جب ایک تینتالیس سالہ خاتون نے اخبار میں خود کو گود لیے جانے کا اشتہار دیا۔۔

ویب ڈیسک

عام طور پر کہا جاتا ہے کہ آپ اپنے دوستوں کا انتخاب کر سکتے ہیں لیکن آپ اپنے خاندان کا انتخاب نہیں کر سکتے، لیکن جینا میک فارلین کی کہانی اس بات کو غلط ثابت کرتی ہے

یہ جنوری 2005ع کی بات ہے، جب ایک اتوار کی صبح نارتھ کیرولائنا کے اخبار ’دا شارلٹ آبزرور‘ کے قارئین نے گھریلو استعمال کے آلات بنانے والی کمپنی ڈائسن کی مختلف اپ ڈیٹس اور صوفوں کے اشتہارات دیکھنے کے لیے اخبار کا اشتہارات والا حصہ کھولا

لیکن وہاں انہیں دوسرے اشتہارات کی بجائے تینتالیس سالہ خاتون جینا میک فارلین کی طرف سے دیا گیا ایک ایسا اشتہار دکھائی دیا، جس نے انہیں حیرت زدہ کر دیا

اس اشتہار میں لکھا تھا ”صحتمند، اپنے پیروں پر کھڑی، خاندان کے ساتھ محبت کرنے والی خاتون، جن کا خاندان نہیں ہے، بڑی عمر کے والدین کی طرف سے گود لیے جانے کی خواہاں ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ خاندان کی ذمہ داری لیں اور وہ ان کی“

میک فارلین لاس اینجلس میں اپنی والدہ، والد اور دو چھوٹے بھائیوں کے ساتھ پلی بڑھیں۔ حالات اس وقت خراب ہونے لگے، جب وہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے لگیں۔ ان کے والدین نے خود کو اپنے خاندانوں سے الگ کر لیا اور میک فارلین اور ان کے بھائیوں کو بھی ایسا ہی کرنے کی ہدایت کی

لیکن میک فارلین نے اپنی دادی کے ساتھ رابطہ برقرار رکھا، جس سے مزید اختلاف کو پیدا ہوئے اور تینتیس سال کی عمر میں اور طویل خاندانی جدوجہد کے بعد انہوں نے اور ان کے پیدائشی والدین نے آپس میں تعلق توڑ لیا

اب شمالی کیرولائنا میں واقع گھر میں مقیم اکسٹھ سالہ میک فارلین کہتی ہیں ”میں دل سے جانتی تھی کہ وہ (والدین) مجھے قبول نہیں کریں گے۔۔ خاص طور پر میری ماں۔ کوئی امید باقی نہیں بچی تھی۔ وہ ایک باصلاحیت فنکارہ اور شاندار مصنفہ تھیں، لیکن وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کے بچے ان کے ساتھ رہیں۔ مجھے اس بات کا علم تھا“

اپنے والدین سے علیحدگی سے پہلے اور بعد میں میک فارلین کو افسردگی اور تعلق کے احساس کی تڑپ کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں خود کو ان باتوں کی عادی بنانا پڑا، جنہیں تبدیل کرنا ان کے بس میں نہیں تھا

اگرچہ فارلین کے دوست تھے لیکن وہ اس کی زندگی میں موجود خلا کو پر کرنے سے قاصر تھے۔ فارلین بتاتی ہیں ”میں چاہتی تھی کہ میرا کوئی خاندان ہو جہاں ہر کوئی اتفاق نہ کرتا ہو اور ہر کوئی ہر کسی کو نہ سمجھے۔ میں کسی ایسے ماحول کا حصہ بننا چاہتی تھی، جو کبھی ختم نہ ہو“

یہی آرزو تھی، جس کی وجہ سے انہوں نے اخبار میں خود کو گود لیے جانے کی غیر معمولی درخواست پر مبنی اشتہار دیا۔۔

فارلین کو توقع تھی کی کوئی اس اشتہار کا جواب نہیں دے گا، لیکن کچھ ہی دنوں میں انہیں بے تحاشہ جوابات موصول ہوئے، جو جوڑوں، سنگل والدین اور جیل میں بند قیدیوں کی طرف سے بھیجے گئے تھے

میک فارلین کہتی ہیں ”میرا خیال ہے کہ کہانی میں ان لوگوں کی گونج سنائی دی۔ درحقیقت ہر طرح کا نسلی پسِ منظر رکھنے والے لوگوں نے جواب دیا“

میک فارلین کی کہانی نے ’ایڈوپٹنگ اوڈری‘ نامی فلم کو بنیاد فراہم کی ہے۔ اس فلم میں جینا میلون ’اوڈری‘ کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ یہ خود میک فارلین کا فرضی کردار ہے۔ اس فلم کے ہدایت کار ایم کیہل ہیں، جو اس سے قبل 2007ع میں ’کنگ آف کیلیفورنیا‘ نامی فلم میں خاندانی پیچیدگیوں کو پیش کر چکے ہیں

فلم میں مائیکل ڈگلس نے مرکزی کردار ادا کیا۔ یہ فلم آہستہ آہستہ آگے بڑھتی ہے اور اس کا ماحول خواب جیسا ہے۔ یہ فلم بڑے بڑے واقعات دکھانے کی بجائے انسانی زندگی کے چھوٹے چھوٹے پہلوؤں کو سامنے لاتی ہے

میک فارلین کی طرح اوڈری کی داستان تیزی سے سوچنے اور پرسکون انداز میں برداشت کی داستانوں میں سے ایک ہے۔ کیا میں کرایہ نہیں دے سکتی؟ میں وین میں رہوں گی؟ کیا میرے گھر والے مجھے نہیں چاہتے؟ میں ایک نیا خاندان تلاش کروں گی۔۔

جیسا کہ فلم میں ڈرامائی انداز میں دکھایا گیا ہے، میک فارلین کے اخبار میں دیے گئے اشتہار کا جواب ایک خاتون نے دیا، جنہوں نے ان کی زندگی بدل دی۔ میک فارلین کے پاس آج بھی خط موجود ہے

یہ خط کیرن کیسلر نامی خاتون نے لکھا تھا۔ وہ بینیفٹس کوآرڈی نیٹر تھیں جن کی شادی اسٹیو نامی ایک ریٹائر آدمی کے ساتھ ہوئی تھی۔ دونوں میاں بیوی برسوں پہلے اپنے اپنے شریک حیات کو کھو چکے تھے اور اب ایک ملے جلے خاندان کی تشکیل میں مصروف تھے۔ ان کے اپنے بچے ایک دوسرے سے مل چکے تھے اور اب انہیں کسی کو گود لینے کی خواہش تھی

اس خط میں لکھا تھا ”میں واقعی آپ کی خواہش سے متاثر ہوں کہ آپ ایک محبت کرنے والے خاندان میں شامل ہونا چاہتی ہیں۔ مجھے یہ بالکل عجیب نہیں لگتا۔ ایک خوش اور اچھی طرح آباد خاندان کی گرم جوشی سے بہتر کوئی چیز نہیں“

اب بھی خط کو پڑھتے ہوئے میک فارلین کی آواز رندھ جاتی ہے

وہ کہتی ہیں ”یہ جذبات سے بہت لبریز اور محبت بھرا ہے۔ وہ بڑی فراخ دل ہیں اور انہوں نے فوری طور پر میرے ساتھ ماں جیسا شفیق لہجہ اختیار کر لیا۔ یہ ٹھیک اجنبیوں کی شفقت جیسا ہے“

خط ملتے ہی میک فارلین نے کیسلر اور ان کے خاوند سے رات کے کھانے پر ملاقات کی اور ان کی طرف سے فارلین کو گود لینے کا باقاعدہ اعلان نہ کرنے کے باوجود (امریکہ میں بالغ افراد کو گود لینا قانونی ہے) انہوں نے ایک دوسرے کو باقاعدگی سے ملنا شروع کر دیا۔ آج تقریباً بیس سال بعد بھی وہ بتاتی ہیں کہ ان کے ساتھ ان کا تعلق مضبوط ہے

ان کا کہنا ہے ”یہ ایسے لوگ ہیں، جن پر میں بہت بھروسہ کرتی ہوں اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں ان سے کچھ بھی کہہ سکتی ہوں۔۔ میری زندگی میں ایسے مواقع آتے ہیں، جب مجھے یقین نہیں ہوتا کہ مسئلے کا حل کیا ہو سکتا ہے لیکن وہ بات کرنے کے لیے بہترین لوگ ہیں۔ زیادہ تر اس لیے کہ ان کی سوچ مجھ سے مختلف ہے۔ وہ بدستور ایک ترغیب ہیں۔ وہ میری پرورش کرنے والے خاندان سے بہت مختلف ہیں اور سال بہ سال وہ اس حقیقت کو استحکام دیتے ہیں کہ میں ایک شخصیت کے طور پر کون ہوں“

یوں فارلین کی زندگی کی یہ حقیقی کہانی اس جانی پہچانی حقیقت کو غلط ثابت کرتی ہے کہ ہم اپنے دوستوں کا انتخاب کر سکتے ہیں لیکن آپ اپنے خاندان کا انتخاب نہیں کر سکتے

یہ کہانی جدید زندگی کے قلب میں موجود ایک تضاد کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔ لوگ اپنی دوستی، رومانوی رشتوں اور ملازمت میں مسائل کو سلجھانے کے لیے ایپس اور ویب سائٹس کا استعمال کرنے میں آزاد ہیں لیکن نئے والدین کے ساتھ ’مطابقت‘ پیدا کرنے کے بارے میں اب بھی عملی طور پر کچھ نہیں سنا گیا

قبل ازیں میک فارلین بالغ افراد کو گود لینے کی بڑی حامی رہی ہیں۔ وہ کبھی ایک ویب سائٹ چلایا کرتی تھیں، جس کا مقصد تنہائی کے شکار افراد کو ایسے والدین کے ساتھ ملوانا تھا، جو انہیں گود لینا چاہتے ہوں

وہ آج تسلیم کرتی ہیں کہ ہمیشہ کوئی جادوئی چھڑی نہیں ملتی۔ ان کا کہنا ہے ”میں تو کہوں گی کہ بہت سے لوگ ایک دن (اپنے والدین) کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے کے قابل ہوتے ہیں“

”یہ بڑی تکلیف دہ بات ہے کہ آگے جانے والے پل کو اس وقت توڑ دیا جائے جب کچھ امید موجود ہو“

وہ مزید کہتی ہیں ”بالغ افراد کو گود لینے کا عمل بہت گہرا اور پیچیدہ بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بار جب اسے میڈیا نے اٹھایا تو وہ اپنے تجربے کے بارے میں بات کرنے سے گریزاں ہو گئیں“

میک فارلین 2006ع میں ’گلیمر میگزین‘ اور پھر 2007ع میں ’گڈ مارننگ امریکہ‘ کو ایک اور انٹرویو پر راضی ہو گئیں۔ تاہم جو کچھ اس کے بعد ہوا، لگتا ہے کہ اس کی ضرورت نہیں تھی۔ یہاں تک کہ انہوں نے اوپرا ونفری کے ٹاک شو میں بات کرنے کی درخواست کو ٹھکرا دیا (جس کا اب انہیں ’واقعی پچھتاوا ‘ ہے)۔ وہ بتاتی ہیں کہ وہ اور کیسلر اس وقت ’بہت زیادہ کھل کر‘ سامنے آ گئے تھے

وہ کہتی ہیں ”ہمارے پاس واقعی اچھا تعلق استوار کرنے کے لیے درکار وقت نہیں تھا۔۔ یہ تو ہونا ہی تھا۔ میرے ذہن میں اس لمحے کے بارے میں بات کرنے کے لیے زیادہ کچھ نہیں تھا، سوائے اس کے کہ وہ شاندار لوگ ہیں اور ان کے ساتھ ملنا میری خوش قسمتی تھی۔ لیکن میرے پاس ان کے پاس رہ کر یہ سمجھنے کا وقت نہیں تھا کہ انسان کی حیثیت سے کیسے ترقی کی جائے“

یہی وجہ ہے کہ ’ایڈوپٹنگ اوڈری‘ نامی فلم کی تیاری میں اتنا وقت لگا۔ بہت سے فلم سازوں نے کوشش کی کہ میک فارلین سے ان کی زندگی کی کہانی کے حقوق پر دستخط کروا لیں، لیکن یہ صرف کیہل ہی تھے، جنہوں نے فارلین کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے کئی سال محنت کی

وہ بتاتی ہیں ”اعتماد یقیناً ان عوامل میں سے ایک تھا، جس کی میرے لیے کمی تھی۔ کسی دوسرے شخص پر اعتماد کرنا ایسا تھا کہ گویا میں پاتال میں جھانک رہی ہوں۔‘ کیہل کے ساتھ تعلق کے استوار ہونے کے سات سال کے دوران میک فارلین نے سیکھا کہ کس طرح دوسرے لوگوں پر اعتماد کیا جاتا ہے

انہوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ”جب میں ’ایڈوپٹنگ اوڈری‘ کی اوڈری کی ثابت قدمی کو میک فارلین کی استقامت کے ساتھ تشبیہہ دیتی ہوں تو مجھے علم نہیں کہ آیا میں بہادر ہوں لیکن مجھے یہ بہت اچھا لگتا ہے کہ آپ نے اسے رومانوی رنگ دے دیا ہے“

تاہم وہ یہ ضرور مانتی ہیں کہ کیہل کی فہم میں ان لوگوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے، جس کی انہیں ضرورت ہے۔ ”بعض اوقات اگر لوگ خود کو کم تنہا محسوس کر رہے ہوں اور انہیں ایسا لگے کہ کوئی انہیں سمجھتا ہے تو اس صورت میں صحتیاب ہونے میں بہت وقت لگتا ہے“

میک فارلین کا کہنا ہے کہ بالغ لوگوں کو گود لینے سے انہیں ’اپنی زندگی پر دوبارہ توجہ مرکوز کرنے کی قوت‘ ملی۔ وہ اپنے آپ سے کئی بیانیہ سوالات پوچھتی ہے۔ ’میرے مقاصد کیا ہیں؟ میرے خواب کیا ہیں؟ وہ کون سے معمولات ہیں، جن میں خلل پڑا، جب میرے ذہن پر سوار ہو گیا کہ میں کیا نہیں بدل سکتی؟‘

وہ ایک لمحے کے لیے رکتی ہیں اور اپنے سرخی مائل بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتی ہیں ”میرا خیال ہے کہ کسی ایسے شخص کے لیے، جس نے محسوس کیا کہ وہ کھلے سمندر میں تیرتا پھرتا ہے، میں آخر کار ایک جزیرے پر پہنچ چکی ہوں۔‘

نوٹ: اس فیچر کی تیاری میں انڈپینڈنٹ میں شائع ڈوروتھی ہرسن کی اسٹوری سے مدد لی گئی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close