شناخت کا بحران ایک عام اصطلاح ہے جو انسانی تاریخ میں نئی نسلوں کی آمد کے ساتھ وابستہ رہا ہے۔ یہ بحران عموماً اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ نئی نسل اپنے تاریخی ورثے، معاشرتی اقدار اور سماجی تنظیم کے بارے میں کم علم رکھتی ہے۔
شناخت کا بحران اور ترقی پذیر دنیا کا تعلق عموماً انٹرنیٹ، ٹیکنالوجی اور اس سے جڑے علوم کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے۔ حالیہ تاریخ میں ترقی یافتہ دنیا نے اس حیرت انگیز تیزی کے ساتھ ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کی ہے کہ تیسری دنیا، جہاں بنیادی انسانی ضروریات کا حصول ہی ایک مسئلہ ہے، اس دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی نے جہاں علوم کی شکل و ہئیت کو بدلا ہے، وہیں معلومات کی خصوصیات میں بھی تبدیلیاں آئی ہیں۔
شناخت کا بحران یا شناختی بحران (epistemological crisis) کا مطلب ہے کہ کسی سماج، افراد یا ایک مخصوص طبقے کی شناختی قابلیت یا علم کو متاثر کر کے ان کی انفرادیت کو ختم کر دینا۔ یہ بحران عموماً اس وقت پیدا ہوتا ہے جب مروج معیار، مفہوم یا عقیدے کا سامنا ایسے سوالوں سے ہو، جن کے جوابات مفقود ہیں یا آسانی سے میسر نہ ہوں۔
اس بحران کے سب سے سنگین اثرات نئی نسل پر دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں معلومات کے سیلاب کے درمیان کہیں گم ہوتے سچ کی تلاش ممکن نہیں رہتی۔ نتیجہ یہ ہے کہ فکری سمت کی درست نشاندہی کسی طور ممکن نہیں۔
شناخت کے بحرانی وقتوں میں مشترکہ معیار اور معاشرتی اصولوں پر سوالات اٹھتے ہیں۔ علمی پڑتال اور تجدید فکر کی ضرورت پیش آتی ہے اور نئے دلائل یا تفسیرات کی تلاش شروع ہوتی ہے۔ یہ بحرانی وقت، جدید ٹیکنالوجی کی ترقی، علم و عقیدے کے دائروں، سیاسی تبدیلیوں یا معاشرتی تحرکات کی بنا پر پیدا ہو سکتی ہیں۔
شناخت کا بحران عموماً ابہام اور نا تمامی کی حالت کو ظاہر کرتا ہے۔ جہاں کچھ یقینی نہیں ہوتا اور نئی تشریحات کی ضرورت پیش آتی ہے تا کہ شناختی اقدار کو مزید آگے بڑھایا جاسکے۔
نئی نسل کو اپنی تاریخ، قدامت اور تمدن سے جڑے رہنے کے لیے تربیت، تعلیم اور تجربات کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہت سارے ممکنہ حل ان میں شامل ہیں، جیسے کہ تعلیمی نظام میں تاریخ، فلسفہ، فنون، ادب و ثقافت کو شامل کرنا اور قومی تصورات کو محفوظ کرنے کے لیے تعلیمی نصاب کو وقت کے تقاضوں کے مطابق بدلنا تاکہ ان سوالات کے جواب تلاش کیے جا سکیں جو ہر لحظہ بدلتی ہوئی دنیا سامنے لا رہی ہے
لیکن تصویر کے دوسرے رخ کے مطابق شناخت کا بحران حقیقت میں ایک ممکنہ موقع بھی ہو سکتا ہے، جو نئی نسلوں کو اپنا تاریخی جائزہ لینے پر اکساتا ہے اور قدیم افکار کی تجدید کی تحریک بھی بن سکتا ہے۔
شناختی بحران کی وجوہات میں تعلیمی نظام کی کم زوریاں، مستحکم اقتصادی، معاشرتی جمود، تحقیقاتی علوم کی کمی، نیو میڈیا کی آمد، زبانیں اور فرقہ واریت کی برتری، سماجی نفرت اور تشدد کے واقعات، وسائل ابلاغ کی روز بہ روز بڑھتی تعداد، غیر ملکی تاثرات، اور معاشرتی اور سیاسی مسائل جیسے عوامل شامل ہیں۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں شناخت کا بحران ایک اہم مسئلہ ہے، جو نو جوان نسل کو بالخصوص متاثر کر رہا ہے۔ یہ مسئلہ اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ، نوجوان نسل عموماً خود شناسائی کے مسائل سے دو چار ہے اور اپنی مقامی اور عالمی ٹیکنالوجی و سائنس، فنون لطیفہ، تاریخ اور ثقافت کی اہمیت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
اس کا حل تلاش کرنے کے لیے ہمیں اپنی نوجوان نسل کو تحریک دینی ہو گی تا کہ وہ اپنی ملکی تاریخ اور ثقافت کی قدر پہچان سکیں۔
تعلیمی نظام میں تبدیلی، نوجوانوں کو مقامی تاریخ، فن، ادب، سائنس اور ٹیکنالوجی کے موضوعات کو سکھایا جانا چاہیے۔
ترقی یافتہ اور معیاری کتب کی تشہیروں کو بڑھانا، مقامی تاریخ، ثقافت اور ادب کے بارے میں معیاری کتب کی تشہیروں کو فروغ دینا چاہیے تا کہ نوجوان اس کی قیمت کو سمجھ سکیں۔
مقامی تاریخ، متن، اور ثقافتی مراکز کے ساتھ رابطوں کو بہ تر کرنا، اس کے ذریعے نوجوان اپنی ملکی تاریخ اور ثقافت سے واقف ہو سکیں گے۔
تاریخی مقامات کی ترویج کرنا، نوجوانوں کو مقامی تاریخی مقامات سے آگاہ کریں تا کہ وہ خود کو اپنے ماضی کے ساتھ جوڑ سکیں۔
شناخت کا بحران نوجوان نسل کی ترقی اور تعمیر کو روک رہا ہے۔ اس کا حل تعلیمی نظام میں تبدیلی، مقامی تاریخ، ثقافت اور فنون کی ترویج، معیاری کتب کو فروغ دینے، مقامی تاریخ اور ثقافتی مراکز کو ترقی دینے میں ہے۔ یہ اقدامات نوجوان نسل کی ملکی شناخت کو بہ تر بنانے میں مدد کریں گے اور ان کو اپنی پہچان کا احساس دلائیں گے۔
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)