آگ میں لپٹے ٹینکر کو چلا کر زندگیاں بچانے والے ڈرائیور کی بہادری کی کہانی

ویب ڈیسک

بیس ہزار لیٹر پیٹرول سے بھرا، بھڑکتی ہوئی آگ میں بری طرح سے لپٹا ہوا ٹینکر اور سامنے پیٹرول پمپ۔۔۔ یہ منظر وہاں موجود لوگوں میں سے جس نے بھی دیکھا، اس پر جیسے سکتہ طاری ہو گیا

یہ واقعہ گزشتہ دنوں صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پیش آیا

ٹینکر سے پیٹرول کو پمپ منتقل کرتے ہوئے اس میں آگ بھڑک اٹھی تو ڈرائیور محمد فیصل کے پاس دو ہی راستے تھے: یا تو وہ اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ کر ٹینکر سے دور چلے جائیں، یا پھر ٹینکر چلانے میں اپنی مہارت کو لوگوں کی جانیں بچانے کے لیے استعمال کریں اور اسے چلا کر آبادی سے دور لے جائیں

اس مشکل لمحے میں آئل ٹینکر کے ڈرائیور نے لوگوں کی زندگی بچانے کے لیے اپنی جان داؤ پر لگانے کا فیصلہ کر لیا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ آگ کی لپیٹ میں آیا ہوا ٹینکر دھماکے سے پھٹ سکتا ہے

وہ بالآخر پیٹرول سے بھرے جلتے ہوئے ٹینکر کو آبادی سے دور لے جانے میں کامیاب ہو گیا، جسے دیکھ لوگ حیرت زدہ رہ گئے

یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی، کیونکہ انتہائی آتش گیر تیل سے بھرے ٹینکر میں آگ لگنا آس پاس موجود انسانوں اور املاک کے لیے کتنا خطرناک اور نقصاندہ ہو سکتا ہے، اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں، جو پاکستان کے شہر بہاولپور میں سنہ 2017ع میں ایسے ہی ایک حادثے میں 139 افراد کی ہلاکت کے بارے میں جانتے ہیں

منگل کی شام کوئٹہ کے علاقے سریاب میں قمبرانی روڈ پر پیش آنے والے اس واقعے میں ایک نجی پیٹرول پمپ پر پیٹرول خالی کرتے ہوئے آئل ٹینکر میں آگ لگ گئی، اور دیکھتے ہی دیکھتے آگ کے شعلوں نے ٹینکر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا

پیٹرول پمپ کے مالک سعید شاہوانی بتاتے ہیں ”پیٹرول پمپ پر رش تھا اور عملے کے ارکان کے علاوہ بڑی تعداد میں گاڑیاں تیل بھروانے کے لیے کھڑی تھیں“

بیس ہزار لیٹر پیٹرول سے بھرے ٹینکر سے بھڑکتے شعلے دیکھ کر پمپ پر موجود لوگوں پر سکتہ طاری ہو گیا، لیکن ٹینکر ڈرائیور حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹینکر کو تیز رفتاری سے پمپ اور آبادی سے دور لے گیا

ٹینکر ڈرائیور محمد فیصل بتاتے ہیں ”پمپ پر کافی لوگ موجود تھے، میں نے سوچا کہ اگر ٹینکر یہیں کھڑا رہا تو نہ صرف پورا پمپ جل جائے گا بلکہ لوگوں کی جان بھی جا سکتی ہے۔ اس لیے میں نے ٹینکر کو پمپ سے دور لے جانے کا فیصلہ کیا“

”یہ ایک ایسا وقت تھا کہ جس میں آگے نکلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا مگر گاڑی کو ریورس کیے بغیر ایسا کرنا ممکن نہیں تھا، اس لیے پہلے ٹینکر کو ریورس کیا اور اس کے بعد اس کو آگے لے گیا“

فیصل کا کہنا تھا ”میرے ذہن میں بس یہی تھا کہ لوگوں کو بچانا ہے، پمپ کو بچانا ہے اور مالک کا نقصان سے بچانا ہے۔ اس کے بدلے اگر میری جان بھی جاتی ہے تو جائے“

محمد فیصل کا کہنا ہے ”کچھ دور جا کر میں نے ٹینکر روکنے کا فیصلہ کیا تو وہاں دو گاڑیاں آ گئیں جن میں لوگ سوار تھے اس لیے میں نے مزید آگے جانے کا فیصلہ کیا، کیونکہ وہاں رکنے کی صورت میں دونوں گاڑیوں اور ان میں سوار افراد کو نقصان پہنچ سکتا تھا، مزید آگے گیا تو دکانیں اور آبادی آ گئی، وہاں بھی لوگ موجود تھے اس طرح مجھے خالی میدان تک پہنچنے کے لیے تین کلومیٹر تک آگ کے شعلوں میں لپٹے ٹینکر کو چلانا پڑا۔“

فیصل کے پاس واحد راستہ اس جلتے ہوئے ٹینکر کو آبادی سے جتنا دور ممکن ہو لے جانا تھا۔ جب وہ آبادی سے نکل گئے تو اس وقت ٹینکر کا پچھلا حصہ کافی حد تک آگ کی لپیٹ میں آ چکا تھا اور اب اسے مزید دور لے جانا ان کے لیے بالکل ممکن نہیں تھا

فیصل نے کہا ”اس دوران آگ بہت قریب پہنچ گئی۔ اس کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ میں پسینے سے شرابور ہو گیا۔ آگ میں لپٹے آئل ٹینکر کو آبادی سے دور لے جانے کی ہر ساعت کو زندگی کا آخری لمحہ سمجھتا رہا مگر زندگی باقی تھی اس لیے موت کے قریب ہونے کے باوجود بچ گیا۔‘

”میں نے ٹینکر کو تقریباً 80 سے 90 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بھگایا۔ اب میرے سامنے ایک اور مشکل یہ تھی کہ میں نے جب بریک پر پاﺅں رکا تو اس وقت بریک بالکل کام نہیں کر رہی تھی“

فیصل نے بتایا ”جب میں نے دیکھا کہ خالی میدان ہے اور قریب آبادی نہیں اور کسی کو خطرہ نہیں تو میں نے ٹینکر روکنے کا فیصلہ کیا“

ٹینکر کی رفتار بہت زیادہ ہونے کے باعث اُنھوں نے پہلے اسے تیسرے گیئر میں ڈالا، پھر دوسرے اور پھر پہلے گیئر میں ڈالا اور پھر انجن آف کر دیا اور ٹینکر رک گیا

اس دوران ان کو ڈر تھا کہ کہیں آگ کے شعلوں کی وجہ سے پیچھے کسی کو نقصان پہنچا ہوگا کیونکہ ہوا اور پیٹرول بہنے کی وجہ سے پیچھے شعلے دور دور تک تھے، مگر وہ مسلسل ہارن دبائے آگے بڑھتے رہے

ان کا کہنا تھا کہ اسی آئل ٹینکر میں ان کے چھوٹے بھائی ان کے ساتھ معاون کے طور پر کام کرتے ہیں

”جب آگ لگنے کے بعد میں ٹینکر لے کر نکلا تو پیچھے سے میرے بھائی نے ٹریفک کو روک دیا تھا تاکہ کسی اور کو آگ کے شعلوں سے نقصان نہ پہنچے“

اُنہوں نے کہا کہ جب میرے بھائی اور گاڑی کے مالکان میرے پاس پہنچے تو اُنیوں نے بتایا کہ گاڑی کے پیچھے آگ سے کسی اور کو نقصان نہیں پہنچا

محمد فیصل کو اس بات پر خوشی ہے کہ ایک انسان ہونے کے ناطے دوسرے انسانوں کی زندگیوں کو بچانے اور اپنے مالکان کے مالی نقصانات کو کم سے کم کرنے کے لیے ان سے جو کچھ بن پڑا، وہ اُنہوں نے کرنے کی کوشش کی

محمد فیصل کہتے ہیں ”مجھے یہ خوف بھی تھا کہ ٹینکر پھٹ سکتا ہے لیکن بچانے والا اللہ ہے۔ میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار اور بہت خوش ہوں کہ میری وجہ سے کئی لوگوں کی جان بھی بچ گئی اور میرے مالک کا پیٹرول پمپ بھی بچ گیا، جن کے ساتھ ہم تین نسلوں سے کام کرتے آ رہے ہیں“

راہ گزرتے کئی لوگوں نے اس منظر کی وڈیوز بھی بنائی ہیں، جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ڈرائیور کسی ہالی ووڈ فلم کے سٹنٹ کی طرح آگ کے شعلوں میں لپٹے ٹینکر کو تیز رفتاری سے آبادی سے دور لے جا رہا ہے۔ جبکہ جائے وقوعہ پر سڑک کی ایک جانب کھلے میدان میں بچے اور بڑے کرکٹ کھیل رہے تھے تو اسی روڈ پر دوسری طرف ٹریفک بھی روانی سے چل رہا تھا

آئل ٹینکر اور پیٹرول پمپ کے مالک سعید احمد شاہوانی، محمد فیصل سے انتہائی خوش ہیں اور اُنہوں نے فیصل کو حقیقی ہیرو قرار دیا

سعید شاہوانی کا کہنا ہے ”آگ کے باعث ٹینکر مکمل جل کر تباہ ہوگیا اس میں بیس ہزار لیٹر پیٹرول موجود تھا۔ ٹینکر کی قیمت ایک کروڑ روپے سے زائد ہے جبکہ پیٹرول کی قیمت چالیس لاکھ روپے بنتی ہے اس طرح مالی طور پر تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے کا نقصان ہوا لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا“

انہوں نے فیصل کی بہادری کی تعریف کرتے ہوئے کہا ”ہمارے ڈرائیور نے بڑی بہادری اور حاضر دماغی کا مظاہرہ کیا اور دوسروں کو بچا لیا۔ مالی نقصان تو پورا ہوجاتا ہے لیکن انسانی جان کا کوئی نعم البدل نہیں“

ان کا کہنا تھا کہ پیٹرول کو ٹینکر سے پیٹرول پمپ کے ٹینک میں خالی کرنے کے لیے پائپ منسلک کیا ہی گیا تھا کہ اس دوران آگ بھڑک اٹھی اور ٹینکر کا پچھلا حصہ اس کی لپیٹ میں آ گیا

اس وقت ڈرائیور محمد فیصل پانی پینے گئے ہوئے تھے اور ٹینکر سے کچھ فاصلے پر تھے۔ جب آگ بھڑک اٹھی تو پمپ پر موجود ہر شخص کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے لیکن محمد فیصل کسی خوف کے بغیر بھاگ کر گاڑی میں سوار ہوئے اور لوگوں سمیت پمپ کو بچانے کے لیے ٹینکر کو اسٹارٹ کر کے روانہ ہو گئے

شاہوانی کہتے ہیں کہ پیٹرول پمپ، آئل ٹینکر اور اس میں موجود 10 ہزار لیٹر پیٹرول سب اُن کے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ جائے وقوعہ اور اس کے قرب و جوار میں آگ بجھانے کے لیے انتظامات نہ ہونے کے باعث ٹینکر اور پیٹرول نے تو ویسے جلنا ہی تھا لیکن ان کے ساتھ ساتھ خود پیٹرول پمپ میں بھی آگ بھڑکنے کے امکانات تھے لیکن ڈرائیور محمد فیصل کی بہادری اور حاضر دماغی نے نہ صرف کئی جانوں بلکہ پیٹرول پمپ کو بھی بچا لیا

ان کا کہنا تھا ایسے مناظر ہم تو ہالی وڈ فلموں میں دیکھتے رہے ہیں لیکن ایک حقیقی منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا

اب محمد فیصل کے لیے وزیرِ اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے بہادری پر پانچ لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close