کالا باغ کے بارے سندھو نے بتایا؛ ”کالا پشتو زبان کا لفظ ہے مطلب گاؤں یا ڈھوک جبکہ باغ سے مراد باغ ہی ہے۔ کالا باغ یعنی باغ جیسا گاؤں۔ یہ قصبہ میرے مغربی کنارے تحصیل عیسیٰ خیل میں واقع ہے۔ سرائیکی اور ہند کو زبانیں بولی جاتی ہیں۔ لوگ سادہ، پردے کے پابند، غریب اور پس ماندہ ہیں۔ ہندوستان میں اسلام آنے کے بعد یہاں افغان قبیلہ ’کمبوہ‘ (بنی خیل خٹک) قابض ہوا تھا۔“
میانوالی (سابق) وزیر اعظم عمران خاں کا آبائی شہر ہے۔ پنجاب کا واحد شہر جو پہاڑی، ریگستانی اور میدانی علاقے پر مشتمل پنجاب اور خیبر پختون خواہ کی سرحد پر واقع ہے۔ پہلے ڈیرہ اسماعیل خاں اور اب سرگودھا ڈویژن میں شامل ہے۔ 1901ء کی مردم شماری کے مطابق کل آبادی 3500 (پنتیس سو افراد) اور 2019 ء کی مردم شماری کے مطابق 16 لاکھ چھپن ہزار نفوس آباد ہیں۔ اس شہر کے بہت سے نام رہے۔ دھنو رام، رام نگر، کرشنو رام وغیرہ۔ دریائے سندھ کی نسبت سے یہ ’کچھی‘ بھی کہلایا۔ بغداد سے آئے حضرت جلال الدین کے فرزند حضرت میاں علی ؒ کے نام کی نسبت سے یہ جگہ ’میاں علی دی بستی‘ کہلانے لگی جو بگڑ کر میانوالی بن گیا۔ یہاں آباد پٹھان تقریباً 700 سال پہلے افغانستان سے آئے۔ اکثریت کی زبان سرائیکی ہے جبکہ مکھنڈی حلوہ اور تلے دار چپل یہاں کی ثقافت کا اہم جزو ہیں۔ ’وادی نمل‘ (جہاں اب اعلی تعلیمی درس گاہ ’نمل یونیورسٹی‘ قائم ہے) کے علاوہ نمل جھیل، نمل ڈیم، چشمہ بیراج، جناح بیراج قابل ذکر تفریحی مقامات ہیں۔ پاک فضائیہ کے ’ایم ایم عالم ائیر بیس‘ کا شمار پاکستان ائے فورس کے اہم ترین ائر بیسز میں ہوتا ہے۔ شیر شاہ سوری کے دور کا ایک باؤلی (کنواں) ’واں بچھراں‘ نامی دیہات میں آج بھی موجود ہے۔ باؤلی فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں کنواں۔ بچھر ایک قوم ہے جو1560 ء کے لگ بھگ یہاں آباد ہوئی لہٰذا یہ جگہ واں بچھراں کہلائی۔ خوشی کی بات ہے کہ اس باؤلی کی مرمت کا کام شروع ہے۔ ایسے تاریخی ورثہ کو محفوظ کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
میانوالی ضلع کی تحصیل ’عیسیٰ خیل‘ کا اتری حصہ ’بھنگی خیل‘ سندھو اور ’خٹک‘ پہاڑ کے درمیان واقع ہے۔ اس حصہ میں کھیتی باڑی پہاڑ کی مسطح چوٹیوں یا دامن کوہ یا گہرے ندی نالوں کے کناروں کے چوبوتروں پر ہی ہوتی ہے۔ پہاڑ سے پھوٹتی ہوئی دو شاخوں میں سے مغربی شاخ جو میدانی یا خٹک نیازی کہلاتی ہے عیسیٰ خیل کے شمال مغرب میں کمان بناتی ہوئی تنگ درہ کے پاس ’خسور اور پنیالہ‘ کی پہاڑیوں کو چھوتی ’دریائے کرم‘ کے ساتھ ساتھ میانوالی تحصیل کی جنوبی سرحد کا کام دیتی ہے۔ دوسری شاخ جسے سندھو کی ایک تنگ دھار پہاڑ سے جدا کرتی جنوب مشرقی سمت میں میانوالی کے درمیان سے ہوتی ہوئی ’سیکسر‘ کے مقام پر کوہستان نمک سے جا ملتی ہے۔ ان دو شاخوں میں چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں اور ٹیلوں کے درمیان گھری ہوئی مسطح وادی کو چیرتا سندھو اپنی تنگ آبنائے میں کالا باغ کے مقام پر میدان میں داخل ہوتا اپنے ساتھ لائی ہوئی سینکڑوں مکعب فٹ مٹی کی چادر بچھاتا آگے کو بہتا ہے۔
عزیز کے ڈیرے سے کا لا باغ (22) بائیس کلو میٹر دور کوہ نمک کے پہاڑی سلسلہ میں واقع ہے۔ میانوالی میں ہمارا میزبان ”روکھڑی“ گاؤں کا رہنے والا درمیانے قد کا عبدالعزیز میرا انتہائی قابل اعتماد، نہایت وفادار اور پر خلوص ساتھی ہے۔ ایک دوسرا میزبان محمد اسماعیل ہے جو عارف طفیل کا پرانا کولیگ ہے وہ ہمیں نواب کالا باغ کے سفید محل اور سندھو میں موٹر بوٹ کی سیر کروائے گا۔ ہم سندھو کی کہانی لکھنے میانوالی کو رواں ہیں۔جمعہ کی نماز پڑھ کر موٹر وے سے سفر کرتے سالم انٹر چینج سے ہوتے چار گھنٹے میں روکھڑی پہنچ جائیں گے۔ انشا اللہ۔
شام ڈھلے مغرب کے وقت میانوالی عیسیٰ خیل روڈ پر لب سڑک واقع اس کے ڈیرے ’آرائیاں دا ڈیرہ‘ پہنچے ہیں۔عزیز کا خاندان مثالی خاندان ہے۔ آج بھی تایا، چچا اور پھوپھی زاد سبھی اکھٹے رہتے ہیں۔ زمیندارہ کرتے ہیں، خوشحال ہیں، مہمان نواز ہیں اور مہمان نوازی ویسے بھی میانوالی کے لوگوں کی پہچان ہے۔ اس کے چچا اور پھوپھی زاد بھائیوں اور بوڑھ کے درخت پر بیٹھی چوں چوں کرتی ان گنت چڑیوں نے ہمیں خوش آمدید کہا ہے۔ حویلی اور ڈیرہ ملحق ہیں۔صاف ستھری اور سلیقے سے سجی۔ گاؤں روکھڑی یہاں سے 2 کلو میٹر مغرب میں ہے۔ ٹھنڈے مشروبات سے ہماری تواضع شروع ہے۔ عزیز کے ڈیرے پر رکھے حقے نے لالہ جی کا ڈیرہ یاد دلا دیا ہے۔
باس کہنے لگے؛ ”تمھیں یاد ہو گا کچھ کسان اور دیہاتی اپنے پاس چھوٹے چھوٹے حقے اٹھائے کھیتوں یا چوپال کو جاتے نظر آتے۔ جہاں وقت ملتا حقے کے کش لگا کر کھیت یا محفل کے سکوت کو توڑنے سے گریز نہ کرتے۔ حقہ تہذیب کی عکاسی کرتا ہے۔ اس میں کائنات کے اہم عناصر پانی، مٹی، آگ، ہوا کو ایک دلکش سلیقہ سے اپنے ساتھ باندھ کر دیہات کی حیات کو دلآویز بنا رکھا تھا۔ اب شہروں میں نئی قسم کا حقہ (شیشہ) آ گیا ہے۔ اس میں ماسوائے پانی کے سب کچھ ہی مصنوعی ہے البتہ صحت کے لئے بھی یہ نہایت مضر بلکہ زہر ہے۔ مضر پرانے دور کا حقہ بھی تھا مگر نئے دور کا حقہ تو قاتل ہے۔رہی سہی کسر گاؤں میں موبائیل فون نے پوری کردی ہے۔اس کے عذاب نے ریت روایت کے سارے مہکتے گلاب خزاں آلود کر دئیے ہیں۔‘‘ میں نے جواب دیا؛”باس! پرانے دیہاتی حقے کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کرتے تھے۔کیا زمانہ تھا وہ؟کیا سادہ، مخلص لوگ تھے؟ کیا محبت تھی؟اب حقہ دیہات کی زندگی سے بھی تقریباً ختم ہی ہو چکا ہے۔“ مشتاق کہنے لگا؛”ابھی بھی زیادہ پس ماندہ دیہاتوں میں حقہ کا استعمال عام ہے کہ دور جدید کی خباثتیں ابھی وہاں نہیں پہنچی ہیں۔“ سندھو کی ایک بڑی لہر مشتاق کی بات کی تصدیق کر گئی ہے۔
حقے سے شروع ہوئی بات میرے گاؤں 295 گ ب بیریاں والا(تحصیل و ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ) میں پنچائت کی بیٹھک بھی یاد کرا گئی ہے۔ واہ گزرے زمانے تجھے کہاں تلاش کروں۔ تیری محبتیں، تیری سادگی، تیرا خلوص، تیرے انصاف کی کہانیاں، کہاں سب کچھ کھو گیا ہے۔واہ! بوڑھ کا وہ چھناور درخت بھی یاد آ گیا جس کے گرد پکی اینٹوں کے تھڑے(چبوترے) پر پنچائت کی بیٹھک منعقد ہوتی تو درخت کی گھنی چھاؤں میں سارا گاؤں بھی جمع ہوجاتا، لوگوں کے جھگڑوں کے فیصلے ہوتے، لین دین کے معملات طے ہوتے اور مجال کسی کو فیصلہ پر اعتراض کی جرأت کر سکے۔ بعض دیہاتوں میں تو پولیس بھی سر پنچ کی اجازت کے بغیر داخل نہ ہوتی تھی۔(سر پنچ کی عزت دار اور نہایت قابل احترام ہوتا تھا)میرے والد مرحوم بھی پنچ تھے جبکہ سرپنچ ایک سن رسیدہ، چٹی سفید داڑھی، نور سے لاٹیں مارتے چہرے والے، دبلے پتلے لمبے قد کے حاجی نور محمد تھے۔ چٹے ان پڑھ، سر پر عمامہ، کندھے پر رومال(پرنا) ہمیشہ سفید کرتا پہنتے اور اسی رنگ کی تہمد باندھتے تھے۔ رحم دل، فیاض، خوش اخلاق، اعلی ٰ ظرف لیکن جب انصاف کا ترازو تھامتے تو کیا مجال پلڑہ کسی سفارش، لالچ، رشتہ داری، دوستی کی طرف جھک سکے۔سارے پنچ بھی ایسے ہی تھے۔ میرے والد حضرت سلطان باہو ؒ کا ایک شعر اکثر مجھے سنایا کرتے تھے؛
عدل کریں تے تھر تھر کمبن اُچیاں شاناں والے ہو
کرم کریں تے بخشے جاوں میں ورگے منہ کالے ہو
ترجمہ؛ ”اے اللہ اگر تو انصاف کرے تو بڑی بڑی شان والے کانپنے لگیں۔ ہاں اگر تو رحم کرنے لگے تو میرے جیسے کالے منہ والے نا مراد گنہگار ر بھی بخشے جائیں۔ سبحان اللہ۔“
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔