پھٹِک چکروتی گاؤں کے لڑکوں کی ٹولی کا سرغنہ تھا۔ اسے ہر لمحہ کوئی نہ کوئی شرارت سوجھتی ہی رہتی تھی۔ آج بھی اس کے دماغ میں ایک نئی شرارت جاگی۔ دریا کے کنارے کشتی کے مستول میں استعمال ہونے والا درخت کا ایک بھاری تنا پڑا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ سب مل کر اسے اپنی جگہ سے کھسکا کر نیچے کی جانب لڑھکا دیں گے۔ جب مالک تنے کو اپنی جگہ پر موجود نہ پا کر سٹپٹائے گا تو انہیں بہت مزہ آئے گا۔ ٹولی کے سب لڑکوں نے اس کی تجویز کی حمایت کی اور اس کام کو انجام دینے کے لئے تیار ہو گئے۔
وہ اپنی شرارت کا آغاز کرنے ہی کو تھے کہ عین اسی لمحے پھٹِک کا چھوٹا بھائی ماکُھن وہاں آ پہنچا، اور کسی سے ایک لفظ کہے بغیر سیدھا جا کر تنے پر بیٹھ گیا۔ ایک لمحے کو توسب لڑکے حیرت زدہ رہ گئے، پھر ایک لڑکے نے اسے ڈانٹا اور دھکا دے کر اسے وہاں سے ہٹانا چاہا، مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ وہ تو کسی فلسفی کی طرح وہاں یوں بیٹھا تھا، جیسے کھیل کود میں وقت کے زیاں پر غور و حوض کر رہا ہو۔
پھٹِک یہ سب دیکھ کر غصّے میں آ گیا۔ ”ماکُھن!“ وہ چلایا، ”اگر تم فوراً یہاں سے نہ ہٹے تو میں تمہاری درگت بنا دوں گا!“
ماکُھن سیدھا ہو کر اور بھی سکون سے اپنی جگہ پر براجمان ہو گیا۔
اب، اگر پھٹک کو لڑکوں کے سامنے اپنا وقار برقرار رکھنا تھا، تو یہ صاف ظاہر تھا کہ اسے اپنی دھمکی کے مطابق کوئی نہ کوئی مظاہرہ تو کرنا ہی تھا۔ سو اس کے تیز دماغ نے فوراً ایک ایسی ترکیب سوچی، جو اس کے بھائی کو بھی سبق سکھا دے اور اس کے دوستوں کو تفریح کا موقع بھی مہیا کر دے۔ اس نے ماکُھن اور لکڑی کو اکٹھے ایک ساتھ لڑھکانے کا حکم صادر کر دیا۔ ماکھن نے بھی اس کا یہ فیصلہ سنا، مگر اس نے وہاں بیٹھے رہنے کو اپنے وقار کا مسئلہ بنا لیا۔۔ اور اُن لوگوں کی طرح حقیقت کو نظر انداز کر بیٹھا، جو کچھ معاملات میں دنیاوی شہرت کی خاطر آنے والے خطرے کو بھی بھول بیٹھتے ہیں۔
لڑکے اپنی پوری طاقت سے لکڑی کو دھکیلتے ہوئے، پکارے، ”ایک، دو، تین، جاؤ!“ اور لفظ ’جاؤ‘ کے ادا ہوتے ہی لکڑی لڑھک گئی۔۔ اور اس کے ساتھ ہی ماکھن کا فلسفۂ شان وشوکت بھی دھرے کا دھرہ رہ گیا۔
سب لڑکے خوشی سے چیخ و پکار کر رہے تھے، مگر پھٹک تھوڑا سا خوفزدہ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اب آگے کیا ہوگا۔ ماکُھن غصّے میں پھنکارتا ہوا اٹھا اور چیختا ہوا پھٹک کے پاس آ پہنچا۔ اس نے لاتوں اور گھونسوں سے اسے خوب پیٹا اور روتا ہوا گھر کی جانب چل دیا۔
اب پھٹک نے اپنا چہرہ صاف کیا اور دریا کنارے کھڑی ایک ناؤ میں جا بیٹھا۔ اس نے گھاس کا ایک تنکا منہ میں ڈالا اور دانتوں تلے چبانے لگا۔ تبھی ایک کشتی کنارے آ لگی اور اس میں سے سرمئی بالوں اور گھنی مونچھوں والے، ایک عمر رسیدہ شخّص نے قدم باہر نکالے۔ اس نے ان لڑکوں کو وہاں بیٹھے دیکھا تو ان سے چکرورتی کنبے کے گھر کا پتہ پوچھا۔
پھٹک نے گھاس کا تنکا چباتے ہوئے، ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا، ”وہ رہا.“ مگر اس سے یہ اندازہ لگانا تقریباً ناممکن ہی تھا کہ اس نے کس گھر کی طرف اشارہ کیا تھا۔
اجنبی نے دوبارہ پوچھا تو اس نے اپنی ٹانگیں جھلاتے ہوئے جواب دیا: ”جا کر خود تلاش کر لیں۔۔“ اور پہلے کی طرح تنکا چبانے لگ گیا۔
تبھی ان کے گھر کا نوکر وہاں آ پہنچا اور اس نے فوٹک کو بتایا کہ اس کی والدہ اسے گھر بلا رہی ہیں۔ پھٹک نے جانے سے انکار کر دیا، مگر نوکر جو اس لمحے اس کے آقا کی مانند تھا، اسے اٹھا کے گھر کی جانب چل دیا۔ پھٹک چیختا چلّاتا رہا، مگر نوکر نے اس کی ایک نہ مانی۔
جب وہ گھر پہنچے تو اس کی ماں نے اسے ڈانٹتے ہوئے پوچھا، ”تم نے آج پھر ماکُھن کو مارا ہے؟“
”نہیں، میں نے تو اسے نہیں مارا! آپ کو یہ بات کس نے بتائی ہے؟“ اس نے غصّے سے جواب دیا۔
”جھوٹ مت بولو! تم نے اسے مارا ہے۔“ اس کی ماں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
”ماں، میں آپ کو سچ بتا رہا ہوں کہ میں نے اسے نہیں مارا۔ آپ ماکُھن سے پوچھ لیں!“ پھٹک نے افسردگی سے کہا۔
مگر ماکُھن نے اپنے پہلے بیان پر قائم رہنے میں ہی عافیت جانی اور کہا: ”جی ہاں، ماں، پھٹک نے میری پٹائی کی تھی۔“
اب پھٹک کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ وہ یہ الزام برداشت نہ کر سکا، اور ماکُھن کے پاس جا کر اسے دھڑا دھڑ پیٹتے ہوئے بولا: ”یہ لو، اور یہ بھی۔۔ اور یہ رہی تمہارے جھوٹ کی سزا۔“
ان کی والدہ فوراً ماکُھن کی طرف داری کے لئے آگے بڑھی اور پھٹک کو دونوں ہاتھوں سے پیٹنے لگی۔ جب پھٹک نے اسے ایک طرف دھکیلا تو وہ چیخ اٹھی: ”ارے بدمعاش، کیا اب تم اپنی ماں کو بھی مارو گے؟“
عین اسی نازک لمحے میں وہ سرمئی بالوں والا اجنبی شخّص اندر داخل ہوا۔ جب اس نے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے، تو پھٹک بہت کھسیانا اور شرمندہ سا نظر آنے لگا۔۔ لیکن جب اس کی ماں نے پیچھے مڑ کر اجنبی کی طرف دیکھا تو اس کا غصّہ حیرت میں بدل گیا اور وہ اپنے بھائی کو پہچان کر چلّا اٹھی، ”کیوں، بھائی! آپ اتنی مدت بعد کہاں سے ٹپک پڑے؟“
اور یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے وہ نیچے جھکی اور اپنے بڑے بھائی کے پاؤں چھو لیے۔ اس کا بھائی، اس کی شادی کے فوراً بعد ہی کاروبار کی غرض سے بمبئی چلا گیا تھا۔ اس دوران وہ بیوہ ہو چکی تھی۔ بیشامبر اب کلکتہ واپس آیا تو اپنی بہن کو ملنے کے لئے بےتاب ہو اٹھا اور اس کا پتہ پوچھتا ہوا یہاں آ پہنچا۔
اگلے چند روز بچھڑے ہوؤں کے ملاپ کی خوشی میں گزر گئے۔ بیشامبر نے دونوں لڑکوں کی تعلیم کا پوچھا تو بہن نے بتایا کہ پھٹک تو اس کے لئے مستقل ایک دردِسر ہے۔ وہ سست، نافرمان اور اجڈ ہے۔ لیکن میرا ماکُھن تو سونا ہے سونا، وہ بہت نیک ہے اور پڑھنے لکھنے کا بھی شوقین ہے۔ بھائی نے بہت محبّت سے پیش کش کی کہ وہ پھٹک کو اپنے ساتھ کلکتہ لے جائے گا۔ اور اسے اپنے بچّوں کی طرح تعلیم دلوائے گا۔ بیوہ ماں فوراً ہی اپنے بیٹے کو کلکتہ بھیجنے پر راضی ہو گئی۔ جب پھٹک کے ماموں نے اس سے ساتھ چلنے کے بارے میں پوچھا تو اس کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہ رہا، وہ ایک دم سے بول اٹھا، ”جی ہاں، ماموں جان!“ اور اس نے جس انداز سے حامی بھری، اس سے اس کی خوشی صاف عیاں تھی۔
پھٹِک کی ماں خوش تھی کہ اسے پھٹک سے چھٹکارا مل جائے گا۔ وہ اپنےچھوٹے بیٹے کی بے جا طرف دار تھی۔ اسے ہر لمحہ یہی خوف گھیرے رکھتا کہ پھٹک کسی روز ماکُھن کو دریا میں ڈبو دے گا، یا لڑائی میں اس کا سر پھوڑ دے گا، یا اسے کسی خطرے سے دوچار کر دے گا۔ مگر اس کے ساتھ ہی وہ پھٹک کے گھر چھوڑ جانے کے اشتیاق کو دیکھ کر قدرے پریشان بھی ہو گئی۔
جب اس کے جانے کے سب معاملات طے پا گئے تو وہ جلد از جلد کلکتہ پہنچنے کے لئے بےتاب رہنے لگا۔۔ ہر وقت اپنے ماموں سے پوچھتا رہتا کہ وہ کب روانہ ہوں گے۔ وہ دن بھر کانٹوں پر لوٹتا اور رات کا بیشترحصّہ تارے گننے میں گزار دیتا تھا۔ اس نے پہلے ہی اپنی ماہی گیری کی چھڑی، بڑی پتنگ اور کینچے ماکُھن کو وراثتاً عطا کر دئیے تھے۔ دونوں بھائیوں میں محبّت تو تھی، مگر روانگی سے قبل ماکُھن کے لئے اس کی فراخ دلی اپنی انتہا کو چھو رہی تھی۔
جب وہ کلکتہ پہنچے، تو وہ زندگی میں پہلی بار اپنی ممانی سے ملا۔ ممانی اپنے کنبے میں اس غیر ضروری اضافے سے کسی طور خوش نظر نہیں آ رہی تھیں۔ ان کے لئے اپنے تین لڑکوں کی پرورش کی ذمہ داریاں ہی کافی تھیں۔ اب ایک چودہ سالہ گاؤں کے لڑکے کا گھر میں آ جانا انہیں سخت ناگوار گزرا۔ ’بیشامبر کو واقعی اس طرح کی ناسمجھی کرنے سے پہلے دوبار سوچ لینا چاہیے تھا۔‘ اس نے تلخی سے سوچا۔
دراصل انسانی مسائل کی اس دنیا میں ایک چودہ سالہ لڑکے کی دیکھ بھال سے زیادہ پیچیدہ کوئی مسئلہ ہو بھی نہیں سکتا۔ وہ کسی کے کام تو آ نہیں سکتا، چھوٹے بچّوں کی طرح اس پر محبّت نچھاور کرنا بھی ناممکن ہوتا ہے۔ یہ مسئلہ ہمیشہ ہی آڑے آتا ہے۔ اگر وہ معصومانہ گفتگو کرے تو اسے بچّہ کہا جاتا ہے اور اگر بڑوں کے لہجے میں بولے تو اسے گستاخ تصّور کیا جاتا ہے۔ دراصل اس کے ہر انداز، ہر بات کو ہی ناپسند کیا جاتا ہے۔ وہ اپنی عمر کے ایسے دور میں داخل ہوگیا ہوتا ہے، جب وہ کسی کے لئے بھی جاذبِ نظر نہیں رہتا۔ وہ تیزی سے اپنے کپڑوں کے سائز سے بڑا ہو جاتا ہے؛ اس کی آواز بدل جاتی ہے اور چہرے کی معصومیت اچانک غائب ہو جاتی ہے۔ بچپن کی کوتاہیوں سے چشم پوشی کرنا آسان ہوتا ہے، مگر ایک چودہ سالہ نوجوان کی لغزشوں کو معاف کرنا مشکل ہوتا ہے۔ پھر وہ آپ بھی خود آگاہی کے تکلیف دہ مراحل طے کر رہا ہوتا ہے۔ بزرگوں سے بات کرتے ہوئے وہ نہ تو شرماتا ہے اور نہ بے جھجک بات کر پاتا ہے، بلکہ وہ تو اپنے ہونے پر ہی نادم ہو رہا ہوتا ہے۔
دراصل وہ عمر کے اس حصّے میں ہوتا ہے، جب ایک نوجوان کو پیار اور توجہ کی اشّد ضرورت ہوتی ہے۔۔ اور جو بھی اسے پیار دے، وہ اس کا بےدام غلام ہو جاتا ہے، مگر جب ہر ایک اس سے محبّت و شفقت کا برتاؤ کرنے کو ناجائز سمجھے اور صرف ڈانٹ ڈپٹ ہی کرے، تو وہ اس آوارہ کتّے کی مانند ہو جاتا، جو اپنے آقا کو کھو چکا ہو۔
ایک چودہ سالہ لڑکے کی واحد جنّت اس کا اپنا گھر ہوتا ہے۔ اجنبی لوگوں کے ساتھ ایک اجنبی گھر میں رہنا اس کے لئے تکلیف دہ ہوتا ہے، اس کی کامل مسرت تو اس بات میں چھپی ہوتی ہے کہ خواتین اسے محبّت سے دیکھیں اور کبھی بھی تحقیر کا نشانہ نہ بنائیں۔
پھٹک کے لئے ممانی کے گھر میں بن بلائے مہمان کی طرح رہنا سخت پریشان کن تھا۔ وہ خاتون ہر موقع پر اسے نظر انداز کرتیں اور تحقیر آمیز رویہ روا رکھتیں؛ جب کہ پھٹک کا یہ عالم تھا کہ اگر وہ اسے کوئی کام کہہ دیتیں تو وہ خوشی سے ان کے کہے سے کچھ زیادہ ہی کر دیتا؛ اور پھر اسے یہ سننے کو ملتا کہ ’اتنے احمق مت بنو۔۔ جو کہا جائے، وہی کیا کرو۔‘
پھٹک کو غفلت اور گھٹن کے اس ماحول میں سانس لینا بھی دشوار محسوس ہونے لگا، اس کا دل چاہتا کہ باہر کھلی فضا میں جا کر اپنے پھیپھڑوں کو تازہ ہوا سے بھر لے، مگر کلکتہ تو چاروں جانب سے بڑے بڑے گھروں اور اونچی عمارات سے گھرا ہوا تھا۔ اب اسے اپنا گھر یاد آنے لگا، اسے ان دل کش سبزہ زاروں کی یاد ستانے لگی، جہاں وہ سارا سارا دن پتنگ اُڑایا کرتا۔۔ دریا کا وسیع کنارہ، جہاں وہ خوشی کے گیت گاتا، دن بھر گھومتا پھرتا۔۔ اور وہ ندی، جس میں وہ دن کے کسی بھی پہر ڈبکی لگا سکتا اور تیراکی کر سکتا تھا۔ اسے اپنے دوستوں کی یاد ستانے لگی، جن پر اس کا حکم چلتا تھا۔۔ اور سب سے بڑھ کر اپنی ماں، جو اسے ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ کرتی رہتی تھی، مگر اب دن رات اس کے حواس پر چھائی ہوئی تھی۔ جانوروں کی مانند اسے کسی چاہنے والے کی موجودگی کی شدید طلب محسوس ہونے لگی، شام ڈھلے گھر لوٹتے ایک بچھڑے کی مانند، ماں کی غیر موجودگی میں اس کے لئے دل کی گہرائیوں سے ایک ناقابلِ بیان حسرت آمیز پکار ابھرتی۔ محبت کی ایک ایسی پکار جو صرف جانوروں کی جبلّت ہے، مگر اس نے اس پریشان و بدحال، دبلے پتلے اور اجڑی صورت والے لڑکے کو بے چین کر دیا تھا۔ کوئی فردِ واحد اس کی اس بے تابی کا اندازہ نہیں لگا سکتا تھا، جس نے اس کے دل و دماغ کو مستقل جکڑ رکھا تھا۔
دیہات سے آئے ہونے کی وجہ سے وہ اسکول کی پڑھائی میں بھی جماعت کے باقی لڑکوں کی نسبت کافی کمزور تھا۔ جماعت میں جب استاد اس سے کوئی سوال پوچھتے، تو وہ منہ کھولے چپ چاپ بیٹھا رہتا، اور ایک تھکے ہارے گدھے کی مانند اپنی پیٹھ پر برسائی جانے والی ہر چابک کو صبر و تحمل سے برداشت کر لیا کرتا تھا۔ جب دوسرے لڑکے میدان میں کھیل رہے ہوتے، تو وہ کھڑکی کے قریب کھڑا حسرت و یاس سے دور کے گھروں کی چھتوں کو گھورا کرتا۔۔ اور اگر اتفاق سے اسے کسی گھر کی کھلی چھت پر کھیلتے بچّے دکھائی دے جاتے تو اس کا دل شدتِ خواہش سے تڑپ اُٹھتا تھا۔
ایک دن اس نے اپنی ساری ہمت مجتمع کر کے اپنے ماموں سے پوچھ ہی لیا، ”ماموں جان، میں گھر کب جا سکوں گا؟“
تو اس کے ماموں نے جواب دیا، ”تعطیلات ہونے تک انتظار کرنا ہوگا۔“
مگر چھٹیاں تو اکتوبر کے مہینے میں ہونی تھیں، اور اکتوبر آنے میں ابھی بہت دن باقی تھے۔
ایک دن پھٹک کی ایک کتاب کہیں کھو گئی۔ اس کے لئے تو کتابوں کی مدد سے ہی پڑھائی کرنا خاصا مشکل تھا، اب اس مشکل میں مزید اضافہ ہو گیا، توسبق یاد نہ کرنے پر استاد اسے ہر روز بے رحمی سے پیٹتے۔ اس کی حالت اس قدر دگرگوں تھی کہ اس کے ماموں زاد بھائی اسے اپنا رشتےدار بتاتے ہوئے شرم محسوس کرنے اور دوسرے لڑکوں کے ساتھ مل کر اس کا مذاق اڑانے لگے۔ آخر ایک روز تنگ آ کر اس نے اپنی ممانی کو بتا ہی دیا کہ اس کی کتاب کھو گئی ہے۔ اس کی ممانی نے اپنے ہونٹ بھینچتے ہوئے کہا، ”تم بہت اناڑی اور گنوار ہو! میں اپنے کنبے کے اخراجات کے ساتھ، تمہارے لئے ہر مہینے پانچ پانچ مرتبہ نئی کتابیں خریدنے کی متحمل کیسے ہو سکتی ہوں؟“
اس روز اسکول سے واپسی پر پھٹک کو سردرد کے ساتھ جسم میں شدید کپکپاہٹ محسوس ہونے لگی، اسے لگا کہ شاید اسے ملیریا بخار نے آ لیا ہے، اس کے ساتھ ہی اسے یہ فکر بھی لاحق تھی کہ اس کی یہ حالت اس کی ممانی کے لئے سخت ناگواری کا باعث بنے گی۔
اگلی صبح وہ گھر سے غائب تھا۔ اسے گلی محلے میں بہت ڈھونڈا گیا، مگر اس کا کہیں سراغ نہ ملا۔ کل رات سے مسلسل مینہ برس رہا تھا، جو لڑکے اس کی تلاش سے ناکام لوٹے تھے، وہ بھی سر سے پاؤں تک بھیگے ہوئے تھے۔ آخرکار بیشامبر نے پولیس سے مدد کی درخواست کی۔ شام ڈھلے جب پولیس کی گاڑی ان کے دروازے پر آ کر رکی تو بارش اب بھی مسلسل برس رہی تھی،ںسڑکیں زیرِ آب آ چکی تھیں۔ پولیس کے دوسپاہی پھٹک کو اٹھا کر لائے اور بیشامبر کے حوالے کر گئے۔ وہ پانی میں شرابور اور کیچڑ میں لت پت تھا، اس کاچہرہ اور آنکھیں بخار سے دہک رہی تھیں، اور انگ انگ پر ایک کپکپی طاری تھی۔
بیشامبر اسے اپنی بانہوں پر اُٹھا کر گھر کے اندر لے آیا۔ جب اس کی بیوی نے دیکھا تو اس نے ایک فریادی لہجے میں اپنے شوہر سے کہا، ”اس لڑکے نے ہمیں کس مصیبت میں ڈال رکھا ہے، کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ آپ اسے گھر بھجوا دیں؟“
پھٹک نے ممانی کے یہ الفاظ سنےتو ہچکیاں لیتے ہوئے بلند آواز میں کہا، ”ماموں جان، میں تو گھر ہی جا رہا تھا؛ یہ لوگ مجھے دوبارہ یہاں گھسیٹ لائے ہیں۔۔“
اس کا بخار بہت تیز ہو گیا تھا، وہ رات بھر ہذیان بکتا رہا۔ اگلی صبح بیشامبر نے ڈاکٹر کو بلوایا، پھٹک نے اپنی بخار سے تمتماتی آنکھیں کھولیں اور چھت کو دیکھتے ہوئے پوچھا، ”ماموں جان، کیا چھٹیاں ہو گئی ہیں؟“
بیشامبر نے اپنے آنسو پونچھے اور پھٹک کے لاغر اور دہکتے ہوئے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔ وہ رات بھر اس کے سرہانے بیٹھا رہا۔ پھٹک پھر بڑبڑانے لگا۔ اب اس کی آواز قدرے پرجوش تھی: ”ماں!“ وہ پکارا، ”مجھے اس طرح مت مارو، ماں! میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں!“
اگلے روز پھٹک کو تھوڑی دیر ہوش آیا تو اس نے آنکھیں کھول کر سارے کمرے کا یوں بغور جائزہ لیا، جیسے وہ کسی کا منتظر ہو۔۔ اور پھر سخت مایوس ہو کر اپنا سر تکیے پر ٹکا دیا۔ اس نے گہری آہ بھر کر اپنا چہرہ دیوار کی طرف موڑ لیا۔
بیشامبر اس کے جذبات کو خوب سمجھ رہا تھا، وہ اس کے اوپر جھکا اور سرگوشی کی، ”پھٹک، میں نے تمہاری امّی کو بلوا بھیجا ہے۔“
اگلا دن بھی بیت گیا۔ ڈاکٹر نے انتہائی تشویشی لہجے میں بتایا کہ لڑکے کی حالت بہت نازک ہے۔
پھٹک پھر بڑبڑانے لگا، ”اس نشان سے، تین قعرپیما گہرائی۔۔ اس نشان سے- چار قعرپیما گہرائی۔۔۔ اس نشان سے۔۔۔۔“ اس نے دُخانی کشتیوں کے ملاحوں کو یہ الفاظ پکارتے سن رکھا تھا۔ اب وہ خود ان دیکھے سمندر کی گہرائی ناپ رہا تھا۔
دن چڑھے پھٹک کی ماں طوفان کی سی تیزی سے کمرے میں داخل ہوئی اور دائیں بائیں جھولتے ہوئے اونچی آواز میں چیخ و پکار کرنے لگی۔ بیشامبر نے اسے صبر کی تلقین کی، مگر وہ پھٹک کی چارپائی پر گر گئی اور روتے ہوئے اسے پکارنے لگی، ”پھٹک، میرے پیارے، میرے بیٹے۔“
ایک لمحے کو پھٹک کی بے قراری کو قرار آ گیا۔ اس کے بے چینی سے حرکت کرتے ہاتھ بھی تھم گئے اور اس کے حلق سے ایک آہ سی نکلی۔
اس کی ماں نے پھر پکارا، ”پھٹک، میری جان، میرے بچّے۔“
پھٹک نے بہت آہستہ سے اپنا سر گھمایا اور کسی کی طرف دیکھے بغیر پوچھا، ”ماں، کیا چھٹیاں ہو گئی ہیں؟“
English Title: The home-coming
Written by: Rabindranath Tagore