چند روز قبل نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے ایک وارننگ جاری کی تھی کہ آبی قیامت سر پر کھڑی ہے۔ 72 فیصد امکان ہے کہ پاکستان میں سیلاب اور اس کے آفٹر افیکٹس سے تباہی آنے والی ہے
پاکستان اس وقت دو موسمی نظاموں کے گرداب میں پھنس چکا ہے۔ ایک یہ کہ فروری کے اواخر میں سخت گرمی، جس سے موسمِ گرما کا دورانیہ بڑھ گیا ہے اور دوسرا مون سون سیزن میں چھاجوں برسنے والی بے تحاشہ بارشیں، جو براہِ راست زراعت، لائیو اسٹاک کو متاثر کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہیں
دنیا بھر میں گرین ہاؤس گیسوں کے مجموعی اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن یہ انسان کے ہاتھوں رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کی بہت بھاری قیمت ادا کر رہا ہے۔ اس کی توثیق اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی کی۔
پاکستان میں سات ہزار کے لگ بھگ گلیشیئرز ہیں، جو تیزی سے ضرر رساں گیسوں کے اخراج سے ٹوٹ رہے ہیں۔ قطبی اور پہاڑی گلیشیئر ممکنہ طور پر کئی دہائیوں تک پگھلتے رہیں گے، جس کے نتائج بڑی حد تک تشویش ناک ہوں گے۔ سات سال قبل کی بات ہے، جب پاکستان کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشیانوگرافی کے سربراہ نے اس وقت کے ممبرانِ قومی اسمبلی کو ایک بریفنگ کے دوران آگاہ کیا تھا کہ موسمی تبدیلی، بڑھتا ہوا درجہِ حرارت اور ساحلی علاقوں پر غیر منظم تعمیرات کے نتیجے میں کراچی، ٹھٹہ اور بدین 2060ع تک سمندر میں ڈوب چکے ہوں گے۔
خطرناک پہلو یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور عالمی حدت میں اضافے کے سبب جب گلیشیرز پگھلتے ہیں تو اپنے ساتھ بڑے بڑے پتھروں، چٹانوں، مٹی کے تودوں کو بہا لے جاتے ہیں۔ اس قسم کے ہائپر کنسنٹریٹیڈ سیلاب بڑے پیمانے پر تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔
مسلمہ حقیقت ہے کہ پانی جب ایک مرتبہ راستہ بنا لے، دوسری بار بھی اس کا مرکز و محور وہی جگہ ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر کالام میں نیو ہنی مون ہوٹل۔ یہ ہوٹل دریا کے اندر ہی تعمیر کیا گیا تھا، اس ہوٹل کو گزشتہ برس پہلی مرتبہ نقصان نہیں پہنچا بلکہ 2010ع کے سیلاب میں بھی اس ہوٹل کی عمارت کو سخت نقصان پہنچا تھا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ سیلاب تو اپنی جگہ تھا لیکن ساتھ پانی کے ساتھ ایک بڑا پتھر بھی آیا، جس نے ہوٹل کی عمارت کی بنیادوں کو ہلا دیا تھا۔
گرمیوں کے موسم میں سیلاب آنا معمول ہے لیکن خلاف معمول یہ ہے کہ قلیل مدت میں پے در پے سیلابی ریلے آنا شروع ہو گئے ہیں
بے ترتیب موسمیاتی تبدیلی سے کہیں خشک سالی ہے اور کہیں سیلاب، جس نے عوام الناس کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ پاکستان کو عالمی حدت کا ’گراؤنڈ زیرو‘ قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ لوگ مشینیں نہیں جو گرمی برداشت کریں۔ جب درجہِ حرارت بڑھتا ہے تو دفاتر، گھروں، سیمنار ہالز، گاڑیوں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے اے سی ترجیحی بنیادوں پر چلاتے ہیں۔ توانائی کے اخراج سے فضا آلودہ ہو رہی ہے اور مزید گرم ہو رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
کراچی میں بڑا کلائمیٹ مارچ، ماحولیاتی تباہی روکنے کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ
صوبہ سندھ کے شہر جیکب آباد کے باسیوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے سورج سوا نیزے پر آ گیا ہو۔ ماہرین کے مطابق جیکب آباد اب رہنے کے قابل نہیں رہا، اس شہر کو کہیں اور منتقل کرنا پڑے گا۔ بلوچستان کے شہر سبی میں درجہ حرارت 50 ڈگری سے بھی تجاوز کر جاتا ہے۔ سورج کی تمازت سے مویشیوں کی بھوک مر جاتی ہے اور ان کا سانس پھولنے لگتا ہے، نیز ان کی نقل و حرکت بھی متاثر ہوتی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی یکدم رونما نہیں ہوئی بلکہ ایک عرصے سے ماہرین اس بارے میں خبردار کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی اور قدرتی آفات سے نبرد آزما ہونے کے لیے ٹیکنالوجی، فرسٹ ایڈ، مربوط انتظامی ڈھانچوں پر فوری کام کرنا وقت کی پکار بن چکا ہے۔
بشکریہ: ڈوئچے ویلے اُردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)
کراچی میں بڑا کلائمیٹ مارچ، ماحولیاتی تباہی روکنے کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ