بجلی کے بل میں چھپی ٹیکسوں کی چھری، جس سے حکومت عوام کو ذبح کر رہی ہے!

ویب ڈیسک

بجلی کی بلوں میں سب سے بڑی ڈکیتی اس وقت ’فیول پرائس ایڈجسٹ‘ کی مد میں کی جارہی ہے ۔ اس کی مثال کو یوں سمجھیں:

آپ نے گلی کے نکڑ پر ہوٹل میں جاکر چائے کا ایک کپ پیا اور اس کے پچاس روپے دے کر واپس آ گئے۔ رات گئی بات گئی۔ اب تین ماہ بعد آپ کے دروازے کی کنڈی کھٹکی، آپ باہر گئے تو وہی ہوٹل والا باہر کھڑا ہے اور وہ آپ سے مطالبہ کرتا ہے کہ آج کل دودھ پتی چینی کے نرخ بہت بڑھ گئے ہیں، تو آج سے تین ماہ پہلے آپ جو چائے پچاس روپے کی پی کر گئے تھے، آج کے ریٹ کے حساب سے اس کپ کے مزید دس روپے ادا کریں۔۔ یقیناً آپ اس دوکاندار کے گردے چھیل دیں گے کہ اے چول انسان! تین مہینے پہلے چائے پی کر پیسے بھی دے دیئے تو اب یہاں چھنکناں لینے آئے ہو؟

مگر جب بات واپڈا کی ہو تو آپ یہ بات نہیں کرسکتے کیونکہ بھتے کی پرچی آن پہنچی ہے اور اگر آپ نہیں دیں گے تو وہ آپ کا میٹر کاٹ کے لے جائیں گے۔۔

ایک چھوٹی سی مثال ہے۔۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بجلی کے بلوں کی مد میں آپ کے ساتھ اصل میں ہو کیا رہا ہے

کسی شخص کا تعلق آمدن کے اعتبار سے کسی بھی طبقے سے ہو، بجلی کے بل میں چھپے اخراجات سے ہر کوئی حیران اور پریشان نظر آتا ہے۔ یعنی ’بجلی 18 ہزار کی خرچ ہوئی، 16 ہزار کے ٹیکس بل میں شامل کر کے بجلی کا بل 34 ہزار آیا ہے اور اب قیمتوں میں حالیہ پانچ روپے 40 پیسے فی یونٹ اضافہ بھی کر دیا گیا ہے‘

بجلی کے بلوں کے مارے عوام کے ’تنگ آمد بجنگ آمد‘ کی نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ بجلی فراہم کرنے والی کمپنیاں پولیس سے درخواست کر رہی ہیں کہ ان کے دفاتر پر پولیس کی نفری تعینات کی جائے، کمپنیوں نے اپنے عملے کو مخصوص نمبر پلیٹ گاڑیوں ہر لگا کر باہر نکلنے سے بھی منع کر دیا ہے

بجلی کمپنیوں کی بے چینی اپنی جگہ لیکن واضح رہے کہ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کے دور میں بجلی کی قیمت میں اوسطاً سو گنا سے بھی زیادہ تک اضافہ ہونے کے بعد نگران حکومت نے بھی فی یونٹ قیمت کو مزید بڑھایا، جس کے علاوہ بجلی پیدا کرنے کے لیے درآمدی فیول جیسے گیس، کوئلہ اور فرنس آئل کی قیمتوں میں اضافہ بھی رواں ماہ کے بجلی کے بل میں ہوش ربا اضافے کی ایک وجہ بنا

اس سلسلے میں اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کے ایک صارف، جن کا نام ظاہر نہیں کیا جا رہا، کے بل کا معائنہ کرنے پر معلوم ہوا کہ جولائی کے مقابلے میں اگست کے مہینے میں انھوں نے 200 یونٹ کم بجلی استعمال کی لیکن ان کا بل گذشتہ ماہ کی نسبت آٹھ ہزار روپے زیادہ تھا

ان صارف کے بل کے مطابق جولائی کے مہینے میں انھوں نے 994 یونٹ استعمال کیے اور ان کا بجلی کا بل 42353 روپے تھا۔

تاہم اگست کے مہینے کے بل کے مطابق انھوں نے 782 یونٹ استعمال کیے لیکن اُن کا بجلی کا بل 48583 روپے تھا۔

کچھ ایسی ہی شکایات دیگر صارفین کی جانب سے بھی سننے کو ملیں جبکہ ملک بھر میں بجلی کے بل کے خلاف احتجاج ہوئے۔

مذکورہ صارف کے مطابق بجلی کی قیمت تو ایک طرف، بل میں موجود ٹیکسوں کی بھرمار ہی بل کا حجم کسی عام فرد کی جیب پر قیامت ڈھانے کے لیے کافی نظر آتی ہے۔

اس بل کے مطابق بجلی کی قیمت 28543 روپے جبکہ مجموعی بل 48583 روپے کا ہے۔

تو آخر یہ ماجرا کیا ہے اور بجلی کے بل میں کون کون سی مد میں اور کیوں پیسے وصول کیے جا رہے ہیں؟

واضح رہے کہ بجلی کے بل میں فی یونٹ کی قیمت استعمال کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہے۔ یعنی جیسے جیسے استعمال شدہ یونٹ بڑھتے جائیں گے، ویسے ہی یونٹ کی قیمت بھی بڑھتی رہتی ہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ بجلی کے بل میں ایک حصہ بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کو وجب الادا رقم ہوتی ہے جبکہ دوسری طرف براہ راست حکومتی محصولات ہوتے ہیں جو بجلی کے بل کے ذریعے صارف سے وصول کیے جاتے ہیں۔

بجلی کی قیمت کے علاوہ بل میں ایک اہم چیز فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ہے جو بجلی پیدا کرنے کے ذرائع یعنی ایندھن جیسا کہ کوئلہ، فرنس آئل یا گیس کی لاگت پر منحصر ہوتی ہے جس کا تخمینہ ہر ماہ لگایا جاتا ہے اور پھر صارف سے وصول کر لیا جاتا ہے۔

اس معاملے میں روپے کی قدر بھی اہمیت کی حامل ہے۔

دوسری جانب ’فنانسنگ کاسٹ سرچارج‘ کی مد میں فی یونٹ 0.43 پیسے صارفین سے وصول کیے جاتے ہیں جو دراصل گردشی قرضے کو کم کرنے کے لیے لگایا گیا ہے۔ کے الیکٹرک کی جانب سے جارہ کردہ بلوں میں یہ رقم ’پی ایچ ایل ہولڈنگ‘ کے نام پر لی جاتی ہے

اسی طرح سہ ماہی یا ’کوارٹرلی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ‘ یا ’ڈی ایم سی‘ کی مد میں بھی صارفین سے اس وقت پیسے وصول کیے جاتے ہیں جب حکومت بجلی کی قیمت میں رد و بدل کرتی ہے

دوسری جانب چند اخراجات یا ٹیکس ایسے ہیں جو براہ راست حکومت کی جانب سے عائد کیے جاتے ہیں اور ان کا بجلی فراہم کرنے والی کمپنی سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہوتا

اگر ہم مثال کے طور پر لیے جانے والے بل کی بات کریں تو اس میں سب سے زیادہ ٹیکس جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں وصول کیا جا رہا ہے جو 18 فیصد کے حساب سے 5768 روپے ہے

اس کے علاوہ اگر آپ ٹیکس فائلر نہیں ہیں، تو بجلی کے بل میں انکم ٹیکس بھی لگ کر آئے گا

اوپر مذکور صارف کے بل میں انکم ٹیکس کی مد میں 2836 روپے درج کیے گئے ہیں

انکم ٹیکس کی بجلی کے بلوں کی ذریعے وصولی بھی ایک متنازع عمل ہے کیوںکہ جس صارف نے بی بی سی بات کی ان کے مطابق وہ خود تو ٹیکس فائلر ہیں لیکن جن مالک مکان کے نام پر بجلی کا میٹر ہے، ان کی وفات کو کئی برس بیت چکے ہیں۔

واضح رہے کہ 25 ہزار روپے سے زیادہ کے بجلی کے بل پر ہی انکم ٹیکس لگتا ہے اور یہ مجموعی بل کی لاگت کا ساڑھے سات فیصد ہوتا ہے۔

اسی طرح حکومت دو اور مدوں میں بھی صارف سے براہ راست پیسے وصول کرتی ہے جن میں سے ایک تو فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے اوپر لگایا جانے والا جی ایس ٹی ہے اور دوسرا ٹی وی فیس ہے۔

یوں زیر غور بل میں حکومتی محصولات مجموعی طور پر 8834 روپے بن جاتے ہیں۔

ایسے میں جب ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ ’بجلی کا بل راتوں کی نیند اڑانے کے لیے کافی ہے‘ تو شاید انھوں نے ملک کی اکثریت کی ترجمانی کی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close