’وین ہوپ اینڈ ہسٹری رائم‘ : جب نیلسن منڈیلا کو ایک ہندوستانی نژاد خاتون سے محبت کے بعد انکار سننا پڑا۔۔

ویب ڈیسک

نیلسن منڈیلا نے اپنی یادداشت ’لانگ واک ٹو فریڈم‘ میں لکھا ہے: ’’میں شاید ہی ڈان جوآن (متعدد عورتوں کے ساتھ جنسی روابط قائم کرنے والا) تھا۔ لڑکیوں کے ارد گرد عجیب محسوس کرتا اور ہچکچاہٹ کا شکار، میں رومانوی کھیلوں کو نہیں جانتا تھا اور نہ ہی سمجھتا تھا، جو دوسرے آسانی سے کھیلتے نظر آتے ہیں۔“ اگرچہ ان کا یہ بیان چھوٹے منڈیلا کے بارے میں سچ ہو سکتا ہے، ایک دیسی لڑکا، جو ایک بڑے شہر میں اپنا راستہ بنا رہا تھا، جو ابھی ان سب باتوں سے واقف نہیں تھا

حقیقت یہ ہے کہ دو عورتیں ’ہمارا شوہر‘ کہتی اس شخص کا ماتم کرنے آئیں، جب کہ تیسری بیوی شریکِ حیات کے طور پر اپنی ناکامیوں پر غصے میں اس کی قبر پر چلی گئی – اور دیگر راستے میں رومانوی روابط کا دعویٰ کرتی ہیں – محبت کی زندگی، جس نے منڈیلا کی اکثر نقل کی گئی لائن کو واضح کیا کہ ”میں سَنت نہیں ہوں، جب تک کہ آپ ایک سَنت کو گناہ گار نہیں سمجھیں جو کوشش کرتا رہے۔“

یہ وہی نیلسن منڈیلا ہیں، جنہوں نے ایک بار مذاق میں کہا تھا، کہ ’اگر خواتین مجھے دیکھتی ہیں اور مجھ میں دلچسپی لیتی ہیں تو یہ میرا قصور نہیں ہے۔۔ سچ کہوں تو میں اس پر کبھی اعتراض نہیں کروں گا‘

تین بار شادی کرنے والے نیلسن منڈیلا بڑھاپے میں بھی دنیا بھر کی خواتین کو اپنی طرف متوجہ کرتے رہے، اس ہندوستانی نژاد خاتون کا ناممگر ان سب کے بیچ ایک خاتون ایسی بھی تھیں، جنہوں نے نیلسن منڈیلا کی جانب سے شادی کی پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ یہ تھیں امینہ چچالیا، ایک ہندوستانی نژاد خاتون۔

1930 میں پیدا ہونے والی امینہ نے جنوبی افریقہ کی اُس وقت کی حکومت کی نسل پرستانہ پالیسیوں کے خلاف تحریک میں اہم کردار ادا کیا۔ جب امینہ صرف اکیس سال کی تھیں، تو وہ ایک بار نیلسن منڈیلا سے ملنے جیل بھی گئی تھیں

امینہ کی شادی یوسف چچالیا سے ہوئی تھی، جن کا انتقال 1995 میں ہوا۔ اس وقت نیلسن منڈیلا اپنی دوسری بیوی سے طلاق لینے کا عمل شروع کر چکے تھے

امینہ کے بیٹے غالب چچالیا بتاتے ہیں ”ہمیں معلوم تھا کہ منڈیلا اور میرے والدین بہت اچھے دوست تھے۔ وہ اکثر ہمارے گھر آیا کرتے تھے۔ ایک بار نوے کی دہائی میں میری والدہ مجھے اور میری بہن کو ایک کونے میں لے گئیں اور انہوں نے ہمیں بتایا کہ نیلسن منڈیلا نے انہیں شادی کی پیشکش کی تھی، جسے وہ ٹھکرانے والی تھیں“

واضح رہے کہ اس وقت نیلسن منڈیلا کی عمر اَسی سال اور امینہ کی عمر اڑسٹھ سال تھی۔

اس سوال پر، کہ ان کی والدہ نے اتنے مشہور آدمی کی شادی کی پیشکش کیوں ٹھکرا دی؟ غالب چچالیا نے کہا، ”میری والدہ کو نیلسن منڈیلا بہت پسند تھے، لیکن وہ میرے والد کو بھولنے کے لیے بھی تیار نہیں تھیں۔ میرے والد ان سے پندرہ سال بڑے تھے۔ شاید ان کی موت کے بعد وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کی زندگی میں کوئی اور آئے“

معروف صحافی سعید نقوی بتاتے ہیں، ”مجھے پہلی بار امینہ سے ملاقات کا موقع اُس وقت ملا، جب نیلسن منڈیلا جیل سے رہا ہوئے۔ اُس وقت امینہ کے شوہر یوسف زندہ تھے۔ جیل سے رہائی کے بعد جب وہ نیلسن منڈیلا سے ملنے گئے تو میں نے امینہ کو منڈیلا کے پاس بیٹھے دیکھا۔ امینہ کو دیکھ کر محسوس ہوا کہ وہ کسی زمانے میں بہت خوبصورت، پُرکشش، اور چنچل رہی ہوں گی۔ ان کی شخصیت میں وہ سب کچھ تھا، جو کسی ہیروئن میں نظر آتا ہے۔ انہوں نے افریقن نیشنل کانگریس میں کام کیا تھا۔ وہ نیلسن منڈیلا کی دوست تھیں اور ان کی فکری سطح بھی نیلسن منڈیلا کے برابر تھی۔“

غالباً سعید نقوی کی ذکر کردہ یہی وہ خصوصیات تھیں، کہ 1948ع میں جنوبی افریقہ کا دورہ کرنے والی آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کے رکن کیتھ ملر بھی امینہ کو پسند کرتے تھے۔ تب ابھی امینہ کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی اور کیتھ ملر اُس وقت دنیا کے مشہور آل راؤنڈر تھے

ان کے بارے میں سعید نقوی بتاتے ہیں، ”دونوں کی ملاقات ایک پارٹی میں ہوئی، جس کے بعد کیتھ ملر نے امینہ کو دن رات فون کرنا شروع کر دیا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ وہ فون تو کر سکتا تھا لیکن ملنے نہیں آ سکتا تھا۔۔ ایک مسئلہ یہ تھا کہ امینہ ہندوستانیوں کے علاقے میں رہتی تھیں۔ امینہ کے شوہر یوسف بھائی بہت ہنستے اور یہ کہانی سناتے کہ نسل پرستی نے ہماری بہت مدد کی، ورنہ یہ کیتھ ملر آ کر امینہ سے مل جاتا“

امینہ اور نیلسن منڈیلا کی سعید نقوی کے سامنے کئی ملاقاتیں ہوئیں، لیکن جب وہ 1995ع میں جنوبی افریقہ گئے تو اس وقت امینہ کے شوہر یوسف کا انتقال ہو چکا تھا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ جب سعید نقوی امینہ سے ملنے گئے تو انہیں معلوم ہوا کہ وہ نیلسن منڈیلا کے پاس ہیں

سعید نقوی کہتے ہیں ”پھر مجھے ان سے معلوم ہوا کہ نیلسن منڈیلا نے وہ کیا جو کیتھ ملر نہیں کر سکا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ سب کو معلوم ہو گیا کہ نیلسن منڈیلا نے ان سے شادی کرنے کا ذہن بنانا شروع کر دیا ہے“

امینہ نے بعد میں ایک انٹرویو دیا، جس میں انہوں نے بتایا کہ نیلسن منڈیلا کی سب سے پیاری یاد ان کے دل میں یہ ہے کہ وہ ایک بار صدر بنننے کے بعد ان کے گھر آئے تھے۔ امینہ نے انٹرویو میں کہا ”وہ میرے کچن میں ایک سٹول پر بیٹھا ہوا تھا، جب میں اس کے لیے سموسے تل رہی تھی“

امینہ اپنی سوانح عمری ’وین ہوپ اینڈ ہسٹری رائم‘ میں لکھتی ہیں، ”ایک بار گریس مچل سے تیسری شادی کے بعد نیلسن منڈیلا میرے جوہانسبرگ کے فلیٹ پر آئے اور مجھ سے اپنی محبت کا واضح اظہار کیا۔ میں نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ تم نے ابھی شادی کی ہے۔ میں آزاد ہوں لیکن تم آزاد نہیں ہو۔ اس پر نیلسن منڈیلا ناراض ہو گئے اور میرے بار بار یہ کہنے کے باوجود کہ میں نے تمہارے لیے مچھلی پکائی ہے، وہ دروازہ بند کر کے باہر نکل گئے“

امینہ اپنی سوانح عمری میں مزید لکھتی ہیں: ”نیلسن منڈیلا میں رومان کا کوئی لمس نہیں تھا۔ شاید وہ یہ احساس اپنی برسوں کی قید کی وجہ سے کھو چکے تھے۔ میں ان کو پسند کرتی تھی لیکن اس طرح نہیں، جس طرح میں اپنے مرحوم شوہر کو بڑھاپے میں بھی پسند کرتی تھی“

سعید نقوی بتاتے ہیں ”یہ سمجھا گیا تھا کہ نیلسن منڈیلا اگر ایک ہندوستانی خاتون کے بجائے موزمبیق کے صدر کی بیوہ گریس مچل سے شادی کریں تو بہتر رہے گا، اور وہ آہستہ آہستہ اس سمت میں گامزن ہو گئے تھے“

تاہم، ان کے مطابق، ان دعوؤں کی کبھی تصدیق نہیں ہو سکی۔ وہ کہتے ہیں، ”کس نے ہاں کہا اور کس نے انکار کیا، لیکن ان کے درمیان کچھ نہ کچھ ضرور تھا۔۔ انہیں قریب سے دیکھنے کے بعد، میں کہہ سکتا ہوں کہ آگ دونوں طرف برابر تھی۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close