پیپلز پارٹی کے جیالے خاندان کا خالد جاوید، جو عمران خان کا مقدمہ لڑ رہا ہے!

اسلام آباد – وزیراعظم عمران خان نے جب قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کی تجویز صدر پاکستان کو بھجوانے کا فیصلہ کیا، تو پاکستان کے ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ خالد محمود نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل کے اس فیصلے کے بعد یہ قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں کہ اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید بھی مستعفی ہو جائیں گے، تاہم جس روز یہ چہ میگوئیاں گردش کر رہی تھیں، اُسی شام وہ سپریم کورٹ پہنچ گئے اور حکومتی فیصلوں کا دفاع کرتے نظر آئے

کراچی کے سیاسی گھرانے سے تعلق رکھنے والے اٹارنی جنرل خالد جاوید نے قانون کی تقریباً تمام تعلیم بیرون ملک سے حاصل کی ہے۔ انہوں نے کوئین میری یونیورسٹی لندن سے ایل ایل بی، آکسفورڈ یونیورسٹی سے بی سی ایل (بیچلر آف سول لا)، ہاورڈ یونیورسٹی سے ایل ایل ایم اور لِنکنز اِن سے بار ایٹ لا کیا ہے

خالد جاوید خان کا کیریئر تقریباً تین دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ انہوں نے سنہ 1991ع میں ہائی کورٹ کے وکیل کے طور پر اِن رول کیا اور سنہ 2004ع میں سپریم کورٹ کے وکیل بنے. وہ آئین، انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس، کسٹم، زمینی معاملات، بینکنگ قانون اور سروس قوانین سمیت قانون کے وسیع شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں

خالد جاوید اور ان کے خاندان کا ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی سے گہرا تعلق رہا ہے۔ اُن کے والد نبی داد خان المعروف این ڈی خان اور والدہ شمیم این ڈی خان کا شمار کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بنیادی اراکین میں ہوتا ہے۔ جب جنرل ضیاءالحق نے مارشل لا نافذ کیا تو خالد جاوید کے والد اور والدہ ان چند لوگوں میں سے تھے، جو پابند سلاسل ہوئے

سنہ 1988ع میں جمہوریت کی بحالی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد پروفیسر این ڈی خان بینظیر بھٹو کی کابینہ میں وزیر قانون و انصاف کے منصب پر فائز رہے۔ بینظیر کے دوسرے دور حکومت یعنی سنہ 1993ع سے سنہ 1996ع کے دوران نوجوان خالد جاوید نے اٹارنی جنرل آف پاکستان کے قانونی مشیر کے طور پر خدمات انجام دیں اور انہیں فخرالدین جی ابراہیم اور اقبال حیدر کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ وہ ممبر نجکاری کمیشن بھی رہے اور اس وقت اقوام متحدہ جانے والے حکومتی وفد میں بھی شامل تھے

جنرل پرویز مشرف کے خلاف جب وکلا نے تحریک کا آغاز کیا تو وہ اس میں عملی طور پر تو متحرک نظر نہیں آئے، باوجود اس کے کہ اس تحریک کا زیادہ زور کراچی میں ہی تھا، تاہم انہوں نے اس تحریک کی حمایت میں اخبارات میں کالم ضرور لکھے تھے

سنہ 2008ع میں جب پاکستان پیپلز پارٹی کی وفاق اور سندھ میں حکومت قائم ہوئی تو ان کی سوتیلی والدہ نرگس این ڈی خان کو خواتین کی مخصوص نشت پر رکن سندھ اسمبلی منتخب کیا گیا اور بعدازاں وہ صوبائی وزیر کے منصب پر بھی فائز رہیں۔ اس سے اگلے انتخابات یعنی 2013ع میں خالد جاوید کی اہلیہ ارم خالد مخصوص نشست پر رُکن صوبائی اسمبلی رہیں اور اسی سال جون میں خالد جاوید کو ایڈووکیٹ جنرل آف سندھ تعینات کیا گیا، لیکن ایک سال کے عرصے میں وہ اختلاف رائے کی وجہ سے مستعفی ہو گئے، تاہم اُن کی اہلیہ نے اسمبلی میں اپنی مدت پوری کی تھی

خالد جاوید نے سنہ 2018ع میں پیپلز پارٹی کو سینیٹر کے ٹکٹ کے لیے بھی درخواست بھی دی تھی

موجودہ حکومت نے خالد جاوید کو کیپٹن ریٹائرڈ انور منصور خان کے مستعفی ہونے کے بعد اٹارنی جنرل آف پاکستان تعینات کیا گیا تھا۔ پاکستان بار کونسل نے انور منصور خان سے سپریم کورٹ کے ججز کے حوالے سے کیے گئے کچھ تبصروں پر استعفے کا مطالبہ بھی کیا تھا

تحریک انصاف کے لائرز فورم اور حامد خان سمیت متعدد رہنماؤں نے بھی خالد جاوید کی بطور اٹارنی جنرل آف پاکستان تعیناتی کی مخالفت کی تھی اور انہیں ’جیالا‘ اور سابق صدر ’آصف علی زرداری کا ساتھی‘ بھی قرار دیا تھا۔ اور شاید یہی وجہ تھی کہ اُن کی تقرری کا نوٹیفیکیشن تاخیر سے جاری کیا گیا تھا

سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے بارے میں صدارتی ریفرنس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ میں شامل چند ججوں کے خلاف متنازع بیان دینے پر انور منصور سے استعفیٰ لے لیا گیا تھا۔ خالد جاوید نے اٹارنی جنرل بننے کے بعد اس مقدمے میں وفاق کی نمائندگی کرنے سے معذرت کی تھی

اس وقت بینچ کے سربراہی موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کر رہے تھے۔ خالد جاوید نے عدالت کو بتایا تھا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کے معاملے میں انہیں ’مفادات کے ٹکراؤ‘ کا سامنا ہے، جس کی بنا پر وہ اس معاملے سے علیحدہ ہو رہے ہیں

سپریم کورٹ میں ان کے دور میں کراچی میں تجاوزات، میاں نواز شریف کے بیرون ملک علاج، پیکا قانون، کلبھوشن یادو، فلور کراسنگ جیسے مقدمات زیر سماعت رہے

اب وہ بطور اٹارنی جنرل آف پاکستان، اپنا آخری مقدمہ لڑنے کے لیے میدان میں ہیں

خالد جاوید موجودہ صورتحال میں وفاق کی جانب سے سپریم کورٹ میں یہ یقین دہانی کرا چکے تھے کہ کوئی بھی غیر آئینی اقدام نہیں اٹھایا جائے گا

سپریم کورٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی اور دیگر پارٹی کی نمائندگی کر رہے ہیں اور ان کے مدمقابل خالد جاوید ہیں، جن کے ماضی کے تعلقات کی وجہ سے اب پیپلز پارٹی کی قیادت ان سے شکوہ کرتی ہوئی نظر آتی ہے

پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کے صدر سینیٹر نثار احمد کھڑو نے کہا ہے کہ اٹارنی جنرل پاکستان بیرسٹر خالد جاوید خان کی جانب سے عمران خان کی حمایت کرنا ’افسوسناک‘ ہے۔ ان کے بقول ”جمہوریت دوست خاندانی پس منظر ہونے کے باوجود آئین پر حملے کی حمایت اپنے بزرگوں کی جدوجہد کی توہین ہے“

جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر کے ریٹائرمنٹ پر ہونے والی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ آئین کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس سے قبل اُن کا مستعفی ہونے کا ارادہ تھا، مگر اُن کے مطابق اِن حالات میں استعفے کا مطلب میدان چھوڑ کر فرار ہونا ہوتا

سپریم کورٹ میں منگل کو سماعت کے موقع پر انہوں نے یہ بھی واضح کر دیا کہ بطور اٹارنی جنرل اُن کا یہ آخری مقدمہ ہے

ان کا یہ مقدمہ آخری سہی، لیکن پاکستان کی جمہوری اور آئینی و پارلیمانی تاریخ کا اہم مقدمہ بھی ہے، جس نے مستقبل کی راہیں اور آنے والے وقتوں کے لیے مثالیں بھی متعین کرنی ہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close