سندھو گھاٹی اور اساطیری ادب! (پہلی قسط)

ابوبکر شیخ

یہ دسمبر 1985ء کے آخری ہفتے کی ٹھنڈی رات کے ابتدائی پہر کا ذکر ہے۔ سندھ کے ساحلی گاؤں کے مغرب میں بنی سومرا دور کی درگاہ قرھیو بھنڈاری کے سالانہ میلے کے شب و روز میں، درگاہ کے شمال میں گھاس پھوس سے بنی اُس کے معتقدین کی تین دیواروں والی کئی جھونپڑیاں ہیں جو بنائیں بھی اس کے معتقدین نے ہیں جو 6 روزہ میلے میں شرکت کے لیے شہروں سے یہاں آئے ہیں۔ ان 6 روز میں انہیں ان جھونپڑیوں میں کھانا پکانا اور کھانا ہے، اور دسمبر کی ٹھنڈی راتیں بھی گزارنی ہیں۔

دوسری رات کا کھانا ہوچکا ہے۔ جھونپڑیوں میں ٹھنڈ کی وجہ سے الاؤ جلتے ہیں اور یہ منظر اگر تھوڑا دُور سے دیکھا جائے تو انتہائی شان دار لگتا ہے۔ رات کے کھانے کے بعد بچے، عورتیں اور مرد سمیت تقریباً تمام جھونپڑیوں کے لوگ ایک بڑی جھونپڑی میں اکٹھے ہوئے ہیں۔

جلتے الاؤ میں اُن کے چہروں پر روشنی جلتی بجھتی محسوس ہوتی ہے مگر سب کی آنکھیں جمعوں فقیر پر جمی ہوئی ہیں جو اپنے ایک تار والے تنبورے کی تار کو کھینچ کھانچ کر سُر میں لانے کی کوشش کررہا ہے۔ اس کے نزدیک اُس کا ساتھی مِٹھو فقیر بیٹھا ہے جس کے دائیں ہاتھ کی پہلی اُنگلی کے پہلے پُور میں چاندی کا چھلا ہے اور وہ اپنی گود میں رکھی ہوئی مٹکی کو ایک بہتر جگہ پر جمانے کی کوشش کررہا ہے تاکہ جب ’دودو چنیسر‘ کی جنگی داستان کی شروعات ہو تو وہ بھی جمعہ فقیر کے ساتھ مٹکی کو بجا کر اُس کا ساتھ دے سکے۔ مٹکی سے دو آواز نکالنے میں اسے مہارت حاصل ہے۔ ایک آواز وہ تب نکالتا ہے جب چھلے والی اُنگلی مٹکی کی اوپری سطح پر لگتی ہے جبکہ دوسری آواز وہ مٹکی کے منہ پر اپنے دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی جما کر پیدا کرتا ہے۔

خدا آبادی خط میں جنگی داستان دودو چنیسر کی داستان کا سرورق

آج دوسری رات ہے اور دودو چنیسر کے قدیم رزمیہ داستان کی ابھی ابتدا ہوئی ہے۔ چنیسر کو پگ (سر پر بندھی پگڑی اور سندھی میں پٹکہ جو حاکم اور معزز ہونے کی علامت ہے) اس لیے نہیں ملی کیونکہ وہ اس کے متعلق اپنی ماں سے صلاح لینے گیا تھا کہ آیا وہ پگ باندھے یا نہیں۔ اسے ماں سے پوچھنے کی سزا یہ ملی کہ اسے تخت نہیں ملا اور سب نے مل کر دودو کو بادشاہ بنادیا جس کی وجہ سے چنیسر ناراض ہوگیا اور اس طرح دونوں بھائیوں میں دشمنی نے جڑ پکڑ لی۔

اب آج دوسری رات یہ کتھا آگے اپنا سفر شروع کرے گی جو اندازاً 5 راتوں میں ختم ہوگی۔ اس بیچ میں کہانی سنانے والا جب محسوس کرے گا کہ لوگ تھوڑا اُکتانے لگے ہیں تو اُس میں مزاحیہ یا حیرت میں مبتلا کردینے والی دیگر مختصر سی کہانیاں شامل کرتا جائے گا۔ وہ اس الاؤ کے گرد بیٹھے ہوئے تمام عمر کے لوگوں کی دلچسپیوں کا خیال رکھتا جائے گا اور جب رات ڈھلنے لگے گی تو وہ کتھا کو ایسے موڑ پر چھوڑے گا کہ لوگ اگلی رات کا انتظار کرنے لگیں گے۔

جُمعہ فقیر اور مِٹھو جتنے دن اس میلے میں رہیں گے، اُن کو ایک عزت و تکریم دی جائے گی۔ اُن کے لیے کوئی پردہ نہیں وہ جس جھونپڑی میں چاہیں جا سکتے ہیں بلکہ ناشتہ، دوپہر اور رات کے کھانوں کے لیے اُن کو مسلسل دعوتیں ملتی رہیں گی کہ آج دوپہر کی روٹی ہمارے ہاں کھائیے گا اور رات کی ہمارے ہاں۔ یہ محبت اور عزت داستان سنانے والوں کو اس لیے دی جاتی ہے کیوں کہ وہ اپنے قدیمی اور قومی اثاثوں کو سنبھالے ہوئے ہیں اور ایک مخصوص لے سے اُن قصے کہانیوں کو نسل در نسل لوگوں تک پہنچانے کا یہ محترم کام سرانجام دے رہے ہیں۔

ان قصوں کی یہ انتہائی شان دار اور ترقی یافتہ شکل ہے لیکن اگر ہم کچھ دیر کے لیے اُن شب و روز میں چلے چلیں جہاں ان کی داغ بیل پڑی تو ہمیں بہت حیرانی ہوگی کہ آخر یہ کہانیاں اور قصے اتنا طویل سفر کرکے یہاں تک کیسے پہنچے ہیں؟ ان کی قدامت کی جڑیں تو انسانی ارتقا سے جُڑی ہوئی ہیں۔ یہ قدیم ارتقا کی وہ کہانیاں ہیں جو تقریباً ہر ملک میں تخلیق ہوئیں۔

قدیم میکسیکو میں ہر زرعی کام کے آغاز سے پہلے افزائش کی دیوی کی رسمیں منائی جاتی تھیں اور یہ رسمیں آپ کو افریقہ اور ہندوستان میں بھی ملیں گی۔ لوک کہانیوں، لوک رقص اور لوک گیتوں کا تعلق ہر ملک میں زراعت ہی کی کسی نہ کسی رسم سے جُڑا ہے۔ ان زندہ رہنے والے قصے کہانیوں کے لیے ہمیں اُن کے ارتقائی سفر کو یعنی ان کی جڑوں کو تھوڑا دھیان اور گہرائی سے سمجھنا ہوگا کیوں کہ یہ اس دھرتی پر بسنے والے اور ارتقائی سفر کرنے والے ہمارے آباؤ اجداد کا قیمتی سرمایہ ہے۔

وادی دجلہ و فرات، وادی سندھ، مصر، اناطولیہ، یونان، شام و فلسطین اور ایران کی پرانی قومیں بھی تخلیق کی قائل تھیں، ان کے سامنے تخلیق ایک مسلسل عمل تھا۔ یہ عمل ہر برس موسمِ بہار میں شروع ہوتا تھا اور موسم سرما کے آغاز پر ختم ہوجاتا تھا۔ تب کائنات پر تخریب اور موت کی طاقتیں غالب آجاتی تھیں۔ وہ دیکھتے تھے کہ سبزہ، پھل پھُول اور اناج کے پودے موسم بہار کی آمد پر نمودار ہوتے ہیں۔ گویا تخلیق اور تخریب کی طاقتوں میں مسلسل پیکار رہتی ہے۔

قدیم انسان نے تخلیق کی طاقتوں کو خیر سے تعبیر کیا اور تخریب کی طاقتوں کو شر سے۔ چنانچہ جب بہار آتی، زندگی موت کی گرفت سے آزاد ہوتی تھی تو لوگ خوش ہوتے، ناچتے، گیت گاتے اور خوشی کے تہوار مناتے۔ ان کے تمام رسم و رواج اور جادو منتر تخلیق کی اسی بنیادی تصور کے گرد گھومتے تھے۔

سماجی رسموں کے دو عناصر ہوتے ہیں خواہ یہ رسمیں افزائشی ہوں، مذہبی یا شادی بیاہ کی۔ ایک عنصر چند مخصوص حرکات و اعمال پر جبکہ دوسرا الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے۔ حرکات و اعمال کے عنصر کو اہلِ یونان Dromenon یعنیٰ ڈراما کہتے تھے اور ان حرکات کے دوران میں جو الفاظ بولے، پڑھے یا گائے جاتے تھے وہ انہیں Muthos یعنی متھ یا افسوں کہتے تھے۔

تخلیق کائنات کی داستانیں ہر قدیم قوم میں رائج تھیں، قدیم انسان اتنا شعور رکھنے والا نہیں تھا کہ تخلیق کائنات کے باریک نکات پر غور و فکر کرتا اس لیے ان داستانوں میں فلسفیانہ باریکیوں کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ یہ داستانیں ذوق یا جُستجو کی تسکین کے لیے نہیں تھیں بلکہ یہ افزائش نسل کا جُز تھیں جو نوروز اور دوسرے تہواروں کے موقع پر ناٹک، کھیل، بھجن اور گیتوں کی صورتوں میں گائی جاتی تھیں اور جب تک یہ میلے ہوتے رہے، تخلیق کی داستان یونہی ڈرامے کا جز بنی رہیں۔

ڈراما دیکھنے والے بھجن سننے والے اس داستان کو جشن نوروز کا ایک حصہ سمجھتے رہے۔ جب یہ ڈرامائی رَسمیں ختم ہو گئیں، داستانوں کی اصل نوعیت بھی پوشیدہ ہوگئی تب صدیوں بعد دانشوروں نے انہیں رسوم سے الگ کرکے فقط ادبی تخلیق کے طور پر پڑھا جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔

سبط حسن لکھتے ہیں کہ ’قدیم قوموں کی زندگی میں تاریخی دور سے پہلے ایک نیم اساطیری اور نیم تاریخی دور ضرور آتا ہے جس میں دیوی دیوتاؤں کی ثنا خوانی کے پہلو بہ پہلو، انسانی عظمتوں کے گیت بھی گائے جاتے ہیں اور انسان کی ہوشیاری، بہادری اور تیز فہمی کی داستانیں بھی تصنیف ہونے لگتی ہیں۔ یہ ’سورماؤں‘ کا دور کہلاتا ہے۔ وادی دجلہ و فرات کی تاریخ بھی اس دور سے گزر چکی ہے چنانچہ وہاں کے باشندوں نے بھی اپنے ہیروز کو ہر قسم کی صفات سے سنوارا، البتہ مصر، ہندوستان اور رومتہ الکبریٰ کے ہیروز کو دیوتا کا درجہ کبھی نہیں دیا اور نہ اوتار مان کر ان کی پرستش کی گئی۔ ان کا سب سے بڑا ہیرو ’گِل گامِش‘ بھی فقط دو تہائی دیوتا ہی بن سکا اور آخر میں اُسے بھی موت کا جام پینا پڑا کیونکہ ابدی زندگی تو فقط دیوتاؤں کی قسمت میں لکھی ہے۔ انسان کے تخیل نے حقیقت اور مجاز کے امتزاج سے بڑے بڑے فنی شاہ کار تخلیق کیے ہیں۔ جن کو اہلِ ذوق اب تک لُطف لے کر پڑھتے ہیں۔ بلکہ ہر زبان میں اس امتزاج کے نمونے ملیں گے‘۔

میں آپ کو دنیا کے قدیم اساطیری ادب کی زمین پر لے چلتا ہوں جس کے متعلق نوح ہراری لکھتے ہیں کہ ’چھٹی اور پانچویں صدی قبلِ مسیح میں ہلالی شکل کے زرخیز علاقے میں جسے انسانیت کا پنگوڑا کہا گیا (مصر سے عراق تک) لاکھوں افراد پر مشتمل آبادیاں دیہات کی صورت میں پھیل گئیں۔ تقریباً 3 ہزار قبل مسیح میں، 3 نیم اساطیری اور نیم تاریخی داستانیں ہمیں ملتی ہیں جن کے تینوں سورما ’ان مے گر‘، ’لُوگل باندہ‘اور ’گِل گامِش‘ سومیر سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ تینوں رزمیہ داستانیں ہیں۔ ہم اس سے پہلے ’متھ‘ کی بات کرچکے ہیں تو اس قسم کے جنگی کردار اور داستانیں ’ہیرو متھ‘ ہیں‘۔

سبط حسن کے مطابق ’اس قسم کے ہیرو مِتھ قدامت رکھنے والے تقریباً ہر قوم میں ملتے ہیں اور ہر زبان میں موجود ہوتے ہیں جس طرح فردوسی کے شاہنامے میں رستم، نوشیروان اور سکندر وغیرہ۔ ہومر کی اوڈیسی میں ہیراکلیس، مہا بھارت میں ارجن، بھیم اور کرشن اور رامائن میں رام اور لچھمن، مِتھ انسان کی پرواز تخیل کی معراج ہے، اس کی سماجی آرزوؤں کا رنگین مرقع ہے اور اس کی تشنہ تمناؤں کی ذہنی تکمیل ہے۔ متھ کی دنیا اس کی خواہشوں کی تابع ہوتی ہے۔ متھ اس کے ہر اِرادے کو پُورا کردیتا ہے اور اس ارادے کے راستے میں جو رُکاوٹیں آتی ہیں ان کو خیالی طور پر دُور کر دیتا ہے۔

مِتھ کی نوعیت خوابوں سے بہت ملتی جُلتی ہے کیونکہ ہمارے خوابوں میں تمناؤں کی تکمیل ہوتی ہے۔ یہ مافوق فطرت باتوں کو بھی فطری پیکر میں پیش کرتا ہے۔ خواب نما مِتھ میں عجوبہ اور انہونی باتیں روزمرہ کی چیزیں بن جاتی ہیں اس لیے اساطیری داستانوں میں کوئی چیز ناممکن نہیں ہوتی۔ مردہ زندہ ہوسکتا ہے، زندہ آدمی پتھر کا بن کر دوبارہ انسان بن سکتا ہے۔ انسان کاٹھ کے گھوڑے یا اُڑن کھٹولے پر بیٹھ کر دُور دَراز کا سفر پلک جھپکتے طے کر لیتا ہے۔ اس کے اشارے پر پہاڑ سنگ ریزے ہوجاتے ہیں اور سمندر کے اندر سے خشک راستہ نکل آتا ہے۔ جن، پری اور دیو اُس کے تابع ہوتے ہیں مطلب یہ تمام تمناؤں کی تعبیر کرتا ہے۔

ہم جب جیمز جارج فریزر (James Gorge Frazer) کی مشہور کتاب ’شاخ زرین‘ (The Golden Bough) کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس میں ایسا کچھ پڑھنے کو ملتا ہے اور حقائق سے ہماری آنکھوں پر ایسا پردہ کھینچ جاتا ہے کہ ہم حیرت زدہ ہوجاتے ہیں۔ یہ وہ کتاب ہے جو انسانی دماغ کی ارتقائی سوچ کی ابتدائی بنیادوں کے متعلق ہمیں انتہائی اہم اور بنیادی حقائق سے روشناس کرواتی ہے۔ اٹلی، کولمبیا، سائبیریا، جاپان، یونان، عراق، ایران، سندھ اور گنگا ویلی میں انسان اپنے ارتقائی سفر میں زندگی اور اُس کے خطرات سے جُوچتا نظر آتا ہے۔ ہم دنیا کی قدیم ترین بابل کی رزمیہ داستان گل گامش کا ذکر کریں اور پھر 1200 سال قبل مسیح ہومر کی تخلیقات ایلیڈ اور اوڈیسی کا، دونوں ہی رزمیہ داستانیں ہیں اور اہل یونان کے لیے انتہائی محترم ہیں۔

بات کی جائے مہا بھارت، والمیکی کی رامائن، داستان امیر حمزہ، الف لیلیٰ کہانیوں اور شاہنامہ فردوسی کی تو اندازہ ہوتا ہے کہ انسانی ذہن میں ابتدائی تخلیقات کا ایک گلستان بستا ہے۔ جہاں جہاں انسانی آبادیاں شیرین دریاؤں کے کناروں پر آباد ہوئیں وہاں لوک ادب کی داغ بیل سب سے پہلے پڑی کیوں کہ انسان حیوان نہیں حیوان ناطق ہونے کا اعزاز رکھتا ہے۔ چونکہ قدیم زمانے سے بیوپار دیبل بندر سے ہوتا تھا اس لیے عراق، فارس اور وادی سندھ کے قدیم رابطے رہے ہیں۔

پھر ساسانی دور کے زمانے میں وادی سندھ فارس کے قبضے میں رہا اور اسی زمانے میں فنکاروں اور مصنفین کی آوت جاوت کا ایک سلسلہ چل نکلا جس سے سیکھنے سکھانے کی کئی راہیں کُھلیں۔ میں ان حوالوں سے زیادہ گہرائی میں نہیں جاؤں گا کیونکہ پھر طوالت یقینی ہے۔ اس لیے کوشش یہ کرتے ہیں کہ موجودہ زمانے کی جو سندھی زبان بولنے اور تحریر کے دائرے میں آتی ہے اُس حوالہ سے گزرے کچھ زمانے کی قصہ گوئی کے حوالہ سے ایک مختصر سا جائزہ پیش کیا جا سکے۔

1300 برس اگر کچھ زیادہ نہیں تو اتنے کم بھی نہیں ہیں جن کی طویل راہ داریوں پر ہمیں چلنے کے لیے کوئی خاص تیاری نہ کرنی پڑے۔ مگر اس سے پہلے آپ کو اُس منظرنامے کا دھندلا سا ہی عکس ضرور دکھادوں تاکہ اسے سمجھنے کے لیے زیادہ تگ و دو نہ کرنی پڑے۔ ہم اس کی ابتدا 8ویں صدی سے کرتے ہیں۔ ڈاکٹر مہر عبدالحق اپنی کتاب ’ملتانی زبان اور اس کا اردو سے تعلق‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ سندھ کی سرحدیں مختلف ادوار میں الگ الگ رہی ہیں۔ سندھ کے حاکموں کا جہاں تک قبضہ ہوتا تھا اُس کو سندھ کے نام سے بلاتے تھے۔ 712ء میں عربوں کے وقت سندھ کی سرحدیں کچھ اس طرح تھیں:

شمال میں کشمیر کے نچلے اضلاع اور کوہ کابل کے سلسلے تک۔
شمال مغرب میں ایران اور سندھ کی سرحد ساحل کے سامنے مکران تک۔
جنوب میں عربی سمندر تک۔
جنوب مشرق میں کَچھ کی خلیج تک۔
مشرق میں قدیم راجپوتانہ اور جیسلمیر ریاستوں کی سرحدیں سندھ میں شامل تھیں۔

ڈاکٹر بیمز کے مطابق سندھی دریائے سندھ کی نچلے حصے کی وادیوں میں ملتان سے ساحل سمندر تک، پچھم میں بلوچی بولیوں تک اور بہاولپور سے ہوتی ہوئی جیسلمیر پہنچ جاتی تھی۔ ڈاکٹر محمد حسن لکھتے ہیں کہ ’قدیم زمانے کے شاعر اور لوک ادب تخلیق کرنے والے راجاؤں اور سرداروں کے درباری ہوا کرتے تھے اور اس دور کی شاعری میں ان کی تعریف زیادہ ملتی ہے۔ رائے اور برہمن گھرانوں کی حکومت کے دور میں وسیع وسعت رکھنے والے سندھ ملک میں ویر گاتھائیں ضرور تخلیق ہوئی ہوں گی مگر وہ ہم تک نہیں پہنچ سکیں۔

ڈاکٹر محمد حسن اور پروفیسر سنتی کمار چئٹرجی نے ’ہیمچندر‘ کی مشہور تصنیف ’سدھ ہیمچندر‘ میں سے نظم کے کچھ نمونے اپنی تصانیف میں دیے ہیں اور اُن کو ’گاتھائیں‘ کہا گیا ہے۔ ان گاتھاؤں میں سے ایک کا بناوٹی ڈھانچہ سندھی ’دوہے‘ (دوہو: یہ ہندی اور سندھی کلاسیکی شاعری کی بنیادی اور اہم صنف ہے جو اپنے ساتھ صدیوں کی تاریخ رکھتی ہے۔ بنیادی طور پر دوہو، پراکرت اور اپبھرنش دور کی ایک مشہور صنف رہی ہے کیونکہ یہ وہ زمانہ تھا جب مقامی زبانیں اور شاعری ارتقائی زمانوں سے گزر رہی تھیں)۔

دوہو، دو سطروں والا بیت ہے جس کا اسٹرکچر مثنوی کے بیتوں جیسا ہے۔ لیکن مُثنوی کے بیت علم عروض کے وزن پر تخلیق کیے جاتے ہیں مگر دوہو، ہندی چھند یا پنگل کی ماتراؤں پر لکھا جاتا ہے۔ پنگل یا چھند قدیم ہندی شاعری کا وزنی نظام (Prosodic system) ہے۔ عالموں اور مہا کویوں نے مختلف چھندوں کو الگ الگ نام دیے ہیں جن میں سے دوہا چھند، اپنے اسٹرکچر اور ماتراؤں کے خیال سے انتہائی اہم ہے۔ اس میں استعمال کی گئی زبان سندھ کے مشرق اور جنوب مشرق جیسی ہے جس پر گجرات اور راجستھان کے ناگر اور پنگل لہجوں کا اثر نمایاں نظر آتا ہے۔

ڈاکٹر جیٹھو لالوانی کے مطابق لوک گاتھائوں سے مراد، لوک شاعری کی وہ صورت یا کیفیت ہے جس سے کسی لوک کتھا کو لوک گیتوں میں بیان کیا جاتا ہے۔ لوک گاتھا موسیقی سے بھرپور اور طویل کتھا والے گیت ہوتے ہیں جن میں مذہبی پرچار نہیں کیا جاتا کیونکہ یہ گاتھائیں لوک تخلیق کرتا ہے اس لیے ہر بات بڑھا چڑھا کر پیش کی جاتی ہے۔ ان تخلیقات کی ہم تک رسد کیوں نہیں ہوسکی یہ ہے تو بڑا بنیادی سوال جس کے جواب کے لیے ضرور جستجو کرنی چاہیے۔ مگر البیرونی (11ویں صدی) اور ’ہوان سیانگ‘ جب 7ویں صدی میں یہاں آیا تھا تو ان دونوں مصنفین نے لوگوں کو درخت کے بڑے پتوں پر لکھتے دیکھا تھا۔ مگر یہ منظر تھوڑی سی مایوسی کی کیفیت ضرور تخلیق کرتا ہے مگر یہ بھی ضرور ہے کہ اگر جستجو کو کُچھ تیز کیا جائے تو اُن زمانوں کی تحریریں ملنے کے امکانات روشن ضرور ہیں۔

گیارہویں صدی میں جب فارس میں ’شاہنامہ‘ تخلیق ہورہا تھا اُن زمانوں میں سندھ کی سیاسی اُتھل پُتھل کے بعد جب سومرا سردار حکومت (1026ء سے 1350ء) میں آئے تب یہاں ایک ایسے زمانے کی بھی ابتدا ہوئی جس میں تخلیق کے کئی چشمے پھوٹ پڑے۔ بلکہ اچانک کچھ نہیں ہوا کہ اس زمانے میں ہمیں جو قصے کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ اُن کی بنیادیں اور تخلیق کی پرواز اتنی مضبوط اور زبردست ہے کہ اُس سے لگتا ہے کہ ان کا تانا بانا صدیوں تک پھیلا ہوا ہے۔

تحریر کی ابتدا میں، میں نے جس لوک کتھا (دودو چنیسر کی داستان) کا ذکر کیا تھا وہ سندھی اساطیری ادب کا ایک شاہ کار ہے۔ ایک ایسا قصہ جس میں اگر حقیقت کا تھوڑا حصہ بھی شامل ہے تو تخلیق کاروں نے اُسے خوبصورتی سے اپنے خیالوں، الفاظ اور سُروں سے تراشا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ دودو چنیسر کی سندھ کی سب سے طویل، دلچسپ، حیرت انگیز اور دُکھی داستان ہے۔ جس کو ایک قصہ گو 5 راتوں تک گا سکتا ہے وہ چاہے تو 7 راتوں تک بھی گا سکتا ہے۔ مگر یہ قصہ وہی فنکار گائے گا جس کے خون میں قصہ گوئی کسی عشق کی طرح بہتی ہوگی۔ ایسا فنکار جانتا ہوگا کہ کس جگہ اصلی قصے کو روک کر کوئی اورچھوٹا سا قصہ یا کہانی بیان کرے بالکل ایسے جیسے ایک زبردست ٹریننگ دینے والے ٹرینر کو پتا چل جاتا ہے کہ اب سیشن میں بوریت ہونے لگی ہے تو وہ انرجائزر کے طور پر کوئی چھوٹی کہانی یا چٹکلہ سُنا دیتا ہے تاکہ وہ دلچسپی کو ایک بار پھر سمیٹ سکے۔ یہاں بھی قصہ گو ایسا ہی کرتے ہیں۔

دودو چنیسر کے اس طویل رزمیہ داستان میں آپ کو داستان کے ہیرو دودو کا اساطیری روپ کُچھ اس طرح نظر آئے گا کہ جب دودو، علا الدین سے جنگ کے لیے نکلا تو ہر سُو خاموشی پھیل گئی، درختوں نے ہوا دینا بند کردی، دودو کو اتنا غصہ تھا کہ جب وہ گھوڑے کی زین کا پٹہ کستا تھا تو گھوڑے کے دو ٹکڑے ہو جاتے تھے۔ وہ جب گھوڑے پر سوار ہو کر نکلا تو دودو جس کا سر مٹکے جتنا اور چھاتی چھپر کھٹ (بڑے پلنگ) جتنی تھی وہ جب تلوار میان سے نکالتا تھا تو اُس کی روشنی کوسوں میلوں سے نظر آتی، وہ جب گھوڑے پر سواری کرتا تو ایک زلزلے کا سماں ہوتا۔

یہ وہ قدیمی انسان کی تصوراتی دنیا ہے جس کی بنیادوں پر آج کی دنیا کے شان دار ادب کا گُلستان مہکتا ہے۔ اگر ہم اپنے پُوروَجوں کی اس تخلیق کے خُرد سے خِرد تک کا یہ طویل سفر حذف کرلیتے تو تخلیق کے حوالے سے یہ دنیا یقیناً اتنی خوبصورت کبھی نہ ہوتی۔ نہ کسی چاند کی ٹھنڈی اُداس رات میں کسی شعر کی دو سطریں گنگناتے ہماری آنکھیں بھیگتیں اور نہ عشقیہ داستانوں اور سورماؤں کی بہادری کی عظیم داستانیں ہمارے ماضی کا غُرور ہوتیں۔ چلیے جنگ کے میدانوں اور عشقیہ داستانوں کے تمناؤں کے آسمان سجنا ابھی باقی ہیں، ہم جلد ملتے ہیں تخلیق کے ان شان دار نخلستانوں میں! (جاری ہے)

حوالہ جات

’ماضی کے مزار‘۔سبط حسن۔2018ء۔ مکتبہ دانیال، کراچی۔
’بندہ بشر‘۔ یووال نوح ہراری۔ مترجم: سعید نقوی۔2019ء۔ سٹی بک پوائنٹ، کراچی۔
’ملتانی زبان اور اس کا اردو سے تعلق‘۔ڈاکٹر مہر عبدالحق۔ 1967ء۔ اُردو اکادمی بہاولپور۔
’ہندوستانی لسانیات کا خاکہ‘۔جان بیمز، مترجم:سید احتشام حسین۔ 1948ء۔ دانش محل، لکھنؤ۔
’ہندی ادب کی تاریخ‘۔ محمد حسن۔1998ء ایجوکیشن پبلشنگ ہاؤس، دہلی۔
’سندھی بولی جو بن بنیاد‘۔ ڈاکٹر غلام علی الانا۔2018ء۔ سندھیکا اکیڈمی۔کراچی۔
’سندھی کچھی لوک تہذیبی روایتوں‘۔ ڈاکٹر جیٹھو لالوانی۔2017ء، سندھی بولی جو بااختیار ادارو، حیدرآباد۔

بشکریہ: ڈان نیوز و مصنف
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close