طویل عرصے تک میرا بھی یہی یقین تھا کہ وہ پاگل ہے۔ ایسا سمجھنا ایک فطری امر تھا کیونکہ میری ماں نے بتایا تھا کہ وہ پاگل ہے اور گاؤں میں بھی ہر ایک کی یہی رائے تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ بوڑھی عورت نے کبھی کوئی انوکھی حرکت کی ہو جیسا کہ مجنون لوگ کرتے ہیں۔ اس نے کبھی بھی زیادہ بات نہیں کی تھی لیکن کبھی کبھی اسے بلا وجہ ہی ناقابلِ قابو ہنسی کے دورے پڑتے تھے۔ شاید لوگ اس وجہ سے ایسا کہتے تھے کہ وہ بہت شدت سے لوگوں کو یوں گھورتی تھی، جیسے ان کے وجود کے پار کچھ اور دیکھ رہی ہو۔ اس کی آنکھیں تیز چمک دار تھیں، جن کی تازگی اس کے جھریوں زدہ لاغر بدن کے بر عکس تھی۔۔ مگر اس کی آنکھوں میں کچھ تھا ضرور، کوئی اسرار اور علم، جس نے ابتداء ہی سے اس کی دیوانگی پر میرا یقین متزلزل کر دیا تھا۔ وہ کچھ کیا تھا اور کہاں تھا؟ ہو سکتا ہے اس میں کبھی کچھ غیر معمولی رہا ہو۔ یا جس طرح وہ لوگوں کو دیکھتی تھی یا اس کی وضع قطع اور حرکات و سکنات میں کچھ تھا۔ کسی ایک بات میں یا پھر سب ہی باتوں میں، کوئی نہ کوئی بات ضرور تھی۔۔
مجھے اس عورت اور اس سے متعلق اپنے مشاہدات کا اپنے والد سے تذکرہ کرنے کا موقع ملا تھا۔ انھوں نے میری طرف دیکھا اور دھیرے سے بولے ”شاید یہ غم ہے۔ یہ جلتا ہوا سورج، یہ بے رحم خشک سالی۔۔۔۔ یہ سب کچھ جو ہمارے دماغوں میں چل رہا ہے، یہ ہمیں زرد اور پاگل بنا رہا ہے!“ تب مجھے سمجھ نہیں آئی تھی انھوں نے ایسا کیوں کہا۔ میرا ابھی بھی اس بات پر یقین ہے کہ وہ میرے سوالوں کا جواب نہیں دے رہے تھے بلکہ اپنے خیالات کا باآواز بلند اظہار کر رہے تھے۔ لیکن وہ ٹھیک تھے۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے ’زردی‘ کے متعلق انھوں نے بجا فرمایا تھا۔ سارے ملک میں زردی چھا گئی تھی۔۔ موت کی زردی۔۔۔
تا حدِ نگاہ چھوٹے چھوٹے صاف زرعی قطعات، جہاں کبھی خوبصورت سبزے کی باڑیں ہوتی تھیں، اب بنجر پڑے تھے۔ یہ زمین اور اس کی پیداوار جو ہمارے ضلع کے کسانوں کا فخر اور ان کے استحکام کی ضامن تھی، اب خشک تھی اور ہر جانب دھول مٹی اڑ رہی تھی۔
انجیر کا مقدس درخت جو ہمارے گاؤں کے عین نیچے واقع تھا اور جو کبھی نہیں سوکھا تھا، اب اس کے پتے گر گئے تھے اور ہریالی جاتی رہی تھی۔۔۔ وہی تر و تازہ ہریالی جو چھوٹی موٹی خشک سالی کو خاطر میں نہ لاتی تھی۔ بہت سے لوگوں نے بربادی کی پیش گوئیاں کی تھیں۔ موسمی پیش بین اور سنیاسی جو ہمارے گاؤں میں بچ گئے تھے، اگرچہ ان کی قوتیں زائل ہو چکی تھیں، ان سے کچھ لوگوں نے مشورے کیے تھے اور سب نے ہی تباہی کی پیش گوئی کی تھی۔
ریڈیو عروج پر تھے۔ آئندہ چوبیس گھنٹوں کے موسم کا احوال جو عموماً صرف مسافروں کے لیے دلچسپی کی خبر ہوتا تھا، اب سب کے لیے اولین اہمیت کی خبر بن گیا تھا۔ شاید کے بی ایس (کینیا براڈ کاسٹنگ کمپنی) اور محمکۂ موسمیات کے افراد موسم کا حال بتانے کے لیے اپنے جادوئی آلات سے مشاہدہ کر رہے تھے مگر ہمارے گاؤں کے مرد و خواتین اپنی آنکھوں سے بادل دیکھتے اور انتظار کرتے۔ میں اپنے والد کی چاروں بیویوں اور دیگر خواتین کو کھیتوں میں جاتے دیکھتا۔ وہ وہاں بیٹھی رہتیں اور گپیں لگاتیں لیکن در اصل وہ اس عظیم ساعت کا انتظار کر رہی تھیں، جب خدا بارش برسائے گا۔ ننھے بچے جو گاؤں کی گلیوں میں کھیلا کرتے تھے، انھوں نے کھیلنا بند کر دیا۔ اب وہاں گلیوں میں خاک اڑتی تھی۔ سب منتظر تھے، دیکھ رہے تھے اور امید کر رہے تھے۔۔
بہت سےلوگ بھوکے تھے۔ دیگر خاندانوں کے برعکس ہمارا گھرانہ خوش نصیب تھا کیونکہ میرا ایک بھائی نیروبی میں کام کرتا تھا اور دوسرا لیمورو میں۔
میرے والد کے اُس تبصرے نے مجھے اس عورت کے متعلق مزید سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔ مہینے کے اخیر میں جب میری ماں نے بازار سے ترکاری اور لوبیا خریدا تو میں نے اس میں سے کچھ چرا لیا اور شام کو گارے کی جھونپڑی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا، جس میں وہ بڑھیا رہتی تھی۔ میں نے اسے ڈھونڈ لیا۔ وہ جھونپڑی گاؤں کے وسط میں تھی۔ یہ میری اس عورت سے پہلی ملاقات تھی۔ میں وہاں کئی بار گیا مگر یہ ملاقات بہت اچھی طرح حافظے پر نقش رہ گئی۔
وہ مجھے ایک کونے میں گٹھڑی بنی ہوئی ملی جب کہ بجھتے ہوئے انگاروں کے کچھ ٹکڑے آتش دان میں ہلکے ہلکے دہک رہے تھے، جن کی روشنی گارے کی دیواروں پر بھدے سائے بنا رہے تھی۔ میں خوف زدہ ہو گیا اور بھاگنا چاہا۔ مگر میں نے ایسا نہ کیا۔ میں نے اسے بڑی بی کہہ کر پکارا۔۔۔ اگرچہ میرا نہیں خیال تھا کہ وہ در حقیقت اتنی عمر رسیدہ تھی کہ ایسا کہنے کی اجازت دیتی۔۔ اور ترکاری اسے دے دی۔ اس نے ترکاری کو دیکھا اور پھر مجھ پر نظر کی ۔ اس کی آنکھیں تھوڑی سی جگمگا اٹھیں۔ تب اس نے اپنا چہرہ جھکا لیا اور گریہ زاری کرنے لگی،
”میں سمجھی یہ ’وہ‘ ہے۔ میرے پاس لوٹ آیا ہے“ اس نے سسکیاں بھرتے ہوئے کہا اور پھر بولی ”آہ! خشک سالی نے مجھے تباہ کر دیا ہے۔۔“
میں یہ منظر برداشت نہ کر سکا اور حیران ہوتے ہوئے تیزی سے بھاگ نکلا کہ کیا میرے والد یہ سب کچھ جانتے تھے۔ شاید وہ پاگل تھی۔
ایک ہفتے بعد اس نے مجھے ’اس‘ کے متعلق بتایا۔ جب اس نے ٹوٹے پھوٹے بے ربط انداز میں خشک سالی سے نبرد آزما ہونے کی اپنی عمر بھر کی طویل جد و جہد کے متعلق بتایا تو الفاظ اس تاریک کوٹھڑی میں دوبارہ اداسی کی فضا ہموار نہ کر سکے۔
جیسا کہ میں نے بتایا کہ ہم سب مہینوں سے بیٹھے دیکھ رہے تھے اور بارش کا انتظار کر رہے تھے۔ کچھ چھینٹے پڑنے کے دن سے پہلے کی رات غیر معمولی طور پر سونی اور اداس تھی، جس کی تھکان نے ہر ایک کو متاثر کیا تھا۔ گلیوں میں سناٹا تھا۔ عورت جو اپنے اکلوتے بیٹے کی دیکھ بھال کر رہی تھی، اس نے کچھ بھی نہ سنا۔ وہ تین پایوں والے گیکویی سٹول پر بیٹھ گئی اور آتش دان کے پاس تنگ بستر پر اذیت سے لوٹتے ہوئے لڑکے کا سیاہ چہرہ دیکھا۔ جب بجھتی ہوئی آگ ایک دفعہ بھڑکی تو اس نے ظاہر کیا کہ سیاہ چہرہ اب زرد پڑ گیا تھا۔ آسیبی سائے دیواروں پر لہرائے گویا مریض کے بستر کی پٹی سے لگی اکیلی دیکھ بھال کرنے والی کا تمسخر اڑا رہے ہوں۔ لڑکے نے پوچھنا جاری رکھا۔ ”ماں! تمہارا کیا خیال ہے میں مر جاؤں گا؟“ وہ نہیں جانتی تھی کہ جواب میں کیا کہے یا کیا کرے۔۔ وہ صرف امید اور دعا کر سکتی تھی۔ اور تب بھوکے لڑکے کی ملتجی آواز نے اصرار کیا ”ماں! میں مرنا نہیں چاہتا۔۔۔“ لیکن ماں بے بسی سے دیکھ کر رہ گئی۔ اسے محسوس ہوا اس کی طاقت اور قوت ارادی اس کا ساتھ چھوڑ گئی ہیں۔ پھر وہی ملتجی صدا ”ماں مجھے کچھ کھانے کو دو“ بلا شبہ وہ نہیں جانتا تھا اور نہ ہی جان سکا کہ عورت کے پاس کھانے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ آٹے کا آخری ذرہ بھی ختم ہو چکا تھا۔ اس نے پہلے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ اپنے ہمسائیوں کو مزید تنگ نہیں کرے گی کیونکہ انھوں نے پہلے ہی دو مہینے سے زائد عرصہ اس کی اعانت کی تھی۔ شاید ان کے بھی تمام وسائل ختم ہو چکے تھے۔ تاہم لڑکے نے اسے ملامتی انداز میں دیکھنا جاری رکھا گویا وہ اس پر بے رحم ہونے کا الزام لگائے گا۔
ایک عورت اپنے مرد کے بنا کیا کر سکتی تھی؟ وہ اسے ایمرجنسی کے نفاذ [1] کے دوران کھو چکی تھی۔ اسے ماؤ ماؤ باغیوں [2] یا استعماری فوجوں [3] نے نہیں مارا تھا بلکہ شراب نوشی کی محفل میں زہر دیا گیا تھا۔ لوگوں نے زیادہ سے زیادہ جو کہا، وہ یہی کہ کیسی ناگہانی موت ہے۔۔ اب وہ لڑکے کی دیکھ بھال میں مدد کے لیے وہاں موجود نہیں تھا۔ اس کے لیے 1961ء کی یہ رات 40 کی دہائی کی ایسی ہی رات سے بالکل مختلف تھی، جب اس کے دونوں بیٹے یکے بعد دیگرے خشک سالی اور بھوک کی وجہ سے مر گئے تھے۔ یہ سانحہ ’کساوا کے قحط‘ کے دوران رونما ہوا۔ یہ قحط کساوا کے نام سے یوں منسوب ہوا کہ لوگ ان دنوں کساوا کا آٹا کھاتے تھے۔ تب اس کا شوہر بارِ غم کا کچھ حصہ اٹھانے کے لیے اس کے ہمراہ ہوتا تھا۔ اب وہ تنہا تھی۔ یہ اس کے ساتھ بہت بے انصافی لگتی تھی۔
کیا ان کے گھرانے پر کسی نحوست کا سایہ تھا؟ اس نے یوں سوچا کہ وہ خود بھی کبھی پیدا نہ ہوئی ہوتی، اگر اس کی ماں کو ایسے ہی قحط میں خوش قسمتی سے مسیحی تبلیغیوں نے بچا نہ لیا ہوتا۔ یہ گوروں کی باضابطہ آمد سے پہلے کا واقعہ تھا۔ [4] Ruraya famine بہت ہی سنگین قحط تھا جو گیکویو (Gikuyu) قوم کو زندگی میں کبھی بھی بھگتنا پڑا۔ اس کے دادا دادی مر گئے تھے اور ان کے خاندان میں صرف وہی زندہ بچی تھی۔ ہاں خشک سالی کی ساری آفتیں صرف اسی پر نازل ہوئیں۔
اس نے لڑکے کا شکایتی اور فریادی چہرہ دیکھا۔ یہ صرف اسی کے ساتھ کیوں تھا؟ دوسری عورتوں کے ساتھ ایسا کیوں نہیں؟ اس کو یہ اکلوتا بیٹا زندگی میں بہت دیر سے ملا تھا۔
اس نے جھونپڑی چھوڑی اور گاؤں کے مکھیا کی جانب چل دی۔ بظاہر اس کے پاس بھی مدد کے لیے کچھ نہیں تھا، وہ اس کی آمد کا مقصد سمجھ نہیں پایا تھا۔ یا شاید یہ سمجھا کہ خشک سالی مار سکتی تھی۔ اس نے سوچا اس کا بیٹا دائمی بیماری میں مبتلا ہے، جس کا اسے اکثر دورہ پڑتا رہتا ہے۔ بے شک خود اس نے بھی یہی سوچا تھا۔ اس کا بیٹا ہمیشہ سے ایک بیمار بچہ تھا لیکن وہ اسے کبھی ہسپتال لے کر نہیں گئی تھی۔ حتیٰ کہ اب بھی نہیں لے کر جائے گی۔ نہیں نہیں ہسپتال والے اس کا بیٹا اس سے نہیں چھین سکتے۔ اس نے بیمار بیٹے کے لیے بذاتِ خود ہر ممکن تکلیف اٹھانے کو ترجیح دی۔ اور اس مرتبہ وہ جانتی تھی کہ یہ بھوک ہے جو اسے مار رہی ہے۔ سردار نے اسے بتایا کہ ’بحالیِ قحط اسکیم‘ کے تحت حکومت خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں راشن بانٹ رہی ہے۔ اس نے پہلے ہی اس کی بابت کیوں نہیں سنا؟
اس رات وہ سو گئی تھی مگر اسے اچھی طرح سے نیند نہیں آئی تھی کیونکہ بیمار بیٹا بار بار پوچھتا رہا، ”کیا میں ٹھیک ہو جاؤں گا؟“
راشن تقسیم کرنے والی جگہ پر لمبی قطار بنی ہوئی تھی۔ اس نے اپنا راشن وصول کیا اور بوجھل دل کے ساتھ قدم گھسیٹتی ہوئی گھر کی جانب روانہ ہو گئی۔ وہ اندر داخل نہیں ہوئی بلکہ باہر ہی بیٹھ گئی۔ اس کی ٹانگوں سے جان نکلی جا رہی تھی۔ مرد و زن کثیر تعداد میں چہرے کے عجیب تاثرات لیے بنا کچھ بولے اس کی کٹیا سے نکلے۔ کچھ بتانے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ جان گئی کہ اس کا بیٹا چلا گیا ہے اور اب لوٹ کر نہیں آئے گا۔
بوڑھی عورت نے جب یہ ساری کہانی سنائی تو ایک دفعہ بھی نظر اٹھا کر میرے چہرے کی طرف نہیں دیکھا۔ اب اس نے نگاہ اوپر کی اور بات جاری رکھی ”اب تو میں بوڑھی ہو چکی ہوں۔ میرے اکلوتے بیٹے کی زندگی کا چراغ گل ہو چکا ہے۔ خشک سالی اسے کھا گئی۔ خدا کی یہی مرضی ہے۔“ اس نے پھر نظر جھکا لی اور بجھتی ہوئی آگ کریدنے لگی۔
میں جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے مجھے ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں کہانی سنائی تھی لیکن وہ الفاظ بہر حال کسی پاگل خاتون کے نہیں تھے۔ اور اس رات (وہ ہفتہ یا اتوار کی رات تھی) میں اس غور و فکر میں ڈوبا گھر روانہ ہوا کہ کچھ لوگ مصیبتوں کا شکار ہونے اور آلام کو برداشت کرنے کے لیے ہی کیوں پیدا ہوتے ہیں۔
آخری مرتبہ میں نے بوڑھی عورت سے دو تین ہفتے قبل بات کی تھی۔ میری یادداشت اچھی نہیں اس لیے صحیح طور پر یاد نہیں رکھ پایا۔ اب بارش برس چکی ہے، در حقیقت ایک ہفتے سے بارش ہو رہی ہے اگرچہ ہلکے چھینٹے ہی پڑتے ہیں۔ خواتین پودے لگانے میں مصروف ہیں اس امید پر کہ ہر کچھ اگ رہا ہے نمو پا رہا ہے۔
اصل سیلابی بارش کل رات آئی۔ ایسی بارش برسوں سے نہیں دیکھی گئی تھی۔ میں ایک ہدیہ لے کر بزرگ خاتون کے گھر گیا۔ اس مرتبہ میں لوبیا یا ترکاری نہیں بلکہ شکر قندی لے کر گیا۔ میں نے دروازہ کھولا اور اسے حسبِ معمول اپنے مخصوص کونے میں سکڑے سمٹے پایا۔ آگ بجھ چکی تھی۔ ایک لٹکی ہوئی لالٹین کا زرد شعلہ پھڑپھڑا رہا تھا۔ میں اس سے مخاطب ہوا۔ اس نے اپنا سر قدرے اٹھایا۔ مدھم پڑتی سرد روشنی میں وہ زرد نظر آ رہی تھی۔ اس نے اپنی آنکھیں تھوڑی سی کھولیں۔ ان کی معمول کی پر اسرار چمک ہزاروں گنا بڑھ گئی تھی۔ ان میں کچھ اور ہی تھا، اداسی ہر گز نہیں تھی۔ خوشی کے منڈلاتے ہوئے سائے، کوئی مسرت یا کچھ ایسا جیسے اسے مدتوں سے کھویا ہوا کچھ مل گیا تھا، جسے وہ مدتوں سے تلاش کرتی رہی تھی۔ اس نے مسکرانے کی سعی کی۔ لیکن اس میں کچھ پر اسرار تھا، کچھ انتہائی سفاکانہ اور قبیح۔۔ وہ نقاہت سے لفظوں کو ادا کر رہی تھی۔ وہ براہِ راست مجھ سے مخاطب نہیں تھی۔ وہ در اصل با آواز بلند اپنے اطمینان اور سکون کا اظہار کر رہی تھی، ”اب میں سب کو دیکھتی ہوں۔ وہ سب صدر دروازے پر میرا انتظار کر رہے ہیں اور میں اب جا رہی ہوں۔۔۔۔۔۔“
تب وہ دوبارہ گٹھڑی بن گئی۔ روشنی کی تگ و دو میں مصروف لٹکی ہوئی لالٹین کا شعلہ ایک دم ہی بجھ گیا۔ مگر اس سے پہلے میں اپنے تمام تحائف اور خوراک کے ڈھیر کو دیکھ چکا تھا، جنہیں کبھی نہیں چھوا گیا تھا، بس وہاں ذخیرہ کیا گیا تھا۔ میں وہاں سے چلا آیا۔
بارش رک چکی تھی۔ گلیوں میں کھلے دروازوں سے ٹمٹماتی روشنیوں کو میں دیکھ سکتا تھا اور لوگوں کے قہقہوں اور خوش گپیوں کو سن سکتا تھا۔
ہم سب گھر پر موجود تھے۔ میرے والد بھی وہیں تھے۔ ماں نے پہلے ہی کھانا پکانا ختم کر لیا تھا۔ میرے بہن بھائی بارش اور خشک سالی کے متعلق گفتگو کر رہے تھے جو اب اختتام پذیر ہو چکی تھی۔ میرے والد حسبِ معمول خاموش اور متفکر انداز میں بیٹھے تھے۔ میں بھی خاموش تھا، میں نے گفتگو میں حصہ نہ لیا کیونکہ میرا دماغ ابھی تک اس ”پاگل“ عورت اور اپنے غیر استعمال شدہ تحائف و خوراک میں الجھا ہوا تھا۔ میں صرف یہی سوچ رہا تھا کہ کیا وہ بھی خشک سالی سے چلی گئی ہے۔ تب ہی میرے ایک بھائی نے پاگل عورت کا تذکرہ کیا اور اس کے پاگل پن کے متعلق کوئی ظریفانہ جملہ کسا۔ میں اٹھ کھڑا ہوا اور اسے گھورا، ”بلا شبہ وہ پاگل ہے“ میں تقریباً چلّا اٹھا
سب چونک کر خوف سے مجھے تکنے لگے۔۔ وہ سب کے سب، ماسوائے میرے والد، جو بدستور اسی جگہ پر نظریں جمائے بیٹھے رہے۔
نوٹ:
[1] ماؤ ماؤ بغاوت کے نتیجے میں انگریز حکومت نے کینیا میں 21 اکتوبر 1952 کو کینیا میں ایمرجنسی نافذ کی۔
[2]ماؤ ماؤ بغاوت(1960_1952) گیکویو قبائل نے بر طانوی استعماریت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔
[3] کینیا پر (1963_1920) برطانیہ کا قبضہ رہا ہے۔
[4] اسے عموماً یورپئین قحط کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جو 1899_1898 میں ٹڈی دل کے حملے اور چیچک کے نتیجے میں کینیا میں پھیلا۔
Original title:
GONE WITH THE DROUGHT
Written By. Ngũgĩ wa Thiong’o