بابو سر ٹاپ کے برفیلے میدان سے جنم لینے والی شفاف برفیلے پانی کی ’ٹھک ندی‘ کے پل سے گزر رہے ہیں۔ کل کے اس گمنام مقام کو آج نام بھی دیا گیا ہے تو ’زیرا پوائنٹ‘۔گمنام کو زیرا پوائنٹ کہنے سے فرق نہیں پڑتا مگر یہ اس شاہراہ کا نیا اہم اسپاٹ بن گیا ہے کہ بابو سر ٹاپ کو جانے والا قدیم دشوار اور تنگ راستہ اب جدید کارپٹ روڈ میں بدل دیا گیا ہے۔ شاہراؤں کا یہ سنگم پکنک اسپاٹ بن چکا ہے۔ چائے کے چند ہوٹل اور کچھ دکانیں سفر کی تھکاوٹ دور کرنے کا بہانہ فراہم کرتی ہیں۔ انہی دکانوں کی بغل سے ٹھک نالہ بہتا ہے۔ پہاڑوں کے بیچ سے گزرتی، ہریالی بکھیرتی، جھاگ اڑاتی یہ ندی میرے دائیں ہاتھ سے سندھو میں اتر رہی ہے۔
بابو سر قدیم، اہم اور تاریخی درہ ہے جو چلاس کو وادی کاغان سے ملاتا ہے۔ آج بھی اس کی اہمیت کل جیسی ہی ہے۔ کل بھی یہ اہم گزر گاہ تھی، آج بھی ہے۔ کئی سال پہلے تک بابو سر ٹاپ کے سفر کو بڑی مہم جوئی سمجھا جاتا تھا لیکن دور جدید کی اعلیٰ سڑک نے رگوں میں خون جما دینے والی سنسنی اب ختم ہی کر دی ہے البتہ یہاں بکھری خوبصورتی اور مناظر آج بھی پہلے جیسے ہی دلکش اور دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کرتے ہیں۔ نئی سڑک کے اطراف اعلیٰ قیام گاہیں بن گئی ہیں۔ گاؤں کے پکے مکان مکینوں کی خوشحالی کے امین ہیں۔ چلاس سے جل کھڈ تک نئی تعمیر کردہ شاہراہ نے سفر آسان، وقت اور مسافت تو ضرور کم کی ہے لیکن خون گرم رکھنے کا بہانہ اور سفر کی پرانی سنسنی بالکل ہی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ بابو سر ٹاپ اتر کر جیسے ہی سڑک کی بھول بھلیاں ختم ہوتی ہیں تو ’دریائے کنہار‘ کامنبع ’لالوسر جھیل‘ مسافروں کا استقبال کرتی ہے۔ برف پوش پہاڑوں میں گھری اس دلفریب جھیل کا نیلگوں پانی، واہ سبحان اللہ۔ اپریل، مئی کے مہینوں میں برف کے چھوٹے بڑے ٹکڑے جھیل کے پانیوں پر تیرتے کمال سماں کھینچتے ہیں۔ جل کھڈ، لالہ زار اور دیگر وادیوں کو راستے بھی یہیں سے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ وادیِ کاغان کے صحت افزا مقام ’ناران‘ میں ’دریائے کنہار‘ پر آٹھ سو ستر (870) میگا واٹ کا پن بجلی گھر ’سکھی کناری ہائیڈرو‘ اور”ل’چائینا گزنبوربا گروپ آف کمپنی‘ (Suki Kinar Hydro & China Gezbouba Group of Companies Ltd) تعمیر کر رہی ہے۔
ہم سندھو کے ساتھ شاہراہ ریشم پر ہی سفر کریں گے۔شاہراہ کے ساتھ ساتھ ٹیلی فون کے کھمبے گاڑے گئے ہیں تاکہ جدید زمانے کی یہ سہولت ان علاقوں کا رابطہ مہذب دنیا سے بحال ر کھے۔ سب سے پہلے اس خطے میں 1880ء کے عشرے میں کشمیر اور گلگت کے درمیان ٹیلی گراف کی تار انگریز کے دور میں بچھائی گئی تھی۔ آج یہاں موبائیل کمپنیوں نے اپنی سہولیات پہنچا کر رابطے آسان کر دئے ہیں۔ ’ایس کون‘ کا نیٹ ورک یہاں عمدہ سروس دے رہا ہے۔ ہم ٹھک نالے کو پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ قریبی پہاڑوں پر کچھ گھاس نظر آرہی ہے اور سامنے ایک بڑا بازار ابھر رہا ہے۔ یہ چلاس ہے۔ چند برس تک پہلے یہ بازار ایک آدھ ورکشاپ اور کچھ دوکانوں پر مشتمل تھا لیکن اب ڈیڑھ دو کلو میٹر میں پھیل چکا ہے۔ یہاں میرے ایک پرانے واقف کار محمد امتیاز کی ورکشاپ بھی ہے۔بہت برسوں بعد اس سے اس بار ملاقات بھی ہوئی ہے۔
”سنو جان دوست!“ سندھو کی آواز کانوں میں پڑی ہے، ”چلاس ہزاروں سال سے تاجروں اور سیاحوں کے لئے جانا پہچانا قصبہ ہے۔ قدیم تجارتی راستوں کا اہم مقام۔ میرے مشرقی کنارے بلند پہاڑوں کے درمیان ایک وسیع میدان میں آباد چلاس ضلعی صدر مقام اور گلگت کا اہم تاریخی شہر ہے۔ یشکن اور شین قبائل کا مسکن۔ شکاری، مہمان نواز اور لڑاکے لوگوں کی سر زمین۔ مختلف اقسام کے پھلوں کے علاوہ یہاں بانس بھی اگایا جاتا ہے۔ یہاں سے آگے میرا سفر مون سون علاقے میں شروع ہوتا ہے۔۔
”دوست! پانی کی قدیم گزرگاہوں کے ساتھ ساتھ قدرت نے راستے بھی تخلیق کر دئیے تھے تاکہ حضرت انسان کو راستے بنانے میں تکلیف نہ ہو۔ بے شک اللہ نے اپنے بندوں کی تمام ضروریات کا بندوبست کیا ہے۔ تم حیران ہو گے کہ جہاں کہیں بھی پانی کی گزرہ گاہ ہے، پیدل راستہ بھی موجود ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ انسان نے ان پیدل راستوں کو ترقی دے کر سفر کے لئے کچے پکے آرام دہ راستے تعمیر کر ڈالے ہیں۔ قدیم انسان جفاکش، سخت جان اور باہمت تھا وہ اُن تنگ راستوں سے بھی با آسانی گزر جاتا تھا مگر رفتہ رفتہ انسان تن آسان اور آرام پسند ہوتا گیا اور سفر کے لئے بھی آسانیاں ڈھونڈنے لگا۔“
میں نے جواب دیا، ”ٹھیک کہا دوست تم نے۔ میں پہلے ہی اس بات کا مشاہدہ کر چکا ہوں۔ مجھے یقین ہے ہزاروں سال قبل تمھارے بہاؤ کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی طرح کا راستہ ضرور تھا، گرچہ یہ بہت خطرناک ہوگا جس کے آثار تمھارے مغربی کنارے پر واضح دکھائی دیتے ہیں۔ ہاں یہ بھی درست ہے اس دور کا انسان بہت سخت جان تھا۔ مجھے یاد آیا ایسے ہی قدیم راستوں کے بارے مشہور چینی سیاح ’فاہیان‘ لکھتا ہے؛ ’سڑک بہت خطرناک ہے جگہ جگہ خطرناک ڈھلوانیں اور عمودی پتھریلی دیواریں ہیں۔ راستہ تنگ ہے۔ نیچے دیکھتے ہی نظر چکرا جاتی ہے۔ نیچے دریائے ’سِنتُو‘۔ (فاہیان نے دریائے سندھ کو سنتو بھی کہا ہے۔) بہہ رہا ہے۔“
نماز مغرب کی اذان سنائی دے رہی ہے۔ سورج کی آخری کرنیں منظر سے غائب ہو چکی ہیں۔ سڑک کنارے جدید شنگریلا ہوٹل چلاس اور اس کی بغل سے بہتا سندھو۔۔ آفتاب کی مہتابی کرنیں اور سندھو کا بنفشی رنگ کا پانی، سبھی مغرب میں ڈھلتے آفتاب کے ساتھ ڈھل گئے ہیں۔ سڑک کنارے چھوٹی سی مسجد میں نماز ادا کر کے باہر آیا تو شیر عالم مسکراتے چہرے سے وہاں موجود ہے۔شیر عالم کا شمار چلاس کے کامیاب ترین وکلاء میں ہوتا ہے۔ اس کا ممنون ہوں کہ وہ اپنی مصروفیات سے ہمیشہ ہی وقت نکال کر ملاقات کرتا ہے اور پر تکلف میزبانی بھی۔اللہ اس سے راضی ہو۔ آمین۔
راہ کی دشواریوں نے ہمیں تھکا دیا ہے۔ ویسے بھی رات کا سفر اب یہاں محفوظ نہیں رہا، ہماری بد قسمتی۔ ویسے رات کے سفر کا ایک نظارہ ان پہاڑی راستوں کو دلفریب بنا دیتا ہے ’ستارے بھی ہمسفر ہوتے ہیں۔‘ رات ہم شیر عالم کے ہاں بسر کریں گے۔
چلاس دور پہاڑوں میں آباد ہے۔ داسو یہاں سے دو سو (200) کلو میٹر دور ہے۔
بل کھاتی سڑک چڑھائی چڑھتی چلاس شہر جاتی ہے۔دور اوپر پہاڑوں کے پیالے میں آباد چلاس قدیم اور تاریخی مقام ہے۔ ہم شیر عالم کے گھر چلے آئے ہیں۔ قراقرم ہائی وے نے اس علاقے کی تقدیر بدل دی ہے۔ یہ سڑک چین تک جاتی ہے۔ مختلف خطوں کے رہنے والوں نے اس شاہراہ کو مختلف نام دئیے ہیں۔ کسی نے اسے ’پتھروں کی شاعری‘ کہا تو کسی نے اسے ’سٹنگ پیس آف انجینئرنگ‘ تو کسی کے لئے یہ دنیا کا ’آٹھواں عجوبہ‘ ہے۔ ہم اسے ’شاہراہ ریشم‘ کہتے ہیں (مشتاق آج کل اسے ہچکولا شاہراہ کہتا ہے) کہ کسی دور میں ریشم کی تجارت اسی سڑک سے ہوتی تھی۔ کبھی چلاس کا رابطہ بابو سر ٹاپ کے ذریعے ناران کاغان اور ملک کے دوسرے حصوں سے تھا۔ یہ راستہ سال میں 6 ماہ کھلتا اور ڈاک بھی یہاں تک پہنچنے میں کئی کئی ماہ لگ جاتے تھے۔ اب تو صبح کا اخبار شام میں پہنچ جاتا ہے۔ وقت وقت کی بات ہے۔ ڈش انٹینا نے یہ دوری بھی ختم کر دی ہے اب دنیا میں ہونے والے کسی واقعہ سے آپ بر وقت باخبر رہ سکتے ہیں۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔