ان دنوں پارلیمنٹ میں عجلتی قانون سازی کی لوٹ سیل چل رہی ہے کیونکہ موجودہ قومی اسمبلی میں کوئی زوردار اپوزیشن نہیں ہے۔
سینیٹ میں اگرچہ عددی اعتبار سے عمران خان کی پی ٹی آئی ایک موثر حزبِ اختلاف ہے لیکن اس وقت پارٹی قیادت کی مشکیں کَسی ہوئی ہیں، اس لیے سینیٹ میں ان کی اجتماعی طاقت بھی تتر بتر ہے۔ جبکہ حکمران پی ڈی ایم کو بھی جتنا اقتدار مل پایا، وہ انہوں نے زورِ بازو سے نہیں کمایا بلکہ اوپر والوں کی دَین ہے۔ اس حکومت نے پچھلے سولہ ماہ میں اس امید پر ’صفائی ستھرائی‘ کی کہ ان خدمات کے عوض اگلے انتخابی میدان میں انہیں لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کیا جائے گا۔ ہو سکتا ہے اس بارے میں انہیں مبہم طور پر ’تعاون‘ کا یقین دلایا گیا ہو، یا ممکن ہے کہ کوئی واضح روڈ میپ ان کے ساتھ شئیر کیا گیا ہو۔ بہرحال جیسے جیسے انتخابی موسم کھلتا جائے گا، بلی تھیلے سے باہر آتی چلی جائے گی۔
اس وقت سارا گیم عمران خان بمقابلہ سب ہیں۔ اگر عمران خان کی سیاست کا قانونی راستوں کے ذریعے تشفی بخش سدِ باب ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد ہی اصل بات کھلے گی کہ حقیقی اسٹیبلشمنٹ ‘’مثبت سوچ‘ رکھنے والی سرکردہ سیاسی جماعتوں کو اصل اختیار کے کیک میں سے کتنا شیئر اور کن شرائط پر بذریعہ عام انتخابات منتقل کرنے پر آمادہ ہیں۔
حکمران اتحاد پی ڈی ایم کی بڑی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن کا مسئلہ ہے کہ اس کی سیاست پنجاب سے جڑی ہوئی ہے، جس طرح پیپلز پارٹی کا سیاسی مستقبل سندھ کے محور پر کھڑا ہے اور جے یو آئی کی سیاسی بقا کا دار و مدار خیبر پختونخوا اور کسی حد تک بلوچستان پر ہے۔ جبکہ ایم کیو ایم کی دھڑے بندی کا وہی حال ہے، جو ایک زمانے میں مسلم لیگ کے درجن بھر دھڑوں کا ہوا کرتا تھا، یعنی جو زرّہ جس جگہ ہے، وہیں آفتاب ہے۔
باقی رہی قوم پرست جماعتیں تو ان میں سے جو جو بھی مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے آئینی راستے پر یقین رکھتی ہیں یا بوجوہ وفاقی طرزِ سیاست کو یکسر مسترد نہیں کرتیں، ایسی جماعتوں کو بھی ایک طے شدہ حصے سے زیادہ کچھ نہیں ملا اور نہ ہی مستقبل قریب میں کچھ خاص ملنے کا امکان ہے۔ چنانچہ ان میں سے اکثر رہنما طاقت کے اصل مرکز کی ہم رکابی کے عوض چند کلیوں پر قناعت کو غنیمت سمجھتے ہیں۔
گزشتہ دو دہائیوں میں ایک اور کمپنی بھی جمہوریت و انتخابی سیاست کی منڈی میں متعارف کروائی گئی ہے اور اس کمپنی کا نام ہے الیکٹ ایبلز۔ یعنی وہ شخصیات جو اپنے بل بوتے یا بل بوتے کی بیساکھی فراہم کرنے والوں کی مدد سے اپنا سودے باز تشخص برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا مصرف یہ ہے کہ جس سیاستدان کے بارے میں ’مالکانِ ریاست‘ کو لگے کہ اب اسے آزمانا چاہیے تو پلڑے میں اس شہزادے یا شہزادگان کا سیاسی و آئینی وزن پورا کرنے کے لیے چند الیکٹ ایبلز بطور باٹ ادھر سے ادھر ڈال کے وزن پورا کر لیا جاتا ہے۔ جب مالک اپنی پسند کے بندے سے بور یا نا امید ہونے لگتے ہیں تو پھر الیکٹ ایبل باٹ بھی ترازو سے اتار لیے جاتے ہیں اور کسی دوسرے پلڑے میں حسب ِ ضرورت ڈال دیے جاتے ہیں۔
یوں حالات، جمہوریت اور سیاسی میزانیہ مالکان کے قابو میں رہتے ہیں۔ اگر ان الیکٹ ایبلز میں سے کوئی کبھی کبھار آپے سے باہر ہونے لگے یا اسے اپنے شخصی سحر کے بارے میں کوئی غلط فہمی ہونے لگے تو پھر اس کا دماغی میٹر دیگر قابلِ بیان و ناقابلِ بیان طریقوں سے فکس کر دیا جاتا ہے۔
اور جب دیگر آئینی ادارے یہ ماحول دیکھتے ہیں تو وہ خود بھی ادھر ادھر کی فضا سونگھنے کے بعد اپنے آدرشوں میں خاموشی کے ساتھ حسبِ امید ترمیم و تغیر و تبدل کر لیتے ہیں۔ اس کا اندازہ ان کے سابقہ و موجودہ فیصلوں کے معیار سے بہت آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔ ایسے ماحول میں جرأت بھی اداکاری ہے اور بے ساختگی بھی ناپ تول کے شعوری نظام کی پیداوار ہے۔
چنانچہ اس تناظر میں مجھ جیسوں کو بہت عجیب سا لگتا ہے جب کوئی یہ اعتراض کرے کہ موجودہ پارلیمنٹ کو آخر آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ سمیت وہ تمام حساس بل بغیر کسی تعمیری بحث یا ہر بل کو اسٹینڈنگ کمیٹیوں کی آزمائش سے گزارے بغیر اتنی غیر معمولی عجلت میں منظور کرنے کی کیا ضرورت ہے اور وہ بھی ایک ایسے مرحلے پر، جب خود پارلیمنٹ کی آئینی مدت بھی ایک آدھ ہفتے میں ختم ہو جائے گی۔
آخر ایسی تمام قانون سازی، جس کے مثبت و منفی اثرات اس ملک یا اس کے عوام کو بھگتنے ہیں، ان کی منظوری یا نامنظوری کو پانچ برس کے لیے منتخب ہونے والی اگلی پارلیمنٹ کی صوابدید پر کیوں نہیں چھؤر دیا جاتا؟
ایسی کیا افتاد آ گئی کہ ’چارٹر آف ڈیموکریسی‘ پر دستخط کرنے والی تینوں بڑی جماعتیں اب ’بارٹر آف ڈیموکریسی‘ پر اتر آئی ہیں اور ایسے قوانین و ترامیم کا پھندہ بھی اپنے گلے میں ڈال رہی ہیں، جنہیں ماضی کی طرح مستقبل میں بھی ان کے خلاف یا انہیں کچلنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
بات یہ ہے کہ جب کسی بھی سیاسی و غیر سیاسی مسافر کا سامان اتنا بھاری ہو جاتا ہے کہ اس سے خود اٹھائے نہیں بنتا تو پھر لامحالہ کسی نہ کسی کا احسان اٹھانا پڑ جاتا ہے۔ اب احسان کرنے والا اس کے عوض بھلے جو قیمت بھی وصول کرے، اس پر ناک بھوں نہیں چڑھائی جا سکتی۔
حالانکہ یہی سیاستدان اگر مراعات و رسوخ و شہرت اور ایک دوسرے پر بالا دست رہنے کا اسباب راستے میں چھوڑ کے صرف بہت ہی ضروری بقائی سامان کے ساتھ سفر کریں تو کسی کا بھی احسان اٹھانے یا فیور لینے یا ہاتھ پکڑنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
مگر سچی بات تو یہ ہے کہ ان سب کو اپنی ’دو ٹکیاں دی نوکری‘ ملک و قوم کے ’لاکھوں کے ساون‘ سے کہیں زیادہ عزیز ہے۔ مٹھی بھر اختیار اور چند ماہ و سال کی عظمت کے عوض یہ ”کچھ بھی‘‘ کرنے پر آمادہ ہیں۔ اب یہ ”کچھ بھی‘‘ کروانے والوں کا ظرف ہے کہ وہ ان سے فرش پر پوچا لگواتے ہیں یا کچھ عرصے کے لیے میز کرسی والا بابو بنا دیتے ہیں۔
حضرت علی کا قول ہے ”لالچ مستقل غلامی ہے‘‘
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)