اگر ’ہائبرڈ سسٹم‘ کی اصطلاح کی تیکنیکی وضاحت کی جائے تو اس سے مراد متعدد پاور ذرائع پر مشتمل ایک نظام ہے، ان پاور ذرائع میں فوٹو وولٹک، ونڈ، مائیکرو ہائیڈرو جنریٹرز، انجن سے چلنے والے جنریٹرز اور دیگر شامل ہو سکتے ہیں۔ اس تیکنیکی اصطلاح کو جب سیاسی طور پر برتا جائے تو اسے سمجھنے کے لیے آپ صرف یہ کریں کہ اوپر مذکور توانائی کے ذرائع کی جگہ چند سیاسی شخصیات اور جماعتوں کو رکھ لیں
ان دنوں پاکستان میں سیاسی ہائبرڈ سسٹم کی بات ہو رہی ہے۔ ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کی اصل تاریخ تو فی الحال کسی کو معلوم نہیں تاہم سیاسی پنڈت ہائبرڈ سسٹم کے تناظر میں ملکی اسٹیبلشمنٹ کے داؤ پیچ دیکھ کر یہ اندازے لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آخر وہ کسے اور کب تک برسر اقتدار لانا چاہتی ہے؟
الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے مبہم صورتحال کا سیدھا سا یہی مطلب لیا جا رہا ہے کہ یہ تاخیر عمران خان کی مقبولیت کم کرنے کے لیے مزید وقت حاصل کرنے کا ایک حربہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نادرا میں چئیرمین کی عہدے پر حاضر سروس فوجی افسر کی تعیناتی کی گنجائش نکالنے کے عمل کو بھی ’الیکشن سے قبل ضروری اقدامات‘ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے
پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین اور ان کے ساتھیوں کے خلاف پے در پے ہونے والی کارروائیاں بھی انہیں انتخابی عمل سے آؤٹ کروانے کے ایجنڈے کا حصہ قرار دی جا رہی ہیں اور ملک سے اب جانے والے بھی آنے کے اعلانات کر رہے ہیں
تو کیا اسٹیبلشمنٹ کی ترجیح ہائبرڈ سسٹم ہے؟ اس سوال کے جواب میں سیاسی تجزیہ کار حبیب اکرم کہتے ہیں ”یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں کچھ ایسی کوششیں ہو رہی ہیں، جن کا نتیجہ ہائبرڈ حکومت کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔ ملکی سیاسی منظرنامے پر ایسے مظاہر دیکھنے میں آ رہے ہیں، جس سے اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی حامی، ایک نیم سیاسی اور نیم جمہوری حکومت کو برسر اقتدار لانے کی کوششیں ہو رہی ہیں‘‘
صحافی اور کالم نگار عامر خاکوانی کو بھی یقین ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کی حکومت لانے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور ملک میں یہ تاثر عام ہے کہ مسلم لیگ نون کو لایا جا رہا ہے۔ ”شریف فیملی نواز شریف کو وزیر اعظم بنوانے کی خواہش مند ہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ کی پسند شہباز شریف ہیں۔‘‘ یعنی جی ڈی اے کی سائرہ بانو کے بقول ”انہیں رشتے کے لیے ’چھوٹی بہن‘ پسند آ گئی ہے“
جہاں تک ملک میں الیکشن کے انعقاد کا تعلق ہے تو عامر خاکوانی سمجھتے ہیں کہ پاکستان پر امریکہ، یورپی یونین اور آئی ایم ایف سمیت بہت سے بین الاقوامی اداروں کی طرف سے انتخابات کرانے کے لیے دباؤ ہے۔ وہ کہتے ہیں ”فی الحال عدالتوں کا موڈ بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے۔ اس کے علاوہ نگرانوں سے حالات سنبھالے نہیں جا رہے۔ اس لئے قوی امکان تو یہی ہے کہ پاکستان میں الیکشن ضرور ہوں گے اور الیکشن کو غیر معینہ یا طویل مدت کے لئے ملتوی نہیں کیا جا سکتا‘‘
حبیب اکرم کے مطابق اگر سیاسی جماعتوں کے موقف اور اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کو دیکھیں تو اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ الیکشن اگلے سال جنوری کے آس پاس ہوں گے
لیکن سوال انتخابات کے معیار کا بھی ہے۔ پاکستان میں ہونے والے انتخابات کیسے ہوتے ہیں، یہ کون نہیں جانتا۔۔ انتخابات میں دھاندلی عموماً تین طرح کی ہوتی ہے، جس میں پری پول یعنی الیکشن سے پہلے دھاندلی، الیکشن والے دن ہونے والی دھاندلی اور پوسٹ پول یعنی انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد دھاندلی شامل ہے۔ آخری قسم کی دھاندلی میں انتخابی نتائج تبدیل کیے جاتے ہیں
اس حوالے سے حبیب اکرم کا کہنا ہے ”پاکستان کا ماضی گواہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی کی حکومت بنواتی رہی ہے لیکن اس مرتبہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کام کے لئے دستیاب عناصر اکٹھے نہیں ہو پا رہے ہیں۔ ماضی میں جب حکومت ختم کی جاتی تھی تو عوام تو وہ اپنے اعمال کی وجہ سے اپنی مقبولیت کھو چکی ہوتی تھی۔ عوامی امنگیں اور اسٹیبلشمنٹ کی سوچ ہم آہنگ ہوتی تھیں۔ عدلیہ بھی ان حالات میں مددگار ہوتی تھی، اب ایسا کچھ بالکل بھی نہیں ہے۔ اب جھرلو پھیرنا آسان نہیں ہوگا۔‘‘
جبکہ عامر خاکوانی کا خیال ہے کہ آئندہ انتخابات کے دس فی صد بھی منصفانہ ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ”جب آپ ملک کے مقبول ترین لیڈر کو جیل میں ڈال دیں۔ عدالتوں کی ضمانتوں کو بھی نہ مانیں، الیکشن امیدوار توڑ لیں اور اپنے مخصوص انتخابی نشان کو بھی نہ لینے دیں تو کہاں کی شفافیت اور کون کرے گا ایسے انتخابنات کی ساکھ پر اعتبار۔‘‘
اس سوال پر کہ کیا پاکستان میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ حکومت آ سکتی ہے؟ زیادہ تر تجزیہ کاروں کا یہی خیال ہے کہ پاکستان میں کسی اینٹی اسٹیبلشمنٹ حکومت آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ان کے خیال میں کامیاب سیاسی جماعت خواہ کتنی ہی مقبول کیوں نہ ہو اسے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر ہی چلنا پڑتا ہے
حبیب اکرم کے مطابق ”پاکستان میں کوئی حکومت اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کی اور کوئی اسٹیبلشمنٹ اینٹی جمہوریت ہونے کی عیاشی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ بحرانوں میں گھرے ملک کی معاشی حالت کو سنوارنے کے لیے سب کو سب کی ضرورت رہے گی۔‘‘
عامر خاکوانی کا کہنا ہے کہ جو جماعتیں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ایجنڈے کے ساتھ آگے بڑھتی ہیں، انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، لیکن ان کے خیال میں عمران خان اینٹی اسٹیبلشمنٹ تو نہیں مگر وہ آئینی بالا دستی پر اصرار کر رہے ہیں۔