جُھولا ٹینشن دور کیوں کرتا ہے؟

حسنین جمال

جھولا عیاشی کی بڑی عجیب قسم ہے۔ کوئی ایک بندہ ہے، جو کہے کہ بچپن میں اس کا سب سے بڑا خواب گھومنے والی کرسی نہیں تھا؟

یا کوئی ایسا ہو، جو کہہ دے کہ وہ گھومنے والی کرسی پہ بیٹھا اور ٹانگیں اٹھا کے اسے کبھی گول پورے چکر میں نہیں گھمایا؟

پہلا جھولا ماں کی گود ہوتی ہے۔ بچہ رو رہا ہے، اسے ایک ہی رفتار میں تھوڑا سا ہلایا اور وہ سو گیا۔

تو یہ عادت بنیادی طور پہ اماں کی گود سے ہو گئی، ماں غریب چوبیس گھنٹے کے الرٹ پہ، جھولا بند اور بچے کا رونا دھونا شروع۔۔ انسان آخر کتنا ہل سکتا ہے؟

اماں نے پرانا دوپٹہ چارپائی سے باندھا اور بچے کو اس میں جُھلانا شروع کر دیا، کسی نے وہ لکڑی کے جھولے خرید لیے اور انہیں ہلانے کے لیے ساتھ ایک ڈوری باندھ لی، بلکہ اب تو ایک مشین بھی آ گئی ہے کہ جس پر بچے کو لٹائیں اور وہ خود اسے سیٹ شدہ طریقے میں جھولے دینا شروع کر دے گی۔

بڑے ہوتے گئے اور جھولے بدلنا شروع۔۔ ہلنا وہی ہے، حرکت وہی ہے، لیکن اب پینگ ہمیں ایک بہتر آپشن مل گئی، جسے انگریزی میں ’سوئنگ‘ کہتے ہیں۔ جتنی اونچی پینگ جائے گی بچہ اتنا چیمپیئن تصور ہو گا۔ موجیں لگی ہوئی ہیں، پینگ سے اترنے کا دل ہی کس کا کرتا ہوگا؟

مسلسل جھولنے کی خواہش نے گھروں میں تخت نما جھولے رکھ دیے ہیں، راکنگ چیئر موجود ہے، وہ دھنسا ہوا سا بید کا جھولا ہے اور پتہ نئیں کیا کیا کچھ ہے لیکن جھولا ہے کیا؟ کبھی سوچا؟

آپ پینگ لے رہے ہیں اور وہ ہموار طریقے سے جھولنے کی بجائے تھوڑے جھٹکے کھانے لگے، کیا ہوگا؟ یقیناً کوئی خرابی، یا پھر آپ کو چکر آ رہے ہوں گے، دونوں صورتوں میں آپ نیچے اتر جائیں گے

ماں ایک خاص رفتار میں جھولا نہ دے اور کبھی آہستہ کبھی تیز کرتی رہے تو کیا بچہ سو جائے گا؟ نہیں سوئے گا بلکہ گلا پھاڑ کے رونا شروع کر دے گا۔

گھومنے والی کرسی کے لیے افضل ترین یہی ہے کہ وہ ڈولے بغیر پورا دائرہ مکمل کرے، ورنہ کرسی میں نقص ہے۔

تو یہ جو پینگ کی حرکت ہے، بچے کا جھولے میں سو جانا ہے یا گھومنے والی کرسی کا دائرہ ہے۔۔۔ یہ ہمارے اندر موجود ردھم میں حرکت کرنے کی خواہش ہے۔

ہمیں ’لے‘ چاہیے، ردھم چاہیے، حرکت چاہیے، تال چاہیے، دھن چاہیے۔۔۔ کچھ بھی سمجھ لیں، وہ انسان کے اندر بائے ڈیفالٹ چیز ہے

دنیا بھر کے مذاہب میں عبادت کو دیکھیے، بھجن ہے، کوائر ہے، قوالی ہے، کیرتن ہے، سب کسی نہ کسی طے شدہ ردھم پہ فٹ آتے ہیں

ہمارے یہاں دیکھ لیں، قرأت میں ایک لحن ہے، سات طریقے ہیں، جو شروع سے چلے آتے ہیں۔ اذان دیکھیے، جتنا خوش الحان ہوگا اذان دینے والا، اتنا زیادہ لطف آئے گا، وہ جیسے ہمارے بچپن میں پی ٹی وی پہ اذان ہوا کرتی تھی، آج تک اس کی ریکارڈنگ کئی ذہنوں میں خود ہی چلتی رہتی ہے

نعتیں تھیں، مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ، فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر۔۔۔ سلام تھے، منقبت، نوحے، قصیدے۔۔۔ یعنی جو کچھ بھی ہے، اس میں ایک لے ہے، تال ہے، ردھم ہے ورنہ وہ چیز رائج معیار کی نہیں ہوگی

تو ردھم قدرتی طور پہ ایک طے شدہ چیز ہے جو ہمارے اندر ہے یا کہہ لیں کہ ہم اس سے باہر نہیں نکل سکتے۔ جھولا ہم کیوں لیتے ہیں، کیونکہ ہمیں ردھم چاہیے ہوتا ہے، عبادات میں ایک ردھم ہے، تواتر ہے، تفریح کے وقت بھی انسان سُریلی آوازیں پسند کرتا ہے اور وہ کسی نہ کسی راگ کے تابع ہوتی ہیں، دل کا متواتر ایک طرح سے دھڑکنا۔۔۔ یہ سب کچھ، تو بنیاد کیا ہوئی؟

ردھم۔۔۔

جھولا بڑی عمر کے انسان کو وہ ردھم واپس دیتا ہے، جسے زندگی کی پُرپیچ باریک گلیوں میں گھومتے گھامتے بندہ فراموش کر چکا ہوتا ہے

جھولا حیرت واپس کرتا ہے، جھولا دماغ کو اتنی فرصت دیتا ہے کہ وہ کچھ سوچ سکے، جھولا بذاتہ، کچھ بھی نہ کرتے ہوئے، صرف جھولتے رہنا۔۔۔ لطف دیتا ہے، مزہ دیتا ہے۔

میری بات نہیں سننی؟ سائنس چاہیے؟ ثبوت چاہیے؟ 2016 میں جرنل آف کلینیکل اینڈ ڈائگناسٹک ریسرچ میں یہ تحقیق باقاعدہ چھپ چکی ہے کہ ’پینگ لینا اسٹریس دور کرنے کا سادہ ترین طریقہ ہے۔‘

کرنے پہ آئیں تو زندگی میں کیا نہیں ہے کرنے کو؟ مسلسل مصروف رہنے کو، چوبیس گھنٹے کہیں نہ کہیں جُتے رہنے کو۔۔۔ لیکن یہی سب کچھ آخر میں بندے کو تھکا دیتا ہے۔

جھولا، پینگ، ردھم، تال، لے، سُر۔۔۔ یہ سب ایک ہی چیز ہے۔

صرف کان نہیں، پورا جسم ردھم مانگتا ہے۔ جائیں اپنا ردھم ڈھونڈیں، اپنی موج تلاش کریں۔۔۔ جسے جہاں مل جائے، اس کے مزے۔۔ جسے نہ ملے، اس کے لیے کم از کم جھولا تو ہے ہی!

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close