جاپان میں ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق اب بادلوں میں خوردبین سے دکھائی دینے والے پلاسٹک کے ذرات پائے جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں ’پلاسٹک کی بارش‘ ہو رہی ہے
خیال کیا جارہا ہے کہ پلاسٹک کے یہ چھوٹے ذرّات آب و ہوا کو متاثر کر رہے ہیں، جن کو سائنسدان ابھی تک پوری طرح سے سمجھ نہیں پائے
سائنسدانوں کو خدشہ ہے کہ پانچ ملی میٹر سے چھوٹے پلاسٹک کے ذرّات، جنہیں مائیکروپلاسٹکس کہا جاتا ہے، ہر اس شے کو آلودہ کر سکتے ہیں، جسے ہم کھاتے ہیں
پلاسٹک کے یہ انتہائی چھوٹے ذرّات اس پلاسٹک آلودگی کی بھرمار کا نتیجہ ہیں، جو ہماری زمین اور سمندروں میں بڑی مقدار میں موجود ہے۔ پلاسٹک پر مشتمل فُضلہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چھوٹے سے چھوٹے ذرّات میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ یہ فضلہ فضا، انسانوں اور دوسرے جانداروں کے جسم میں منتقل ہو جاتا ہے
واضح رہے کہ ’مائکروپلاسٹک‘ پلاسٹک کے چھوٹے چھوٹے ذرات ہیں، جن کی پیمائش 5 ملی میٹر سے کم ہے، جو صنعتی فضلے، ٹیکسٹائل، مصنوعی کار کے ٹائر، اور پلاسٹک کی دیگر مصنوعات سے آتے ہیں۔ یہ مائکروپلاسٹک مچھلیوں کے اندر، آرکٹک سمندر کے اندر اور فرانس اور اسپین کے درمیان موجود پیرینیس کے پہاڑوں پر جمی برف میں بھی دریافت ہو چکے ہیں
تاہم حالیہ تحقیق رپورٹ میں مصنف کا کہنا تھا کہ ’ہماری معلومات کے مطابق بادلوں میں مائکروپلاسٹک موجود ہونے کی یہ پہلی رپورٹ ہے۔‘
ماضی میں ہونے والی تحقیق کے مطابق پلاسٹک کے یہ ذرّات بیماریوں، بشمول کینسر، بانجھ پن اور ہارمونز کے مسائل کی وجہ بن رہے ہیں
جاپان کی واسیدا یونیورسٹی کی تحقیق نے پہلی بار اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ پلاسٹک کے انتہائی چھوٹے ذرّات بادل بننے کے عمل کو کیسے متاثر کرتے ہیں اور ماحول کے بحران اور انسانی صحت پر ان کے کیا ممکنہ اثرات مرتب ہوتے ہیں
محققین کا ماننا ہے کہ انہوں نے پہلی بار ہوا کے ذریعے بادلوں کے پانی تک پہنچنے والے پلاسٹک کے انتہائی چھوٹے ذرّات کا پتہ لگایا ہے
اس تحقیق کے شریک مصنف ہیروشی اوکوچی نے خبردار کیا ”اگر پلاسٹک کی وجہ سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی کے مسئلے کو فعال طریقے سے حل نہ کیا گیا تو موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی خطرات حقیقت بن سکتے ہیں، جس سے مستقبل میں ناقابلِ تلافی اور سنگین ماحولیاتی نقصان ہو سکتا ہے“
اس تحقیق میں محققین نے ماؤنٹ فیوجی (ٹاروبو) کے جنوب مشرقی دامن میں ماؤنٹ فیوجی کی چوٹی اور جاپان میں ماؤنٹ اویاما کی چوٹی سے 1300 سے 3776 میٹر کے درمیان بلندی پر جمع کیے گئے بادلوں کے پانی کا تجزیہ کیا
سائنسدانوں نے بادلوں کے پانی میں فضائی مائیکرو پلاسٹکس (اے ایم پی) کی موجودگی کا تعین کرنے کے لیے جدید امیجنگ تکنیک کا استعمال کیا اور ان کی جسمانی اور کیمیائی خصوصیات کا جائزہ لیا
تحقیقی ٹیم کو معلوم ہوا کہ نمونوں میں نو الگ الگ قسم کے پولیمر اور ایک قسم کا ربڑ پایا گیا ہے، ان ذرات کا سائز 7.1 سے 94.6 مائیکرو میٹر تک ہے
بادل کے پانی کے ہر لیٹر (0.26 گیلن) میں پائے جانے والے پلاسٹک کے ذرات کی مقدار 6.7 سے 13.9 کے درمیان تھی۔
محققین کا کہنا تھا ”تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ بادلوں کے پانی میں ہوا کے ذریعے پہنچنے والے مائیکرو پلاسٹکس بنیادی طور پر سمندر سے آتے ہیں۔“
سائنسدانوں نے وضاحت کی ہے کہ ”اس کا مطلب یہ ہے کہ مائیکرو پلاسٹکس بادلوں کا لازمی جزو بن چکے ہیں، جو ’پلاسٹک کی بارش‘ کے ذریعے ہمارے کھانے پینے کی تقریباً ہر چیز کو آلودہ کر دیتے ہیں۔“
انہوں نے خبردار کیا کہ پلاسٹک کے خوردبینی ذرّات کا فضا میں جمع ہونا، خاص طور پر قطبین پر، زمین کے ماحولیاتی توازن کو بھی نمایاں پر تبدیل کر سکتا ہے اور ’حیاتیاتی تنوع (بایو ڈائیورسٹی) کو شدید نقصان‘ پہنچا سکتا ہے
ڈاکٹر اوکوچی کا کہنا ہے ”طاقتور الٹرا وائلٹ شعاعوں کی وجہ سے زمین کے مقابلے میں بالائی فضا میں ’ہوا کے ذریعے پہنچنے والے مائیکرو پلاسٹکس‘ بہت تیزی سے خراب ہوتے ہیں اور ان کی اس خرابی سے گرین ہاؤس گیسیں خارج ہوتی ہیں اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے“
انہوں نے کہا ”نتیجے کے طور پر اس مطالعے کے نتائج کو مستقبل میں گلوبل وارمنگ کے تخمینوں میں (مائیکرو پلاسٹکس) کے اثرات کا حساب کتاب لگانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔“
ویسیڈا یونیورسٹی کے ایک بیان کے مطابق انسان اور جانور دونوں مائیکرو پلاسٹک کھا رہے ہیں یا سانس کے ذریعے اپنے جسم میں داخل کر رہے ہیں اور پلاسٹک کے یہ چھوٹے ذرات پھیپھڑوں، دل، خون اور پاخانے سمیت مختلف اعضاء میں پائے جاتے ہیں۔
یونیورسٹی نے نئے تحقیقی نتائج کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 10 لاکھ ٹن پلاسٹک کے چھوٹے ذرات سمندر میں جمع ہوتے ہیں، جو اکثر سمندری اسپرے کے ساتھ ہوا میں چھوڑے جاتے ہیں اور بعد ازاں فضا میں داخل ہو جاتے ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ مائیکرو پلاسٹک بادلوں کا ایک لازمی جزو بن چکے ہیں، جو ممکنہ طور پر ہمارے کھانے پینے کی اشیاء سمیت وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والی چیزوں کو آلودہ کر سکتا ہے، جسے ’پلاسٹک رین فال‘ (plastic rainfall) کا نام دیا گیا ہے۔