مصنوعی زیورات (فرانسیسی ادب سے منتخب افسانہ)

گی دے موپاساں (ترجمہ: ڈاکٹر صہبا جمال شاذلی)

مسٹر لینٹین اپنے محکمہ کے ایک آفیسر کے گھر استقبالیہ کی دعوت میں مدعو تھا۔ وہیں اس کی ملاقات ایک نوجوان لڑکی سے ہوئی اور اسی وقت وہ اس لڑکی کی محبت میں سر سے پیر تک ڈوب گیا۔

وہ ایک ٹیکس کلکٹر کی بیٹی تھی، جو کئی سال قبل انتقال کر چکا تھا۔ اب وہ اپنی ماں کے ساتھ پیرس میں رہتی تھی۔ اس کی ماں نے پڑوس کے کچھ گھرانوں سے تعلقات بڑھا لیے اور اس کوشش میں تھی کہ اس کی بیٹی کے لیے اچھا سا شوہر تلاش کرلے۔ ان کی متوسط درجہ کی آمدنی تھی اور وہ باعزت، نفیس اور خاموش طبع لوگ تھے۔

یہ نوجوان لڑکی ایک بے حد نیک عورت تھی، جس پر بھروسہ کرتے ہوئے کوئی بھی سنجیدہ شخص اپنی زندگی کی ساری خوشیاں اس کے سپرد کر سکتا تھا۔ فرشتوں سی پاکیزگی کا جادو لیے اس کی سادہ سی خوبصورتی، ہونٹوں پر ہمیشہ چھائی خفیف سی مسکراہٹ کسی خالص اور پیاری روح کا عکس لگتی تھی۔ اس کی تعریفوں کا چرچا ہر جگہ گونجتا رہتا تھا۔ لوگ یہ کہتے نہیں تھکتے تھے؛ ”بڑا خوش قسمت ہوگا وہ شخص، جو اس کی محبت میں گرفتار ہوگا! اسے اس سے بہتر بیوی نہیں مل سکتی۔“

مسٹر لینٹین محکمہ داخلہ میں ۳۵۰۰ فرینکس کی تنخواہ پر کام کرنے والا ہیڈ کلرک تھا۔ اور اس نے اس بے مثال لڑکی کے لیے شادی کا پیغام بھجوایا اور وہ قبول کرلیا گیا۔

وہ ناقابلِ بیان حد تک اپنی بیوی کے ساتھ خوش تھا۔ اس کی بیوی نے سارے گھر کی ذمہ داریاں بڑی خوش اسلوبی اور کفایت شعاری سے نبھانی شروع کر دیں کہ اب وہ اسی آمدنی میں عیش و آرام سے رہنے لگے تھے۔ وہ اپنی تمام تر توجہ، پیار اور محبت بڑی فراخ دلی سے اپنے شوہر پر لٹاتی رہتی۔ اس کی دلکشی یہ کا عالم تھا کہ شادی کے چھے سال کے بعد بھی مسٹر لینٹین نہ صرف اس سے اپنی شادی کے ابتدائی دنوں جتنی محبت کرتا تھا، بلکہ اب اس سے کہیں زیادہ اس کی محبت کا اسیر ہو چکا تھا۔

البتہ مسٹر لینٹین کو بیوی کی دو عادتیں سخت ناپسند تھیں: اس کا تھیٹر جانے کا شوق۔۔ اور اس کا نقلی زیورات کے خریدنے کی چاہت۔ اس کی سہیلیاں (دوسرے آفیسروں کی بیویاں) اکثر اسے، ہر نئے ڈرامے کے پہلے شو کی اسپیشل کلاس کی ٹکٹیں مہیا کر دیا کرتیں اور شوہر کو اس کے ساتھ جانا ہی ہوتا تھا، چاہے اس کی مرضی شامل ہو یا نہ ہو۔۔ خاص طور پر دن بھر کام سے تھک کر واپسی پر اس طرح کی تفریحات اس کے لیے بیزاری کا باعث ہوا کرتیں۔

کچھ عرصہ بعد مسٹر لینٹین نے بیوی سے بہت زیادہ منتیں کیں کہ وہ اپنی کسی دوست کے ساتھ چلی جایا کریں اور وہی انہیں واپس گھر بھی چھوڑ جائے۔ پہلے تو بیوی نے بہت مخالفت کی، لیکن پھر شوہر کے کافی اصرار پر اس کی خوشی کے لیے اس نے بات مان لی۔

اس طرح تھیٹر ساتھ جانے کا مسئلہ تو حل ہوا، لیکن اس کا نقلی زیورات کا شوق بھی تو تھا۔ ویسے اس کے ملبوسات تو ہمیشہ کی طرح سادہ، خوش نما اور انتہائی معقول قسم کے ہوا کرتے تھے، لیکن مصنوعی زیورات کا شوق بڑھتا گیا۔ مصنوعی ہیروں کے آویزے، اصلی ہیروں سی چمک لیے، اسے بے حد پسند تھے۔ نقلی موتیوں کی مالا، مصنوعی سونے کے کنگن اور نقلی نگوں والے کنگھے۔۔

مسٹر لینٹین اکثر کہا کرتے تھے، ”میری جانم، اگر تم اصلی جواہرات نہیں خرید سکتی ہو تو کوئی بات نہیں۔تم ویسے ہی اپنی قدرتی خوبصورتی اور نیک سیرت کی وجہ سے، جو عورت کے بہترین زیورات ہیں، پُرکشش لگتی ہو“

لیکن وہ ایک پیاری سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا کرتی،
”میں کیا کروں؟ مجھے ان کا بےحد شوق ہے۔۔ یہ میری کمزوری ہے۔۔ اور فطرت تو بدلی نہیں جا سکتی۔“

پھر وہ نقلی موتیوں کی مالا اپنی انگلیوں پر مختلف انداز میں لپیٹنے لگتی، جس سے اس میں جڑے مصنوعی نگینے چمکنے لگتے، اور پھر وہ کہتی، ”دیکھو! کیا یہ خوبصورت نہیں دکھائی دیتے۔۔ کوئی بھی قسم کھا کر کہہ سکتا ہے کہ یہ اصلی ہیں۔“

اور مسٹر لینٹین مسکراتے ہوئے جواب دیتے، ”تمہاری پسند قطعی غیر روائتی ہے، میری پیاری۔“

کبھی کبھی کسی شام جب وہ دونوں آتش دان کے قریب بیٹھے راز و نیاز کی باتیں کر رہے ہوتے، وہ اپنا چمڑے کا ڈبا لا کر چائے کی میز پر رکھ دیتی، جو مسٹر لینٹین کے الفاظ میں ’ردی کی ٹوکری‘ تھا۔۔ اور وہ بڑے شوق سے اور توجہ سے ان مصنوعی نگینوں کا معائنہ کرتی، جیسے کہ اسے کوئی گہری اور خفیہ خوشی حاصل ہوتی ہو۔۔ اور پھر کوئی نیکلیس اٹھا کر، اصرار کے ساتھ، شوہر کی گردن کے اطراف لگا کر، ہنستے ہوئے کہتی: ”کتنے مضحکہ خیز لگ رہے ہو!“ اور پھر خود کو اس کی بانہوں کے حوالے کر، انتہائی محبت سے اسے پیار کر لیتی۔

سرما کی ایک شام وہ اوپیرا سے گھر لوٹتے ہوئے سردی کا شکار ہو گئی۔ دوسرے دن وہ کھانسنے لگی اور آٹھ دن بعد ہی وہ پھیپھڑوں کی سوزش کی بیماری کے ساتھ اس دنیا سے چلی گئی۔۔

مسٹر لینٹین کے غم اور مایوسی کا عالم یہ تھا کہ وہ وقت سے پہلے بوڑھا دکھائی دینے لگا۔ ایک ہی مہینے کے عرصے میں سر کے بال سفید ہوچکے تھے۔ وہ مسلسل روتا رہا۔ مرحومہ بیوی کی مسکراہٹ، اس کی آواز، اس کی دلکشی کی یادیں اس کا دل توڑتی رہیں۔

وقت، مسٹر لینٹین کے غم کی تسکین کا کوئی سامان مہیا نہیں کر پایا۔ اکثر آفس کے ساتھی جب حالاتِ حاضرہ پر گفتگو کرتے تو مسٹر لینٹین کی آنکھیں آنسوؤں سے ڈب ڈبا جاتیں۔۔ اور اس کا غم دل خراش سسکیوں کی صورت میں باہر نکل آتا۔ اس نے بیوی کے کمرے میں ہر چیز جوں کی توں ایسے ہی رکھی تھی، جیسے اس کی زندگی میں تھی _ اس کا سارا فرنیچر، اس کے کپڑے، بالکل ویسے ہی رکھے تھے، جیسے وہ اس دن رکھے تھے، جس دن اس کی موت واقع ہوئی تھی۔ اس کا معمول بن چکا تھا کہ وہ تنہائی میں اپنی بیوی کی یادوں کے سہارے رہنے لگا تھا _ بیوی، جو اس کی زندگی کا خزانہ تھی، اس کے وجود کی خوشی۔۔۔

لیکن جلد ہی وہ کشمکشِ حیات میں مبتلا ہو گیا۔ اس کی آمدنی، جس سے اس کی بیوی گھر کے سارے اخراجات آسانی سے سنبھال لیا کرتی تھی، وہ اب اس کی اہم ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے بھی نا کافی تھی۔۔ اور وہ حیران تھا کہ وہ کیسے زندگی کی آسائشوں کا انتظام کر لیا کرتی تھی۔۔ مہنگی شراب، ذائقہ دار کھانے، جو وہ اپنی معمولی آمدنی میں حاصل کرنے میں ناکام تھا۔

مسٹر لینٹین نے کافی قرض لے لیے اور پوری طرح سے غریبی کے درجہ پر پہنچ چکا تھا۔ ایک دن جب اسے احساس ہوا کہ اس کی جیبوں میں ایک سینٹ (cent) بھی نہیں تھا، تب اسے خیال آیا کہ کچھ سامان بیچ دوں، پھر فوری اسے خیال آیا کیوں نہ بیوی کے کچھ مصنوعی زیورات بیچ دوں۔۔ وہی نقلی زیورات، جنہیں دیکھ کر وہ کڑھا کرتا تھا اور جو ماضی میں اسے غصہ دلانے کا باعث ہوا کرتے تھے۔ زیورات پر اس کی ایک نظر نے جیسے اس کی کھوئی ہوئی بیوی کی یادوں کو کچھ حد تک مسخ کر دیا۔

اپنی زندگی کے آخری دنوں میں وہ بہت زیادہ خریداری کرنے لگی تھی، ہر روز کوئی نہ کوئی نیا نگینوں کا زیور لے آتی۔ آخری بار اس وزنی نیکلس کو بیچنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس نے ایک بار اسے الٹ پلٹ کر دیکھا۔۔ یہ اس کی بیوی کا بہت پسندیدہ نیکلس تھا، اور مسٹر لینٹین کا خیال تھا کہ اس کے چھے یا سات فرینکس تو مل ہی جائیں گے، کیونکہ اس کی کاریگری بہت بہترین تھی، اگرچہ کہ وہ مصنوعی تھا۔

اس نے نیکلس جیب میں رکھا اور کسی قابلِ بھروسہ جوہری کی تلاش میں نکل پڑا۔ کافی دیر بعد وہ ایک جوہری کی دوکان میں، اپنی پریشانی کے ظاہر ہونے پر اور اتنی بیکار سی چیز کو بیچنے کے لیے شرمندگی کے ساتھ، داخل ہو گیا۔

“جناب۔۔“ اس نے دوکاندار سے کہا، “میں جاننا چاہتا ہوں اس کی کیا قیمت ہوگی۔“

دوکاندار نے نیکلس کو ہاتھ میں لے کر اس کا معائنہ کیا اور پھر کاریگر کو بلا کر آہستہ سے کچھ کہا؛ پھر اس نے زیور کو کاؤنٹر پر رکھا اور آخری فیصلہ لینے سے پہلے اس کو مختلف زاوئیوں سے دیکھتا رہا۔

مسٹر لینٹین، دوکاندار کی ان حرکتوں سے ناراض ہونے لگا تھا اور کہہ دینا چاہتا تھا، ’اوہ! میں اچھی طرح جانتا ہوں۔۔ اس کی کوئی قیمت نہیں ہے۔۔‘

لیکن اسی اثناء میں جوہری نے کہا، ”جناب، اس نیکلس کی قیمت تو بارہ سے پندھرہ ہزار فرینکس ہے؛ لیکن میں اسے اس وقت تک خرید نہیں سکتا جب تک تم مجھے اس بات کا ثبوت نہ دو کہ تم نے اسے کہاں سے خریدا تھا۔“

دوکاندار کی بات پوری طرح سے نہ سمجھتے ہوئے، حیرت سے مسٹر لینٹین کی آنکھیں اور منہ کھلے رہ گئے۔ آخر اس نے زبان کھولی اور ہکلاتے ہوئے پوچھا: ”کیا واقعی آپ کا مطلب وہی ہے، جو آپ کہہ رہے ہیں؟“

دوکاندار نے بڑے روکھے پن سے جواب دیا، ”آپ کہیں اور جگہ بھی کوشش کر سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی اس سے زیادہ کی پیش کش کر دے۔ میرے خیال سے اس کی قیمت پندرہ ہزار فرینکس سے زیادہ نہیں ہوگی۔۔ اگر اس سے بہتر پیش کش نہ ملے تو واپس چلے آنا۔“

حیرت زدہ مسٹر لینٹن نے دوکاندار سے نیکلس لیا اور دوکان سے باہر آ گیا۔ اسے غور کرنے کے لیے کچھ وقت چاہیے تھا۔

دوکان سے باہر آتے ہی اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ خوب ہنسے۔۔ وہ اپنے آپ سے کہنے لگا: ’بے وقوف! واقعی بیوقوف! اگر میں اس کے الفاظ کا مطلب جوں کا توں لوں تو، یہ کیسا جوہری تھا جو اصلی اور مصنوعی ہیروں میں فرق نہیں محسوس کر پا رہا تھا۔“

کچھ دیر بعد وہ ریو ڈا لائپی (Rue de la Paix) کی ایک دوکان میں داخل ہوا۔ دوکان کے مالک نے جیسے ہی نیکلس پر ایک نظر ڈالی، وہ چیخ اٹھا، ”اوہ میرے خدا! میں تو اسے اچھی طرح جانتا ہوں۔ یہ یہیں سے خریدا گیا تھا۔“

مسٹر لینٹن بہت پریشان تھا۔پوچھا، ”کیا قیمت ہوگی اس کی؟“

”ویسے تو میں نے اسے بیس ہزار فرینکس میں بیچا تھا۔ البتہ اب میں اسے اٹھارہ ہزار فرینکس کے بدلے واپس لے سکتا ہوں، اگر تم، قانونی تقاضے کے تحت، مجھے بتادو کہ یہ تمہارے قبضے میں کیسے آیا۔“

مسٹر لینٹن جو پوری طرح سے گم صم ہو چکا تھا، مالک سے کہنے لگا، ”لیکن۔۔ لیکن۔۔۔ اچھی طرح سے معائنہ کر لیں۔ کیونکہ اب سے پہلے میں اسے مصنوعی زیور سمجھتا رہا تھا۔“

جوہری نے پوچھا، ”آپ ہیں کون، جناب؟“

”میں، لینٹین، وزارتِ داخلی امور میں ملازم ہوں۔۔ اور میں نمبر سولہ ریو ڈی مارٹیر س (16 Reu des Martyrs) پر رہتا ہوں۔“

دوکاندار نے کئی کتابوں کو دیکھا اور اسے خریدنے والے کا نام اور پتہ مل گیا، اور بتایا کہ وہ نیکلس میڈم لینٹین کو ان کے پتہ ، ۱۶ ، ریو ڈی مارٹیرس ، پر ۲۰ جولائی ،۱۸۷۶ کو بھیجا گیا تھا

دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھنے لگے۔۔۔ دونوں خاموش، مسٹر لینٹین حیرت سے اور جوہری اس کو چور سمجھتے ہوئے۔۔۔ آخر جوہری نے خاموشی توڑی، ”کیا تم یہ نیکلس چوبیس گھنٹوں کے لیے میرے پاس چھوڑ سکتے ہو؟ میں تمہیں رسید دے دوں گا۔”

مسٹر لینٹین نے جلدی سے جواب دیا، ”ہاں، ضرور۔۔۔“ اور رسید جیب میں رکھتے ہوئے وہ دوکان سے باہر چلا گیا۔

خوفناک قسم کی الجھنوں میں گرفتار وہ بے مقصد سڑکوں پر گھومتا رہا۔ وہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس کی بیوی اتنے مہنگے زیورات خریدنے کی تو یقیناً استطاعت نہیں رکھتی تھی۔

ہو سکتا ہے کسی نے تحفے دیے ہوں! لیکن کس نے؟ اور اسے ہی کیوں دیے گئے وہ تحفے؟

وہ سڑک کے بیچوں بیچ ٹھہر گیا۔ ایک خوفناک شک اس کے ذہن میں ابھرا۔۔۔۔ کیا وہ؟ تو پھر سارے ہی زیورات اسے تحفوں کے ذریعہ ہی ملے ہونگے! اس کے قدموں کے نیچے زمین جیسے کانپنے لگی تھی۔۔ سامنے درخت گرتا ہوا محسوس ہونے لگا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھ ہوا میں لہرائے اور بے ہوش ہوکر زمین پر گر پڑا۔۔اور جب ہوش آیا تو خود کو ایک دواخانے میں پایا، جہاں کوئی راہ چلتا شخص اسے اٹھا کر وہاں چھوڑ گیا تھا۔ اس نے التجا کی کہ اسے گھر پہنچا دیا جائے۔ گھر پہنچ کر اس نے دروازہ بند کیا اور مسلسل روتا رہا، یہاں تک کہ رات ہو گئی۔ آخر اپنی تھکاوٹ پر قابو پا کر وہ گہری نیند سو گیا۔

دوسرے دن کے سورج نے اسے جگا دیا اور وہ آفس جانے کے لیے آہستہ آہستہ تیار ہونے لگا۔ویسے اتنے صدمے اٹھانے کے بعد کام کرنا مشکل ہی تھا۔لہٰذا چھٹی کی درخواست بھجوا دی۔ پھر یاد آیا کہ اسے تو جوہری کے یہاں جانا تھا۔وہاں جانے کا خیال کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا تھا لیکن وہ نیکلس وہاں چھوڑنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ اس نے کپڑے تبدیل کیے اور باہر نکل گیا۔

بڑا خوبصورت دن تھا؛ صاف اور شفاف نیلا آسمان نیچے کے مصروف شہر پر مسکرا رہا تھا۔ غیر مصروف لوگ اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈالے آوارہ گردی کرتے گھوم رہے تھے۔
مسٹر لینٹین نے ان بے فکر لوگوں کو دیکھ کر خود سے کہا، ’امیر لوگ واقعی بہت خوش رہتے ہیں۔ پیسے میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ انتہائی گہرے دکھ بھی بھلا دیے جاتے ہیں۔ کاش میں امیر ہوتا!‘

اسے ادراک ہوا کہ وہ بھوکا تھا، اس کی جیب تو خالی تھے۔۔ اسے پھر نیکلس کی یاد آئی۔ اٹھارہ ہزار فرینکس! اٹھارہ ہزار فرینکس! کیا رقم ہے!

وہ جلد ہی ریو ڈی پائی پر جوہری کی دوکان کے سامنے کھڑا تھا۔ اٹھارہ ہزار فرینکس! کئی بار اس نے اندر جانے کی کوشش کی، لیکن ہر بار شرم اسے واپس کھینچ لیتی تھی۔البتہ وہ بھوکا تھا، بہت بھوکا۔۔۔ اور جیب میں ایک سینٹ بھی نہیں۔ اس نے فوری طے کیا، تیزی سے سڑک پار کی، اس سے پہلے کہ غور کرنے کو وقت نہ مل جائے، وہ دوکان میں داخل ہو گیا۔

مالک نے فوری آگے بڑھ کر، پُر خلوص انداز میں کرسی پیش کی اور سارے ملازم بڑی اپنائیت سے اسے دیکھے جارہے تھے۔

”میں نے ساری جانچ کروا لی ہے، مسٹر لینٹین“ جوہری نے بتایا، ”اور تم اگر ابھی بھی اس کو بیچنے کے اپنے ارادے پر قائم ہو تو میں نے جو رقم کی پیش کش کی تھی، وہ ادا کرنے کے لیے تیار ہوں“

”بالکل، سر۔۔“ مسٹر لینٹین نے ہکلاتے ہوئے کہا۔

بعدازاں دوکان کے مالک نے دراز سے اٹھارہ ہزار فرینکس کے نوٹ نکالے اور مسٹر لینٹین کے حوالے کر دیے۔ اس نے رسید پر دستخط کیے اور نوٹ اپنی جیب میں رکھ لیے۔
دوکان سے باہر نکلتے ہوئے، وہ پھر ایک بار پلٹا اور دیکھا کہ جوہری کے ہونٹوں پر وہی جانی پہچانی مسکراہٹ تھی۔ مسٹر لینٹین نے نظریں نیچی رکھتے ہوئے کہا، ”میرے پاس۔۔ میرے پاس اس طرح کے اور نگینیے ہیں، جو اسی ذریعہ سے آئے تھے، جہاں سے یہ نیکلس تھا۔ کیا آپ انہیں بھی خریدیں گے؟“

جوہری نے سر جھکا کر کہا، ”ضرور، جناب۔“

مسٹر لینٹین نے سنجیدگی سے کہا، ”میں لے آتا ہوں انہیں۔۔” ایک گھنٹہ بعد ہی وہ سارے زیور لے آیا۔

بڑے سے ہیروں کے آویزوں کی قیمت بیس ہزار فرینکس، کنگن پینتیس ہزار فرینکس، انگوٹھیاں سولہ ہزار فرینکس، زمرد اور نیلم کے زیورات چودہ ہزار فرینکس، سونے کی زنجیر، جس میں بڑا سا ہیرے کا لاکٹ لگا تھا، چالیس ہزار فرینکس۔ جن کی کل رقم، ایک سو تینتالیس ہزار فرینکس بنتی تھی۔

جوہری نے مزاحیہ طور پر کہا، ”ایک شخص ایسا بھی ہے، جس نے اپنی بچت قیمتی پتھروں کی سرمایہ کاری میں لگا دی۔“

مسٹر لینٹین نے انتہائی سنجیدگی سے جواب دیا، ”یہ کسی کے پیسے کو سرمایہ کاری میں لگانے کا ایک دوسرا طریقہ ہے۔“

اس دن مسٹر لینٹین نے وائیزن (Voisin) میں کافی مہنگی شراب خرید کر پی۔ پھر ٹیکسی لے کر بائیس (Bois) کے سارے علاقے میں گھومتا رہا اور ہر موڑ پر، ایک طرح کی نفرت سے، وہاں کے مکینوں کی طرف چیخ اٹھتا: ’میں بھی صاحبِ حیثیت ہوں۔۔ میں بھی دو سو ہزار فرینکس کی مالیت کا انسان ہوں۔‘

اچانک اس کو اپنے مالک کی یاد آئی۔۔ پھر وہ آفس کی طرف چل دیا اور انتہائی خوشی کے ساتھ کہنے لگا، ”جناب، میں اپنی ملازمت سے استعفا دینا چاہتا ہوں۔ ابھی ابھی مجھے تین سو ہزار فرینکس ورثہ میں ملے ہیں۔“

مسٹر لینٹین نے آفس کے سارے ساتھیوں سے مصافحہ کیا اور اپنے مستقبل کے کچھ منصوبوں کا ذکر بھی کیا۔ پھر وہ وہاں سے نکل کر سیدھے کیفے اینگلے (Cafe Anglais) کھانا کھانے کے لیے چلا گیا۔

وہ ایک شخص کے ساتھ بیٹھ گیا جو وضع سے اعلیٰ نسب اور خاندانی دکھائی دے رہا تھا۔ کھانے کے دوران رازدارانہ انداز میں بتایا کہ حال ہی میں اسے ورثہ میں چار سو ہزار فرینکس ملے ہیں۔

زندگی میں پہلی مرتبہ وہ تھیٹر میں بیزار نہیں ہوا۔ پھر اس نے ساری رات ہم جنسوں کے ساتھ خوشی خوشی گذار دی۔

چھے مہینے بعد اس نے دوبارہ شادی کر لی۔ اس کی نئی بیوی نیک خاتون ضرور تھی، لیکن ساتھ ہی انتہائی تند مزاج، پُرتشدد ذہنیت کی مالک، جس نے مسٹر لینٹین کی زندگی جہنم کے مماثل بنا دی۔

English Title: The False Gems
Written by:
Guy de Maupassant

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close