فلم ریویو: ’شینوگئی‘۔۔۔ سبز آنکھوں والی لڑکی

خرم سہیل

پوری دنیا میں کورونا جیسی موذی وبا کے پھیل جانے کے بعد ہر سمت خاموشی طاری رہی، بہت دنوں تک سب کچھ رُکا رہا۔ لگ بھگ دو برس کے بعد زندگی معمول پر آنا شروع ہوئی اور اب پاکستان میں بھی اس تازہ منظرنامے کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔

طویل مدت کے بعد پاکستانی سینما کھلے ہیں اور پاکستانی فلموں کی نمائش کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ اس تناظر میں ریلیز ہونے والی پہلی پاکستانی فلم ’کھیل کھیل میں‘ تھی، جو گزشتہ ہفتے نمائش پذیر ہوئی اور اب دوسری پاکستانی فلم ’شنوگئی‘ اسی ہفتے نمائش کے لیے پیش کی گئی ہے.

آزاد فلم سازی اور موجودہ فلم کے ہدایت کار

پاکستان میں ایک فلم ساز ایسے دکھائی دیے، جو کورونا میں بھی لاک ڈاؤن (جبری فرصت) کے دوران مصروف رہے۔ ان کا نام علی سجاد شاہ عرف ابو علیحہ ہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے فلم ساز اور ادیب ہونے کے علاوہ ماضی میں صحافی بھی رہے ہیں۔ ان کا تعلق چونکہ صحافت میں رپورٹنگ سے رہا ہے تو یہ اپنی خبر کے محور پر گھومنے کا فن جانتے ہیں۔ خبر کے تانے بانے کیسے بُنے جاتے ہیں، اس ہنر سے بھی واقف ہیں البتہ فلمی دنیا میں خبر کیسے لی جاتی ہے، وہ اس فن کو بتدریج سیکھ رہے ہیں.

مثال کے طور پر وہ اپنی فلموں کی لوکیشن اس طرح سے منتخب کرتے ہیں جو عوام کے لیے بھی جانی پہچانی ہو، ان کی پہلی فلم ’کتاکشا‘ کی عکس بندی چکوال کے نزدیک ہندومت کے مقدس مقام کٹاس راج کے آثارِ قدیمہ میں ہوئی تھی۔ اب موجودہ فلم ’شنوگئی‘ کو صوبہ بلوچستان کے معروف سیاحتی علاقے کنڈ ملیر میں فلمایا گیا ہے۔

علی سجاد شاہ اب تک 5 فلمیں بناچکے ہیں، جن میں سے 3 ریلیز ہوچکی ہیں۔ ان فلموں کے لیے وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ فلمیں انہوں نے ’انڈپینڈنٹ فلم میکر‘ یا آزاد فلم ساز کی حیثیت سے بنائی ہیں۔ انہوں نے یہ فلم صرف 16 لاکھ روپے میں بنائی، عام کیمروں سے فلم کا بڑا حصہ عکس بند کیا، نئے چہروں کے ساتھ کام کیا اور تکنیکی سہولیات سمیت مختلف شعبوں میں بھی نئے ہنرمندوں کے کام سے استفادہ کیا۔ حتیٰ کہ اس فلم کے پروڈیوسر جاوید کاکے پوتو بھی اس شعبے میں نئے ہیں مگر وہ ایک کامیاب پروڈیوسر بننے کے لیے سرگرم ہیں اور مستقبل قریب میں اپنی فلموں میں اداکاری کرتے بھی نظر آئیں گے۔

اس فلم کے ہدایت کار علی سجادشاہ کے خیال میں ’یہ فلم ان لوگوں کے لیے حوصلہ افزائی کا سبب بنے گی، جو چھوٹے بجٹ کی فلمیں بنانا چاہتے ہیں اور جن کا خواب فلم سازی ہے، وہ کم ازکم اس فلم کو ایک طالب علمانہ تجربے کے طور پر دیکھ سکتے ہیں‘۔

انہوں نے اپنی فلموں کے ذریعے، آزادانہ بنیادوں پر بنائی جانے والی فلموں کی دنیا (انڈی فلم میکنگ) میں ابتدائی قدم رکھے ہیں۔ ان کی موجودہ فلم بھی پاکستانی سینما میں آزاد منش فلم سازوں اور چھوٹے بجٹ کے ساتھ تجرباتی و متوازن (پیرلل سینما) فلمیں بنانے والوں کے لیے بہرحال ایک تجرباتی نمونہ ہے۔

ان کے مطابق آنے والے دنوں میں وہ 4 ایسی فلمیں بنا رہے ہیں، جن کا بجٹ بھی زیادہ ہوگا اور وہ اس میں اپنی صلاحیتوں کو بھرپور طور پر منوا سکیں گے۔ اس فلم کی ڈسٹری بیوشن میٹرو لائیو موویز نے کی ہے۔

فلم کی کہانی اور مرکزی خیال
ایک عام تاثریہ ہے کہ اس فلم کی کہانی کا تعلق رواں برس ہونے والے موٹروے زیادتی کیس سے ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ ایک اتفاق ہے کہ فلم کی آمد اور اس واقعہ کے رونما ہونے کا عرصہ قریب کا ہے جس کی وجہ سے یہ تاثر بنا۔ ویسے بھی اس فلم کی کہانی ایک ایسی آزاد خیال لڑکی کے بارے میں ہے جو اپنی مرضی سے سیاحت کی غرض سے بلوچستان جاتی ہے۔اس کہانی میں کافی مونولوگز بھی ہیں، یعنی طویل خود کلامی، جس کی وجہ سے کہانی دیکھنے والے کے لیے اکتاہٹ پیدا کرتی ہے۔

اس فلم میں کئی ایسے جملے تھے جن سے معاشرے کی نفسیات پر کاری ضرب لگائی جاسکتی تھی مگر ہدایت کار کے بقول وہ سنسربورڈ میں کٹوتی کی نظر ہوگئے۔ اس طرح فلم کے ٹریلر میں کچھ ڈائیلاگز ایسے ہیں جو اب اس فلم کا حصہ نہیں ہیں۔ فلم کی کہانی میں کہیں کلائمکس نہیں آیا۔ کہانی خاصی کمزور ہے اور اس پر ہدایت کار کو چھوٹ نہیں مل سکتی کیونکہ وہ ایک لکھاری کے طور پر زیادہ شہرت رکھتے ہیں اور ان کا فلم سازی کا کیرئیر ابھی نیا نیا ہے اس لیے ان کو دیکھنا ہوگا کہ آنے والی فلموں میں اگر وہ کہانی پر گرفت نہ رکھ پائے تو ان کی سیڑھیاں چڑھتی مقبولیت واپس بھی اتر سکتی ہے۔

اداکاری و ہدایت کاری
ہدایت کار کے طور پر علی سجاد شاہ ایک ایسے ہنرمند ہیں، جو ہر طرح کے حالات میں کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور معاشی دباؤ اور گلیمر کی چکا چوند میں نہیں آتے، مگر ان کا کیرئیر جیسے جیسے آگے بڑھ رہا ہے ان کے پاس ایسی اضافی خوبیوں کی برکت کم ہوتی جائے گی۔ وہ گفتگو بہت اچھی کرتے ہیں مگر ان کی فلمیں گفتگو کا ساتھ نہیں دے رہیں۔ فلم چاہے چھوٹے بجٹ کی ہو یا بڑے بجٹ کی، کہانی اور پیشکش اہمیت رکھتی ہے۔ ان کی فلموں میں ابھی تک کہانی اور پیشکش کا انداز کمزور ہے۔

انہوں نے اس فلم میں آزاد فلم ساز کے طور پر نئے چہروں کے ساتھ جو تجربہ کیا ہے اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’کسی اداکارہ کو بائیک چلانے کی تربیت دینے سے بہتر تھا کہ بائیک چلانے والی لڑکی کو اداکاری کی تربیت دے دی جائے‘۔ اس فلم کا مرکزی کردار نبھانے والی لڑکی مرینہ سید نے کافی کوشش کی، لیکن ابھی ان کو مزید محنت کی ضرورت ہے۔ دیگر نئے چہروں نے بھی اپنے تئیں اچھی کوشش کی ہے، لیکن یہ فلم مجموعی طورپر متاثر کرنے میں ناکام رہی ہے۔

فلم کے دیگر پہلو
فلم کے لیے منتخب کی گئی لوکیشن کا جواب نہیں ہے، بہت عمدہ انتخاب ہے، فلم میں فلمائے گئے ہوائی مناظر متاثرکن ہیں، مگر صرف یہی کافی نہیں ہوتا۔ ایک آزاد فلم کے لیے بہترین اسکرین رزلٹ، اچھی موسیقی، بہترین سینماٹو گرافی اور ایڈیٹنگ کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔ اس سب کی کمی بھی فلم میں موجود ہے لیکن یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ بجٹ کم ہونے کی وجہ سے ان شعبوں میں فلم ساز کو سمجھوتے کرنے پڑے ہوں گے۔ پس منظر کی موسیقی نے بھی کہانی کے جذبات پر کوئی اثر نہیں ڈالا۔

فلم کے ٹریلر نے ابتدائی طور پر ناظرین کو اپنی گرفت میں لیا تھا تاہم فلم دیکھنے کے بعد مایوسی ہوئی کہ یہ فلم ٹریلر میں جہاں سے شروع ہوکر ختم ہوئی، اسی طرح 80 منٹ کی فلم میں بھی کوئی نیا موڑ نہیں آیا۔ یہ فلم اپنے ہی ٹریلر سے باہر نہ نکل سکی۔ اب یا تو ٹریلر غلط بنایا گیا یا پھر فلم، دونوں میں سے کسی ایک عنصر نے کہانی کے تاثر کو زائل کیا۔

آخری بات
پاکستانی سینما کو اس بات کی ضرورت ہے کہ ہمارے یہاں تسلسل سے فلمیں بنتی رہیں۔ چونکہ ہماری مقامی مارکیٹ بھی زیادہ بڑی نہیں ہے، اس لیے کم بجٹ کی فلمیں بنانے میں ہی عقل مندی ہے تاکہ فلم سازوں کا پیسہ واپس ہوسکے اور فلموں کے بننے کا تسلسل بھی برقرار رہے۔ پاکستانی فلموں کے ساتھ ساتھ غیرملکی فلمیں بھی نمائش پذیر ہوتی رہیں تو ٹھیک ہے، البتہ ہم ابھی غیرملکی مارکیٹ کے لیے فلمیں بنانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ مستقبل قریب میں ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ جیسی فلم ہمارے لیے غیرملکی ناظرین و مارکیٹ کے لیے دروازے کھول دے تو الگ بات ہے لیکن ابھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

کم بجٹ کی فلمیں بنانا اچھی بات ہے مگر اس اصطلاح کو برتنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ موبائل سے فلم بنا کر سینما میں پیش کر دیں، سینما کے تقاضے اور فلم بینی کے بنیادی اصولوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان میں سب سے بنیادی چیز کہانی ہے، کہانی بیان کرنے کا ہنر سیکھ لیں تو بجٹ بے معنی ہوجائے گا۔ صرف اچھی کہانی کے سر پر ہی کامیابی کا تاج سجے گا، اب تک تو پوری دنیا کے سینما میں یہی ہوتا آیا ہے، ہمیں ایسا لگ رہا ہے کہ علی سجاد شاہ کی عنقریب ریلیز ہونے والی فلم ’جاوید اقبال‘ بطور ہدایت کار ان کے کیرئیر کا حتمی فیصلہ کردے گی، فی الحال تو راوی چین لکھتا ہے۔

بشکریہ ڈان نیوز

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close