آج کرکٹ کا ورلڈکپ شروع ہو رہا ہے۔ کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں کسی بھی لمحے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔۔ ایسا ہی ایک دوسرا کھیل بھی ہے، جس کا نام ہے پاکستان کی سیاست۔۔
ایک طرف کئی ماہ کی گمنامی کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عثمان ڈار گذشتہ روز ایک نجی ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں یہ کہہ کر عملی طور پر سلطانی گواہ بن چکے ہیں کہ نو مئی 2023 کو ہونے والے واقعات کو زمان پارک میں ہونے والی منصوبہ بندی کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد فوجی سربراہ جنرل عاصم منیر کو عہدے سے ہٹانا تھا۔‘ تو دوسری جانب ان کی والدہ نے کہا ہے کہ وہ عمران خان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑی ہیں
تحریک انصاف اور سیاست چھوڑنے کا اعلان کرنے والے سیالکوٹ سے پی ٹی آئی کے سابق رہنما عثمان ڈار کی والدہ نے مسلم لیگ ن کے سینیئر سیاستدان خواجہ آصف کو مقابلے کے لیے چیلنج کیا ہے
بدھ کو رات گئے ایک ویڈیو پیغام میں عثمان ڈار کی والدہ کا کہنا تھا ”خواجہ آصف، میری بات غور سے سُن لو جو تم چاہتے تھے وہ تم نے عثمان ڈار کو گن پوائنٹ پر رکھ کر اپنے مقاصد کو پورا کیا ہے“
انہوں نے کہا ”سیاست عثمان ڈا نے چھوڑی ہے، اُس کی والدہ نے نہیں“
عثمان ڈار کی والدہ نے کہا ”اب سیاست میں تیرا مقابلہ میں کروں گی اور میرا تمہیں چیلنج ہے کہ تم میدان میں آؤ اور دیکھو کہ تمہارے شیر کا میں کیا حشر کرتی ہوں“
اُن کا کہنا تھا ”میرا پہلے بھی وڈیو پیغام تھا کہ میں عمران خان کے ساتھ ڈٹی ہوئی ہوں اور ڈٹی رہوں گی۔ سیاست میں نے نہیں چھوڑی، اب میدان میں آؤ، تو دیکھو کیا ہوتا ہے“
یہ مختصر ویڈیو پیغام اُس انٹرویو کے بعد جاری کیا گیا جس میں عثمان ڈار نے نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے پروگرام میں تحریک انصاف چھوڑنے اور سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کیا۔ عثمان ڈار نے کہا کہ پی ٹی آئی میں دو گروپ تھے۔ ایک گروپ مفاہمت چاہتا تھا، جبکہ دوسرا گروپ ریاستی اداروں کے ساتھ ٹکراؤ چاہتا تھا اور عمران خان اس گروپ کی حمایت کرتے تھے۔
دنیا نیوز کے پروگرام ’آن دی فرنٹ ود کامران شاہد‘ میں عثمان ڈار سے پوچھا گیا کہ فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے کا مقصد کیا تھا تو عثمان ڈار نے کہا کہ ’میرے خیال میں مقصد یہی تھا کہ شاید فوج کے اندر ہی تبدیلی آ جائے۔ پریشر آ جائے۔‘
ان سے پھر سوال کیا گیا کہ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جنرل عاصم منیر پر فوج کے اندر سے دباؤ آ جائے اور انہیں ہٹنا پڑ جائے؟ عثمان ڈار نے کہا کہ ’آخرکار اس سے (دباؤ سے) جنرل عاصم منیر کو ہٹانا ہی تھا اگر پوری فوج کے اندر سے پریشر بن جاتا، لیکن لوگ ہی کہیں پانچ ہزار آئے اور کہیں دس ہزار۔‘
عثمان ڈار کے اس انٹرویو پر تحریک انصاف کی جانب سے جاری کیے ردعمل میں کہا گیا کہ اُن پر دباؤ ڈال کر یہ اعلان کرایا گیا اور وہ گزشتہ کچھ عرصے سے لاپتہ تھے
انہوں نے مزید کہا ’نو مئی کے واقعات کا مقصد فوج پر دباؤ ڈال کر آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو عہدے سے ہٹانا تھا۔‘
دنیا نیوز کے میزبان کامران شاہد کو دیے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ’چئیرمین تحریک انصاف عمران خان کی زیر صدارت، ان کی رہائش گاہ زمان پارک میں ہونے والے اجلاس میں پارٹی چیئرمین کی گرفتاری صورت میں حساس تنصیبات کو نشانہ بنانے کی ہدایت دی گئی، یہ ہدایات خود عمران خان نے دی تھیں۔‘
اس انٹرویو کے دوران ہی عثمان ڈار نے سیاست چھوڑنے کا اعلان بھی کیا۔
"9 مئی صرف تاریخ ہے فوج مخالف سازش پہلے سے تیار تھی۔۔”
ایک طویل عرصے بعد منظر عام پر آ کر، عثمان ڈار کے نو مئی کے واقعات کا مورد الزام عمران خان کو ٹھہرانے اور سیاست چھوڑنے کے اعلان پر سوشل میڈیا صارفین اور پی ٹی آئی کے کارکنان ملے جلے ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں
کچھ صارفین شکوہ کناں ہیں کہ اتنے قریبی ساتھی عثمان ڈار نے عمران خان کا ساتھ کیوں چھوڑ دیا، جب کہ کچھ کا ماننا ہے کہ انہیں یہ بیان دینے کے لیے مجبور کیا گیا ہے۔
ایک ایکس صارف نے لکھا ’ہمیں عثمان ڈار سے کوئی گلہ نہیں ہے۔ وہ عثمان ڈار جو عمران خان کا ساتھی تھا، اسے کس دھمکی پر یہ بیان دینے کے لیے زبردستی راضی کیا گیا یہ پورا پاکستان سمجھ گیا ہے۔‘
صارف ہاشم سیرانی نے لکھا: ’عثمان ڈار کو عدالت میں نہیں کامران شاہد کے پروگرام میں پیش کیا گیا۔‘
نورین امتیاز نامی صارف نے عثمان ڈار کی تصویر شیئر کی، جس کے ساتھ انہوں نے لکھا ’یہ ہے پاکستان کی جمہوریت کا روتا ہوا چہرہ اور آپ امید کرتے ہیں کہ اس اپاہج ملک میں صاف اور شفاف انتخابات ہوں گے۔‘
حمزہ راجپوت نامی ایکس صارف نے عثمان ڈار پر تنقید کرتے ہوئے لکھا: ’72 سالہ بزرگ جس نے بس وفا ہی نبھائی، اپنے رہنما سے دوران عدالت پیشیوں پہ ہنستا مسکراتے پیش ہوتا رہا، دسمبر کی سرد راتوں میں زمین پہ سلاتے رہے لیکن وہ ڈٹا رہا اور دوسری طرف شیرو (ٹائیگر) فورس کا چیف۔‘
ایکس صارف اور صحافی اعزاز سید نے عثمان ڈار کے انٹرویو پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر کیا کہ ’عثمان ڈار عمران خان کے خلاف اب تک کے سب سے بڑے سیاسی سلطانی گواہ بن کر نمودار ہوئے ہیں۔‘
عثمان ڈار کے بیان پر ایک نجی ٹی وی کو ردعمل دیتے ہوئے پی ٹی آئی کے ترجمان شعیب شاہین نے کہا کہ عثمان ڈار کا آج اچانک منظرعام پر آ کر بیان دینا ویسا ہی ہے، جیسے اعظم خان نے لاپتہ ہونے کے بعد اچانک منظر عام پر آ کر 164 کا بیان ریکارڈ کرا دیا تھا
پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عثمان ڈار اگر رضاکارانہ بیان دینا چاہتے تھے تو وہ اتنے دنوں سے غائب کیوں تھے؟
انہوں نے مزید کہا کہ اگر 9 مئی کے واقعات پر انہیں افسوس تھا یا وہ مختلف مؤقف رکھتے تھے تو ان کے گھر پر حملہ کیوں ہوا اور ان کی والدہ پر کیوں تشدد ہوا؟
ترجمان پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ عثمان ڈار نے بہت کچھ برداشت کیا لیکن برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔
عثمان ڈار کے انٹرویو کے بعد اور سوشل میڈیا صارفین کے تبصروں کے بیچ عثمان ڈار کی والدہ کا بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف کو مخاطب کر کے ان پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے بندوق کی نوک پر عثمان ڈار سے بیان دلوایا ہے۔
عمران حکومت میں نظرانداز پر مشکل وقت میں ڈٹ جانے والے پارٹی رہنما کون ہیں؟
پاکستان میں کسی سیاسی جماعت پر مشکل وقت آنا کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے بلکہ یہاں کی سیاسی تاریخ میں سیاسی جماعتوں، رہنماؤں اور کارکنوں کی قید وبند کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔
جنرل ایوب کے مارشل لا کے خلاف آواز اٹھانے والے سیاسی رہنما ہوں یا ضیا الحق کی آمریت میں کوڑے کھانے والے کارکن ہوں، لوگ انہیں سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر مقام دیتے ہیں۔
پرویز مشرف کی جانب سے ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد اگرچہ نواز شریف خود تو مشرف سے معاہدہ کر کے ملک سے باہر چلے گئے جلا وطن ہو گئے لیکن ان کی جماعت کے جو لوگ مشرف دور میں ان کے ساتھ کھڑے رہے، انہیں سیاسی حلقوں میں عزت و احترام سے نوازا جاتا ہے
پاکستان تحریک انصاف کے عروج میں 2011 سے 2022 تک سینکڑوں رہنما دوسری جماعتوں سے اس پارٹی میں شامل ہوئے اور 2018 میں ملنے والے اقتدار میں ساجھے دار بن گئے
اس دوران یہ بات سوشل میڈیا اور ٹاک شوز میں کہی جاتی رہی کہ تحریک انصاف نے اپنے حقیقی کارکنان کو نظرانداز کر کے باہر سے شامل ہونے والوں کو مسند اقتدار پر بٹھا دیا ہے
ایسے ناموں میں فواد چودھری، فردوس عاشق اعوان، فیاض چوہان، غلام سرور خان اور دیگر شامل تھے، جو سب کے سب اس وقت پارٹی چھوڑ چکے ہیں
حالات نے پلٹا کھایا، تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت ختم ہو گئی۔ عمران خان نے پارلیمان سے باہر رہ کر سیاسی مہم چلانے کا فیصلہ کیا۔ پھر صوبائی حکومتیں بھی ختم ہو گئیں۔ اس دوران سیاسی رہنماؤں پر مقدمات بھی بننے لگے
عمران خان کی گرفتاری کے ساتھ ہی نو مئی کا واقعہ ’پیش آ گیا‘۔ جس کے بعد تحریک انصاف کے خلاف تاریخ کا بدترین کریک ڈاون شروع ہوا
جو لوگ ایک دن پہلے عمران خان کے ساتھ جینے مرنے کی وعدے اور دعوے کر رہے تھے، وہ ایک ایک کر کے شدید دباؤ کی وجہ سے انہیں چھوڑتے گئے ہوتے گئے۔ پھر وہ ایک پریس کانفرنس کے ذریعے تحریک انصاف اور سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کرتے پائے گئے۔ جو شیریں مزاری کی طرح آسانی سے نہیں مانے وہ مزید مشکلیں دیکھ کر ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوئے
اس صورت حال میں وہ لوگ جنہیں عمران خان کے دورِ حکومت میں سرے سے نظرانداز کیا گیا، وہ خلاف توقع ثابت قدم رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب جب کبھی ان کی عدالت میں پیشی ہوتی ہے اور ان کی کوئی تصویر سامنے آتی ہے تو سیاسی مخالفین بھی ان کی استقامت کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں
عمر سرفراز چیمہ، عمران خان کے اولین ساتھیوں میں سے ہیں۔ وہ اس وقت تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات ہوا کرتے تھے جب ان کے اور عمران خان کے علاوہ ٹی وی پر تحریک انصاف کی نمائندگی کرنے والا کوئی تیسرا شخص موجود نہیں تھا
تحریک انصاف کے چار سالہ دور حکومت میں وہ کہاں تھے کوئی نہیں جانتا۔ لیکن جونہی 2022 میں گورنر پنجاب چوہدری سرور اور عمران خان کے درمیان اختلافات ہوئے اور عمران خان کی حکومت چند دن کی مہمان رہ گئی تھی، انہیں گورنر پنجاب لگا دیا گیا۔
9 مئی کے بعد انہیں 10 مئی کو گرفتار کیا گیا اور وہ تاحال زیرِحراست ہیں۔ اگلے ماہ یعنی جون میں ان کی اہلیہ کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ اس عرصے میں عمر چیمہ کا حلیہ بدل چکا ہے۔ وہ کلین شیو ہوا کرتے تھے، اب داڑھی مونچھیں بڑھی ہوئی ہیں۔ لیکن واقفان حال بتاتے ہیں کہ وہ عمران خان کا ساتھ چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں
اٹک سے سابق رکن قومی اسمبلی میجر طاہر صادق تحریک انصاف کی حکومت کے پورے دور میں عمران خان سے اختلاف کرتے رہے۔ ہر موقعے پر انہوں نے پارٹی کے برعکس موقف اپنایا اور پارٹی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ حکومت سے نکلنے اور نو مئی کے واقعات کے بعد ان کے گھر پر متعدد مرتبہ چھاپے مارے گئے۔ اس کے باوجود انہوں نے عمران خان کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ ان کی صاحبزادی ایمان طاہر سوشل میڈیا پر عمران خان کے حق میں مسلسل سرگرم رہتی ہیں
مری سے 1988 سے ناقابل شکست رہنے والے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو شکست سے دوچار کرنے والے صداقت علی عباسی کو کوشش کے باوجود عمران خان کی حکومت میں پذیرائی نہ مل سکی۔ لیکن حکومت کے خاتمے سے اب تک وہ اپنی جماعت اور عمران خان کے نظریے پر ڈٹے ہوئے ہیں
عالیہ حمزہ قومی اسمبلی میں خواتین ارکان اسمبلی میں سب سے زیادہ متحرک رکن تھیں لیکن انہیں پارلیمانی سیکرٹری کے عہدے سے آگے وزیر مملکت تک نہیں بنایا گیا لیکن وہ 9 مئی سے اب تک لاہور جیل میں قید ہیں۔ جب بھی کیمرے کے سامنے آتی ہیں عمران خان کو یقین دلاتی ہیں کہ کچھ بھی ہو جائے وہ اپنی پارٹی سے علیحدگی کا اعلان نہیں کریں گی
کراچی سے تعلق رکھنے والے فردوس شمیم نقوی کی جگہ پر بھی پارٹی کے دیگر لوگوں کو نوازا جاتا رہا ہے۔ اس حوالے سے ان کے مقامی قیادت سے اختلافات کی خبریں بھی زبان زد عام رہتی تھیں۔ علی زیدی، عمران اسماعیل، فیصل واؤڈا سمیت متعدد رہنماؤں کی جانب سے پارٹی چھوڑ جانے کے باوجود وہ جیل میں ہیں اور اپنی پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ان رہنماؤں کے علاوہ صنم جاوید، طیبہ راجا، خدیجہ شاہ سمیت متعدد خواتین کارکنان جو عمران خان کی حکومت شروع ہونے سے ختم ہونے تک گمنامی میں تھیں لیکن حکومت ختم ہونے کے بعد متحرک ہوئیں اور اب جیلوں میں ثابت قدمی کے ساتھ مقدمات کا سامنا کر رہی ہیں
عمران خان اور عثمان بزدار کابینہ کے ڈٹ جانے والے ارکان
عمران خان پر اپنے دور اقتدار میں جس کام ے لیے سب سے زیادہ دباؤ ڈالا گیا وہ عثمان بزدار کو وزارت اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کے لیے تھا۔ لیکن عمران خان نے انہیں وسیم اکرم پلس کا خطاب دیتے ہوئے آخری لمحے تک ان پر اعتماد کیا
مشکل پڑنے پر جہاں عثمان بزدار نے کوئٹہ میں روپوشی ختم کرتے ہوئے سیاست اور عمران خان سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ وہیں ان کی کابینہ کے ارکان محمود الرشید، یاسمین راشد، میاں اسلم اور دیگر قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں
سینیٹر اعجاز چودھری بھی ان لوگوں کے ساتھ جیل میں ہیں۔ اعجاز چودھری، محمودالرشید اور یاسمین راشد متعدد مرتبہ اپنے ثابت قدم رہنے کے عزم کا اظہار کرتے دیکھے گئے ہیں۔
علی محمد خان، شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار ایسے پارٹی رہنما ہیں جنہیں ہر مرتبہ رہائی کے بعد پھر گرفتار کیا جاتا رہا لیکن انہوں نے سیاست سے باز نہ آنے کے عزم کا اظہار کیا
ان کے علاوہ شاہ محمود قریشی اور پرویز الٰہی کے بارے میں بھی گمان تھا کہ وہ پارٹی چھوڑ جائیں گے لیکن خلاف توقع وہ بھی نہ صرف جیل میں ہیں بلکہ اپنی جماعت کے ساتھ ڈٹے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں
نو مئی کے واقعات کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے بالخصوص تحریک انصاف کے جن رہنماؤں کو گرفتار کرنے کی کوشش کی ہے، ان میں سرفہرست مراد سعید، علی امین گنڈاپور اور حماد اظہر شامل ہیں
ان کی گرفتاری کے لیے مسلسل چھاپے مارے جا رہے ہیں لیکن وہ تاحال روپوش ہیں۔ تاہم وہ سوشل میڈیا پر متحرک دکھائی دیتے ہیں اور وقتاً فوقتاً عوام سے مخاطب ہو کر اپنی جماعت کا نکتہ نظر بھی بیان کرتے رہتے ہیں۔