ارب پتی کاروباری شخصیت ایلون مسک کے برین-چِپ اسٹارٹ اپ نیورو ٹیکنالوجی کمپنی ’نیورا لنک‘ نے تصدیق کی ہے کہ انہیں اپنی تیار کردہ کمپیوٹر چِپ/ ڈیوائس کو مفلوج افراد کے دماغ میں داخل کر کے اسے آزمانے کے لیے بیمار افراد کو بھرتی کرنے کی منظوری مل گئی ہے
’نیورا لنک‘ کو رواں برس مئی میں امریکا کے ’فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن‘ (ایف ڈی اے) نے مذکورہ چِپ آزمانے کی اجازت دی تھی
ایف ڈی اے کی منظوری کے بعد کمپنی نے بیمار اور مفلوج افراد کو آزمائش کے لیے بھرتی کرنے کے لیے ایک تحقیقاتی بورڈ میں درخواست دی تھی، جس نے اب کمپنی کو معذور افراد بھرتی کر کے آزمائش شروع کرنے کی اجازت دے دی ہے
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ’نیورا لنک‘ نے 20 ستمبر کو تصدیق کی کہ انہیں فالج، ریڑھ کی ہڈی اور دیگر اعصابی اور دماغی بیماریوں میں مبتلا افراد کو آزمائش کے لیے بھرتی کرنے کی اجازت مل گئی
نیورا لنک کا کہنا ہے کہ ایسے افراد جو سروائکل اسپائنل کورڈ انجری یعنی ریڑھ کی ہڈی کے متاثر ہونے یا amyotrophic lateral sclerosis کی وجہ سے مفلوج ہوئے ہیں، وہ اس تحقیق میں شریک ہونے کے اہل ہو سکتے ہیں
مزید برآں کمپنی کے مطابق تیار کردہ کمپیوٹرائزڈ چپ کو ریڑھ کی ہڈی، فالج اور دیگر اعصابی اور دماغی بیماریوں میں مبتلا افراد کے دماغ کے اس حصے میں نصب کیا جائے گا، جو انسانی جسم کو حرکت کرنے کی ہدایات جاری کرتا ہے، یعنی روبوٹ کے ذریعے دماغ کے ایسے حصے میں برین-کمپیوٹر انٹرفیس (بی سی آئی) امپلانٹ لگایا جائے گا، جو حرکت کرنے کے ارادے کو کنٹرول کرتا ہے
کمپنی کا مزید کہنا تھا کہ اس کا ابتدائی مقصد لوگوں کو اپنے خیالات کا استعمال کرتے ہوئے کمپیوٹر کرسر یا کی بورڈ کنٹرول کرنے کے قابل بنانا ہے
مذکورہ چپ کو ’برین کمپیوٹرانٹرفیس‘ (بی سی آئی) کا نام دیا گیا ہے، جو ایک ننھے روبوٹ کی طرح کام کرے گی، لیکن اس کی ساخت موبائل سم کی طرح ہوگی، جو مفلوج انسان کے دماغ کو کمپیوٹر کے کی بورڈ کی طرح کام کرنے میں مدد فراہم فراہم کرے گی
یعنی جس مفلوج انسان کے دماغ میں مذکورہ چپ نصب کی جائے گی، وہ قدرتی طور پر صحت مند انسان کی طرح جسم کے ان حصوں کو بھی حرکت میں لانے کے قابل ہوگا، جو بیماری کی وجہ سے مفلوج ہوں گے
مثال کے طور پر فالج کے مریض چِپ نصب ہونے کے بعد اپنی مفلوج ٹانگ اور پاؤں کو بھی حرکت میں لانے کے قابل ہو جائیں گے
کمپنی کے مطابق آزمائشی پروگرام کے لیے بھرتی کیے جانے والے افراد پر چھ سال تک تحقیق ہوگی، تاہم ابھی تک یہ سامنے نہیں آ سکا ہے کہ ایف ڈی اے نے ڈیوائس کی آزمائش میں کتنے مریضوں کو شامل کرنے کی اجازت دی ہے
کمپنی کے موجودہ اور سابق ملازمین کے مطابق کمپنی کو پہلے دس مریضوں میں اپنی ڈیوائس نصب کرنے کی منظوری کی امید تھی، لیکن امریکہ کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن(ایف ڈی اے) کی جانب سے حفاظتی خدشات اٹھائے جانے کے بعد کمپنی نے ایجنسی سے کم مریضوں کی تعداد پر مذاکرات کیے تھے
جبکہ کچھ حلقوں کے مطابق امکان ہے کہ پروگرام کے لیے کم از کم تین درجن افراد کی خدمات حاصل کی جائیں گی، جن پر ممکنہ طور پر آئندہ برس سے آزمائش شروع کی جائے گی اور اس آزمائشی پروگرام کے ابتدائی نتائج ایک سال بعد جاری کیے جانے کا امکان ہے، تاہم اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے
واضح رہے کہ نیورا لنک’ ٹوئٹر کے مالک ایلون مسک کی کمپنی ہے، جسے 2016 میں بنایا گیا تھا، اس کمپنی کا مقصد ایسی کمپیوٹرائزڈ چپ تیار کرنا ہے، جنہیں انسانی دماغ اور جسم میں داخل کر کے انسان ذات کو بیماریوں سے بچانا ہے
اسی کمپنی نے 2020 میں تیار کردہ کمپیوٹرائزڈ چپ کو جانوروں کے دماغ میں داخل کرکے اس کی آزمائش بھی کی تھی اور پھر کمپیوٹرائزڈ چپ والے جانوروں کو دنیا کے سامنے بھی پیش کیا گیا تھا
نیورا لنک کی جانب سے بنائی گئی مذکورہ چپ کسی چھوٹے سکے کی سائز کی ہے اور وہ انتہائی پتلی ہے، جسے کسی بھی جاندار کے دماغ میں نصب کرکے اسے وائرلیس سسٹم کے ذریعے اسمارٹ فون سے منسلک کیا جاسکے گا
مذکورہ چِپ فالج، انزائٹی، ڈپریشن، جوڑوں کے شدید درد، ریڑھ کی ہڈی کے درد، دماغ کے شدید متاثر ہوکر کام چھوڑنے، نابینا پن، سماعت گویائی سے محرومی، بے خوابی اور بے ہوشی کے دوروں سمیت دیگر بیماریوں اور مسائل کو فوری طور پر حل کرنے میں مدد فراہم کرے گی
مذکورہ چپ کو موبائل فون کے سم کارڈ کی طرح ایسے سسٹم سے بنایا گیا ہے، جو سگنل کی مدد سے اسے اسمارٹ فون سے منسلک کرے گا اور پھر فون کے ذریعے مذکورہ چیزیں شامل کی جا سکیں گی اور چپ سے چیزیں نکالی بھی جا سکیں گی
مذکورہ چِپ انسانی خیالات کا ریکارڈ بھی جمع کرے گی، جب کہ انسان کی یادداشت کو بھی محفوظ رکھ سکے گی
چِپ میں محفوظ انسانی یادداشت کو کمپیوٹر یا موبائل کے ذریعے کسی بھی وقت ری پلے کیا جا سکے گا یا کسی بھی وقت ماضی میں گزرے دنوں کو اسکرین پر ڈیٹا کی صورت میں لایا جا سکے گا
ایلون مسک نیورا لنک کے لیے بڑے عزائم رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے موٹاپے، آٹزم، ڈپریشن، اسکٹزوفرینیا جیسی حالات کا علاج کرنے کے لیے ان کی چپ ڈیوائسز کی تیزی سے جراحی اندراج کی سہولت فراہم ہوگی
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بی سی آئی ڈیوائس انسانی استعمال کے لیے محفوظ ثابت ہوجاتی ہے تب بھی اس کے تجارتی استعمال کی منظوری حاصل کرنے میں اسٹارٹ اپ کو ممکنہ طور پر ایک دہائی سے زیادہ کا وقت لگ سکتا ہے۔