قصہ گو (برطانوی ادب سے منتخب افسانہ)

ایچ ایچ منرو ساکی (مترجم عقیلہ منصور جدون)

یہ ایک گرم سہ پہر تھی۔ریلوے ٹرین اسی حساب سے گرم تھی۔ اگلا اسٹاپ ٹیمپل کومب تقریباً ایک گھنٹے کی دوری پر تھا۔ مسافروں میں ایک چھوٹی لڑکی تھی، ایک اس سے بھی چھوٹی تھی اور ایک چھوٹا لڑکا تھا۔ بچوں کی خالہ ایک کارنر سیٹ پر براجمان تھی۔ اس کے بالمقابل دوسری کارنر سیٹ پر ایک اجنبی کنوارہ بیٹھا تھا، لیکن چھوٹی لڑکی اور لڑکے نے پورے ڈبے/ کمپارٹمنٹ پر قبضہ جما رکھا تھا۔

بچے اور خالہ سب مسلسل محو گفتگو تھے۔ انہیں دیکھ کر گھریلو مکھی یاد آتی تھی، جو کبھی ہارنے پر تیار نہیں ہوتی تھی۔ خالہ کے زیادہ تر فقرے ’نہ‘ سے اور بچوں کے فقرے ’کیوں‘ سے شروع ہوتے تھے۔ کنوارہ کچھ بھی اونچی آواز میں نہیں بول رہا تھا۔

”نہیں سرل نہیں“ جب چھوٹے لڑکے نے سیٹ کشن پر مکہ بازی شروع کی اور ہر مکے کے بعد گرد کا غبار اٹھنا شروع ہوا تو خالہ نے تنبیہ کی

خالہ نے لڑکے کو کھڑکی کے پاس آنے اور باہر دیکھنے کا مشورہ دیا۔ بچہ با دلِ ناخواستہ کھڑکی کے پاس پہنچا اور پوچھا، ”بھیڑوں کو میدان سے باہر کیوں نکالا جا رہا ہے؟“

”میرے خیال میں انہیں یہاں سے نکال کر دوسرے میدان میں اس لئے بھیجا جا رہا ہے کہ وہاں ان کے کھانے کے لئے زیادہ گھاس ہے۔“ خالہ نے جواب دیا

”لیکن اس میدان میں ابھی بہت ساری گھاس موجود ہے۔۔ ادھر گھاس ہی گھاس ہے اور تو کچھ بھی نہیں“ لڑکے نے احتجاج کیا

”شاید دوسرے میدان کی گھاس زیادہ اچھی ہے“ خالہ نے محتاط سا جواب دیا

”وہ کیوں زیادہ اچھی ہے؟“ تیزی سے سوال آیا

”اچھا، ان گائیوں کو دیکھو“ خالہ نے بچے کی توجہ بٹائی

ریلوے لائین کے ساتھ تقریباً ہر میدان میں گائیں اور بیل موجود تھے، لیکن خالہ نے گائیوں کا ذکر ایسے کیا، جیسے بڑی نایاب چیز ہو۔

”دوسرے میدان میں گھاس کیوں بہتر ہے“ لڑ کا اپنے سوال پر ڈٹا رہا۔

کنوارے کے چہرے کی تیوری مزید گہری اور خوفناک ہو گئی۔ وہ ایک سخت بے رحم سا مرد تھا، خالہ کے دماغ نے فیصلہ دیا۔ وہ بچے کو دوسرے میدان کی گھاس زیادہ بہتر ہونے کی کوئی اطمینان بخش وجہ بتانے سے قاصر تھی۔ ایسے میں چھوٹی لڑکی کی گنگناہٹ نے سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلی۔

’مینڈلے کے رستے پر۔۔۔‘ اسے صرف پہلی لائن یاد تھی، لیکن اس نے اسی کو خوب اچھی طرح استعمال کیا۔ اس نے اس ایک لائن کو بار بار خوابناک لہجے میں، لیکن سنائی دینے والی آواز میں دہرایا۔ کنوارے کو یوں محسوس ہوا، جیسے کسی نے لڑکی سے شرط باندھی ہو کہ وہ یہ لائن اونچی آواز میں بغیر رکے دو ہزار مرتبہ نہیں دہرا کر دکھائے۔ شرط لگانے والا جو کوئی تھا، اُس کا ہارنا یقینی تھا۔

کنوارے مرد نے دو بار خالہ اور ایک بار گاڑی رکوانے والی زنجیر کی طرف دیکھا تو خالہ نے بچوں کو مخاطب کیا، ”ادھر آؤ ،کہانی سنو“

بچے بے زاری سے خالہ کے پاس پہنچے، جس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ بچوں کے نزدیک وہ کوئی اچھی قصہ گو نہیں تھی۔

آہستہ پُر اعتماد آواز میں خالہ نے کہانی شروع کی۔ وقفے وقفے سے سامعین کی جانب سے بلند آواز میں تندوتیز سوالات کہانی میں مداخلت کرتے رہے۔ خالہ نے بد دلی اور ناپسندیدگی سے غیر دلچسپ کہانی جاری رکھی۔ کہانی ایک بچی سے متعلق تھی، جو بہت اچھی تھی۔ اپنی اچھائی کی وجہ سے بہت جلد ہر ایک کی دوست بن جاتی تھی۔ آخر کار اس کے اخلاق سے متاثر بہت سارے لوگ اسے ایک بیل کے حملے سے بروقت بچا لیتے ہیں۔

چھوٹی لڑکیوں میں سے بڑی والی نے پوچھا، ”اگر وہ اچھی نہ ہوتی تو کیا وہ اسے نہ بچاتے؟“

بلکل یہی سوال وہ غیر شادی شدہ مرد بھی پوچھنا چاہتا تھا۔

”کیوں نہیں۔۔۔۔۔۔۔ ضرور۔۔ لیکن میرے خیال میں اگر وہ اچھی نہ ہوتی تو کوئی بھی اتنی سرعت سے اس کی مدد کے لئے نہ بھاگتا۔“ خالہ نے غیر تسلی بخش سا جواب دیا۔

”میں نے آج تک جتنی کہانیاں سنی ہیں، یہ ان سب سے زیادہ بیوقوفانہ کہانی ہے۔“ چھوٹی لڑکیوں میں سے بڑی لڑکی نے با اعتماد لہجے کہا

”مجھے اتنی بے وقوفانہ لگی کہ میں نے تو تھوڑی سی سن کر بعد میں سنی ہی نہیں“ سرل بولا

سب سے چھوٹی لڑکی نے کہانی پر کوئی تبصرہ تو نہیں کیا، لیکن وہ بہت پہلے سے ہی اپنی پسندیدہ لائن دہرانا شروع ہو گئی تھی۔

”تم کوئی کامیاب قصہ گو معلوم نہیں ہوتی“ کنوارہ اچانک بول اٹھا۔

اس غیر متوقع حملے پر خالہ فوری دفاع کے لئے کھڑے ہو کر بولی، ”بچوں کو ایسی کہانی سنانا، جسے وہ سمجھ بھی لیں اور پسند بھی کریں انتہائی مشکل کام ہے۔۔“

”میں نہیں مانتا۔۔“ کنوارے نے جواب دیا۔

”شاید تم انہیں کہانی سنانا پسند کرو گے۔۔“ خالہ نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔

”ہمیں کہانی سناؤ“ چھوٹی سے بڑی لڑکی نے پُر زور مطالبہ کیا

”ایک دفعہ کا ذکر ہے“ اس نے کہانی شروع کی، ”ایک چھوٹی بچی تھی، جس کا نام برتھا تھا، جو غیر معمولی طور پر اچھی تھی۔۔“

بچوں کی دلچسپی ایک دم سے کم ہونے لگی۔ ساری کہانیاں ایک جیسی ہوتی ہیں، چاہے سنانے والا کوئی بھی ہو۔

”وہ سب کچھ کرتی، جو اسے کرنے کے لئے کہا جاتا۔۔ وہ ہمیشہ سچ بولتی، اپنے کپڑے صاف رکھتی، ملک پڈنگ اس طرح کھا لیتی جیسے جام یا ٹارٹ ہو۔ اپنے اسباق یاد رکھتی اور اپنے رویے میں نرم خو تھی۔۔“

”کیا وہ خوبصورت تھی؟“ چھوٹی سے بڑی لڑکی نے پوچھا

”نہیں، وہ تم سب جتنی خوبصورت تو نہیں تھی، لیکن وہ حد سے زیادہ اچھی تھی۔“ کنوارے نے وضاحت کی۔

کہانی کے لئے پسندیدگی کی فضا پیدا ہو گئی۔ ’حد سے زیادہ اچھی‘ بلکل انوکھی بات تھی، اسے سراہا گیا۔ اس نے خالہ کی نسبت بچوں کی زندگی سے متعلق کہانیوں میں صفائی کا عنصر پیش کیا۔

آدمی نے کہانی جاری رکھی، ”وہ اتنی اچھی تھی کہ اس نے اچھائی کے بہت سے تمغے جیت لئے تھے۔ جنہیں وہ اپنے لباس کے ساتھ ہمیشہ پہنے رکھتی۔ ان میں سے ایک تمغہ فرمانبرداری کا، دوسرا وقت کی پابندی کا اور تیسرا اچھے رویے کا تھا۔ یہ سب بڑے بڑے دھاتی تمغے تھے۔۔ اور جب وہ چلتی تو وہ آپس میں ٹکرا کر آواز پیدا کرتے۔ اس کے شہر میں کسی اور بچے نے تین تمغے حاصل نہیں کئے تھے۔سارا شہر جانتا تھا کہ وہ غیر معمولی طور پر اچھی بچی ہے“

”غیر معمولی طور پر اچھی“ سرل نے دہرایا

”ہر کوئی اس کی اچھائی بیان کرتا تھا۔ یہ بات ملک کے شہزادے تک پہنچ گئی۔ اس نے کہا، چونکہ وہ بہت اچھی ہے اس لئے اسے ہفتے میں ایک بار میرے پارک میں گھومنے پھرنے کی اجازت ملنی چاہیے۔ یہ باغ شہر سے باہر تھا۔ یہ بہت خوبصورت باغ تھا۔ بچوں کو اس میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ وہاں گھومنے پھرنے کی اجازت ملنا بہت بڑا اعزاز تھا“

سرل نے پوچھا، ”کیا وہاں بھیڑیں تھیں؟“

”نہیں“ کنوارے نے جواب دیا، ”وہاں بھیڑیں نہیں تھیں“

اس جواب پر لازماً پوچھا جانے والا سوال تھا، ”وہاں بھڑیں کیوں نہیں تھیں؟“

خالہ زیر لب مسکرائی، یہ کوئی خوش گوارمسکراہٹ نہیں تھی۔

”وہاں بھیڑیں نہیں تھیں کیوں کہ شہزادے کی والدہ نے خواب دیکھا تھا کہ اس کے بیٹے کو یا تو کوئی بھیڑ مار دے گی یا پھر چوغہ اس پر گرے گا اور وہ مر جائے گا۔ اس وجہ سے شہزادے نے کبھی بھی اپنے باغ میں بھیڑ نہیں رکھی اور نہ ہی اپنے محل میں چوغہ رکھا“

خالہ نے تعریفی سانس روکا۔سرل نے پوچھا، ”کیا شہزادے کو بھیڑ یا چغے نے مار دیا؟“

”شہزادہ ابھی زندہ ہے، اس لئے ہم کچھ کہ نہیں سکتے کہ خواب کی تعبیر کیا ہوگی“ کنوارے نے لا تعلقی سے جواب دیا۔۔۔ ”بہرحال پارک میں کوئی بھیڑ نہیں تھی، لیکن بہت سارے چھوٹے سؤر تھے، جو جگہ جگہ بھاگتے پھرتے تھے۔“

”ان کا رنگ کیسا تھا؟“

“سفید منہ والے کالے اور کالے دھبوں والے سفید، مکمل کالے، سفید دھبوں والے سرمئی اور بعض مکمل سفید تھے۔“ قصہ گو نے توقف کیا تاکہ پارک کا مکمل خاکہ بچوں کے ذہن جذب کر لیں۔ پھر اس نے کہنا شروع کیا، ”برتھا کو جب علم ہوا کہ باغ میں پھول نہیں ہیں تو اسے بڑا افسوس ہوا۔برتھا نے اپنی خالاؤں سے روتے ہوے وعدہ کیا تھا کہ وہ باغ کے پھول نہیں توڑے گی۔ اس کا وعدہ نبھانے کا پورا پروگرام تھا۔ اس لئے اسے باغ میں پھولوں کا نہ ہونا بہت بیوقوفانہ بات لگی۔“

”باغ میں پھول کیوں نہیں تھے؟“

”اس لئے کہ باغ کے سارے پھول سؤر کھا گئے تھے۔ آدمی نے فوراً وضاحت کی، ”باغبانوں نے شہزادے کو بتا دیا تھا کہ وہ پھول اور سؤر اکٹھے نہیں رکھ سکتا۔ چنانچہ شہزادے نے سؤر رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ شہزادے کے اس اعلیٰ فیصلے کو بہت سے لوگوں نے سراہا۔ بہت سے لوگ اس سے مختلف فیصلہ بھی کر سکتے تھے۔پارک میں اور بھی بہت سی اچھی چیزیں موجود تھیں۔تالاب تھے، جن میں سنہری، نیلی اور سبز مچھلیاں تھیں۔ درخت تھے، جن پر خوبصورت طوطے تھے، جو دن بھر دانائی کی باتیں سناتے تھے۔ شکر خورے (دنیا کا سب سے چھوٹا پرندہ) تھے، جو ہر دلعزیز دُھنیں گنگناتے رہتے تھے۔ برتھا اوپر نیچے ہر جگہ گھومتی رہی۔۔ اور خوب لطف اندوز ہوئی۔ اس نے سوچا اگر میں غیر معمولی طور پر اچھی نہ ہوتی تو مجھے اس خوبصورت پارک میں داخل ہونے کی اجازت نہ ملتی اور نہ یہاں کی تمام خوبصورتی سے لطف اندوز ہوتی۔ جب وہ ایسا سوچتے ہوئے چل رہی تھی تو اس کے تینوں تمغے آپس میں ٹکرا کر جھنکار پیدا کر رہے تھے۔ عین اسی وقت پارک میں ایک بھیڑیا مٹر گشت کرتا یہ دیکھنے آ گیا کہ آیا وہ ایک موٹا تازہ چھوٹا سؤر اپنے رات کے کھانے کے لئے پکڑ سکتا ہے؟“

”اس کا رنگ کیسا تھا؟“ بچوں نے فوراً دلچسپی لیتے ہوۓپوچھا۔

”مٹیالا رنگ اور کالی زبان، سرمئی آنکھیں جو غیض و غضب سے چمک رہی تھیں۔۔ پارک میں سب سے پہلے اسے برتھا دکھائی دی۔ اس نے بے داغ چمکدار سفید لباس پہن رکھا تھا جو دور سے دکھائی دیتا تھا۔ برتھا نے بھیڑیے کو دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ وہ چپکے چپکے اسی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس وقت اس نے خواہش کی کہ کاش اسے کبھی پارک میں آنے کی اجازت نہ ملی ہوتی۔ وہ جتنا تیز دوڑ سکتی تھی، دوڑی اور بھیڑیا بھی چھلانگیں لگاتا اس کے پیچھے آیا۔ وہ بھاگ کر مہندی کی جھاڑیوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔۔ اور سب سے گھنی جھاڑی کے پیچھے چھپ گئی۔ بھیڑیا جھاڑیوں کو سونگھتا ہوا آیا۔ اس کی کالی زبان منہ سے باہر لٹک رہی تھی۔ ہلکی سرمئی آنکھیں غصے سے چمک رہی تھیں۔ برتھا بہت زیادہ ڈر گئی تھی۔ اس نے سوچا اگر وہ غیر معمولی طور پر نیک نہ ہوتی تو وہ اس وقت بہ حفاظت اپنے گھر ہوتی۔ تاہم مہندی کی جھاڑیوں کی خوشبو اتنی تیز تھی کہ بھیڑیا برتھا کی پوشیدہ جگہ کا پتہ نہیں چلا پا رہا تھا۔۔ اور جھاڑیاں اتنی گھنی تھیں کہ بھیڑیے کو برتھا کو ڈھونڈنے میں بہت زیادہ تگ و دو کی ضرورت تھی، اس لئے بھیڑیا نے سوچا کہ اسے جا کر کسی چھوٹے سؤر کو آسانی سے پکڑ لینا چاہیے۔ بھیڑیا سونگھتا ہوا برتھا کے بہت قریب پہنچ چکا تھا۔ وہ ڈر اور خوف سے کانپ رہی تھی، اس کے کانپنے سے اس کا ’فرمانبرداری کا تمغہ‘ اس کے ’اچھے رویے کے تمغے‘ اور ’پابندیِ وقت کے تمغے‘ سے ٹکرایا۔ بھیڑیا اس وقت وہاں سے جانے لگا تھا جب اسے تمغوں کے ٹکرانے کی آواز سنائی دی، وہ وہیں رک گیا۔۔ اس کے قریب کی جھاڑی سے تمغوں کے ٹکرانے کی دوبارہ آواز آئی، اس نے اس جھاڑی پر چھلانگ لگا دی۔ اس کی آنکھیں غصے اور فتح کے احساس سے چمک رہی تھیں۔ اس نے برتھا کو گھسیٹ کر باہر نکالا اور چیڑ پھاڑ ڈالا۔ صرف اس کے جوتے، کپڑوں کے کچھ حصے اور اچھائیوں کے تین تمغے پیچھے رہ گئے۔“

”کیا چھوٹے سؤروں میں سے کوئی مارا گیا؟“

”نہیں، وہ سب بچ گئے۔“

”کہانی کی ابتدا اچھی نہیں تھی، لیکن اختتام اچھا تھا“ چھوٹی لڑکیوں میں سے چوٹی نے کہا

”یہ ان تمام کہانیوں میں سے، جو میں نے سنیں، سب سے خوبصورت کہانی تھی۔“ چھوٹی لڑکیوں میں سے بڑی نے کہا

خالہ نے ان آراء سے اختلاف کیا، ”چھوٹے بچوں کو سنانے کے لیے انتہائی نا مناسب کہانی تھی۔ تم نے سال ہا سال سے بچوں کی سکھلائی پر کی گئی محنت برباد کر دی۔

کنوارے نے ٹرین سے اترنے کے لئے اپنا سامان اٹھاتے ہے کہا، ”بہرحال میں نے انہیں پورے دس منٹ خاموش بٹھائے رکھا، جو تم کبھی نہیں کر سکتی تھی۔“

’ناخوش خاتون‘ ٹیمپلکومب اسٹیشن پر اترتے ہوئے اس نے اپنے آپ سے کہا، ’اگلے چھ ماہ تک یہ بچے اس سے پبلک میں نامناسب کہانی سنانے کے لئے دباؤ ڈالتے رہیں گے۔‘

Original Title: The Story Teller

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close