پاکستان اور اس کے ہمسایہ ملک ایران کے مابین دوطرفہ تجارت کا حجم دو ارب ڈالر سالانہ سے زائد ہے۔ پاکستان اپنے اس پڑوسی کو چاول اور دیگر مصنوعات فروخت کرتا ہے جبکہ بلوچستان کے سرحدی علاقے میں رہنے والے لوگ سستے داموں ایرانی خوراک، ایندھن اور دیگر سامان خرید کر پیسوں کی بچت کرنے کی کوشش کرتے ہیں
پاکستان کے بندرگاہی شہر گوادر میں مقیم ایک تاجر اور سیاست دان رحیم ظفر کے مطابق ایران اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں "بارٹر سسٹم” یعنی اشیاء کے بدلے اشیاء کے تبادلے کی بھی روایت ہے۔ رحیم ظفر کے مطابق ایرانی سیمنٹ، اسٹیل، پھلوں، خشک دودھ، کوکنگ آئل اور دیگر کئی اشیاء کا پاکستانی چاولوں سے تبادلے کا سلسلہ کئی دہائیوں پرانا ہے
رحیم ظفر بتاتے ہیں ”ماضی میں سرحدیں کھلی ہوتی تھیں اور لوگ صرف اشیا کے تبادلے کے لیے ایرانی علاقے میں جا سکتے تھے۔ اب حکام نے دونوں ممالک کے درمیان 904 کلومیٹر طویل سرحد کے زیادہ تر حصے پر ایک حفاظتی باڑ لگا دی ہے۔ جس نے اشیاء کے بدلے اشیاء کی تجارت کرنا مشکل بنا دیا ہے۔“
ان کا کہنا ہے کہ ابھی حال ہی میں پاکستانی حکام نے ایران کی طرف سے اشیاء درآمد کرنے والے تاجروں پر بھی پابندیاں لگانا شروع کر دی ہیں
واضح رہے کہ پاکستانی بری فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے اس ماہ کے شروع میں غیر رسمی زرمبادلہ کی منڈی پر ’کریک ڈاؤن‘ کرنے کے لیے ایک آپریشن کا اعلان کیا تھا۔ پاکستانی حکام نے ایران کے ساتھ اپنی سرحد پر غیر رسمی تجارت روکنے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔ اس میں بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں رہنے والی بلوچ آبادی اور ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان میں سرحد پار رہنے والے ان کے رشتہ داروں کے درمیان سامان کا تبادلہ بھی شامل ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ سرحدی علاقوں کے لوگ روزگار کے روایتی طور پر موجود مقامی اور قدیمی وسائل پر ہی انحصار کرتے ہیں، پون صدی گزرنے کے بعد بھی حکومتی سطح پر ان کو روزگار کا کوئی وسیلہ فراہم نہیں کیا گیا
تاجروں اور سیاستدانوں کا کہنا تھا کہ حکومت نے ایران سے تیل، سیمنٹ، ڈیزل، پھل، سبزیاں، کوکنگ آئل، خشک دودھ، بسکٹ، کھجوریں اور دیگر اجناس درآمد کرنے والے پاکستانی تاجروں کے گرد شکنجہ کسا ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے نہ صرف بعض ایرانی اشیاء کی قلت پیدا ہوئی بلکہ بہت سی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ آسمان چھونے کو پہنچ گیا
بلوچستان پاکستان کا سب سے کم ترقی یافتہ صوبہ ہے اور اس طرح یہاں کی آبادی خوراک اور دیگر ضروری اشیاء کی حاجت پوری کرنے کے لیے ہمسایہ ملک ایران پر انحصار کرتے ہیں
بلوچستان کے شہر قلات میں مقیم ایک کارکن منصور بلوچ بنیادی اشیا کی قیمتوں میں فرق کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”حکومت کی جانب سے اس کریک ڈاؤن کے آغاز سے پہلے سیمنٹ کے 50 کلو تھیلے کی قیمت صرف 500 پاکستانی روپے تھی جبکہ یہی چیز پاکستانی مینوفیکچررز 1,280 روپے میں فروخت کر رہے تھے۔‘‘
کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے سابق صدر فدا حسین دشتی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستانی اشیاء کی قیمتیں بلوچستان کے لوگوں اور خاص طور پر سرحدی علاقوں میں رہنے والوں کے لیے قابل برداشت نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایرانی کوکنگ آئل کی ایک لیٹر قیمت 200 روپے تک ہو سکتی ہے جبکہ پاکستانی کوکنگ آئل 350 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہا ہے
گوادر سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر غلام حسین نے کہا کہ پاکستانی حکام ماضی کی نسبت اب لوگوں کو آزادی سے ایرانی اشیاء خریدنے کی اجازت نہیں دے رہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکام تاجروں کو ہراساں کرتے ہیں اور ان پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ وہ پاکستان سے سامان خریدیں
غلام حسین نے بتایا ”میرے شہر کی 70 فیصد سے زیادہ آبادی اس سرحدی تجارت سے وابستہ ہے، جن کی روزی روٹی اس کریک ڈاؤن سے متاثر ہوئی ہے،” انہوں نے مزید کہا کہ پابندیوں کے نتیجے میں ان کے علاقے میں خوراک کی قلت ہے اور دوکانوں میں سامان رکھنے کی جگہیں خالی ہیں
لیکن کچھ لوگوں کی نظر میں یہ کریک ڈاؤن پاکستانی معیشت کو سستے ایرانی سامان سے بچانے کا صحیح طریقہ ہے۔ اسلام آباد میں مقیم ایک تجزیہ کار ڈاکٹر فرحت آصف نے کہا کہ زیادہ سستی ایرانی اشیا اکثر دوسرے پاکستانی شہروں میں پہنچ جاتی ہیں اور وہاں فروخت ہوتی ہیں، جس سے معیشت کو نقصان ہوتا ہے
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر خالد مگسی نے کہا کہ تاجر بہت زیادہ ایرانی اشیا درآمد کر رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ فروخت کنندگان مقررہ مقدار سے تجاوز کر رہے ہیں اور یہ کہ اس عمل کو روکنا چاہیے۔ مگسی نے کہا، ”میرے خیال میں حکومت اشیاء کی قلت دور کرنے کے لیے کچھ اقدامات کرے گی۔‘‘
تاہم بلوچستان حکومت کے ترجمان جان اچکزئی نے سرحدی تجارت کے بند ہونے کی تردید کی۔ انہوں نے کہا کہ حکام محض پیٹرول، ڈیزل اور کرنسی کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اسمگلنگ سے حاصل ہونے والی آمدنی دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال ہو سکتی ہے۔
اچکزئی کا مزید کہنا تھا، "روزی کا بہانہ اسمگلنگ کو جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ہم نے قانونی تجارت کی حوصلہ افزائی کے لیے سرحدی مارکیٹیں قائم کیں اور ایسی مزید مارکیٹوں کا قیام زیر غور ہے تاکہ غیر قانونی طور پر کی جانے والی اشیا کی تجارت کو ختم کیا جا سکے۔‘‘