کیا عمران خان کو اب ’ٹیکنیکلی ناک آؤٹ‘ کیا جائے گا؟

ویب ڈیسک

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ’اگر شہباز گل نے کچھ کہہ دیا اور اس میں ایک جملہ بالکل قابل اعتراض تھا جو نہیں کہنا چاہیے تھا، اس پر اے آر وائی کے خلاف کیسے ایکشن لے لیا، نیوز ایڈیٹر کو کیسے اٹھا لیا؟“

جمعے کو زوم کانفرنس میں صحافیوں اور فنکاروں سے بات کرتے ہوئے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے موجودہ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ان کی پلاننگ ہے کہ تحریک انصاف پر سختی کرو، اے آر وائی پر سختی کر دی۔ ایسا صرف اس لیے کیا گیا تاکہ اے آر وائی کا منہ بند کیا جائے اور دیگر چینلز کو ڈرایا جائے۔‘

عمران خان نے کہا ’17 جولائی کو دھاندلی کے باوجود پی ٹی آئی جیتی جس کے بعد یہ گھبرا گئے اور اب یہ اپنے پلان سی پر چلے گئے ہیں۔ اس وقت تحریک انصاف کو فوج سے لڑانے کے لیے مہم چلائی جا رہی ہے۔‘

انہوں نے کہا ’مجھے ناک آؤٹ کرنے کے لیے توشہ خانہ کیس، ممنوعہ فنڈنگ کیس چلا رہے ہیں۔ ان کی پلاننگ ہے کہ تحریک انصاف پر سختی کرو، اے آر وائی کو بین کر دیا۔ پلان یہ ہے کہ جو میری آواز ہے اسے بند کیا جائے۔ مخالف چینلز پر پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔‘

عمران خان نے کہا کہ ’کوشش کی جا رہی ہے کہ پراپیگنڈے کے بعد بین آ جائے اور ڈیل کی جائے کہ اگر عمران خان سے بین ہٹاتے ہیں تو نواز شریف جو نااہل ہوا ہوا ہے، وہ بین بھی ہٹا دیں۔ یہ اتنا خوفناک پلان ہے کہ اس سے پاکستان کو کتنا نقصان ہوگا یہ کوئی سوچ نہیں رہا۔‘

انہوں نے کہا ’نواز شریف کے خلاف پانامہ کیس کا میرے خلاف توشہ خانہ اور فارن فنڈنگ کیس سے موازنہ کر رہے ہیں اور کسی قسم کی ڈیل کروا رہے ہیں۔ میں کسی ڈیل کا حصہ نہ بنا نہ بن سکتا ہوں۔ یہ ڈیل پاکستان کی تباہی ہے یہ این آر او کی ایک قسم ہے۔ یہ نواز شریف کو این آر او ٹو دینے کی کوشش کر رہے ہیں‘

عمران خان کا کہنا تھا کہ ’میں کہنا چاہتا ہوں کہ یہ جو سازش چل رہی ہے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ مجھے راستے سے ہٹایا جائے لیکن اصل میں ملک کو وہاں دھکیل رہے ہیں جہاں دشمن چاہتا ہے۔‘

کیا معاملہ عمران خان کو ٹیکنیکلی ناک آؤٹ کرنے کی طرف جا رہا ہے؟

عمران خان اس وقت سیاسی محاذ پر مشکلات کے ساتھ ساتھ متعدد قانونی چیلنجز سے بھی نبرد آزما ہیں۔ اگلے ہفتے سے الیکشن کمیشن میں ان کے خلاف تین اہم کیسز کی سماعت شروع ہو رہی ہے۔ جن میں ’ممنوعہ فنڈنگ‘ کی وصولی، پارٹی اکاؤنٹس ظاہر نہ کرنا، غلط سرٹیفکیٹ جمع کروانا اور اپنے سالانہ گوشواروں میں توشہ خانہ تحائف کی آمدنی کو ظاہر نہ کرنا شامل ہیں

کچھ قانونی ماہرین کے مطابق ان میں سے ہر ایک کیس ’سنجیدہ نوعیت‘ کا ہے

عمران خان کے خلاف الیکشن کمیشن میں کیسز کی تفصیل

اس ماہ کے شروع میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ممنوعہ فنڈنگ کیس کے اپنے فیصلے میں کہا تھا ”پی ٹی آئی پر ’بیرونِ ملک سے ممنوعہ فنڈز‘ لینے کے الزامات ثابت ہوئے ہیں“

الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے پی ٹی آئی کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کیا تھا کہ کیوں نہ یہ فنڈز ضبط کر لیے جائیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ معاملہ وفاقی حکومت کو بھیجنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد وفاقی کابینہ نے پارٹی کی تحلیل کا ڈیکلریشن سپریم کورٹ بھیجنے کا اعلان کیا تھا تاہم اب تک اس پر کوئی مزید پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے

دوسری طرف کمیشن کے ہی فیصلے میں کہا گیا ہے ”عمران خان نے بطور پی ٹی آئی چیئرمین سال 2008 سے 2013 تک کے لیے جو سرٹیفکیٹ جمع کروایا تھا وہ اسٹیٹ بینک کے ریکارڈ کے مطابق غلط ہے“ جس کے بعد عمران خان کے مخالف اتحاد پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے یک زبان ہو کر دعویٰ کیا تھا کہ ’غلط بیانی کرنے پر عمران خان صادق اور امین نہیں رہے اور انہیں آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار پا سکتے ہیں‘

اس کے علاوہ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا تھا ”عمران خان اور ان کی جماعت نے 16 بینک اکاؤنٹس چھپائے“

کمیشن کے اس فیصلے کے علاوہ الیکشن کمیشن میں پی ڈی ایم کے ایم این ایز کی جانب سے اسپیکر آفس نے ایک اور ریفرنس بھی جمع کروایا ہے، جس میں کہا گیا ہے ”عمران خان نے دوست ممالک سے توشہ خانہ میں حاصل ہونے والے بیش قیمت تحائف کو الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے اپنے سالانہ گوشواروں میں دو سال تک ظاہر نہیں کیا ہے اور یہ تحائف صرف سال 2020-21 کے گوشواروں میں اب ظاہر کیے گئے ہیں“

ن لیگی رکن اسمبلی محسن شاہنواز رانجھا کی طرف سے جمع کروائے گئے اور اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے بھیجے گئے ریفرنس میں اثاثے چھپانے پر عمران خان کی نااہلی کی استدعا کی گئی ہے

یاد رہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت نے ان تمام کیسز کو بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے کسی قسم کی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہونے کے تاثر کو مسترد کیا ہے

قانونی ماہرین کی رائے میں مشکل ترین کیس

قانونی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ توشہ خانہ کے تحائف کو گوشواروں میں ظاہر نہ کرنے کا کیس عمران خان کے لیے مشکل ترین ہوگا

عمران خان کے مختلف کیسز میں وکیل شاہ خاور کا کہنا تھا کہ تکنیکی بات یہ ہے کہ توشہ خانہ والی بات سنجیدہ ہو سکتی ہے

ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے ہر ممبر کو ہر سال الیکشن کمیشن میں گوشوارے جمع کروانے ہوتے ہیں اور شاید عمران خان نے اس میں توشہ خانہ تحائف کا ذکر نہیں کیا اور بعد میں اس میں تصحیح کروائی ہے

ان کا کہنا تھا کہ یہ کیس سابق سینیٹر فیصل واوڈا جیسا ہے جس میں انہیں حلف نامے میں غلط حقائق لکھنے پر نااہل کر دیا گیا تھا

شاہ خاور کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا ذکر سپریم کورٹ کے فیصلے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، تاہم آئین میں اس طرح نہیں لکھا بلکہ اس شق میں لکھا ہے کہ ایم این اے ہونے کے لیے جو اہلیت ہے اس میں صادق اور امین ہونا بھی ضروری ہے۔ لیکن اس میں نااہلی کا ذکر نہیں ہے بلکہ نااہلی کا ذکر آرٹیکل 63 میں ہے، جہاں صادق اور امین ہونے کا ذکر نہیں

شاہ خاور کا کہنا تھا کہ نااہلی کے لیے ضروری ہے کہ کوئی قانون کی عدالت یہ قرار دے کہ فلاں رکن اسمبلی صادق اور امین نہیں رہا

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن قانون کی عدالت نہیں ہے

دوسری طرف سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کے بقول توشہ خانہ کے تحفے گوشواروں میں ظاہر نہ کرنے کے بعد عمران خان اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویزاشرف کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوائے گئے ریفرنس میں نااہلی کا سامنا کر سکتے ہیں

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خلاف جو تین کیسز الیکشن کمیشن میں ہیں، ان میں سب سے زیادہ سخت توشہ خانہ والا معاملہ ہے کیونکہ قانون کے مطابق ایم این ایز اپنے تمام اثاثے ہر سال الیکشن کمیشن میں ظاہر کرنے کے پابند ہیں

پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں بھی عمران خان کے خلاف کیسز کی رینکنگ کی جائے تو توشہ خانہ تحائف کا گوشواروں میں ذکر نہ کرنا سرفہرست ہوگا

پلڈاٹ کے سربراہ کے مطابق عمران خان کی قانونی مشکلات خاصی سنجیدہ ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کیا حکمت عملی بناتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close