے ان بپھرے دریاؤں کے بے قابو پانیوں کو اپنے قابو میں کر نے کا۔ جسمانی طاقت، ذہنی پھرتی اور حاضر جوابی میں ہی اس کھیل کی سنسنی چھپی ہے۔ پانی کی اچھلتی اور تیز موجوں پر کشتی کھیانا کوئی آسان کام نہیں ایسے میں کشتی پر قابو رکھنا ہی کشتی رانوں کا امتحان اور کمال ہے۔“

میں نے یہاں کے مناظر کیمرے کی آنکھ میں بند کئے، جیپ میں سوار ہوئے اور کھرمنگ کو چل دئے ہیں، جو یہاں سے اسی (80) کلو میٹر کی مسافت ہے اور ڈپٹی ڈایکرئٹر بلدیات کھرمنگ ہدایت اللہ وہاں ہمارے منتظر ہیں۔ ہدایت اللہ ملنسار، مہمان نواز، سادہ اور کھرا انسان ہے۔ اس کے چہرے کی مسکراہٹ یقین دلاتی ہے کہ اس کا دل قدرتوں سے پاک ہے۔

مجھے سندھو کی آواز سنائی دی؛ ”ایک بات نوٹ کرنا۔ یہاں سے کھرمنگ تک کے سفر میں میرے دونوں کناروں پر چیری، خوبانی، سیب کے باغات اور سفیدے کے درختوں سے لدی گھنی اور بڑی بڑی سر سبز وادیاں پہاڑوں سے لٹکی شان قدرت بیان کرتی دکھائی دیں گی۔ ان وادیوں کے پیچھے بلتی آباد ہیں۔ جفاکش، محنتی اور بھلے مانس۔ ان پہاڑوں پر جو پتلے پتلے تنگ راستے دکھائی دے رہے ہیں، دراصل انہی آبادیوں کو جاتے ہیں۔ آلو، چقندرر، ٹماٹر، کدو، بھنڈی، یہاں کی سبزیاں جبکہ گندم اور جو اہم فصلیں ہیں۔ حضرت انسان نے یہاں زیتون کے درختوں کی بھی بھر مار کر دی ہے لیکن کوالٹی کے اعتبار سے یہ زیتون کی اچھی قسم نہیں ہے۔ اب حکومتی امداد سے اس کی کسی بہتر قسم کے ساتھ پیوند کاری کا منصوبہ زیرِ غور ہے۔ لوگ سادہ، محنتی اور ایمان دار ہیں۔ پیدل سفر چند سال پہلے تک عام تھا۔ ایک بلتی دن میں اوسطً تیس(30) میل کا فاصلہ باآسانی طے کر لیتا تھا۔ (اس بات کی تصدیق محمد علی اسسٹنٹ محکمہ بلدیات بلتستان نے بھی کی تھی جب اسکردو میں میری اس سے ملاقات ہوئی تھی۔) مگر اب خوشحالی ہے اور سڑکوں پر دوڑتی موٹر سائیکلوں نے سفر آسان کر کے یہاں کے سکون میں خلل ڈال دیا ہے۔ ہونڈا 125 اور نان کسٹم پیڈ گاڑیاں ان کی زندگی کا اب جزو بن گئی ہیں۔ گلگت بلتستان میں چلنے والی پرانے ماڈل کی ’سی جے فائیو اور سی جے سیون‘ جیپ کی جگہ اب نان کسٹم پیڈ جاپانی ’لینڈ کروزرز اور پراڈو‘ نے لے لی ہے۔ حکومت نے اس صوبے کے مستقل رہائشیوں کو نان کسٹم پیڈ گاڑیاں رکھنے کی اجازت دے کر یہاں کی مختلف وادیوں کا سفر آسان اور مقامی لوگوں کو خوشحال بنا دیا ہے۔ سیاح بھی ان آرام دہ گاڑیوں میں سفر کرنا پسند کرتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ ان پرانی جیپوں کی قدر نہیں رہی ہے۔ آج بھی میری دور دراز وادیوں میں، جہاں سڑکیں کچی اور تنگ ہیں، سفر کا بڑا ذریعہ یہی جیپیں ہیں۔‘‘

میں نے سندھو سے کہا؛ ”دوست! مجھے خوشی ہے تجھے اور تیرے دیس کی ہری بھری وادیوں، خوبصورت جھرنوں، گرتی آبشاروں کی مدھر تان سننے اس ملک کے طول و عرض سے نوجوان موٹر بائیکس، موٹر کاروں، جیپوں پر سوار ہنستے، چمکتے، دمکتے چہروں سے ادھرکا رخ کئے ہیں۔“

اس کا قہقہ فضا میں بکھرا اور وہ بولا؛ ”ابھی تو لوگ میری صرف دس سے پندرہ فی صد وادیوں کا ہی کھوج لگا سکے ہیں۔ ہر وادی کی بغل میں ایک اور وادی ہے، پہلی سے زیادہ خوبصورت۔۔ تم لوگ نہ جانے کیوں امریکہ، یورپ، دوبئی جانے کو ترجیح دیتے ہو۔ اللہ نے اس ملک میں دنیا جہاں کی خوبصورتی اتار دی ہے۔ ایسی خوبصورتی دنیا کے کسی اور ملک میں کم کم ہی دکھائی دیتی ہے۔ برف پوش پہاڑ، تیرتے بادل، ٹھنڈی ہوا، بہتے شور مچاتے دریا، جل ترنگ بجاتے آبشار، گنگناتی ندیاں، سفید برف پر کھیلتے برفانی چیتے، ریچھ، شرارتی مارمیٹ، تیڑھے میڑھے دشوار راستے، مہم جوئی اور اپنے خون کو گرم رکھنے کے لئے میری وادیوں کا رخ کرتے نوجوان، بوڑھے، مرد اور عورتیں۔۔ ہاں ایک بات میں نے اور بھی نوٹ کی ہے، اب پُر عزم اور مہم جُو نوجوان یہاں کا زیادہ رخ کرنے لگے ہیں اور یہاں کی خوبصورتی اور گزارے حسین لمحوں کو اپنے کیمروں کی آنکھ میں بند کر کے ساتھ لے جاتے ہیں لیکن ان میں صرف چند فی صد ہی ایسے ہوں گے، جو یہاں کی تاریخ، جغرافیہ اور علاقے کی معلومات سے بھی واقف ہوں۔ کاش ان کی دلچسپی ایسی معلومات میں بھی ہو تو مجھے زیادہ خوشی ہوگی۔ جہاں تک تمہارا تعلق ہے تو تم مجھ سے اور میری وادیوں سے محبت کرتے ہو۔ تمہیں قدرت سے پیار ہے۔ اگلی بار آؤ تو اپنے بھائی جان قیس کو ’ہوشے ویلی‘ لے جانا، گشن برگ ون اور ٹو کی سرزمین۔۔تم وہاں کے نظاے دیکھ کر یقیناً اللہ کے حضور جھک کر سجدہِ شکر بجا لاؤ گے۔ ہوشے ویلی کا گاؤں ’مچلو‘ دیکھ کر تم عش عش کر اٹھو گے۔ قدرت نے کیا حسن اس گاؤں کو بخش دیا ہے۔ ایسا لینڈ اسکیپ شاید ہی تمہیں کہیں اور دیکھنے کو ملے۔“

اس نے اپنی بات جاری رکھی، ”تم نے دیکھا ہوگا میرے ہمالیہ اور قراقرم کے کناروں کے ساتھ ساتھ اللہ نے سر سبز وادیاں ہی نہیں اتاریں بلکہ شیریں پھل اور زیتون جیسی نعمت سے بھی نواز دیا ہے۔ خود حضرتِ انسان نے یہاں سفیدے، سرو اور زیتون کے درخت اگا کر ان وادیوں کو مزید دلکش بنا دیا ہے۔ سفیدے کا درخت تو یہاں سو (100) فٹ تک اونچا ہوتا ہے اور اس کا مضبوط تنا عمارتی تعمیر کا اہم جزو ہے۔ خاص طور پر شہتیر کے طور اس کا استعمال عام ہے۔ ان وادیوں کے لوگوں کو اللہ نے مہمان اور دل نوازی جیسی خصوصیات عطا کر کے میرے مان و سمان کو جِلا بخش دی ہے۔ یہ خوشبوؤں، محبتوں، دلکش نظاروں، دلفریب مناظر، لاجواب لوگوں اور شاندار وادیوں کا دیس ہے۔۔ چاہو تو تم ستاروں کو چھو سکتے ہو، چندا ماموں کو آواز دے کر متوجہ کر سکتے ہو، میری لہروں کی موسیقی سے لطف اندوز ہو سکتے ہو، گنگناتی، مہکتی، مستانی ہوا کی آواز سن سکتے ہو، برفانی چوٹیوں کے دوش جھوم سکتے ہو، شرارتی مارمیٹ کی شراتوں سے دل بہلا سکتے ہو، برفانی چیتے کو اپنے شکار پر لپکتے دیکھ سکتے ہو، جھرنوں، آبشاروں کی مدھر دھنوں پر لہرا سکتے ہو، معصوم سادہ لوگوں کی مہمان نوازی اور دریا دلی سے لطف اندوز ہو سکتے ہو اور سب سے بڑھ کر یہاں کے ٹیڑھے میڑھے تنگ دشوار راستوں پر سفر کر کے لہو کو گرم رکھنے کا بہانہ تلاش کر سکتے ہو۔۔ ہاں اگر کوئی نین جیسی ساتھ ہو تو یہاں کی چاندنی رات کے رومانس کو میری کسی ندی کنارے بیٹھ کر آزمانا، تم اس رومانس کو کبھی بھی بھلا نہ پاؤ گے۔“

داستان گو بولتے ہوئے الفاظ کا ایسا جادو جگاتا ہے کہ سننے والا اس کے سحر میں جکڑا جاتا ہے۔ دل چاہتا ہے وہ بولتا چلا جائے اور سننے والا اس کی گفتگو کے سحر میں ڈوبتا چلا جائے۔ میں تو پچھلے کئی ہفتوں سے اس سحر میں گم ہوں۔ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے.


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button
Close
Close