کوپن ہیگن میں بندرگاہ کے پاس ہی ڈھلان پر ایک گلی ہے، جس کا نام اسٹرولڈ اسٹریٹ ہے۔ حال ہی میں تعمیر شدہ اس گلی میں دن کو بھی خاصی خاموشی طاری رہتی ہے۔ مکانات ایک دوسرے سے فاصلے پر واقع ہیں اور بعض جگہوں پر تو روشنی کا انتظام بھی نہیں۔ آج کل گرمیوں کا موسم ہے مگر اس گلی میں شاید ہی کوئی شخص سیر کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
کل رات میرے ساتھ اِس گلی میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ میں یہاں چہل قدمی کر رہا تھا کہ ایک عورت سامنے آتی ہوئی دکھائی دی۔ اِدھر اُدھر کوئی شخص نظر نہیں آ رہا تھا۔ گلی میں گیس کے لیمپ روشن کر دیے گئے تھے لیکن پھر بھی اندھیرا غالب تھا، اس لیے عورت کا چہرہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ میرا اندازہ تھا کہ شاید وہ بھی ان عورتوں میں سے تھی، جو رات کو شکار پھانسنے نکلتی ہیں اور میں اس کے پاس سے گزر گیا۔
گلی کے نکڑ تک جا کر میں واپس مڑا۔ وہ عورت بھی واپس آ رہی تھی۔ ہمارا پھر آمنا سامنا ہوا۔ مجھے خیال آیا کہ وہ کسی کا انتظار کر رہی ہوگی۔۔ مگر کس کا؟ تجسس ہو رہا تھا مگر پھر اس کے قریب سے گزر گیا۔
جب ہم تیسری دفعہ ایک دوسرے کے قریب آئے تو میں نے ٹوپی اُتار لی۔
”آداب۔۔ شاید آپ کو کسی کا انتظار ہے؟“
وہ چونک پڑی۔۔ ”نہیں۔۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔۔۔۔ ہاں میں انتظار کر رہی ہوں۔“
”کیا اس آدمی کے آنے تک میں آپ کا ساتھ دے سکتا ہوں۔ آپ کو اس پر کوئی اعتراض تو نہ ہوگا؟“ میں نے دریافت کیا۔
”نہیں۔۔ نہیں مجھے بے حد خوشی ہوگی۔ آپ کی شکر گزار ہوں۔ ویسے میں خاص طور پر کسی کا انتظار نہیں کر رہی۔ یہ جگہ کافی پُر سکون ہے، اس لیے ویسے ہی ہوا خوری کے لیے نکل آئی تھی۔“
اب ہم پہلو بہ پہلو ٹہلنے لگے۔ ادھر اُدھر کی بہت سی باتیں ہوئیں۔ میں نے اسے اپنے بازو کا سہارا پیش کیا مگر اس نے شکریے سے میری پیش کش مسترد کر دی۔
مجھے اس طرح تاریکی میں ٹہلنے میں کوئی لطف نہیں آرہا تھا۔ اندھیرا ایسا تھا کہ اس کی شکل بھی ٹھیک طرح سے سُجھائی نہیں دیتی تھی۔ میں نے جیب سے دیا سلائی نکالی اور وقت دیکھنے کے بجائے دیا سلائی اونچی کر کے اسے بھی دیکھا۔ وہ یوں ٹھٹھر رہی تھی، جیسے سردی سے بے حال ہو، میں نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا. ”آپ کو سردی لگ رہی ہے۔ آئیے ریستوران میں چل کر کچھ پئیں۔ ٹرالی یا نیشنل۔“
”لیکن میں اس وقت تو کہیں بھی نہیں جا سکتی۔ آپ نے شاید نہیں دیکھا۔“
اور اب میں نے پہلی بار غور سے دیکھا۔ وہ ایک سیاہ جالی چہرے پر ڈالے ہوئے تھی۔ میں نے معافی چاہی کہ اندھیرے میں اسے نہیں دیکھ سکا۔ اس نے جس انداز میں میرا عذر قبول کیا، اس سے میں جان گیا کہ وہ بازاری عورت نہیں ہے۔
”کیا آپ میرے بازو کا سہارا نہیں لیں گی؟“ میں نے ذرا جرأت سے کام لیا
اور اس نے میرے بازو کا سہارا لے لیا۔ پھر اس نے مجھ سے وقت پوچھا۔
”دس بجے ہیں۔“ میں نے جواب دیا اور ساتھ ہی سوال لڑھکا دیا، ”آپ کہاں رہتی ہیں؟“
”گامے کانگیوی میں۔“
”کیا میں آپ کو وہاں چھوڑ آؤں؟“
”نہیں۔ یہ مناسب نہیں۔“ اس نے جھجھکتے ہوئے کہا، ”آپ تو برڈ گیڈ میں رہتے ہیں۔“
”آپ کو کیسے معلوم ہوا؟“ میں نے تعجب سے پوچھا۔
”اوہ۔۔۔۔۔ میں تو آپ سے بہت اچھی طرح واقف ہوں۔“
ہاتھ میں ہاتھ ڈالے روشن گلیوں میں سے ہو کر گزرتے گئے۔ وہ قدرے تیزی سے قدم اٹھارہی تھی۔ اس کا سیاہ نقاب تیز ہوا میں اڑ رہا تھا۔
”آپ کو جلدی چلنا چاہیے۔“ اس نے بے تابی سے کہا۔
گاملے کانگیوی میں اپنے دروازے پر رُک کر وہ میری جانب مڑی۔ غالباً وہ شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی۔ میں نے شائستگی کا اظہار کرتے ہوئے اس کے لیے دروازہ کھولا۔ وہ آہستہ سے اندر داخل ہو گئی۔
میں بھی غیر شعوری طور پر اس کے پیچھے اندر چلا گیا۔ اس نے میرا ہاتھ زور سے پکڑ لیا۔ ہم سیڑھیوں پر جلدی جلدی چڑھتے ہوئے تیسری منزل تک پہنچ گئے۔ اس نے قفل کھولا اور پھر ایک کمرے کا دروازہ کھول کر مجھے ہاتھ سے پکڑ کر اندر لے گئی۔ یہ کمرہ شاید ڈرائنگ روم تھا۔ ایک بڑا کلاک دیوار پر آویزاں تھا اور ٹک ٹک کی آواز کمرے کی خاموشی کو توڑ رہی تھی۔
اندر آ کر وہ ایک لحظہ خاموش کھڑی رہی، پھر اچانک اس نے اپنی باہیں میرے گلے میں حائل کر دیں اور کپکپاتے ہوئے گرم ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ ایک بھرپور بوسہ لے کر اس نے مجھے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود لیمپ لانے چلی گئی۔
لیمپ کی روشنی میں مجھے اردگرد کا جائزہ لینے کا موقعہ ملا۔ یہ ایک کشادہ اور آراستہ ڈرائنگ روم تھا۔ اس کے کئی دروازے دوسرے کمروں میں کھلتے تھے۔ مجھے الجھن ہو رہی تھی کہ آخر میں کس قسم کی عورت کے ساتھ چلا آیا ہوں۔
”بہت خوبصورت کمرہ ہے۔۔ کیا آپ یہیں رہتی ہیں؟“ میں نے پوچھا۔
”یہ میرا گھر ہے۔“
”یہ آپ کا گھر ہے تو کیا آپ یہاں اپنے والدین کے ساتھ رہتی ہیں؟“
وہ ہنس پڑی۔ ”نہیں میں تو بوڑھی عورت ہوں۔ آپ کو ابھی معلوم ہو جائے گا۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے نقاب الٹ دیا۔
”دیکھیے میں نے غلط کہا تھا؟“ اور اس نے بازو میری گردن میں ڈال کر مجھے جکڑ لیا۔ وہ شدتِ جذبات سے پاگل ہو رہی تھی۔
اس کی عمر بیس بائیس برس سے زیادہ نہ تھی۔ ہاتھ میں پڑی انگوٹھی بظاہر اس کی شادی شدہ ہونے کی چغلی کھا رہی تھی۔۔۔۔۔۔ وہ خوبصورت تو ہر گز نہ تھی۔ پورے چہرے پر مہاسے نظر آ رہے تھے۔ بھنوؤں کے بال تقریباً غائب ہو رہے تھے۔ مگر اس کے روئیں سے زندگی پھوٹ رہی تھی اور دہانہ تو غضب کا توبہ شکن تھا۔
میں نے اس سے پوچھنا چاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ وہ کون ہے؟ اس کا شوہر اگر ہے تو کہاں ہے اور میں کس کے گھر میں ہوں۔۔۔ مگر جب بھی میں کچھ پوچھنے کے لیے لب وا کرتا، وہ میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیتی اور زیادہ باتوں سے منع کر دیتی۔
پھر اچانک خود ہی بولی: ”میرا نام ’ہیلن‘ ہے۔۔۔۔۔۔۔ تم کچھ پینا پسند کرو گے؟ میں گھنٹی بجاؤں تو کسی کی نیند میں خلل نہیں پڑے گا۔ آپ مطمئن رہیے۔۔۔ میرا خیال ہے آپ خواب گاہ میں بیٹھنا پسند کریں گے۔ چلیے، وہیں چلتے ہیں۔“
میں خواب گاہ میں چلا گیا۔ خواب گاہ میں ڈرائینگ روم سے چھن کر کسی قدر روشنی آرہی تھی اور دو بستر لگے ہوئے تھے۔ ہم نے شراب منگوالی۔ وہ دروازے کے پاس کچھ دیر رکی رہی۔ میں اس سے ملنے آگے بڑھا تو اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی جیسے اچانک اسے کسی خوف نے آ لیا۔۔ اور پھر وہ خود ہی میرے پاس چلی آئی۔
”یہ کل رات کا قصہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔ اک ذرا صبر کیجیے کہنے کو ابھی بہت کچھ باقی ہے۔“
جب میری آنکھ کھلی تو دن چڑھ آیا تھا۔ سورج کی کرنیں پردوں سے چھن کر اندر آ رہی تھی۔ ہیلن بھی جاگ اٹھی تھی اور میری طرف ایک مطمئن مسکراہٹ سے دیکھ رہی تھی۔ اس کی باہیں سفید اور ریشم کی طرح ملائم تھیں۔ میں نے اس کے کان میں کچھ کہنا چاہا مگر اس نے اپنے ہونٹوں سے میرے ہونٹ بند کر دیئے۔ بہت ہی ملائمت و نرم روی سے دن کا سفر شروع ہو چکا تھا۔
کوئی دو گھنٹوں بعد میں بستر سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ ہیلن بھی اُٹھ کر کپڑے پہننے لگی۔ اس نے ٹانگیں نیچے رکھ کر جوتے پہنے اور کسی کام سے دوسرے کمرے کی طرف چل دی۔ اچانک میں نے ایک ایسی چیز دیکھی کہ مجھے یہ سب کچھ بیداری کی بجائے خواب محسوس ہونے لگا۔ ہیلن نے جیسے ہی دروازہ کھولا میں نے گردن موڑ کر اس کی طرف دیکھا اور میرے بدن میں جھرجھری سی دوڑ گئی۔
کمرے کے وسط میں ایک میز پر ایک نعش پڑی تھی، سفید کفن میں لپٹی ہوئی نعش کسی بوڑھے شخص کی تھی۔ اس کی ڈاڑھی سفید تھی۔ اس کے گھٹنے کفن کے اندر نکلے ہوئے تھے اور مٹھیاں بھنچی ہوئی تھیں۔۔ اس کے چہرے پر طاری وحشت ناکی سے ہیبت ٹپک رہی تھی۔
مجھے یہ سب کچھ صاف نظر آ رہا تھا۔ میں نے منہ پھیر لیا۔ جب ہیلن واپس لوٹی تو میں لباس پہن چکا تھا اور باہر جانے کے لیے بالکل تیار تھا۔ مجھ پر ایسی کیفیت طاری تھی کہ میں اس کے پیار کا جواب دینے سے معذور تھا۔ اس نے چند مزید کپڑے اپنے اوپر ڈال لیے اور مجھے نیچے تک چھوڑنے آئی لیکن دروازے کے پاس پہنچ کر وہ دیوار سے لگ کر کھڑی ہو گئی کہ باہر کے لوگوں کی نظر اس پر نہ پڑسکے۔
”خدا حافظ!“ اس نے آہستہ سے کہا
”کل تک؟“ میں نے یونہی اسے آزمانے کی غرض سے پوچھا۔
”نہیں! کل نہیں۔۔۔۔۔۔۔“ اس نے جواب دیا۔
”کیوں؟“
”اتنے سوال نہ پوچھو، میرے ایک رشتہ دار کا انتقال ہو گیا ہے، کل اس کی تجہیز و تکفین ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سمجھ گئے نا؟“
”پرسوں؟“
”ہاں! پرسوں۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اسی دروازے کے پاس تمہیں ملوں گی۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا حافظ!“
میں گھر لوٹ آیا مگر ان گنت سوالات میرے ذہن میں کلبلا رہے تھے۔
وہ کون ہے؟ اور وہ نعش کس کی تھی۔۔۔۔۔۔۔؟ مٹھیاں بھنچی ہوئیں اور ہونٹوں کے گوشے سکڑے ہوئے۔۔۔۔۔ پرسوں اسے میرا انتظار رہے گا، کیا مجھے دوبارہ اس کے پاس جانا چاہیئے؟؟
میں سیدھا کیفے برنینا گیا اور ٹیلیفون کی ڈائریکٹری طلب کی۔ ’گاملے کانگیوی‘ پر وہ نمبر تلاش کیا۔ وہاں اس کا نام موجود تھا۔ میں وہیں بیٹھے بیٹھے صبح کے اخبارات دیکھتا رہا۔ سب سے پہلے میں نے اموات کی فہرست پر نظر ڈالی۔ سب سے اوپر جلی حروف میں ایک اعلان تھا:
’میرے شوہر ایک طویل عرصہ بیمار رہنے کے بعد آج وفات پا گئے۔ ان کی عمر ترپن سال تھی۔
سوگوار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیلن‘
اعلان پر پرسوں کی تاریخ تھی۔
میں دیر تک وہاں بیٹھا خیالات میں گم رہا۔ ایک مرد شادی کرتا ہے۔ اس کی بیوی عمر میں اس سے تیس سال چھوٹی ہے۔ ایک دن وہ مر جاتا ہے اور اس کی بیوہ اسے منزل تک پہنچانے سے پہلے خود اپنی منزل حاصل کرتی ہے۔
آخرکار تپتا ہوا دن اختتام کو پہنچتا ہے۔۔
تشنگی کی رات ڈھلتے ڈھلتے آسودہ ہو جاتی ہے اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اطمینان کا سانس لیتی ہے۔
Original Title: Livets røst
Written by: Knut Hamsun