’ابو کچھ کہنا چاہتے تھے.. مگر کاغذ قلم نہیں دیا گیا‘

ویب ڈیسک

’ڈاکٹروں نے بتایا کہ اُن کا دل اور گردے بیکار ہو گئے ہیں صرف دماغ کام کر رہا ہے۔ ابو نے کچھ کہنے کے لیے کاغذ اور قلم کا اشارہ کیا لیکن اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ اب میں تہاڑ جیل جا رہی ہوں، قلم اور کاغذ کی اجازت کے لیے۔۔۔ ڈر یہ ہے کہ اتنی دیر میں وہ کہیں دم نہ توڑ جائیں، میں اپیلیں کر کر کے تھک گئی ہوں۔‘

نہایت کربناک لہجے میں یہ باتیں دلّی کی تہاڑ جیل میں قید حریت پسند رہنما الطاف شاہ کی بیٹی رُوا شاہ نے بتائیں، جو اس وقت زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے بات کر رہی تھیں

رُوا سمیت دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کے والد الطاف شاہ اُن درجنوں حریت پسند رہنماؤں میں شامل تھے، جنہیں سنہ 2017ع میں گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ گرفتاریاں بھارت کی ’نیشنل انوسٹیگیشن ایجنسی‘ یعنی این آئی اے نے ’دہشت گردوں کی مالی معاونت‘ سے متعلق ایک الزام میں کی تھیں

الطاف شاہ پر بھی دہشت گردوں کی مبینہ اعانت اور تشدد کی حمایت جیسے الزامات لگائے گئے

اب جیل حکام نے پینسٹھ سالہ الطاف شاہ کو نہایت علیل حالت میں دلّی کے رام منوہر لوہیا ہسپتال میں منتقل کر دیا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ تیزی سے پھیلتے کینسر کی وجہ سے اُن کے اہم اعضا ناکارہ ہو چکے ہیں

رُوا کہتی ہیں ”جیل حکام نے میرے والد کی صحت کے بارے میں ہمارے خاندان کو تب تک کچھ نہیں بتایا جب تک کینسر اُن کے جسم میں مکمل طور پر پھیل نہیں گیا“

الطاف شاہ کی بیٹی کا کہنا ہے ”گذشتہ ہفتے جب ان کی حالت انتہائی تشویشناک ہوئی تو ہمیں مطلع کیا گیا کہ وہ ہسپتال پہنچائے گئے ہیں۔ اب وہ سب رہنے دیجیے۔۔۔ کم از کم انہیں اُس ہسپتال میں رکھتے جہاں کینسر کے علاج کا باقاعدہ شعبہ ہوتا۔ یہاں تو ڈاکٹروں نے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں کیونکہ کینسر کا علاج تو آل انڈیا میڈیکل انسٹیٹیوٹ میں ہوتا ہے“

رُوا نے انسانی بنیادوں پر الطاف شاہ کی عبوری ضمانت کے لیے دلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا تو این آئی اے کو بدھ کے روز الطاف شاہ کی طبی جانچ سے متعلق رپورٹس جمع کرنے کا حکم دیا گیا

الطاف شاہ کو کاغذ اور قلم مہیا کرنے سے متعلق اجازت نامہ لینے کے لیے رُوا شاہ تہاڑ جیل کی جانب جا رہی تھیں

وہ کہہ رہی تھیں ”ایک شخص مر رہا ہے، اپنوں سے کچھ کہنا چاہتا ہے جس کے لیے اسے کاغذ قلم کی ضرورت تھی۔۔ مگر حکام کہتے ہیں کہ اجازت نامہ لاؤ۔ ہم نے سب تسلیم کر لیا تھا لیکن انسانی بنیادوں پر انہیں آخری سانسیں اپنے گھر میں اپنوں کے ساتھ لینے کا بھی حق نہیں ہے کیا؟ آخری بات لکھ کر بتانے کا بھی حق نہیں ہے؟“

الطاف شاہ سرینگر کے ایک معروف تاجر رہے ہیں۔ اُن کی شادی کشمیر کے مقبول حریت پسند رہنما سید علی گیلانی کی بیٹی سے ہوئی ہے

سید علی گیلانی نے سنہ 2007 میں اپنی تنظیم ’تحریکِ حریت کشمیر‘ بنائی تو اُس کی تشکیل میں الطاف شاہ نے اہم کردار نبھایا اور بعد میں اسی تنظیم کے ساتھ وابستہ ہو گئے

رُوا شاہ، جو ایک صحافی ہیں، نے اپنے والد کی بہتر طبی نگہداشت اور ان کی ضمانت کے لیے بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کے نام ایک خط بھی لکھا ہے، جس میں تمام تر تفصیلات بیان کرنے کے بعد وہ امیت شاہ سے مخاطب ہو کر لکھتی ہیں ”مُجھے اُمید ہے کہ آپ ایک ایسی بیٹی کی یہ درخواست قبول کریں گے جس کا باپ بسترِ مرگ پر ہے“

دوسری جانب سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی امیت شاہ سے اپیل کی ہے کہ انسانی بنیادوں پر الطاف شاہ کو ضمانت دی جائے، کیونکہ اُن کی حالت بہت تشویشناک ہے

واضح رہے تہاڑ جیل میں قید یاسین ملک، شبیر شاہ اور آفتاب شاہ عرف شاہد الاسلام سمیت کئی کشمیری رہنماؤں کو کئی عارضوں کا سامنا ہے

شبیر شاہ اور آفتاب شاہ کی بیٹیاں بھی آئے روز بھارتی حکام سے اپیلیں کرتی رہتی ہیں کہ اُن کے علاج کی خاطر انہیں انسانی بنیادوں پر گھروں میں ہی نظر بند رکھا جائے

واضح رہے کہ گیلانی کی موت کے بعد ’تحریک حریت کشمیر‘ کے سربراہ بننے والے 74 سالہ لیڈر محمد اشرف خان صحرائی کی موت بھی دو سال قبل قید کے دوران ہی ہوئی تھی، جس کے بعد اُن کے اہل خانہ نے الزام عائد کیا تھا کہ انھیں مناسب طبی سہولیات میسر نہیں تھیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close