شاہ زیب قتل کیس میں سپریم کورٹ کا شاہ رخ جتوئی کو ساتھیوں سمیت رہا کرنے کا حکم

ویب ڈیسک

سپریم کورٹ نے دس برس قبل کراچی میں شاہ زیب خان نامی نوجوان کے قتل کے مقدمے میں مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی سمیت تمام ملزمان کی سزاؤں کے خلاف اپیل منظور کرتے ہوئے انہیں مقدمے سے بری کرنے کا حکم دے دیا ہے

منگل کو کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی

سماعت کے دوران ملزمان کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ اس کیس میں فریقین کا پہلے ہی راضی نامہ ہوچکا ہے۔ ملزمان کا دہشت پھیلانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ قتل کے واقعے کو دہشت گردی کا رنگ دیا گیا

دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے ملزمان پر لگائی ہوئی انسداد دہشت گردی کی دفعات ختم کرتے ہوئے رہائی کا حکم دیا

یاد رہے کہ اس کیس میں ٹرائل کورٹ نے شاہ رخ جتوئی اور نواب سراج تالپور کو سزائے موت سنائی تھی، جبکہ نواب سجاد تالپور اور غلام مرتضٰی لاشاری کو عمر قید سنائی گئی تھی

بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ نے مارچ 2019 میں ٹرائل کورٹ کا فیصلہ تبدیل کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت چاروں ملزمان کو عمر قید سنا دی تھی

سندھ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف مجرمان کی جانب سے سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی تھی اور جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اس اپیل پر منگل کو فیصلہ سنایا

اس وقت بھی ملزمان کے وکیل کی جانب سے عدالت میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ فریقین میں صلح ہوگئی ہے، لیکن پروسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ دہشتگردی ایکٹ کے تحت فریقین صلح نہیں کر سکتے۔ جس کے بعد عدالت نے انہیں عمر قید کی سزا سنائی تھی

سپریم کورٹ کے باہر شاہ رخ جتوئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مقتول کے خاندان کی شاہ رخ جتوئی سے صلح ہو گئی تھی

ان کا کہنا تھا ”دونوں خاندانوں کے آپس میں تعلقات اچھے ہوگئے ہیں۔
مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ شاہ رخ قتل میں ملوث تھا یا نہیں، اب صلح ہوگئی ہے تو مزید بات نہیں کرنی چاہیے“

صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’جو مقدمہ بنا اس میں کوئی دہشتگردی کا عنصر نہیں تھا، سپریم کورٹ نے دفعہ سات اے ٹی اے عمر قید کی سزا کو کالعدم کرتے ہوئے انہیں بری کر دیا ہے‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ملزم 18 سال کا بچہ تھا، آپ نے کہا کہ وکٹری کا سائن دکھایا ہے۔ چیف جسٹس نے ان سے پچھلی مرتبہ پوچھا کہ آپ نے بنایا تھا تو اُنھوں نے کہا کہ میں بچہ تھا۔ تو 18 سال وغیرہ کے بچوں کو اصلاح کا موقع دینا چاہیے۔‘

سوشل میڈیا پر ردِ عمل کے بارے میں اُنھوں نے کہا کہ آپ جانیں اور آپ کا سوشل میڈیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ’سچ کا ساتھ دیا جانا چاہیے، فیصلہ ہونے سے پہلے کسی کا ٹرائل کر دیا جاتا ہے اور اسے داغدار کر دیا جاتا ہے‘

ملزمان نے عمر قید کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کی تھیں

شاہ زیب خان کو 24 دسمبر 2012 کی شب کراچی کے ڈیفنس کے علاقے میں شاہ رخ جتوئی اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ تلخ کلامی کے بعد فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔
2017 میں شاہ زیب خان کے والدین نے قصاص اور دیت کے بدلے صلح نامے کے بعد شاہ رخ جتوئی کو معاف کر دیا تھا، جس کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا تھا

فروری 2018 میں سپریم کورٹ نے اس مقدمے سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے بعد سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے اس مقدمے میں ملوث چاروں مجرمان کو دوبارہ گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد انہیں دوبارہ حراست میں لے لیا گیا تھا

مقدمے کا پس منظر اور روداد

شاہ زیب خان قتل کیس کی ایف آئی آر کے مطابق بڑی بہن کے ولیمے سے واپسی پر فلیٹ کے نیچے شاہ زیب خان کی بہن سے مرتضیٰ لاشاری نے بدتمیزی کی جس کے بعد فریقین میں تلخ کلامی ہوئی اور فائرنگ کے نتیجے میں شاہ زیب خان مارے گئے۔ اس مقدمے میں شاہ رخ جتوئی، اس کے دوست نواب سراج تالپور، سجاد تالپور اور ان کے ملازم مرتضیٰ لاشاری کو نامزد کیا گیا تھا۔

ملزمان کی گرفتاری کے عمل میں نہ آنے کے بعد کراچی کے سماجی کارکنان کی جانب سے سوشل میڈیا پر ‘جسٹس فار شاہ زیب خان’کے نام سے مہم چلائی گئی جبکہ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی اس کا ازخود نوٹس لیا تھا، جس کے بعد مفرور شاہ رخ خان کو دبئی، نواب سراج تالپور کو نوشہرفیروز اور دیگر ملزمان کو سندھ کے دیگر علاقوں سے گرفتار کیا گیا تھا

جون 2013 میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی سمیت دو ملزمان کو سزائے موت جبکہ دو کو عمر قید کی سزا دینے کا حکم دیا تھا

بعدازاں سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے مقدمے سے انسداد دہشت گردی کی دفعات ختم کر کے ماتحت عدالت کو مقدمے کی دوبارہ سماعت کی ہدایت کی تھی

انسداد دہشت گردی کی عدالت میں بھی اس مقدمے کی سماعت کے دوران مقتول شاہ زیب خان کے والد ڈی ایس پی اورنگزیب خان اور والدہ عنبرین اورنگزیب نے عدالت میں ایک حلف نامہ پیش کیا تھا، جس میں انھوں نے ملزمان کو معاف کرنے کی آگاہی دی تھی

تاہم اس وقت مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل ہونے کی وجہ سے ملزمان کو معافی نہیں مل سکی تھی۔ سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے انسداد دہشت گردی کی دفعات کے خاتمے کے بعد یہ جرم قابل معافی بن گیا تھا

2017 میں شاہ زیب خان کے والدین نے قصاص اور دیت کے قانون کے تحت صلح نامے کے بعد ملزم شاہ رخ جتوئی کو معاف کر دیا تھا جس کے بعد انھیں رہا کر دیا گیا تھا

تاہم فروری 2018 میں سپریم کورٹ نے اس مقدمے سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے بعد اس مقدمے میں ملوث چاروں مجرمان کو دوبارہ گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد انھیں دوبارہ حراست میں لے لیا گیا تھا

خیال رہے کہ پاکستان کے قانون میں قتل کی سزا موت یا عمر قید ہے لیکن اس میں اگر مدعی چاہے تو ملزمان کو معاف بھی کر سکتا ہے جبکہ انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج ہونے مقدمات میں صلح کی راستہ موجود نہیں ہے کیونکہ ان دفعات کے تحت درج ہونے والے مقدمات میں ریاست مدعی ہوتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close