بھارت میں اقلیتوں پر بھارتی حکومت کے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والی معروف سماجی کارکن ارُن دھتی رائے نے جی-20 اجلاس کے لیے بھارتی حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے
نئی دہلی کو اس جی-20 اجلاس کے لیے خوبصورت سے آراستہ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر متنازع اقدامات کیے گئے ہیں اور کئی کچی آبادیوں اور جھونپڑیوں کو زمین بوس کر دیا گیا ہے اور وہاں رہنے والوں کو دوسری جگہ منتقلی پر مجبور کیا گیا ہے
نئی دہلی شہر میں جا بجا دیواروں پر کنول کے پھولوں کے ساتھ ساتھ بھارتیا جنتا پارٹی (بی جے پی)کے پارٹی کے انتخابی نشان کا رنگ و روغن کیا گیا ہے جبکہ شہر بھر میں مودی کی تصویر کے حامل بڑے بڑے بل بورڈز لگائے گئے ہیں
اس تناظر میں معروف مصنف اور سماجی کارکن ارُن دھتی کہتی ہیں ”آپ یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ اس تقریب کی میزبانی بھارتی حکومت نہیں بلکہ بھارتیا جنتا پارٹی کی حکومت کر رہی ہے۔“
جی-20 اجلاس کے حوالے سے الجزیرہ کو دیے گئے انٹرویو میں اُرن دھتی رائے نے کہا ”اس کانفرنس میں شرکت کرنے والوں میں سے کسی کو بھی اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ بھارت میں اقلیتوں سے کیا سلوک ہوتا ہے بلکہ ہر کوئی یہاں تجارتی اور عسکری معاہدوں کے لیے آیا ہے“
ان کا کہنا تھا ”ایسا نہیں ہے کہ یہاں آنے والا کوئی شخص یا سربراہانِ مملکت نہیں جانتے کہ بھارت میں کیا چل رہا ہے، بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے، امریکا، برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک میں مین اسٹریم میڈیا اس پر بہت تنقید کرتا رہا ہے لیکن حکومتوں کا یکسر مختلف ایجنڈا ہوتا ہے تو میرا نہیں خیال کہ یہاں آنے والوں میں سے کسی کو بھی اس بات سے کوئی فرق پڑتا ہوگا“
ارُن دتی رائے نے کہا ”یہاں آنے والا کوئی بھی عالمی رہنما بھارت میں اقلیتوں سے کیے جانے والے سلوک پر ایک لفظ تک نہیں بولے گا، دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ بھارتی حکومت سے زیادہ بھارتیا جنتا پارٹی کی میزبانی میں ہونے والی کانفرنس لگتی ہے کیونکہ ہر ایک بینر پر کنول کا پھول ہے جو بھارتیا جنتا پارٹی کا انتخابی نشان ہے“
ان کا کہنا تھا ”جو کچھ بھارت میں ہو رہا ہے وہ بھارت کے لیے خطرناک ہے۔ بھارتیا جنتا پارٹی کو ہی ملک، قوم، حکومت اور اس کے ادارے بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور صرف ایک فرد مودی کو بھارتیا جنتا پارٹی بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، درحقیقت کوئی حکمران جماعت ہے ہی نہیں بلکہ صرف ایک حکمران ہے تو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مودی جی-20 کی میزبانی کر رہے ہیں“
ممتاز دانشور کا کہنا تھا ”ہم سب کو بند کر دیا گیا ہے، کوئی گھر سے باہر نہیں جا سکتا، غریبوں کو شہر سے نکال دیا گیا ہے، جھونپڑیوں اور کچی آبادیوں کا صفایا کر دیا گیا ہے، سڑکوں پر پہرا ہے اور ٹریفک غائب ہے، یہ موت کا منظر ہے، اس سب سے ایسا لگتا ہے کہ انہیں ہم سب سے شرم آتی ہے، یہ شہر جیسا ہے انہیں اس بات سے شرم آتی ہے، ایک کانفرنس کے لیے پورے شہر کو بند کردیا گیا ہے۔“
یاد رہے کہ جی20 اجلاس 9 سے 10 ستمبر تک نئی دہلی میں منعقد ہو رہا ہے
بتایا جارہا ہے کہ جی 20 اجلاس میں شرکت کے لیے آنے والوں کی ٹرانسپورٹیشن کے لیے لگژری گاڑیوں کی قلت ہو گئی۔ بی ایم ڈبلیو اور مرسیڈیز جیسی تقریباً 500 لگژری کاروں کی ضرورت تھی۔ چونکہ دہلی میں ایسی لگژری کاروں کی کمی ہے، جنہیں کرائے پر دیا جاسکے، لہٰذا آس پاس کے شہروں سے لگژری کاروں کا انتظام کیا گیا
لگژری کاروں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کئی کار ایجنسیوں نےنئی گاڑیاں بھی خریدیں
اجلاس کے موقع پر پورے شہر کو دلہن کی طرح سجا دیا گیا تھا۔ چمچماتی سڑکیں اور ان کے کنارے پھولوں کے گملے اور پھر جگہ جگہ بل بورڈز، بیسیوں ممالک کے رنگ برنگے پرچم نے نئی دہلی کا جیسے نقشہ ہی بدل دیا
بہت سے لوگ اس بات سے نالاں نظر آئے کہ دہلی کی اصل تصویر دنیا سے چھپا لی گئی ہے اور سڑکوں کے کنارے خوانچہ فروشوں کے ٹھکانوں کو ہٹا دیا گيا ہے جبکہ کچی آبادیوں کو نظر سے اوجھل کر دیا گیا ہے۔ معروف صحافی رویش کمار نے اس بابت اپنا ایک پروگرام تک پیش کیا ہے۔
انڈین میڈیا کے مطابق سکیورٹی کے ایسے انتظامات پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے اور دہلی میں تین دنوں جمعہ، سنیچر اور اتوار کو عام تعطیل کا اعلان کیا گیا جبکہ نئی دہلی کو جانے والے بہت سے راستوں پر آٹو رکشہ وغیرہ کی آمد پر غیر اعلانیہ پابندی رہی
خبر رساں ادارے اے این آئی کی رپورٹ کے مطابق اس موقعے پر مہمانوں کو سونے چاندی کے قلعی کیے گئے برتنوں میں انڈیا کی مختلف ڈشز پیش کی گئیں
ایک ہندی زبان کی ویب سائٹ نے تاج پیلس کے 120 شیف کی ٹیم کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان کے یہاں مہمانوں کے لیے 500 اقسام کے پکوان پیش کیے جا رہے ہیں اور اس پر مہینوں سے غور خوض کیا جا رہا تھا
سوشل میڈیا اس معاملے میں بھی بٹا ہوا نظر آ رہا ہے۔ بہت سے لوگ جہاں انڈیا کی میزبانی اور تیاریوں کی تعریف کر رہے ہیں وہیں بہت سے لوگ اسے تنقید کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں۔
رویش کمار نے اپنے پروگرام میں کہا ”ایک غریب دیش کسی کو چاندی کی تھال میں کھلا کر مہمان نوازی کا کون سا معیار قائم کرنا چاہتا ہے“
بہت سے صارفین نے بھوکے بچوں کی تصاویر کے ساتھ سونے چاندی کی تھال میں مہمانوں کی خاطر مدارات کا ذکر کیا
صحافی رفعت جاوید نے لکھا ”انڈیا کی اَسی کروڑ آبادی پانچ کلو مفت اناج کی فراہمی پر گزر بسر کرتی ہے کیونکہ وہ انتہائی غربت و افلاس میں زندگی گزار رہے ہیں، لیکن مودی حکومت کے ترجیحات جی-20 کے مندوبین کو سونے اور چاندی کے برتن میں کھانا پیش کرنا ہے۔“