کودا خود اپنے گھر میں کوئی یوں دھم سے نہ ہوگا

ڈاکٹر آفتاب احمد (کولمبیا یونیورسٹی)

میں بچپن سے ہی بہت بھلکڑ رہا ہوں۔ بھولنے کے فن کے ماہر ہی جانتے ہوں گے کہ بھولیں یادداشت پر کیسی کیسی ناقابل فراموش یادیں چھوڑ جاتی ہیں۔ میرے بھلکڑ پن کا اندازہ اس واقعہ سے لگائیے کہ ایک دفعہ ابا کو موٹر سائکل سے کہیں لے جانا تھا۔ وہ موٹر سائکل پر بیٹھنے سے پہلے بیٹھنے کی تمہید باندھتے تھے۔ پہلے رومال سے سیٹ صاف کرتے، حالانکہ وہ میں پہلے ہی صاف کر چکا ہوتا تھا۔ پھر دھوپ سے بچنے کے لئے رومال کو جھٹک کر اس کی فرضی گرد جھاڑتے اور سر پر باندھ لیتے

دوا کی کمپنی کا تحفے میں دیا ہوا پرس داہنی بغل میں دباتے۔ بایاں ہاتھ میرے کندھے پر رکھتے۔ل، کھنکھارتے، پھر ایک جھٹکے سے سیٹ پر اچک کر بیٹھ جاتے۔ تقریباً پانچ سیکنڈ خود کو سیٹ پر ایڈجسٹ کرنے کے بعد فرماتے ’ہوں! ‘ جس کا مطلب ہوتا ’اب چلو۔‘ اس پورے عمل کے دوران میں موٹر سائکل اسٹارٹ کیے تمہید کے آخری مرحلے یعنی ابا کی ’ہوں‘ کے انتظار میں ہمہ تن گوش رہتا

اس دن میری شامت آئی تھی۔ موٹر سائکل اسٹارٹ ہوتے ہی دماغ میں خیال کا کیڑا کلبلایا او ر میں بھول گیا کہ پیچھے ابا موٹر سائکل پر بیٹھنے کی تمہید باندھ رہے ہیں۔ موٹر سائکل اسٹارٹ تھی ہی۔ گیئر لگایا اور گاؤں کی تنگ گلیوں میں اپنی موٹر سائکل ڈرائیو ری کی مہارت کی نمائش کرتا تیر کی طرح گاؤں کی سرحد سے باہر نکل گیا۔ ایک موڑ پر احساس ہوا کہ موٹر سائکل کچھ ہلکی ہے۔ مڑ کر دیکھا تو ابا والی سیٹ خالی تھی۔ اب یاد آیا کہ وہ جو اس وقت کانوں میں ”رکو! ارے رکو!“ کی آواز آئی تھی، وہ دراصل ابا کی آواز تھی۔ میرے کان نہیں بجے تھے۔ فوراً پلٹا۔ گاؤں کے اندر پہنچا تو دیکھا ابا لمبے لمبے ڈگ بھرتے چلے آ رہے ہیں۔ کہنے لگے ”افوہ! تمھارا دھیان کہاں رہتا ہے؟“ میں نے صفائی پیش کرنے کی کوشش کی۔ لیکن بات سلجھنے کے بجائے الجھنے لگی تو خاموش ہو گیا۔ ایسے نہ جانے کتنے یادگار لمحے میری یادوں کے اسکرین پر محفوظ ہیں۔ کہاں تک گنواؤں

کہنے یہ چلا تھا کہ عمر کے ساتھ ساتھ میرا بھلکڑ پن بڑھتا جا رہا ہے۔ حال ہی میں ایک اور واقعہ پیش آ گیا۔ ایک محفل میں ایک شناسا سے ملاقات ہو گئی۔ بیگم بھی ساتھ تھیں۔ اب جو کہنا چاہا کہ یہ ہیں میری بیگم ”شمع“ ، تو ان کا نام ہی یاد نہ آیا۔ دل دھک سے ہو کر رہ گیا۔ لیکن تائید غیبی ساتھ تھی۔ بے ساختہ منھ سے نکلا ”یہ ہیں میری ڈارلنگ۔“ معلوم نہیں شناسا صاحب نے ڈارلنگ لفظ سے کیا مراد لی، لیکن اپنا کام تو نکل گیا

خدا نخواستہ انہیں پتہ چل جاتا کہ ڈارلنگ کہنے کا سبب وہ نہیں تھا جو وہ سمجھیں تھیں تو بڑی فضیحت ہوتی۔ زندگی بھر یہ بھول یاد دلائی جاتی۔ کبھی دل سے بھی کوئی تعریفی جملہ نکل جاتا تو شک کیا جاتا۔ ہر خوشی کے موقع پر طعنے دیے جاتے۔ ہر خوش و خرم جوڑے کو دکھا دکھا کر مجھے شرمسار کیا جاتا۔ لیکن وہ کہتے ہیں نہ کہ جب اللہ مہربان تو گدھا پہلوان۔ بیگم تو لفظ ’ڈارلنگ‘ کے تیر سے ایسا ڈھیر ہوئیں کہ ان کی توجہ یہ لفظ ادا کرتے وقت میری ہکلاہٹ اور چہرے کی جھینپ پر بالکل نہ گئی۔ پھولی نہ سمائیں۔ چہرہ کھل اٹھا۔ ایک پتھر سے دو چڑیاں شکار ہونے والا محاورہ ساکار ہو گیا۔ تکا تیر بن گیا۔ اگلے دن انھوں نے بغیر فرمائش کے میرا پسندیدہ گاجر کا حلوہ بنا کر اپنے ہاتھوں سے کھلایا

میرے بچپن میں اور شادی کے زمانے تک ہمارے گاؤں کا ماحول بڑا دقیانوسی رہا تھا۔ دراصل اب بھی ہے۔ گاؤں میں بیوی کو ’ڈارلنگ‘ یا کسی اور محبت آمیز لفظ سے مخاطب کرنا گناہ کبیرہ نہیں تو گناہ صغیرہ تو ضرور ہے۔ صاحب تکلم کو آوارہ گردانا جاتا ہے۔ میرے گاؤں کی پوری تاریخ میں کسی نے اپنی بیوی کے لئے یہ لفظ استعمال نہیں کیا ہو گا۔ ایسے میٹھے لفظ سے مخاطب کرنا تو دور بزرگوں کے سامنے بیوی کو میٹھی نظر سے دیکھنا بھی بے شرمی کی بات مانی جاتی تھی

میرا بچپن کب کا گزر چکا۔ اب تو میرے بچوں کا بچپن ہے۔ لیکن یہ وضع داری جیسے میری گھٹی میں شامل ہے۔ میری فطرت ثانیہ بن گئی ہے۔ اتنے سال امریکہ میں رہنے کے بعد بھی امریکہ میں بھی ’ڈارلنگ‘ لفظ زبان پر لاتے ہوئے زبان لڑکھڑاتی ہے۔ کم سے کم اپنی بیگم کے لئے۔ اس دن اندازہ ہوا کہ امریکہ آنے کے بعد اس ایک لفظ سے کتنے کام نکالے جا سکتے تھے اور زندگی کتنی آسان ہو سکتی تھی۔ خیر اسے چھوڑئیے

میں کہنے یہ چلا تھا کہ اب تو آئے دن بھول اور بے دھیانی میں کوئی نہ کوئی ’کارنامہ‘ سرزد ہو جاتا ہے۔ بعد میں غور کرتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ میں نے کیا؟ وہاں ہندوستان میں تو زیادہ فرق نہیں پڑتا تھا۔ لوگ میرے مزاج سے واقف تھے۔ سات خون معاف تھے۔ بلکہ قریبی شناساؤں کی نظر میں میرے متعلق یہی نارمل بات تھی ہے۔ یہاں امریکہ میں معاملہ مختلف ہے۔ یہاں بھول چوک مذاق کی بات نہیں۔ اس کے تئیں لوگ بہت حساس ہیں اور اس کی طرف کسی حد تک ان کا رویہ معاندانہ ہے

تحریروں میں فل اسٹاپ اور کوما کی غلطی پر لوگ شرم سے پانی پانی ہو جاتے ہیں اور معذرت کرتے کرتے ان کا گلا سوکھ جاتا ہے۔ اپنے یہاں سرقہ کرتے ہوئے بھی رنگے ہاتھوں پکڑے جائیں تو خوش دلی سے مسکرا کر اس طرح کندھے اچکاتے ہیں کہ سرقہ پکڑنے والا ہی شرمندہ ہو جاتا ہے کہ کیسی فضول کی باتوں میں وقت ضائع کیا۔ بھول چوک کے تئیں امریکیوں کے اس روئیے کی وجہ سے میرے دل میں ہمیشہ ایک دغدغہ سا رہتا ہے کہ کہیں کوئی ایسی چوک نہ ہو جائے جسے وہ سمجھ ہی نہ پائیں اور بات کا بتنگڑ بن جائے

تمہید ذرا طویل ہو گئی، ورنہ اپنی بے دھیانی کا ایک واقعہ سنانے چلا تھا۔ مجھے امریکہ آئے کچھ ہی دن ہوئے تھے۔ بیوی بچے ہندوستان میں تھے اور تنہائی کا احساس کسی قدر ستانے لگا تھا۔ ایسے میں کسی عزیز دوست سے ملاقات کیا معنی رکھتی ہے اس کا احساس انہی حضرات کو ہو سکتا ہے جنھوں نے تنہائی کا درد جھیلا ہے۔ میری نہایت عزیز دوست ڈیزی اور ان کے شوہر ایرن پالو آلٹو سے مجھ سے ملاقات کے لئے تشریف لا رہے تھے۔ برکلی سے پالو آلٹو کا فاصلہ ڈیڑھ گھنٹے کا ہے۔ ان کی کار چلانے کی رفتار کے حساب سے۔ انہیں میرے یہاں دوپہر کو پہنچنا تھا۔ میں صبح کاذب سے ہی دیدہ و دل فرش راہ کیے بیٹھا تھا

مہمان مقررہ وقت پر تشریف لائے۔ کال بیل بجی۔ ”اس کی موسیقی سے لیکن گھر کا گھر بجنے لگا۔“ عاجز کا اپارٹمنٹ دوسری منزل پر تھا۔ ملاقاتی کے آنے پر نیچے جاکر عمارت کا دروازہ کھولنا پڑتا تھا۔ چنانچہ میں اپارٹمنٹ سے نکلا اور ایک چھلانگ میں تین تین سیڑھیاں پھلانگتا نیچے پہنچا۔ دروازہ کھولا۔ استقبال کیا۔ گلے ملا۔ میرے چہرے کی مسرت سے مہمانوں کو اپنے خیر مقدم میں میرے خلوص کا اندازہ ہو گیا تھا کیونکہ ان کے چہروں پر طمانیت کے تاثرات تھے۔ واضح تھا کہ وہ اس خیر مقدم سے مطمئن تھے

انہیں لے کر اوپر اپارٹمنٹ پہنچا۔ دروازہ اندر کی طرف دھکیلا تو وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ دروازہ اندر سے بند تھا۔ پتلون کی داہنی جیب میں چابی نکالنے کو ہاتھ ڈالا تو چابی ندارد۔ بائیں جیب سے بھی چابی برآمد نہ ہو سکی۔ دل دھک سے ہو کر رہ گیا۔ پیچھے کی دونوں جیبیں اچھی طرح ٹٹولیں۔ پھر گھبرا کر دوبارہ پتلون کی ساری جیبیں ٹٹول ڈالیں۔ لیکن چابی برآمد نہ کر سکا۔ ٹی شرٹ ٹٹولنے کا سوال نہ تھا کہ اس میں جیب ہی نہ تھی

پچھتایا کہ جیب والی ٹی شرٹ کیوں نہ خریدی کہ شاید آج کے دن کام آجاتی۔ ہوا یہ تھا کہ عادت کے مطابق میں پیچھے دروازہ بند کرتا گیا، لیکن میز پر سے چابی اٹھانا بھول گیا تھا۔ یعنی خود کو لاک آؤٹ کر لیا تھا۔ ہندوستان سے یہاں وارد ہونے کے بعد لاک آؤٹ کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا۔ لاک آؤٹ کی صورت حال اور لفظ دونوں میرے لئے نئے ہیں۔ چشم تصور سے دیکھئے کہ میری کیا حالت رہی ہوگی۔ میرے مہمان ہائی وے پر ڈیڑھ گھنٹے گاڑی چلا کر برکلی پہنچے تھے

اپنی کیفیت تو مرزا نوشہ سے بھی بدتر تھی۔ ان کے پاس کم ازکم گھر تو تھا۔ کیا ہوا جو بوریا نہ ہوا۔ یہاں تو نہ گھر رہا نہ بوریا۔ اور اگر بالفرض بوریا ہوتا بھی تو اسے بچھاتے کہاں؟ اپارٹمنٹ کی سیڑھیوں پر ؟ یا عمارت کے باہر، کھلے آسمان کے نیچے؟

سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ دروازہ کیسے کھلے۔ امریکہ کے آداب اور قوانین سے اتنا مانوس بھی نہیں ہوا تھا کہ دروازہ توڑنے کے امکان پر غور کرتا۔ اب آپ ہی اس غریب شہر کی حالت تصور فرمایے۔ ڈیزی میرے بھلکڑ مزاج سے کسی حد تک واقف تھیں۔ وہ تبسم زیر لب اور مسکراتی آنکھوں سے کبھی مجھ کو کبھی میرے در کو دیکھتی تھیں۔ ایرن اتنے مرنجاں مرنج انسان ہیں کہ کہ وہ میری حیرانی و ندامت سے خود جھینپے جھینپے سے نظر آتے تھے

یا خدا کیا کروں؟ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا۔ چہرے پر عرق انفعال کے قطرے چہچہا آئے تھے۔ ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے۔ دروازہ ساکت و خاموش۔ ہم سب باہر، چابی اندر۔ ڈیزی ہماری بدحواسی پر محظوظ ہو رہی تھیں۔ مجھ میں ان لوگوں سے نگاہیں ملانے کا یارا نہ تھا۔ کیا سوچتے ہوں گے یہ لوگ۔ کیسا خبط الحواس آدمی ہے۔ بوکھلاہٹ میں تو ایک بار میری زبان سے ”کھل جا سم سم! “ تک نکل گیا۔ دروازہ کھلنے کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو ان کو عمارت سے باہر لایا کہ شاید کھلی فضا میں کوئی بات سوجھ جائے۔ فیصلہ غلط نہ تھا۔ ایک تو سچی ندامت دوسرے کھلا آسمان۔ شان کریمی نے عرق انفعال کے قطروں کو موتی سمجھ کے چن لیا۔ دریائے رحمت جوش میں آیا۔ گوش دل میں ندائے غیبی پھسپھسائی:
کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ

آنکھ کھولی۔ زمین کو دیکھا۔ پھر فلک کو دیکھا۔ فضا کی طرف دیکھ ہی رہا تھا کہ نگاہ اپارٹمنٹ کی کھڑکی سے ٹکرائی۔ کھڑکی دوسری منزل پر زینے کے سامنے والی بالکنی سے ایک لمبے قدم کے فاصلے پر تھی۔ کھڑکی پر کوئی جالی یا سلاخ نہیں تھی۔ اور پٹ اتنے چوڑے تھے کہ اس سے اندر جایا جا سکتا تھا۔ ایک ننھا سا خیال ذہن میں کوندا کہ دیکھا جائے کہ کھڑکی اندر سے بند ہے یا کھلی

بالکنی میں قدم جمایا اور ہاتھ بڑھا کر کھڑکی کے پٹ کو دبایا۔ کھڑکی اندر کی طرف کھلتی چلی گئی! آہاہا! تو کھڑکی کھلی رہ گئی تھی! معلوم نہیں کہ میں نے ہی اس قسم کے امکانی حادثے کے پیش نظر لاشعوری طور پر اسے کھلا چھوڑ رکھا تھا یا کسی فرشتے نے ابھی ابھی اندر آ کر سٹکنی کھول دی تھی۔ اب کھڑکی کے راستے اندر کودنے کا مرحلہ تھا۔ پھر نہاں خانۂ دل میں وہی ندائے غیبی پھسپھسائی۔ کہنے لگی ’سوچتا کیا ہے! منزل سامنے ہے.. کود جا! لیکن یہ کوئی آتش نمرود تو تھی نہیں کہ بے خطر کود پڑتا۔ کھڑکی کو ہلایا، ناپا، تولا، ٹٹولا۔ نازک اندام تھی۔ اس پر جسم کا پورا بوجھ ڈالنا جان جوکھم کا کام تھا۔ امکان قوی تھا کہ ہم ایک دوسرے کے گلے میں بانہیں ڈالے نیچے پکے فرش پر لینڈ کرتے۔ یہ اندازہ لگانے کے لئے کہ گرنے پر جسم کا کون سا عضو سلامت نہیں رہے گا، نیچے دیکھا۔ مہمان سانسیں روکے پر تشویش نظروں سے مجھے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے۔ ان کے قدموں کے آس پاس کا پکا فرش بانہیں پھیلائے ہمارے خیر مقدم کو منتظر تھا

زندگی اور موت تو خیر اللہ کے ہاتھ میں ہے، لیکن ہاتھ پاؤں اور گردن ٹوٹ جانے میں شک کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ پر کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ زندگی کو داؤ پر لگانے کا ایک سنہرا موقع ہاتھ آیا تھا۔ اسے یوں ہی ضائع کر دینا نادانی ہوتی۔ لپک کر داہنے ہاتھ سے کھڑکی کا فریم پکڑا اور ساتھ ہی داہنا پیر کھڑکی کے نچلے فریم پر جمایا۔ پھر جسم کو تتلی کی طرح ہلکا کر کے ”اللہ ہو!“ کے ایک نعرۂ مستانہ کے ساتھ اچھالا۔ کھڑکی پر جسم کا بوجھ ایک پل سے بھی کم ڈالے بغیر ایک ہی جست میں عشق کی تمام منزلیں تمام ہو گئیں

کودا خود اپنے گھر میں کوئی یوں دھم سے نہ ہوگا…

معذرت چاہتا ہوں۔ اس جستِ مستانہ کو کارنامہ بنا کر پیش کرنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میں تو فقط اپنی بے خیالی اور بھلکڑ پن کا دکھڑا رونے چلا تھا کہ بات طول پکڑ گئی

خیر، کھڑکی کے راستے کمرے میں صحیح سلامت لینڈ کیا۔ منزل مقصود پر محفوظ پہنچنا اتنا خوشگوار ہو سکتا ہے، اس کا بھی تجربہ ہوا۔ سامنے میز پر چابیوں کا گچھا رکھا تھا۔ اس میں اتنی جاذبیت، اتنی دلکشی اور ایسی معشوقیت پیدا ہو گئی تھی کہ لپک کر اسے اٹھا یا اور بے اختیار چوم لیا،
سوداؔ جو ترا حال ہے اتنا تو نہیں وہ،
کیا جانیے تو نے اسے کس آن میں دیکھا..

نیچے اتر کر عمارت کا دروازہ پھر سے کھولا۔ ڈیزی میری جرات رندانہ پر خوش اور حیران تھیں۔ ایرن کے چہرے پر اطمینان اور ہونٹوں پر مند مسکان تھی۔ میں نے چابی کا گچھا چھنکا کر ان کا خیر مقدم کیا.

حوالہ : ہم سب

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close